فرح انیس رات کا کھانا تیار کرکے میں فارغ ہوئی تو باورچی خانے سے نکلتے ہوئے میری نظر دیوار پر لگی گھڑی پر پڑی اُف اتنی دیر ہو گئی میں نے جلدی سے سامنے صوفے پر پڑی چادر اُٹھا کر اوڑھی اور گھر کی چابی پرس میں ڈال کر گھر سے نکل گئی راستے میں ہی مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی بچے کہیں گے آج مما ہمیں ٹیوشن سے لینا ہی بھول گئی میں سوچتی ہوئی تیز تیز قدموں سے ان کے ٹیوشن سینٹر کی جانب بڑھ گئی۔ مما آپ نے اتنی دیر لگا دی سات سالہ ریحان شکایتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا جبکہ چھ سالہ انعم بھی منہ پھلائے چل رہی تھی مجھے اس کا منہ دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔اچھا سوری بابا آئندہ خیال رکھوں گی ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہو گی۔ ہم تب مانیں گے آپ کی بات جب آپ ہمیں ہفتے کو نانو کے گھر رہنے دیں گی انعم ریحان کی شرط پر میں نے ہنس کر حامی بھر لی۔ (جاری ہے) جلدی چلو تم لوگوں کے بابا بھی گھر آنے والے ہونگے میں دونوں کا ہاتھ پکڑ کر سامنے والی گلی میں داخل ہو گئی یہ راستہ شارٹ کٹ تھا ادھر سے جلدی گھر آ جاتا تھا ویسے تو میں روڈ سے ہی جاتی تھی،زیادہ تر اس گلی سے گزرتے ہوئے کتراتی تھی۔ اُف مما یہ کتنا ڈراؤنا گھر ہے اس کو دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے ریحان ہاؤس نمبر 450 کو دیکھتے ہوئے بولا جو بلکل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا عجیب وحشت برس رہی تھی اس کی بات پر میں دونوں بچوں کو لے کر جلدی سے آگے بڑھ گئی رات کام سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹی تو بے ساختہ نظروں کے سامنے وہ گھر آگیا اس گھر سے میرا ماضی جڑا ہوا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اپنے بیتے ماضی کو سوچنے لگی۔ میرا نام علینہ ہے ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں میرے بابا آرمی میں ہوا کرتے تھے جبکہ اماں سادہ سی گھریلو خاتون تھیں۔ میں انٹر میں تھی تو بابا نے اماں کی خواہش پر بڑا گھر لے لیا کیونکہ جس گھر میں ہم تھے وہ گھر ہمیں کافی چھوٹا پڑ رہا تھا جس دن بابا نے نیا گھر لیا ہم سب بہن بھائی بہت خوش تھے دو منزلہ یہ بنگلہ نہایت خوبصورت تھا نیچے والے حصے میں تین بیڈ روم بڑا سا ٹی وی لاؤنج اور ڈرائنگ روم اور باورچی خانہ تھا جبکہ اوپری حصے میں دو بیڈ روم ٹی وی لاؤنج اور ایک اسٹڈی روم تھا۔ چھوٹا سا باغیچہ تھا جس میں نیم اور بیر کے درخت لگے تھے اور کار پورچ اتنا تھا کہ ایک گاڑی کھڑی ہو جائے۔ میری بڑی بہن مہرین جو مجھ سے دو سال بڑی تھی اور پھر اس سے چھوٹی ثنا جو ایک سال بڑی تھی پھر میں تھی اور سب سے چھوٹا ہمارا بھائی جو اس وقت ساتویں جماعت میں تھا۔ ہم تینوں بہنوں نے اوپر والے بیڈ روم لیے جبکہ نیچے حارث اماں بابا کے ساتھ رہتا تھا ہم تینوں بہنیں چونکہ کافی ڈرپوک ہیں تو ہم ایک ساتھ ایک بیڈ روم میں سوتی تھیں۔ جس دن ہم شفٹ ہوئے اس دن کافی تھکن ہو گئی تھی رات گئے تک سامان وغیرہ سمیٹ کر فارغ ہوئے۔ باقی کا کام اب کل کر لینا اب جاؤ تم لوگ بھی سو جاؤ کھانے سے فارغ ہوئے تو امی بولیں تو ہم تینوں بہنیں اوپر آکر لیٹ گئیں۔تھکن اس قدر تھی کے لیٹتے ہی نیند آگئی ابھی سوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ مجھے نیند میں ایسا لگا کہ کوئی باہر دروازہ بجا رہا ہے میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کالی بلی کھڑی مجھے گھور رہی تھی اس کو دیکھ کر میری بے ساختہ چیخ نکل گئی میری چیخ پر میری بہنیں گھبرا کر اُٹھ گئیں کیا ہو گیا سب خیر تو ہے مہرین نے میرے پاس آکر پوچھا۔ ”تم بلی سے ڈر گئیں۔“اس نے حیرت سے بلی کو دیکھتے ہوئے کہا اور میں شرمندہ ہو کر واپس بستر پر آکر لیٹ گئی۔ ہفتے کی رات ہم تینوں بہنیں رات دیر گئے تک جاگ کر باتیں کرتی رہیں یہی کوئی رات کے دو بجے ہونگے ہمیں ایسا لگا باہر ٹی وی لاؤنج سے باتوں کی آواز آ رہی ہے اس وقت کون ہو سکتا ہے ہم بولتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر آئے تو ایسا معلوم ہوا جیسے یہ باتوں کی آواز باورچی خانے سے آ رہی تھی باورچی خانے میں ہم نے جھانکا تو وہ کالی بلی سامنے کا ونٹر پر بیٹھی نظر آئی ہمیں دیکھ کر اس نے چھلانگ لگائی اور سامنے کمرے میں گھس گئی ہم ابھی سمجھ نہیں پائے تھے کہ یہ ہوا کیا پھر ہماری نظر سامنے جلتے چولہے پر پڑی ایسی خوشبو آرہی تھی کہ جیسے کچھ پک رہا تھا لہرین نے آگے بڑھ کر چولہا بند کیا ہم تینوں ہی گھبرا سے گئے تھے اس بات کا ذکر ہم نے اگلے دن امی سے کیا جس پر وہ اُلٹا ہمیں ڈانٹنے لگیں کہ جلدی سویا کرو۔ اتوار خالہ اپنی فیملی کے ساتھ ہم سے ملنے آگئی تھیں رات دیر تک وہ اپنے گھر گئیں تو نیچے ٹی وی لاؤنج میں رکھے تخت پر بیٹھے ہم تینوں بہنیں اور امی باتیں کر رہے تھے جبکہ ابو اور حارث سونے جا چکے تھے کہ امی کی نظر لاؤنج سے جاتی سیڑھیوں پر پڑی ارے علینہ بیٹا اوپر دیکھو کوئی بچہ رہ گیا خالہ کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے کافی شرارتی سے امی کو لگا کہ کوئی بچہ اوپر نہ رہ گیا ہو امی کی بات پر ہماری نظر بھی اوپر کی جانب جاتی سیڑھیوں پر اُٹھی تو دیوار پر چھوٹے بچے کا سایہ نظر آیا میں نے اُٹھ کر اوپر جا کر دیکھنے لگی مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جس پر میں خوفزدہ ہو کر تیزی سے نیچے آگئی جب میں نے امی کو بتایا کہ اوپر تو کوئی بھی نہیں تو امی بھی چپ سی ہو گئیں۔ ہم سب ہی حیران تھے کہ جب اوپر بچہ نہیں تھا تو وہ سایہ کس کا تھا کچھ دنوں بعد بات آئی گئی ہو گئی۔ ہم سب گھر والوں کو کزن کی شادی میں اسلام آباد جانا تھا دو ہفتوں بعد ہم واپس جب گھر آئے تو بڑی عجیب حیرت ہوئی پورا گھر شیشے کی مانند چمک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ روز گھر کی صفائی ہوتی رہی ہو ہمیں یہ سب دیکھ کر بڑی حیرانی ہو رہی تھی بلکہ حارث بولا ایسا لگتا ہے روز کام والی آکر کام کرکے جاتی تھی۔ میں منہ دھونے کی غرض سے غسل خانے میں گئی تو غسل خانے کا گیلا فرش دیکھ کر مجھے حیرت کا دھچکا لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے غسل خانہ استعمال کیا ہو۔ پھر تو یہ معمول بن گیا گھر کے افراد گھر سے باہر ہوتے تو غسل خانہ بھی استعمال ہوتا اور باورچی خانے میں بھی رات گئے کھٹر پٹر کی آوازیں آتیں ہم لوگوں کو وہ کالی بلی مستقبل گھر میں گھومتی ہوئی نظر آتی۔ ہم لوگ اب آہستہ آہستہ ان باتوں کے جیسے عادی ہوتے جا رہے تھے جب وہ ہولناک واقعہ رونما ہوا۔ جس کے بعد ہم نے فوراً وہ گھر چھوڑ دیا۔رات کے کسی پہر امی کی آنکھ کھلی تو انہیں محسوس ہوا کہ چھت پر کوئی ہے وہ سمجھیں ہم بہنیں سونے کے بجائے گپوں میں مصروف ہیں وہ دبے قدموں سے چھت پر آئیں وہاں گول دائرے میں دس بارہ عجیب شکل والوں کو بیٹھے دیکھا وہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ امی بے ہوش ہو گئیں فجر کی نماز کے لئے جب ابو اُٹھے اور امی کو کمرے میں نا پا کر لاؤنج میں آئے تو انہیں سیڑھیوں پر امی اوندے منہ پڑی نظر آئیں۔ ہوش میں آنے پر جب امی نے رات والا منظر بتایا تو ابو نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ یہ گھر چھوڑ دینا مناسب ہے اس سے پہلے کہ کوئی بڑا نقصان ہو تا ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا۔ آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی سوچو تو خوف کی سرد لہر ہمارے جسموں میں ڈور جاتی ہے کہ ہم چھ ماہ جس کو بلی سمجھتے رہے درحقیقت وہ ایک جن تھا۔
