Urdu Stories By Tanveer Kurd as a Company Writer.

5000 Words
آمنہ ظفر،کراچی کسی تقریب میں کوئی صاحب اپنے ایک واقف کار بزرگ سے کافی عرصے بعد ملے اور پوچھا:”جناب!کیا آپ نے مجھے پہچانا؟“ بزرگ نے غور سے دیکھا اور کہا:”ہاں میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ آپ پرائمری سکول میں میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔کیا کر رہے ہیں آج کل؟“ شاگرد نے جواب دیا:”میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ہوں اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔“ اُستاد نے پوچھا:”وہ کیسے؟“ شاگرد نے جواب دیا:”آپ کو یاد ہے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ہو گئی تھی اور وہ گھڑی شرارت میں میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس سے کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ہے،واپس کر دے۔میں گھڑی واپس کرنا چاہتا تھا،لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے ایسا نہ کر سکا۔ (جاری ہے) آپ نے تمام طلبہ کو دیوار کی طرف منہ کرکے اور آنکھیں بند کرکے کھڑے ہونے کا حکم دیا،پھر سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی سب کی تلاشی لی۔ بعد میں میرا نام لیے بغیر وہ گھڑی جس کی تھی،اسے دے دی۔مجھے حیرت تھی کہ آپ نے میری اس حرکت پر مجھے شرمندہ نہ کیا۔میں نے اسی دن سے اُستاد بننے کا تہیہ کر لیا تھا۔“ بزرگ مسکرائے اور کہا:”اصل بات کچھ یوں ہے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھی۔ مجھے بھی آج ہی پتا چلا ہے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔“ کیا ہم ایسے کردار کے مالک بن سکتے ہیں جو اپنے اعمال سے دوسروں کو نیک جذبات کی ترغیب دے سکیں نہ کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر لوگوں کے سامنے انھیں شرمندہ کریں۔ مصباح آصف،احمد پور شرقیہ کسی گاؤں میں ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔لڑکا محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتا تھا۔والد کا انتقال ہو چکا تھا۔لڑکے کو جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن لڑکا چھت پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس کو ایک طوطا نظر آیا۔ اس نے اس طوطے کی طرف دیکھا تو وہ اس کے قریب آ گیا۔جیسے وہ اس سے دوستی کرنا چاہتا ہو۔اس نے طوطے کو آسانی سے پکڑ کر پنجرے میں محفوظ کر لیا۔اگلے دن جب لڑکا کام پر جا رہا تھا تو اس نے سنا کہ بادشاہ کی بیٹی پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور وہ بہت بیمار ہے۔ ایک جادوگر کو علاج کے لئے بلایا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا جادوئی طوطا اُڑ گیا ہے۔وہ مل جائے تو اس کے ذریعے شہزادی کی جان بچ سکتی ہے۔ بادشاہ نے اس طوطے کو پکڑنے والے کے لئے منہ مانگے انعام کا اعلان کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ طوطا صرف دن کی روشنی میں نظر آتا ہے۔ (جاری ہے) لڑکا کام سے فارغ ہو کر گھر گیا تو رات ہو چکی تھی۔جب وہ کھانا کھا کر اوپر سونے کے لئے گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا پنجرے میں نہیں ہے۔جب کہ پنجرے کا دروازہ بھی بند تھا۔لڑکا بہت اُداس ہو گیا۔ جب وہ صبح اُٹھا تو دیکھا کہ طوطا پنجرے میں ہی موجود ہے۔ اسے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔اچانک اسے وہ اعلان یاد آگیا جس کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا کہ طوطا رات کو نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ اس طوطے کو لے کر محل گیا۔