روبینہ ناز‘کراچی فوزیہ فرخ کی بڑی بہن تھی اور نویں کلاس کی طالبہ تھی۔دوسری طرف فرخ پڑھائی میں ناکام تھا،وہ ساتویں کلاس میں مشکل سے پاس ہو کر آٹھویں میں پہنچا تھا۔فرخ تفریح باز قسم کا لڑکا تھا،ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہتا اور شام کو دوستوں کے ساتھ باہر جا کر آوارہ گردی کرتا تھا۔ ماں باپ فرخ سے بہت تنگ تھے۔شروع میں اُنہوں نے اُسے سمجھایا مگر جب نہ مانا تو کئی بار اُس کی پٹائی بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بدتمیز ہو گیا۔فوزیہ پڑھائی میں بھی اچھی تھی،ماں باپ اور اساتذہ کا کہا بھی مانتی تھی اور ہر سال امتحان میں فرسٹ بھی آتی تھی۔ آج پھر ابو نے فرخ کی پٹائی کی تو فوزیہ کو اُس کی فکر ہوئی۔آخر اُس نے فرخ کو سمجھانے کی کوشش کی اور اُس سے بڑے پیار سے کہا۔ (جاری ہے) بھائی کیا بات ہے تم پڑھتے کیوں نہیں ہو۔ہر وقت کھیل اور لڑائی جھگڑا کیا ہے یہ؟فرخ نے جواب دیا:”باجی مجھ سے پڑھائی نہیں ہوتی،کیا کروں ٹیچر کو بھی تھوڑا کام دینا چاہیے تاکہ میں آسانی سے کر لوں“۔ فوزیہ نے کہا تم اپنا ہوم ورک نہیں کرتے،اس طرح کیسے ہو گا؟چلو میں تمہاری مدد کروں گی مگر تمہیں بھی تو پڑھائی پر توجہ دینی ہو گی۔ فوزیہ سمجھ چکی تھی کہ فرخ پڑھنا تو چاہتا ہے مگر کچھ گھبراتا ہے۔چنانچہ فوزیہ ہوم ورک کرنے اور مشکل سوال سمجھانے میں فرخ کی مدد کرنے لگی۔ یہ سب تو وہ خود بھی پڑھ چکی تھی۔اس لئے سب بہت آسان تھا۔فرخ نے شروع میں تو اُسے تنگ کیا مگر اُس کی محنت رنگ لائی اور وہ پڑھائی میں توجہ دینے لگا۔اس دوران فوزیہ نے فرخ کو اَن پڑھ لوگوں کے مسائل اور ناکامیوں سے آگاہ کیا،اُس نے جو کچھ پڑھا اور سیکھا تھا وہ سب فرخ کو پڑھا دیا۔ فوزیہ نے اپنے امی ابو سے کہا:”اگر آپ کو فرخ پر غصہ آئے تو اُسے مارنے کی بجائے پیار سے سمجھائیں“۔امی ابو نے ایسا ہی کیا۔وہ پہلے سے زیادہ فرخ کا خیال رکھنے لگے۔فرخ نے بھی کھیل کو چھوڑ کر اپنی پڑھائی پر توجہ دی۔یہ سب فوزیہ کی محنت ہی تو تھی۔ وہ فرخ کو سبق آموز کہانیاں اور دنیا کے کامیاب لوگوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتی جس سے فرخ بالکل بدل گیا۔ساتھ ہی فوزیہ اپنی پڑھائی پر بھی توجہ دے رہی تھی اور پھر اُن کے سالانہ امتحان ہوئے۔رزلٹ آیا تو فوزیہ تو کامیاب ہوئی ہی اس بار فرخ نے بھی پوزیشن لے لی۔امی ابو بہت خوش تھے۔انہیں فرخ ایک بدلے ہوئے روپ میں نظر آیا تو انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آخرکار اُن کا بچہ راہ راست پر آ گیا ہے۔
محمد سعد اسد،تونسہ شریف آج عبداللہ اور احسن کی زور دار لڑائی ہوئی۔بات صرف یہ تھی کہ احسن نے عبداللہ کی کہانیوں کی کتاب اُٹھا لی تھی۔عبداللہ کو لڑائی کے لئے اتنا بہانہ کافی تھا۔عبداللہ کا ہاتھ زخمی ہوا تو احسن کے کندھے پر زخم آیا تھا۔ ابو آئے تو دونوں کو پاس بلایا۔پیار سے سمجھایا کہ لڑنا اچھا نہیں ہوتا۔بُری بات ہوتی ہے۔تو دونوں شرمندہ ہوئے۔جب دونوں چلے گئے تو ابو نے عبداللہ کو پھر بلایا اور کہا:”بیٹا!تم بڑے ہو۔بڑوں میں صبر و تحمل ہوتا ہے۔بڑے،چھوٹوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ چھوٹوں سے غلطی ہو جاتی ہے۔انھیں معاف کر دینا چاہیے۔“ عبداللہ”جی“کہہ کر چپ ہو گیا اور چلا گیا۔آج گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔چائے میں چینی کم تھی۔ (جاری ہے) سو چائے بد مزہ ہو گئی تھی۔مہمانوں کے جانے کے بعد ابو نے آکر امی سے خوب جھگڑا کیا۔ اچانک عبداللہ بول اُٹھا:”ابو!آپ عمر میں امی سے بڑے ہیں ناں!“ابو نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”تو پھر آپ نے کہا تھا ناں کہ بڑے چھوٹوں کو معاف کر دیتے ہیں۔چھوٹے آخر چھوٹے ہوتے ہیں۔ان سے غلطی ہو جاتی ہے۔تو معاف کر دیں ناں امی کو۔ “ امی نے معنی خیز نظروں سے ابو کی طرف دیکھا۔ابو کا سر مارے شرم کے جھک گیا۔ عبداللہ کی باتیں واضح طور پر کہہ رہی تھیں کہ آپ ہمیں تو اچھی باتوں پر عمل کا درس دیتے ہیں،مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔بعض اوقات ہم دوسروں کو اچھی باتوں پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں،مگر خود عمل نہیں کرتے۔
فاطمہ ساجد․․․پھول نگر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک مشہور چور رہتا تھا۔ایک دن اس چور نے اپنے بیٹے کو پاس بلایا اور کہا:”اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تم چور بننا ہی پسند کروں گے۔“اس کام میں تمہیں بہت فائدہ ہو گا۔ بیٹے نے جواب دیا۔”ابا جان!اگر میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا تو کوئی میری عزت نہیں کرے گا اور میں لوگوں کی نظروں میں گر جاؤں گا۔میرا دل کہتا ہے کہ میں محنت کرکے اپنے لئے روزی روٹی کماؤں اور عزت کی زندگی بسر کروں۔ چور یہ سن کر بہت خفا ہوا اور بیٹے سے کہا:”کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اپنے باپ کا حکم ضرور ماننا چاہئے،تو میرے حکم سے انکار کیوں کرتا ہے؟ تمہیں چور بننا ہی پڑے گا ورنہ میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا۔ (جاری ہے) لڑکا دوسرے دن ایک کسان کے گھر گیا اور اس سے ایک گائے کا سودا کیا اور وعدہ کیا کہ میں فصل کاٹنے کے موقع پر گائے کی قیمت ادا کر دوں گا۔جب لڑکا گائے کو گھر لایا تو اُس کے باپ نے سمجھا کہ یہ گائے وہ چُرا کر لایا ہے،اس لئے اُس کو شاباش دی۔ چور کے ذہن میں یہ خیال پریشانی کا سبب بنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسان کو گائے کا پتہ لگ جائے اور ہم لوگوں میں رسوا ہو جائیں۔کچھ عرصہ بعد گائے نے ایک بچھڑا جنا اور وہ خوب دودھ دینے لگی۔دونوں باپ بیٹے مزے سے اُس کا دودھ پینے لگے۔ جتنا دودھ چور پیتا تھا،اتنا ہی اُس کا لڑکا بھی پیتا تھا مگر چور روز بروز نڈھال ہوتا گیا کیونکہ اُس کے ذہن میں بار بار یہی خیال آتا تھا کہ کہیں گائے کی چوری کا راز کھل نہ جائے اور وہ رسوا نہ ہو جائے۔دوسری طرف اُس کا لڑکا دودھ پی پی کر موٹا تازہ ہو رہا تھا۔ ایک دن بیٹے نے باپ سے پوچھا ابا جان!آپ روز بروز اتنے کمزور کیوں ہوتے جا رہے ہیں جبکہ میں تندرست ہوتا جا رہا ہوں۔اس پر باپ نے اپنے دل کا اصلی حال بتا دیا۔بیٹے نے کہا:”ابا جان!آپ کوئی فکر نہ کریں میں نے وہ گائے کسان سے چرائی نہیں بلکہ خرید لی تھی،اس لئے کوئی اس گائے پر اپنا حق نہیں جما سکتا۔ جب چور نے اپنے ہونہار اور ایماندار بیٹے کی بات سنی تو وہ پھولا نہ سمایا۔اُس نے بیٹے کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرے گا بلکہ محنت مزدوری کرکے حلال کی روٹی کمائے گا۔