جادوگر جو پہلے سے شہزادی کے پاس موجود تھا لڑکے کو دیکھ کر اس سے اپنا طوطا لیا اور اس کا ایک پَر توڑ کر گیندے کے پھول میں لگایا اور شہزادی کے سرہانے رکھ دیا۔ کچھ ہی دنوں میں شہزادی جادو کے اثر سے آزاد ہو گئی۔ بادشاہ نے اعلان کے مطابق لڑکے کو مالا مال کر دیا اور ایک شاہی نوکری بھی عطا کر دی۔لڑکا اور اس کی ماں خوشی خوشی رہنے لگے۔ آمنہ ظفر،کراچی کسی تقریب میں کوئی صاحب اپنے ایک واقف کار بزرگ سے کافی عرصے بعد ملے اور پوچھا:”جناب!کیا آپ نے مجھے پہچانا؟“ بزرگ نے غور سے دیکھا اور کہا:”ہاں میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ آپ پرائمری سکول میں میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔کیا کر رہے ہیں آج کل؟“ شاگرد نے جواب دیا:”میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ہوں اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔“ اُستاد نے پوچھا:”وہ کیسے؟“ شاگرد نے جواب دیا:”آپ کو یاد ہے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ہو گئی تھی اور وہ گھڑی شرارت میں میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس سے کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ہے،واپس کر دے۔میں گھڑی واپس کرنا چاہتا تھا،لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے ایسا نہ کر سکا۔ (جاری ہے) آپ نے تمام طلبہ کو دیوار کی طرف منہ کرکے اور آنکھیں بند کرکے کھڑے ہونے کا حکم دیا،پھر سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی سب کی تلاشی لی۔ بعد میں میرا نام لیے بغیر وہ گھڑی جس کی تھی،اسے دے دی۔مجھے حیرت تھی کہ آپ نے میری اس حرکت پر مجھے شرمندہ نہ کیا۔میں نے اسی دن سے اُستاد بننے کا تہیہ کر لیا تھا۔“ بزرگ مسکرائے اور کہا:”اصل بات کچھ یوں ہے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھی۔ مجھے بھی آج ہی پتا چلا ہے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔“ کیا ہم ایسے کردار کے مالک بن سکتے ہیں جو اپنے اعمال سے دوسروں کو نیک جذبات کی ترغیب دے سکیں نہ کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر لوگوں کے سامنے انھیں شرمندہ کریں۔ اریبہ عابد حسین،ایبٹ آباد دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا سردیاں اپنے جوبن پر تھیں دور دور تک ہر چیز نے سفید چادر تان رکھی تھی ابھی بھی برف روئی کی مانند گر رہی تھی وقفہ وقفہ سے دیودار کے درختوں کی شاخیں چٹخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی گہری خاموشی روح تک میں سنسنی پیدا کر رہی تھی۔ مٹی کا کشادہ کمرہ جس کے بیچوں بیچ جلتی لکڑیوں کا الا دہک رہا تھا اور اس کے اردگرد ہم سب دادی کو گھیرے میں لیے بیٹھے تھے۔دادی اماں نظریں دہکتی لکڑیوں پر جمائے ماضی کے صفحوں کی ورق گردانی کر رہی تھیں۔کچھ دیر بعد گلا کھنکارتے ہوئے گویا ہوئیں،یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پانی کی قلت کے باعث میں اور صنوبر آپا سحری کے وقت پانی بھرنے جاتے تھے صنوبر آپا مجھ سے عمر میں کافی بڑی تھیں،صنوبر آپا کبھی اذان سے پہلے اور کبھی اذان کے فوراً بعد پانی بھرنے کے برتن لیے آتیں اور ہمارے گھر کی دیوار پر برتن سے ضربیں لگاتیں،چونکہ میرا بستر دیوار کے ساتھ ہوتا اس لئے میں فوراً اُٹھ جاتی،اپنے برتن اُٹھاتی اور باہر آ جاتی۔ (جاری ہے) ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوتا تھا اور گیدڑوں کی دلخراش آواز دل جھنجھوڑ دیتی تھی۔دل میں ڈھیروں خوف لیے ہم سہج سہج کر قدم بڑھائے جاتے تھے گھر تو چونکہ اس زمانہ میں اِکا دُکا ہی موجود ہوتے تھے اور ہمیں پانی لانے کے لئے طویل مسافت طے کرنی پڑتی تھیں۔ جھاڑیوں میں تھوڑی سی ہل چل ہوتی تو ہمارا دل اُچھل کے حلق میں آن پہنچتا،صنوبر آپا کافی مضبوط اعصاب کی مالک تھی،جبکہ میں کافی ڈرپوک واقع ہوئی تھی،پانی لانا میری مجبوری تھی کیونکہ گھر میں ایک بوڑھی ساس تھیں اور تین بچے میری ایک بیٹی اور دو بیٹے،شوہر تو روزی روٹی کمانے کے سلسلے میں باہر نکلتے تو مہینوں بعد ہی واپس لوٹتے تھے۔ آگے آگے صنوبر آپا ہوتی تھیں جبکہ پیچھے میں ہوتی تھی اور کبھی کبھار تو مجھے واضح محسوس ہوتا تھا کہ میرے پیچھے کوئی اور بھی چلتا آ رہا ہے اپنے پیچھے اُٹھائے جانے والے قدموں کی آواز میں بخوبی سنتی تھی لیکن مجھے صنوبر آپا ہمیشہ نصیحت کرتی تھیں کہ کبھی کسی چیز کے پیچھے نہ جانا چاہے تم کچھ بھی دیکھ لو اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہے تمہیں کچھ بھی سنائی دے رہا ہو۔ میں نے ان کی بات کو دل پر نقش کر دیا،میں اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر زور سے آنکھیں بند کر لیتی اور دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیتی لیکن جب طویل سفر طے کرنے کے بعد بیٹھنے کو جی چاہتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے بالکل ساتھ کوئی بیٹھا ہے گردن گھما کر اِدھر اُدھر دیکھنے پر سوائے اندھیرے کے کچھ دکھائی نہ دیتا،ہمارا روز کا آنا جانا تھا اِک روز مجھے آواز آئی کہ دیوار پر ضربیں ماری جا رہی ہیں میں اُٹھی اپنے برتن اُٹھائے لیکن گہرا اندھیرا دیکھ کر ٹھٹھک گئی مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آدھی رات کا وقت ہو،میں باہر گئی تو دیکھا صنوبر آپا کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا میں نے یہ سمجھ کر قدم رستے پر ڈال دئیے کہ وہ زیادہ دور نہیں ہوں گی اور میں ان تک پہنچ جاؤں گی گیدڑوں کی آوازیں پل بھر کو میرے قدم ساکت کر دیتی تھی میں نے بھاگنا شروع کر دیا لیکن میں ان تک نہیں پہنچ سکی۔ بگڑے تنفس کے ساتھ میں نے مسافت طے کی اور جائے وقوعہ پہنچ کر میرے اندر تک سنسنی دوڑ گئی صنوبر آپا وہاں موجود نہیں تھی میں تھوڑا اوپر کھڑی تھی اور نیچے دیکھا جہاں پانی کا کنواں تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی پانی کے ڈول یکے بعد دیگرے اپنے اوپر بہا رہا ہو میں نے نیچے جانا ضروری نہ سمجھا اور پانی کا ڈول اُلٹا کر اس پر بیٹھ گئی لیکن تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد بھی پانی کی آواز بدستور آ رہی تھی مجھے عجیب و غریب خیالات آ رہے تھے اور پانی کی آواز سے عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اپنے پیچھے کسی کو محسوس کیا تو میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی میں نے لرزتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی کا نام و نشان بھی نہ تھا وہاں اک دم سے سناٹا چھا گیا میری حیرت کی انتہا نہ رہی لیکن عین اسی جگہ اوپر گھنے درخت کی شاخ پر کوئی عجیب سا پرندہ بیٹھا مجھ پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا عجیب قسم کا پرندہ تھا میں نے کبھی ایسا پرندہ نہیں دیکھا تھا اس کا سارا بدن کالے بالوں سے بھرا ہوا تھا اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر میں نے دہشت کے مارے بھاگنا شروع کر دیا آیت الکرسی کا ورد میری زبان پر جاری تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز۔ میں نے ایک منٹ کے لئے بھی رستہ میں رُکنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے گھر کے پاس پہنچ کر دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسی وقت صنوبر آپا اپنے گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئیں ان کے پاس ڈول بھی تھے اور میں دروازہ کا پٹ کھولنا چاہ رہی تھی لیکن اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا اردگرد سب جمع تھے صنوبر آپا کے گھر کے سب افراد بھی بیٹھے تھے میں نے پانی کے لئے آواز دی تو سب لپک آئے۔تھوڑی طبیعت بحال ہونے پر معلوم ہوا کہ آج چوتھا روز تھا اور میں مسلسل بے ہوشی کی حالت میں تھی۔میں نے اس روز کا واقعہ سب کے گوش گزار کیا تو صنوبر آپا ماتھا پیٹ کے رہ گئیں اور بولیں جیسا تم کہہ رہی ہو یہ درست ہے تو ہم اس کو معجزہ ہی سمجھیں کہ تم زندہ سلامت لوٹ آئی ہو۔ میں نے رب کا شکر ادا کیا‘آج بھی بدن پر سنسنی طاری ہو جاتی ہے جب کبھی اس پانی کی آواز اور اس عجیب و غریب پرندے کا بالوں بھرا جسم آنکھوں کے سامنے آ جائے۔ ناہید بھٹہ‘کھیوڑا یہ 72ء یا 73 کی بات ہے۔جنوری کا مہینہ تھا اور اُن دنوں رات کو خاصی دھند پڑتی تھی۔ہفتے کا دن تھا،والد صاحب نے کہا کہ میں یہ مچھلی پکڑ کر لایا ہوں۔تمہاری چچی کو بھی دے دی ہے۔باقی تم تل لینا میں گاؤں جا رہا ہوں اور رات کو آ کر کھاؤں گا۔ ہم سب بہن بھائی بڑے خوش تھے کیونکہ ایک تو سخت سردی تھی۔آج کل کی طرح نہیں کہ سردی کو ہی ترس جاؤ۔اوپر سے تلی ہوئی مچھلی وہ بھی گھر کی۔خیر ہم نے دوپہر کو اسے دھو کر مصالحہ لگا کر رکھ دیا۔تھوڑی دیر بعد ہی ہمارے بہت ہی پیارے اور خاص مہمان بھی آ گئے۔ بس پھر کیا تھا امی تو بیٹھ گئی گپیں مارنے۔بچے سارے کھیل کود میں لگ گئے اور ہم ٹھہرے باورچی بچے۔ہم نے باورچی خانہ سنبھال لیا۔ پھر کیا تھا،ہم تلتے جا رہے ہیں اور باقی سب کھاتے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے) باجی نے بھی ہماری مدد کی۔دیکھتے دیکھتے ساری مچھلی ختم ہو گئی۔ اب میں اور باجی تھوڑے پریشان بھی ہوئے کہ ابا جی کیلئے مچھلی بالکل بھی نہیں بچی۔چچی جان کہنے لگیں کہ میں رات کو پکاؤں گی تو بھائی جان کیلئے رکھ لیں گے۔مگر رات کو اُنہوں نے نہ پکائی کہ دوپہر کو سب نے کھا تو لی ہے،میں پھر کسی اور دن پکا لوں گی اور بھائی جان گاؤں گئے ہوئے ہیں،اتنی سردی میں وہ کہاں آنے لگے۔ بس ہمیں بھی اطمینان ہو گیا کہ ابا جی رات گاؤں ہی رُکیں گے۔ مگر ہماری قسمت خراب تھی۔رات کو گیارہ بجے کے قریب ابا جی ٹھٹھرتے ہوئے گھر پہنچ گئے اور امی سے کہا کہ کھانا لاؤ۔آگے سے کھانا وہ جو کہ ابا جی کو زندگی میں کبھی بھی پسند نہیں تھا۔ ”کھچڑی“ وہ بھی سالن شوربے کے بغیر۔بس پھر کچھ نہ پوچھیں۔اُس کا کیا حال ہوا۔صبح برآمدہ ہمیں اور چڑیوں کو مل کر صاف کرنا پڑا اور سارے محلے میں ابا جی کے غصے کی کہانی بچے بچے کی زبان پر تھی کہ اُن کو غصہ بھی آتا ہے؟کیونکہ اُن کا غصہ کبھی کسی نے دیکھا ہی نہ تھا۔ اُن کا صرف اور صرف پیار ہی پیار ساری زندگی دیکھا اور پھر اُسی دن رات کو ایک چھوٹی بوری میں اور مچھلی گھر آ گئی اور صبح ہوتے ہی ابا جی نے وہ خود صاف کی۔خود پکائی اور سب کو کھلائی۔بعد میں جب ہمیں اُن کی کہانی اور ہماری باتیں اُن کو پتہ چلی تو سب اپنی اپنی جگہ پر شرمندہ بھی ہوئے اور آخر میں قصور سارا نکلا تو پتہ ہے کس کا؟اور اُسے پتہ بھی نہیں تھا کہ میں قصور وار ہوں۔ یعنی کھچڑی،چنے کی دال اور چاول کا۔ اقراء گل،کراچی گئے وقتوں کی بات ہے۔گرمی شروع ہو چکی تھی اور شدت سے بڑھ رہی تھی۔ہر انسان گرمی میں پسینے سے شرابور ہو رہا تھا اور یہی حال سبزیوں کا بھی تھا۔گاؤں میں بہت سے کھیت تھے۔ان کھیتوں میں کچھ سبزیاں اُگی ہوئی تھیں۔ اچانک کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔ڈر کے مارے آلو میاں،لیمو،ٹماٹر،بینگن،کدو اور مرچیں اکٹھے ہو کر ایک ساتھ آواز کی طرف دیکھنے لگے۔انھیں پتا تھا کہ یہ آواز مغرور بھنڈی کی ہے۔اسی وقت کھیت سے ایک لمبی اور اسمارٹ سی بھنڈی آ نکلی:”ہائے ہائے!کتنی گرمی ہے اور کتنی تیز دھوپ چمک رہی ہے،ارے ہٹو ہٹو یہاں سے آلو!ہر وقت آ کے کھڑے ہو جاتے ہو سر پر،اوپر سے اتنے موٹے موٹے ہو کہ بس۔ ارے میری طرح اسمارٹ رہا کرو، خوبصورت رہا کرو۔ (جاری ہے) ارے ہاں،میں تو بھول ہی گئی خوبصورتی تو تم لوگوں کو چھو کے بھی نہیں گزری۔خاص طور پر آلو میاں!تم کتنے گندے رہتے ہو اور کتنے موٹے ہو اور تمہیں کھانے والا بھی موٹا ہو جاتا ہے۔“ ان ساری باتوں سے آلو کا دل بہت دکھا۔ آلو دل کا اچھا تھا۔وہ ہمیشہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا اور وہ بھنڈی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔یہ بات ساری سبزیوں کو پتا تھی۔بھنڈی بہت مغرور تھی۔وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خوبصورت سمجھتی تھی۔وہ ساری سبزیاں بھنڈی کو پسند نہیں کرتی تھیں، جب کہ سب آلو کو پسند کرتی تھیں۔ بھنڈی کو یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔اسے آلو سے بہت چڑ تھی۔ایک دن آلو نے ساری سبزیوں سے کہا کہ بھنڈی سے میری صلاح کرا دیں۔وہ سب بھنڈی کی طرف چل پڑے۔جب بھنڈی کو یہ پتا چلا تو بھنڈی نے ساری سبزیوں کو کھری کھری سنائی اور خوب بے عزتی کی۔ آلو کو اس کے موٹے ہونے کا طعنہ دیا،جس سے آلو میاں کا دل ٹوٹ گیا اور بھنڈی کو بہت بُری بد دعا دی۔آپ لوگوں نے تو مشاہدہ کیا ہی ہو گا کہ اکثر جب آپ لوگ بھنڈی پکاتے ہیں اسے اکیلا یا صرف گوشت کے ساتھ پکاتے ہیں۔بھنڈی کے علاوہ کچھ اور سبزی بناتے ہیں تو آپ اس میں آلو ڈالتے ہوں گے۔ جیسے کہ آلو مٹر،آلو پالک،آلو گوبھی،آلو ٹماٹر،آلو مرچیں اور بھی بہت سی سبزیاں ہیں جو آلو کے ساتھ اچھی لگتی ہیں۔اگر آپ بھنڈی کے ساتھ آلو ڈال بھی دیں تو آپ کو کھانے میں مزہ نہیں آئے گا،کیونکہ آلو ساری سبزیوں کا دوست ہے اور بھنڈی کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا۔یہ ہے مغرور بھنڈی کا انجام۔یقینا میری طرح آپ کو بھی آلو بہت پسند ہو گا۔ روبینہ ناز‘کراچی کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔اُسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔اُس کا جہاں جی چاہتا منہ اُٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اُسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔اُس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اُس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔وہ اُس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اُس کے کبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اُسے اُس کے کئے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔ وہ بہار کا خوشگوار موسم تھا،ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے اور جنگل میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ (جاری ہے) اونٹ سو کر اُٹھا تو اُسے بڑی زبردست بھوک محسوس ہوئی۔وہ منہ اُٹھائے چرنے نکل گیا اور اپنی لمبی گردن اُٹھا کر درختوں کے پتے پھول اور پھل کھاتا رہا۔ اسی دوران اُس نے ایک کانٹوں بھرے درخت کی ٹہنی دیکھی تو اُسے توڑنے کیلئے اپنی گردن اوپر اٹھائی۔اُس نے اپنے دانت خاردار ٹہنی میں گاڑے ہی تھے کہ اُس کی گردن ایک شاخ میں اُلجھ گئی۔اب تو اونٹ کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔ وہ زور لگا لگا کر جب تھک گیا تو زور زور سے رونے لگا مگر کسی نے اُس کی نہ آواز سنی اور نہ ہی مدد کو آیا۔ کچھ دیر بعد جب جنگل کے جانوروں کو اونٹ کی مشکل کا پتہ چلا تو وہ اس کو ہمدردی سے دیکھنے لگے لیکن اُس کی مدد پھر بھی نہ کر سکے۔ اسی دوران چوہا بھی وہاں پہنچ گیا،اُس نے اونٹ کی جو یہ حالت دیکھی تو درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ جانوروں نے اُسے منع کیا مگر چوہے نے کسی کی نہ مانی اور اُس شاخ تک جا پہنچا جہاں اونٹ کی گردن پھنسی ہوئی تھی۔ کمزور ہونے کے باوجود اُس نے کسی نہ کسی طرح اُس شاخ کو بلا بلا کر اونٹ کی گردن آزاد کی تو اونٹ کی جان میں جان آئی۔ اب اونٹ کو معلوم ہو چکا تھا کہ جنگل میں ہر جانور اہم ہے۔اُس کا غرور خاک میں مل چکا تھا۔اُس نے سب جانوروں سے معافی چاہی اور چوہے کو اپنا پکا دوست بنانے کا اعلان بھی کیا۔سب جانور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔سچ ہے جو مشکل میں کام آئے وہ دوست ہے۔ عافیہ اسد مسٹر اور مسٹر احمد کو اللہ نے دو رحمتوں سے نوازا تھا۔بڑی بیٹی جتنی عقلمند اور سلیقہ شعار تھی،چھوٹی اتنی ہی شرارتی اور نادان۔حرا سارا دن اپنی شرارتوں سے پورے گھر کو سر پر اُٹھائے پھرتی تھی۔ ماں اور بڑی بہن کے سمجھانے کا بھی اُس پر ذرا اثر نہ ہوتا۔ایک دن حرا کی امی جب دوپہر میں قیلولہ کر رہی تھی اور بڑی بہن اپنی پڑھائی میں مگن تھی تو حرا کا دل کھیلنے کو چاہا۔اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ پڑوسیوں کے ہاں جا کر بچوں کے ساتھ کھیلا جائے۔ وہ چپکے سے دبے قدموں گھر سے نکلی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے اور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگی۔ کھیلتے کھیلتے نادانی میں حرا سے باغیچے میں پڑا گملا ٹوٹ گیا۔اب اُسے سمجھ نہ آئے کہ وہ کیا کرے۔ (جاری ہے) اُس نے سوچا گھر چلی جائے تاکہ اُسے کوئی کچھ کہہ نہ سکے اور پتہ لگنے پر وہ انکار کر دے گی۔ شام کو پڑوسن خالہ حرا کی امی کے پاس آئیں،جبکہ وہ کمرے میں خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔حرا کی امی نے حرا کو جگایا اور پڑوسن خالہ کے پاس لائیں اور کہا حرا بیٹا کیا گملا آپ سے ٹوٹا تھا؟ پہلے تو وہ خاموش رہی پھر بولی کہ نہیں!میں نے تو کوئی گملا نہیں توڑا اور کہہ کر چلی گئی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے،وہ حرا کے چہرے سے ہی بھانپ گئیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ حرا کی امی اور بڑی بہن کو ایک ترکیب سوجھی۔اُنہوں نے سوچا کہ کیوں نہ حرا کو سبق سکھایا جائے اور اس کی جھوٹ کی عادت کو ختم کروایا جائے۔رات کو کھانے کے بعد جب حرا سونے کیلئے گئی۔ اُس کی امی اور بہن نے مارکر سے اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے دانے نما نشان بنا دئیے۔ صبح جب حرا سکول جانے کیلئے باتھ روم گئی تو آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر ڈر گئی اور اونچی اونچی رونا شروع کر دیا۔اس کی امی اور بہن اس کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟تو اُس نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس کی والدہ نے کہا جب چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے چہرے پر اس طرح کے نشان بنا دیتے ہیں۔حرا تم نے کوئی جھوٹ تو نہیں بولا۔پھر حرا نے روتے روتے جواب دیا کہ امی کل وہ گملا میرے سے ہی ٹوٹا تھا۔ڈانٹ پڑنے کے ڈر سے میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔ مجھے معاف کر دیں،میں آئندہ جھوٹ نہیں بولوں گی۔امی نے حرا کو گلے سے لگایا اور پیار کیا پھر اس کا چہرہ دھلایا تو وہ صاف ہو گیا اور کہا:”دیکھا سچ بولنے پر سب ٹھیک ہو گیا۔یوں حرا نے آئندہ کیلئے جھوٹ بولنے سے توبہ کر لی۔ سیدہ ماہم،شاہ فیصل کالونی چھٹیوں کے دن ختم ہونے میں آخری دس دن باقی تھے اور میں ہمیشہ کی طرح کتابوں کا پہاڑ سامنے رکھ کر بیٹھ گئی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی میں نے چھٹیوں کے آغاز میں سوچا تھا کہ سارا کام پہلے ہی کر لوں گی،مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی اس پر عمل نہیں کر سکی اور پھر وہی ہوا کہ آخری کے دس دنوں میں کتابوں کا پہاڑ سامنے رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قسمت کو کوستی اور خود کو تسلی دیتی کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے کام ہی بہت زیادہ ہے۔ (جاری ہے) دو مہینے کی چھٹیوں کے ان آخری دس دنوں میں کام کم کرتی اور یہ فقرہ زیادہ دہراتی تھی کہ ننھی سی جان اور اتنا سارا کام۔جیسے تیسے آدھا اور ادھورا کام کرکے سکول گئی سکول میں پورا کام نہ کرنے پر ڈانٹ پڑی۔میں نے گھر جا کر یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے ہر سال چھٹیوں کے شروع میں ہی سارا کام کر لوں گی۔ اس بار بھی میں کچھ ایسا ہی فیصلہ کرنے لگی تو مجھے یاد آ گیا کہ میں اگلے سال سے اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی،جس میں حاضری کی پابندی نہیں ہوتی،یعنی چھٹیاں ہی چھٹیاں۔ حسنین گل،کراچی موسم سرما کی چھٹیوں میں ہم گاؤں گئے تو وہاں میرے چچا زاد بھائی نے بتایا کہ کچھ دن پہلے یہاں ایک لڑکے کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔تفصیل پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس لڑکے کو خطرناک جانور پالنے کا شوق تھا۔ ایک دفعہ اسے ایک چھوٹا سا سانپ ملا۔اس نے سانپ کو بڑی سی بوتل میں بند کر دیا اور روزانہ اس میں دودھ ڈالنے لگا۔رفتہ رفتہ سانپ بڑا ہوتا گیا۔ (جاری ہے) ایک دن اس لڑکے نے سوچا کیوں نہ میں اسے آزاد کر دوں۔اس نے سوچا ڈسنا تو اسے آتا نہیں ہے،کیونکہ اس نے ہمیشہ دودھ ہی پیا ہے۔ پھر اس نے جیسے ہی بوتل کا ڈھکن کھولا سانپ باہر نکلا اور اسے ڈس لیا۔ اس لڑکے کے آخری الفاظ یہ تھے کہ جس کے ساتھ نیکی کرو،اس کے شر سے بھی بچو،اور میں سوچنے لگا کہ واقعی سانپ،بچھو اور بعض لوگوں میں وفا نہیں ہوتی۔اگر ان کے ساتھ نیکی کی جائے تو ان کے شر سے بھی بچنا چاہیے۔ ایمن شاہد،میرپور خاص وجیہ آج بہت خوش تھی۔اسے سکول کے تقریری مقابلے میں تقریر کرنی تھی۔وہ ایک لائق اور فرمانبردار لڑکی تھی۔وہ اچھی قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی مقررہ بھی تھی،مگر اسے اپنی قابلیت پر غرور بھی بہت تھا۔ استاد بھی اس سے خوش تھے،لیکن اس کے تکبر پر اسے سمجھاتے بھی رہتے تھے۔ ان ہی دنوں اس کی جماعت میں ایک نئی لڑکی نایاب آئی تھی۔وہ بھی ایک اچھی مقررہ تھی،لیکن مغرور نہیں تھی،اس لئے سب کو اچھی بھی لگتی تھی۔اساتذہ بھی اس سے زیادہ خوش تھے۔ وجیہ اس سے حسد کرنے لگی تھی۔جب کہ نایاب اس سے دوستی کرنا چاہتی تھی۔وجیہ کو یہ خیال ہمیشہ پریشان کرتا کہ نایاب کی وجہ سے اس کی قدر کم ہوئی ہے،اس لئے وہ اس سے حسد کرنے لگی تھی۔آج وہ زیادہ اچھی تقریر کرکے نایاب کو نیچا دکھانا چاہتی تھی۔ (جاری ہے) وہ سمجھتی تھی کہ بہترین مقررہ ہونے کی وجہ سے کوئی اس سے نہیں جیت سکتا۔اسی خیال کے تحت اس نے ایک بار بھی تقریر کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھا۔اس کے برعکس نایاب تیاری کرتی رہی۔ جب وجیہ تقریر کرنے گئی تو وہ کئی جگہ اٹکی اور تقریر روانی سے نہ کر سکی۔ جب کہ نایاب نے بڑے اعتماد سے کہیں رکے بغیر روانی سے تقریر کی۔ وجیہ اب بھی سمجھ رہی تھی کہ پہلا انعام تو اسی کا ہو گا۔جب اسٹیج پر پہلے انعام کے لئے نام پکارا جانے لگا تو وہ کھڑی ہونے ہی والی تھی کہ آواز آئی ”نایاب صدیقی“ نایاب اسٹیج پر اپنی محنت کا پھل وصول کرنے چلی گئی۔ وجیہ حیران کھڑی تھی کہ اسے دوسرے انعام کے لئے بلایا جائے گا،مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دوسرے انعام کے لئے بھی اسے نہیں پکارا گیا۔اور پھر تیسرا انعام بھی اس کو نہیں دیا گیا تو وہ بوجھل قدموں سے اپنے گھر کی طرف چل دی۔آج اسے اس کے تکبر کی سزا مل گئی تھی۔ فاطمہ ناہید،کراچی کسی جنگل میں ایک گھوڑا اور ہرن دو دوست رہتے تھے۔