احمد عدنان طارق،فیصل آباد ٹومی ایک چھوٹا سا کتے کا بچہ تھا جو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا تھا اسے ذرا تمیز نہیں تھی کہ کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا؟اور نہ ہی وہ اس بات کا خیال کرتا تھا کہ جو وہ کھا رہا ہے وہ کسی اور کا کھانا تو نہیں اس کے کھانے کی عادت دیکھ کر پڑوس میں رہنے والی بلی نیلو نے اسے کہا کہ وہ اسی طرح کھاتا رہا تو بہت موٹا ہو جائے گا مگر اس وقت بھی ٹومی ایک ہڈی بھنبھوڑنے میں اتنا مگن تھا کہ اس نے نیلو کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ ایک دن ٹومی کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔ناشتے کے وقت سے پہلے ہی اس نے نیلو کے باورچی خانے میں جھانکا تو اسے وہاں نیلو کے لئے بسکٹ پڑے ہوئے نظر آئے۔اس نے آرام سے بسکٹوں کا صفایا کیا۔پھر صبح کا ناشتہ جی بھر کر کیا۔ (جاری ہے) پھر اس نے کچھ دیر کے وقفے کے بعد اپنے مالک کے کھیت میں جانا پسند کیا۔ وہاں اس نے بہادر گھوڑے کی کھُرلی میں جھانکا تاکہ اس میں سے ہی کچھ کھانے کو مل جائے۔بہادر نے اسے اپنے کھانے کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا لیکن اس کا بُرا نہیں منایا۔پھر ٹومی کو نیند آ گئی لیکن جب وہ دوبارہ جاگا تو اسے پھر سخت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے اپنی رکابی سے دودھ پیا۔لیکن اس نے پیٹ میں اتنی جگہ رکھ لی تاکہ مزے سے دوپہر کا کھانا کھا سکے۔دوپہر کے کھانے میں البتہ ٹومی نے ہاتھ ہلکا ہی رکھا لیکن کھانے کے ایک گھنٹے کے بعد ہی اسے دوبارہ کچھ کھانے کی طلب ہونے لگی۔ وہ دوبارہ کھیت کی طرف گیا۔اسے علم تھا کہ اس کے مالک نے کھانا کھا لیا ہو گا اور اس کے برتن پڑے ہوں گے۔اس نے مالک کی بچائی ہوئی ایک بوٹی کھائی۔اب وہ دوبارہ گھر کے باورچی خانے کی طرف گیا اور اس میں پڑی صفائی والی ٹوکری میں منہ ڈال کر اسے نیچے گرا دیا اور باورچی خانے کی بچی کھچی کھانے کی چیزوں میں منہ مارنے لگا۔ سارے دن کے کھانوں میں اسے رات کا کھانا بہت پسند تھا اور آخر میں سونے سے پہلے ٹومی کی عادت تھی کہ وہ صحن میں مٹر گشت کرتے ہوئے مرغیوں کا گرا بچا کھچا دانہ بھی فرش سے چاٹ لیتا۔اس کی بھوکی طبیعت اسے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اس رات جب وہ مرغیوں کے بچے کھچے ڈبل روٹی کے چورے کی ضیافت اُڑا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر نیلو بلی پر پڑی جو اس وقت سیر کیلئے نکلی تھی۔یہ اس کا روز کا معمول تھا اور روز ہی اس کا کھانا چوری کرکے کھانا ٹومی کا معمول تھا اور یہ چوری کرنا اسے بہت پسند تھا۔ ٹومی پورے زور سے دوڑا اس نے صحن عبور کیا اور پھر نیلو کیلئے بنائے گئے گھر کے دروازے سے اندر گھسنے لگا۔مگر پھر اس کے منہ سے بھاؤ،داؤ کی آوازیں نکلنے لگیں کیونکہ وہ نیلو کے گھر کے دروازے پر پھنس گیا تھا۔اس دن لالچی ٹومی نے اتنا کھا لیا تھا کہ اس کا پیٹ پھول کر گپا ہو رہا تھا۔ نزدیک رہنے والے تمام جانور اسے اس حالت میں دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ ویسے بھی وہ چاہتے تھے کہ ٹومی کو ان سب کا کھانا چوری کرنے کی سزا ملنی چاہئے تھی۔نیلو واپس آئی تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔اس نے ٹومی کی ٹانگیں پکڑیں اور اسے زور سے باہر کھینچا لیکن بے سود۔ وہ بُری طرح پھنسا ہوا تھا۔پھر تمام جانوروں نے اکٹھے ہو کر زور لگایا تب کہیں جا کر ٹومی کو آزادی ملی۔ٹومی اتنا شرمندہ ہوا کہ آئندہ کبھی کسی کا کھانا نہ چرا کر کھانے سے توبہ کر لی۔
کامران شاہد،کاہنہ نو،لاہور ایمن آج بہت اُداس تھی کیونکہ آج اُسے اپنی ممی بہت یاد آ رہی تھیں،وہ سوچ رہی تھی کہ اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو اس کی نئی مما اُس کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتیں۔وہ روز بچوں کو سکول جاتا دیکھتی تھی۔ اُس کا بھی بہت دل کرتا تھا کہ وہ بھی سکول جایا کرے مگر ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ اگر وہ سکول جاتی تو پھر گھر کے کام کاج کون کرتا؟۔ ایمن سارا سارا دن گھر کے کام کرتی رہتی تھی۔کپڑے دھوتی،کھانا پکاتی پھر بھی اُسے اپنی سوتیلی مما سے ڈانٹ ہی پڑتی تھی۔ ایک دن اُس کو کھانا بنانے میں دیر ہو گئی تو اُس کی سوتیلی مما نے ایمن کی بہت پٹائی کی۔اُس کے دو سوتیلے بہن بھائی بھی تھے جو باقاعدگی سے سکول جاتے تھے اور ٹیوشن بھی پڑھتے تھے۔ (جاری ہے) ایک دن ایمن کپڑے دھو رہی تھی کہ پڑوسن آنٹی نسرین ایمن کی مما سے ملنے کیلئے آئیں۔ آنٹی نسرین سکول ٹیچر تھیں،وہ ایمن کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر بہت پریشان ہوتی تھیں اور ایمن کی سوتیلی مما کو سمجھایا بھی کرتیں کہ راحیلہ بہن،ایمن کو بھی سکول بھیجا کرو،بچی کو اَن پڑھ رکھنا مناسب نہیں۔مگر ایمن کی سوتیلی مما کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات ٹال دیا کرتی تھیں۔ آج بھی وہ ایمن کے سکول میں ایڈمیشن کے بارے میں راحیلہ سے بات کرنے آئی تھیں۔مگر ایمن کی سوتیلی مما نے آنٹی نسرین کو صاف انکار کر دیا۔آنٹی نسرین نے ایمن کی سوتیلی مما کی بات سن کر عزم کیا کہ وہ خود ہی ایمن کو ٹیوشن پڑھا کر پڑھنا لکھنا سکھا دیں گی۔ ایمن جب بھی گھر کے کاموں سے فراغت پاتی تو آنٹی نسرین اُسے ٹیوشن پڑھاتی۔وہ اپنی سوتیلی مما سے روزانہ چھپ کر آنٹی نسرین سے ٹیوشن پڑھا کرتی تھی۔ایک دن ایمن اپنا سبق یاد کر رہی تھی کہ اس کی سوتیلی بہن نے اُسے سبق یاد کرتے دیکھ لیا۔ ایمن خوفزدہ ہو گئی اور ڈرنے لگی کہ کہیں اس بات کا پتہ اُس کی مما کو نہ چل جائے۔ایمن کی سوتیلی بہن آئمہ اُسے پڑھتا ہوا دیکھ کر مسکرا دی اور کہنے لگی:”تمہیں پڑھتا دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے،میں خود بھی چاہتی ہوں کہ تم میری طرح تعلیم حاصل کرو میرے ساتھ سکول جاؤ اور یہ بات میں اپنی مما کو بھی سمجھاؤں گی“۔ ایمن نے یہ سب سنا تو بہت خوش ہوئی وہ اپنے کمرے میں جانے کیلئے مڑی تو اُس کی سوتیلی مما بھی پیچھے موجود تھیں اور خوب غصے میں تھیں۔ یہ سب سُن کر اُن کا تو بلڈ پریشر ہائی ہو گیا اور وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی بیڈ پر لیٹنے کی دیر تھی کہ وہ سو گئی اور خواب دیکھنے لگی۔ خواب میں اُنہوں نے دیکھا کہ ایمن کی سوتیلی بہن اَن پڑھ ہے اور وہ لوگوں کے گھروں کا کام کرتی ہے اور رو رو کر اپنی مما سے کہہ رہی تھی، آپ نے مجھے اَن پڑھ کیوں رکھا؟تعلیم حاصل کیوں نہ کرنے دی؟ اتنا ہی خواب دیکھا تھا کہ اُن کی آنکھ کھل گئی،وہ علم کی اہمیت جان چکی تھیں۔ صبح ہوتے ہی وہ سکول گئی اور ایمن کا ایڈمیشن بھی اپنی بیٹی کے سکول میں کروا دیا۔ایمن یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور حیران بھی۔مگر وہ بہت خوش تھی کیونکہ کل سے وہ بھی سکول جانے والی تھی کیونکہ ایمن کی سوتیلی مما جان چکی تھی کہ علم ایک بہت بڑی دولت ہے۔
ثروت یعقوب لاہور کسی جنگل میں پرندے اور جانور مل کر رہا کرتے تھے۔اُسی جنگل میں ایک خود غرض اور مکار چمگادڑ بھی رہتی تھی جو اپنی ضرورت کے مطابق کبھی پرندوں میں شامل ہو جاتی اور کبھی زمینی جانوروں میں۔ ایک دن کسی بات پر جانوروں اور پرندوں میں لڑائی ہو گئی۔لڑائی کے موقع پر کبھی جانوروں کا پلہ بھاری ہو جاتا اور کبھی پرندوں کا۔ مکار چمگادڑ جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو وہ اُن کے ساتھ مل جاتی اور کہتی چونکہ میں بچے دیتی ہوں اور اپنے بچوں کو دودھ بھی پلاتی ہوں،اس لئے میں بھی جانور ہوں اور پھر جب کبھی وہ پرندوں کا پلڑا بھاری دیکھتی تو وہ پرندوں میں شامل ہو جاتی اور کہتی چونکہ میں ہوا میں اُڑتی ہوں اور میرے پر بھی ہیں،اس لئے میں تمہاری طرح کا ایک پرندہ ہوں۔ (جاری ہے) یوں مکار چمگادڑ کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر شامل ہوتی رہی۔ آخرکار لڑائی جانوروں نے جیت لی۔یہ صورتحال دیکھ کر چمگادڑ جانوروں کی طرف آ گئی تاکہ اُن کے ساتھ مل کر فتح کی خوشی منائے۔ مگر اُس کی خوشی تب خاک میں مل گئی جب جانوروں نے اُس کو یہ کہہ کر نکال دیا کہ تم ایک پرندہ ہو کیونکہ تم ہوا میں اُڑتی ہو اور تمہارے پر بھی ہیں۔ تب چمگادڑ جلدی جلدی پرندوں کے پاس آئی تاکہ اُن کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکے مگر اب پرندے بھی اُس کی چالاکی سمجھ چکے تھے ۔اُنہوں نے بھی اُسے یہ کہہ کر اپنے گروہ سے نکال دیا کہ تم پرندہ نہیں ہو بلکہ ایک جانور ہو کیونکہ تم بچے دیتی ہو اور اپنے بچوں کو دودھ بھی پلاتی ہو،اس لئے پرندوں میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوئی اور شرمندگی کے مارے جنگل ہی چھوڑ گئی۔وہ دن اور آج کا دن چمگادڑ آج تک کبھی دن کی روشنی میں دنیا والوں کے سامنے نہیں آئی۔وہ ہمیشہ اندھیرے کے وقت باہر آتی ہے تاکہ دنیا والوں سے نظریں بچا کر مزید شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ عزیز دوستو!زندگی میں کبھی بھی منافقت اور چالاکی سے کام نہیں لینا چاہیے۔جس کے ساتھ تعلق بناؤ پھر اُس کے ساتھ خلوص اور وفاداری کا ثبوت دو ورنہ لوگ چمگادڑ کہیں گے۔
ثروت یعقوب،لاہور یہ تم نے کیسی صفائی کی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ صفائی کی ہی نہیں۔تنخواہ لینے کا پتہ ہے بس کام کرتی نہیں ڈھنگ سے۔بیگم شازیہ ادریس احمد ملازمہ پر برس رہی تھیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی یہ روز کی عادت تھی۔جتنی دیر ملازمہ کام کرتی وہ اس کو مسلسل کچھ نہ کچھ کہتی رہتی۔ کبھی انہیں کسی ملازمہ کی صفائی پسند نہیں آئی تھی۔وہ ایک انتہائی دولت مند خاتون تھیں اور وہ غریبوں کو نیچ اور ذلیل خیال کرتی تھیں۔ارے یہ تو نے کیا کیا؟چارپائی ناپاک کر دی میری اُٹھا اپنے بچے کو۔ ثائمہ ایک دم لرز کر رہ گئی۔اس کی آنکھوں میں اپنی کم مائیگی کا احساس آنسو بن کر چمکنے لگا۔دراصل ثائمہ نے اپنی گود میں موجود دو سالہ بچے کو راہ داری میں بچھی ایک چارپائی پر لٹا دیا تھا۔ (جاری ہے) امی جان کیا ہوا؟لیٹا رہنے دیں نا بچے کو،کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی شادی شدہ بیٹی کو ایک دم ترس آ گیا۔جاؤ تم لے جاؤ اپنے گھر․․․․․وہاں لٹا دو اپنی چارپائی پر․․․․مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب برداشت۔ بیگم صاحبہ نے بیٹی کو بھی کھری کھری سنا دیں۔ثائمہ نے آنسو پونچھ کر بچے کو اُٹھا لیا۔ او کام والی!آج کیاریوں کی صفائی کر دینا اچھے طریقے سے۔بیگم صاحبہ ثائمہ کو حکم دے کر کمرے میں چلی گئیں۔ثائمہ لفظ کام والی سن کر تڑپ کر رہ گئی تھی۔جانے کیوں اسے اس لفظ سے چڑ سی ہو گئی تھی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ زندگی میں پہلی بار کسی کے ہاں ملازمت کر رہی تھی۔ اپنا نام صرف کام والی سن کر وہ تڑپ جاتی تھی۔ایک بار اس نے بیگم صاحبہ کا اچھا موڈ دیکھ کر ان سے درخواست کی کہ وہ کام والی کہنے کے بجائے اس کا نام لے لیا کریں۔ہائے ہائے․․․․․بڑے پر پُرزے نکل آئے ہیں تم ملازموں کے۔کام والی نہ کہوں تو میڈم کہوں؟وہ ایک دم برس پڑیں اور ثائمہ نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ثائمہ کو اسی دوران کسی اور جگہ ملازمت مل ہی گئی۔اب اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔یہاں اسے کام والی کہہ کر نہیں پکارا جاتا تھا۔بیگم صاحبہ اسے نام لے کر پکارتیں اور ان کے بچے اسے خالہ جی کہا کرتے۔بیگم صاحبہ اس سے یا اس کے بچوں سے گھن نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کی دل جوئی کرتیں اور وقتاً فوقتاً اس کی مدد بھی کرتی رہتی تھیں۔ آج اسے یہاں کام کرتے ہوئے 12 سال ہونے کو آئے تھے۔ثائمہ کام سے فارغ ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ ایک برقع پوش خاتون اس گھر میں داخل ہوئی اور بیگم صاحبہ سے ملازمت کیلئے کچھ بات چیت کرنے لگی۔بیگم صاحبہ کو چونکہ اس وقت کسی ملازمہ کی ضرورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے انکار کر دیا مگر اس کی کچھ مدد ضرور کر دی۔ برقع والی خاتون نے بہت انکار کیا مگر بیگم صاحبہ نے کچھ رقم زبردستی اس کے ہاتھ میں تھما دی جس پر اس خاتون کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ آخر وہ خاتون اُٹھی اور واپس جانے کیلئے برقع کی چادر درست کرنے لگی۔اب ثائمہ کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو وہ دم بخود رہ گئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔یہ وہی عورت تھی وسیع و عریض کوٹھی کی مالکن۔غریبوں سے نفرت اور گھن کرنے والی۔ملازموں کو نیچ خیال کرنے والی۔ثائمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حیران تھی۔آخر وہ اس عورت کے ساتھ ہی باہر نکلی۔ سنیں!ثائمہ نے اسے پکارا۔وہ چونک کر مڑی۔ثائمہ چونکہ نقاب میں تھی اس لئے وہ اسے نہ پہچان سکی۔آپ کو ملازمت کی ضرورت ہے،میں آپ کو ایک گھر میں ملازمت دلوا دیتی ہوں۔ثائمہ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔وہ خوشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ ثائمہ اسے لے کر ایک بڑے سے گھر تک آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دن پہلے ثائمہ کو اس گھر سے ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی مگر ثائمہ اتنی اچھی جگہ سے ملازمت چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہتی تھی اس لئے انکار کر دیا تھا۔اب وہ بارہ سال پہلے والی اپنی بیگم صاحبہ کو یہاں ملازمت دلوانے آئی تھی۔ آخر کچھ بات چیت کے بعد معقول تنخواہ پر اسے ملازمت مل گئی۔اسے آج ہی سے کام شروع کرنا تھا۔سو ثائمہ اسے چھوڑ کر خود واپسی کیلئے اُٹھ گئی۔کام والی۔وہ سامنے والے کمرے میں جاؤ۔ثائمہ ابھی دروازے تک ہی نہیں پہنچی تھی کہ اسے اپنے پیچھے گھر کی مالکن کی یہ آواز سنائی دی تو دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں سے نکل کر نقاب میں جذب ہو گئے تھے۔جانے یہ آنسو بارہ سال پہلے کا واقعہ یاد کرکے نکلے تھے یا بیگم صاحبہ کے ساتھ ہونے والے مکافات عمل پر۔
ھٹکھٹایا۔ کچھ دن پہلے ثائمہ کو اس گھر سے ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی مگر ثائمہ اتنی اچھی جگہ سے ملازمت چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہتی تھی اس لئے انکار کر دیا تھا۔اب وہ بارہ سال پہلے والی اپنی بیگم صاحبہ کو یہاں ملازمت دلوانے آئی تھی۔ آخر کچھ بات چیت کے بعد معقول تنخواہ پر اسے ملازمت مل گئی۔اسے آج ہی سے کام شروع کرنا تھا۔سو ثائمہ اسے چھوڑ کر خود واپسی کیلئے اُٹھ گئی۔کام والی۔وہ سامنے والے کمرے میں جاؤ۔ثائمہ ابھی دروازے تک ہی نہیں پہنچی تھی کہ اسے اپنے پیچھے گھر کی مالکن کی یہ آواز سنائی دی تو دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں سے نکل کر نقاب میں جذب ہو گئے تھے۔جانے یہ آنسو بارہ سال پہلے کا واقعہ یاد کرکے نکلے تھے یا بیگم صاحبہ کے ساتھ ہونے والے مکافات عمل پر
۔ملازمت مل گئی۔اسے آج ہی سے کام شروع کرنا تھا۔سو ثائمہ اسے چھوڑ کر خود واپسی کیلئے اُٹھ گئی۔کام والی۔وہ سامنے والے کمرے میں جاؤ۔ثائمہ ابھی دروازے تک ہی نہیں پہنچی تھی کہ اسے اپنے پیچھے گھر کی مالکن کی یہ آواز سنائی دی تو
ok