ایک دفعہ کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ہرن کافی پھُرتیلا تھا،لڑائی مار پیٹ تک پہنچ گئی۔گھوڑے کو زیادہ چوٹیں آئی تھیں۔دونوں ایک دوسرے سے دور بیگانوں کی طرح رہنے لگے۔ ایک دن گھوڑے نے جنگل میں ایک شکاری کو دیکھا تو اس نے سوچا کہ ہرن سے انتقام لیا جائے۔وہ شکاری کے پاس گیا اور پوچھا:”کیا تم کسی ہرن کو شکار کرنے آئے ہو؟“ شکاری:”ہاں!“ گھوڑے نے کہا:”میں تمہیں ایک ہرن کا ٹھکانہ بتا سکتا ہوں۔ “ شکاری دل ہی دل میں خوش ہوا،یعنی ایک تیر سے دو شکار۔اس نے گھوڑے سے کہا:”اگر تم میری مدد کرو تو کیا ہی بات ہے!کیا میں تمہاری پیٹھ پر بیٹھ جاؤں؟“گھوڑا فوراً راضی ہو گیا۔ (جاری ہے) شکاری نے پھر کہا:”اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو میں تمہارے منہ میں لگام ڈال دوں؟“ گھوڑے نے پوچھا:”اس سے کیا ہو گا؟“ شکاری نے کہا:”جیسے ہی مجھے ہرن نظر آئے گا میں تمہاری لگام اس طرف موڑ دوں گا۔ “ آخر شکاری نے گھوڑے کو لگام ڈالی اور زور سے کھینچا۔ہرن کے ٹھکانے پر پہنچ کر گھوڑا ہرن کے پیچھے دوڑا۔کچھ دور جا کر ہرن نڈھال ہو گیا۔شکاری نے ہرن کو گولی مار دی۔گھوڑے کا انتقام تو پورا ہو گیا،لیکن وہ آج تک اسی لگام سے بندھا زندگی گزار رہا ہے۔ فرح انیس رات کا کھانا تیار کرکے میں فارغ ہوئی تو باورچی خانے سے نکلتے ہوئے میری نظر دیوار پر لگی گھڑی پر پڑی اُف اتنی دیر ہو گئی میں نے جلدی سے سامنے صوفے پر پڑی چادر اُٹھا کر اوڑھی اور گھر کی چابی پرس میں ڈال کر گھر سے نکل گئی راستے میں ہی مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی بچے کہیں گے آج مما ہمیں ٹیوشن سے لینا ہی بھول گئی میں سوچتی ہوئی تیز تیز قدموں سے ان کے ٹیوشن سینٹر کی جانب بڑھ گئی۔ مما آپ نے اتنی دیر لگا دی سات سالہ ریحان شکایتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا جبکہ چھ سالہ انعم بھی منہ پھلائے چل رہی تھی مجھے اس کا منہ دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔اچھا سوری بابا آئندہ خیال رکھوں گی ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہو گی۔ ہم تب مانیں گے آپ کی بات جب آپ ہمیں ہفتے کو نانو کے گھر رہنے دیں گی انعم ریحان کی شرط پر میں نے ہنس کر حامی بھر لی۔ (جاری ہے) جلدی چلو تم لوگوں کے بابا بھی گھر آنے والے ہونگے میں دونوں کا ہاتھ پکڑ کر سامنے والی گلی میں داخل ہو گئی یہ راستہ شارٹ کٹ تھا ادھر سے جلدی گھر آ جاتا تھا ویسے تو میں روڈ سے ہی جاتی تھی،زیادہ تر اس گلی سے گزرتے ہوئے کتراتی تھی۔ اُف مما یہ کتنا ڈراؤنا گھر ہے اس کو دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے ریحان ہاؤس نمبر 450 کو دیکھتے ہوئے بولا جو بلکل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا عجیب وحشت برس رہی تھی اس کی بات پر میں دونوں بچوں کو لے کر جلدی سے آگے بڑھ گئی رات کام سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹی تو بے ساختہ نظروں کے سامنے وہ گھر آگیا اس گھر سے میرا ماضی جڑا ہوا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اپنے بیتے ماضی کو سوچنے لگی۔ میرا نام علینہ ہے ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں میرے بابا آرمی میں ہوا کرتے تھے جبکہ اماں سادہ سی گھریلو خاتون تھیں۔ میں انٹر میں تھی تو بابا نے اماں کی خواہش پر بڑا گھر لے لیا کیونکہ جس گھر میں ہم تھے وہ گھر ہمیں کافی چھوٹا پڑ رہا تھا جس دن بابا نے نیا گھر لیا ہم سب بہن بھائی بہت خوش تھے نہایت خوبصورت تھا نیچے والے حصے میں تین بیڈ روم بڑا سا ٹی وی لاؤنج اور ڈرائنگ روم اور باورچی خانہ تھا.
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD