Urdu Stories With author Tanveer Kurd.

5000 Words
ثروت یعقوب،لاہور یہ تم نے کیسی صفائی کی ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ صفائی کی ہی نہیں۔تنخواہ لینے کا پتہ ہے بس کام کرتی نہیں ڈھنگ سے۔بیگم شازیہ ادریس احمد ملازمہ پر برس رہی تھیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی یہ روز کی عادت تھی۔جتنی دیر ملازمہ کام کرتی وہ اس کو مسلسل کچھ نہ کچھ کہتی رہتی۔ کبھی انہیں کسی ملازمہ کی صفائی پسند نہیں آئی تھی۔وہ ایک انتہائی دولت مند خاتون تھیں اور وہ غریبوں کو نیچ اور ذلیل خیال کرتی تھیں۔ارے یہ تو نے کیا کیا؟چارپائی ناپاک کر دی میری اُٹھا اپنے بچے کو۔ ثائمہ ایک دم لرز کر رہ گئی۔اس کی آنکھوں میں اپنی کم مائیگی کا احساس آنسو بن کر چمکنے لگا۔دراصل ثائمہ نے اپنی گود میں موجود دو سالہ بچے کو راہ داری میں بچھی ایک چارپائی پر لٹا دیا تھا۔ (جاری ہے) امی جان کیا ہوا؟لیٹا رہنے دیں نا بچے کو،کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی شادی شدہ بیٹی کو ایک دم ترس آ گیا۔جاؤ تم لے جاؤ اپنے گھر․․․․․وہاں لٹا دو اپنی چارپائی پر․․․․مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب برداشت۔ بیگم صاحبہ نے بیٹی کو بھی کھری کھری سنا دیں۔ثائمہ نے آنسو پونچھ کر بچے کو اُٹھا لیا۔ او کام والی!آج کیاریوں کی صفائی کر دینا اچھے طریقے سے۔بیگم صاحبہ ثائمہ کو حکم دے کر کمرے میں چلی گئیں۔ثائمہ لفظ کام والی سن کر تڑپ کر رہ گئی تھی۔جانے کیوں اسے اس لفظ سے چڑ سی ہو گئی تھی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ زندگی میں پہلی بار کسی کے ہاں ملازمت کر رہی تھی۔ اپنا نام صرف کام والی سن کر وہ تڑپ جاتی تھی۔ایک بار اس نے بیگم صاحبہ کا اچھا موڈ دیکھ کر ان سے درخواست کی کہ وہ کام والی کہنے کے بجائے اس کا نام لے لیا کریں۔ہائے ہائے․․․․․بڑے پر پُرزے نکل آئے ہیں تم ملازموں کے۔کام والی نہ کہوں تو میڈم کہوں؟وہ ایک دم برس پڑیں اور ثائمہ نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ثائمہ کو اسی دوران کسی اور جگہ ملازمت مل ہی گئی۔اب اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔یہاں اسے کام والی کہہ کر نہیں پکارا جاتا تھا۔بیگم صاحبہ اسے نام لے کر پکارتیں اور ان کے بچے اسے خالہ جی کہا کرتے۔بیگم صاحبہ اس سے یا اس کے بچوں سے گھن نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کی دل جوئی کرتیں اور وقتاً فوقتاً اس کی مدد بھی کرتی رہتی تھیں۔ آج اسے یہاں کام کرتے ہوئے 12 سال ہونے کو آئے تھے۔ثائمہ کام سے فارغ ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ ایک برقع پوش خاتون اس گھر میں داخل ہوئی اور بیگم صاحبہ سے ملازمت کیلئے کچھ بات چیت کرنے لگی۔بیگم صاحبہ کو چونکہ اس وقت کسی ملازمہ کی ضرورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے انکار کر دیا مگر اس کی کچھ مدد ضرور کر دی۔ برقع والی خاتون نے بہت انکار کیا مگر بیگم صاحبہ نے کچھ رقم زبردستی اس کے ہاتھ میں تھما دی جس پر اس خاتون کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ آخر وہ خاتون اُٹھی اور واپس جانے کیلئے برقع کی چادر درست کرنے لگی۔اب ثائمہ کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو وہ دم بخود رہ گئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔یہ وہی عورت تھی وسیع و عریض کوٹھی کی مالکن۔غریبوں سے نفرت اور گھن کرنے والی۔ملازموں کو نیچ خیال کرنے والی۔ثائمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حیران تھی۔آخر وہ اس عورت کے ساتھ ہی باہر نکلی۔ سنیں!ثائمہ نے اسے پکارا۔وہ چونک کر مڑی۔ثائمہ چونکہ نقاب میں تھی اس لئے وہ اسے نہ پہچان سکی۔آپ کو ملازمت کی ضرورت ہے،میں آپ کو ایک گھر میں ملازمت دلوا دیتی ہوں۔ثائمہ نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔وہ خوشی سے اس کے ساتھ چل دی۔ ثائمہ اسے لے کر ایک بڑے سے گھر تک آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دن پہلے ثائمہ کو اس گھر سے ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی مگر ثائمہ اتنی اچھی جگہ سے ملازمت چھوڑ کر کہیں اور نہیں جانا چاہتی تھی اس لئے انکار کر دیا تھا۔اب وہ بارہ سال پہلے والی اپنی بیگم صاحبہ کو یہاں ملازمت دلوانے آئی تھی۔ آخر کچھ بات چیت کے بعد معقول تنخواہ پر اسے ملازمت مل گئی۔اسے آج ہی سے کام شروع کرنا تھا۔سو ثائمہ اسے چھوڑ کر خود واپسی کیلئے اُٹھ گئی۔کام والی۔وہ سامنے والے کمرے میں جاؤ۔ثائمہ ابھی دروازے تک ہی نہیں پہنچی تھی کہ اسے اپنے پیچھے گھر کی مالکن کی یہ آواز سنائی دی تو دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں سے نکل کر نقاب میں جذب ہو گئے تھے۔جانے یہ آنسو بارہ سال پہلے کا واقعہ یاد کرکے نکلے تھے یا بیگم صاحبہ کے ساتھ ہونے والے مکافات عمل پر۔ وزیہ ظفر چکوال مما مجھے قلفی کھانی ہے پلیز لا دیں نا مما دیکھیں نا اب تو موسم بھی ختم ہونے والا ہے اور میں نے اب تک قلفی نہیں کھائی۔میں نے تم کو کتنی دفعہ کہا ہے ضد نہ کیا کرو قلفی سے تمہارا گلا خراب ہو جاتا ہے۔ مما پلیز صرف ایک بار لے دیں۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو قلفی تمہارے لئے ٹھیک نہیں۔مما یہ بھی تو کھا رہا ہے اس نے اپنے پاس بیٹھے بھائی منیب کی طرف اشارہ کرکے کہا۔مما بس یہ ایک چھوٹی سی خواہش ہے۔کوئی اور چیز کھا لو یہ لو سیب کھا لو نہیں مما مجھے بس آخری بار قلفی لا دیں۔ میکائیل زینب پہلے بھی تم بے جا ضد کی وجہ سے اپنا کافی نقصان کر چکی ہو میں تمہیں کتنا منع کرتی تھی کہ اتنا میٹھا نہ کھایا کرو مگر تم نے میری ایک نہیں مانی اور اپنی اس ضد کی وجہ سے اپنے سارے دانت کھو چکی ہو۔ (جاری ہے) مما آپ ہمیشہ مجھے ہی برا بھلا کہا کریں یہ منیب کو آپ نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ یہ تمہاری طرح ضد نہیں کرتا فوراً مان لیتا ہے۔مگر تم اپنی بے جا ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو۔چلو شاباش اپنے کمرے میں جاؤ اور قلفی کا خیال دل سے نکال دو۔ لیکن میں ہر حال میں آج قلفی کھا کر ہی رہوں گی وہ دل میں سوچ رہی تھی لیکن میں پیسے کہاں سے لوں گی۔ آئیڈیا مما کے پرس سے لیتی ہوں اوہو چوری کرنا تو گناہ ہے پھر مما بولے گی کہ میکائیل چور ہے اور اللہ میاں بھی گناہ دیں گے چلو بعد میں مما کو بتا دوں گی۔اسے پیسوں کیلئے زیادہ محنت کی ضرورت نہ کرنی پڑی کچن میں رکھے ہوئے پیسے اُٹھا کر وہ گھر سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کرنے لگی۔ جلد ہی اسے موقع مل گیا۔ وہ سب سے نظریں بچا کر قلفی والی دکان پر پہنچ گئی۔ اُف کتنا مزہ آئے گا مما تو کہتی تھی کہ میری طبیعت خراب ہو جائے گی بلکہ میری طبیعت تو ٹھیک ہو رہی ہے۔ایک اور لے لیتی ہوں پھر نجانے کب نصیب ہوں اُف ہائے کتنی اچھی ہے۔ میری طبیعت کو تو کچھ بھی نہیں ہوا وہ ہر بار ہی سوچ کر قلفی کھاتے رہی کہ بس اب آخری مگر ہر بار اس کا دل اور کھانے کو مچل اُٹھا بالآخر پیسے ختم ہو گئے وہ گھر کی طرف چل پڑی لیکن راستے میں ہی اس کے گلے میں درد شروع ہو گیا۔ ہائے اللہ اب کیا ہو گا مما تو مجھے مارے گی۔ انہیں پتا چل جائے گا کہ میں نے قلفی کھائی ہے نہیں مجھے گھر نہیں جانا مما مجھے ماریں گی انہوں نے مجھے قلفی کھانے سے منع کیا تھا گھر گئی تو مما تو مجھے سخت مارے گی مجھے یہیں رہنا ہے گھر نہیں جانا ہائے سانپ سانپ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ مسلسل چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور روتے روتے ہی بے ہوش ہو گئی۔اُدھر فریال ملک نے رو رو کر سارا گھر سر پر اُٹھا رکھا تھا۔یا اللہ میری میکائیل جہاں کہیں بھی ہو اسے خیریت سے رکھنا۔میرے مولا میری بیٹی کی حفاظت کرنا۔عفان ملک نے پولیس کو اطلاع کر دی جگہ جگہ جا کر خود ڈھونڈا مگر میکائیل زینب نہ ملی۔ جس دن سے میکائیل غائب تھی اُس دن سے فریال ملک نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ منیب احمد فریال کی حالت دیکھ کر رو پڑتا اور دل سے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کو اُٹھا کر اپنی آپی کے ملنے کی دعا کرتا ایسے ہی آپی کو لگتا تھا کہ مما اس سے پیار نہیں کرتی بلکہ مما تو اس کو مجھ سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہے۔ تبھی دروازے پر بیل ہوئی عفان دروازے پر گیا۔ وہ پولیس والوں نے میکائیل کو اُٹھا رکھا تھا۔بابا میکائیل عفان ملک کو دیکھ کر فوراً بھاگ کر اُتری اور پاس کھڑی فریال کے گلے لگ گئی۔مما میں اب کبھی بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی۔ مما میں جان گئی ہوں کہ آپ میری بھلائی کیلئے ہی مجھے ڈانٹتی ہیں اب میں کبھی بھی ضد نہیں کروں گی۔ میں اپنی ضد کی وجہ سے پہلے بھی بہت نقصان اُٹھا چکی ہوں مگر اب نہیں مما آپ کی اور پاپا کی دعاؤں نے مجھے بچا لیا ورنہ وہ بردہ فروش مجھے مار ہی ڈالتے بس مما میں اب کبھی بھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی اور آپ کی ہر بات مانوں گی تاکہ سب بھائی کی طرح مجھ سے پیار کریں۔ محمد ابو بکر ساجد․․․․پھولنگر پیارے بچو!ایک جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اُن میں ایک زرافہ بھی تھا جو قد کاٹھ اور ڈیل ڈول میں بہت بڑا تھا۔ایک دن اچانک شیر نے اپنی خوراک بنانے کیلئے اُس پر حملہ کر دیا۔ زرافہ کی گردن چونکہ بہت لمبی ہوتی ہے،اُسے شہ رگ سے نہیں پکڑا جا سکتا تھا۔ اسی لئے شیر نے اُس پر پیچھے سے حملہ کیا۔اُس کی کھال بھی سخت تھی جس کی وجہ سے اُس کی کھال کو نقصان نہ پہنچا۔بلکہ اُلٹا زرافے نے شیر کو ایک ٹانگ مار دی۔ ٹانگ سیدھی شیر کے سینے میں لگی اور وہ گر کر تڑپنے لگا۔زرافے نے غصے میں اُس پر اپنی ٹانگ سے دوسرا حملہ کیا جس سے شیر وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔اب زرافہ غرور سے اَکڑنے لگا کہ اُس نے شیر کو مار دیا ہے،دوسرے جانور اُسے حقیر لگنے لگے تھے۔ (جاری ہے) وہ اُنہیں اُلٹے سیدھے ناموں سے پکارنے لگا۔سب جانوروں پر زرافے کی دہشت طاری تھی۔ایک دن چند جانور لومڑی کے پاس آئے اور اُس سے زرافہ کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کی کہ وہ زرافے کی دہشت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ اب تو دوسرے شیر بھی اُس سے ڈرنے لگے تھے۔ زیبرا نے روتے ہوئے کہا:بی لومڑی زرافہ مجھے لائنوں والا گدھا کہتا ہے،یہ بھی کہتا ہے کہ تم میں اور گدھے میں کوئی فرق نہیں ہے صرف لائنوں کی وجہ سے تم عقل مند نہیں بن سکتے۔ گدھے نے کہا زرافہ مجھے ڈھینچوں ڈھینچوں کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جانوروں میں سب سے بیوقوف ہوں۔ ہرنی نے کہا!بی لومڑی زرافہ مجھے بکری کے خاندان سے ملاتا ہے۔ اونٹ نے منہ اونچا کیا اور کہنے لگا:زرافے نے مجھے کہا کہ میری طرح بن جانے سے تم بہادر نہیں بن سکتے۔مجھے تو تم بیمار لگتے ہو،دیکھو یہ پھوڑا ہے جسے تم کوہان کہتے ہو۔ بس بس سب چپ کرو‘زرافے کی سب باتیں اُسے مغرور ثابت کرتی ہیں،مجھے اس کا بندوبست کرنا ہو گا۔لومڑی نے کہا۔کچھ سوچتے ہوئے لومڑی دانستہ زرافہ کے سامنے گئی۔زرافے کا دھیان اُس کی طرف گیا ہی تھا کہ لومڑی زور زور سے ہنستی ہوئی ایک طرف چلی گئی زرافے کو بہت غصہ آیا۔ اگلے دن پھر یہی ہوا۔لومڑی نے اُسے دیکھا تو زرافہ اور بھی تلملایا دو چار دن چھوڑ کر لومڑی نے پھر یہی کیا جس سے زرافہ آگ بگولہ ہو گیا کہ دو چار دن سے لومڑی مجھے دیکھ کر کیوں ہنستی ہے۔آخر اُس نے لومڑی سے کہا کہ ”تم میری طرف دیکھ کر ہنستی کیوں ہو؟“ اس پر لومڑی نے کہا:”جناب جنگل میں جانور طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ ایک خوبصورت‘بے ڈھنگا دراز قد لمبی سی گردن‘چھوٹا سا منہ‘چار ٹیڑھے پیر‘اتنا بڑا بدن اور چھوٹی سی دم والا ایک جانور ہے،میں جب تمہیں دیکھتی ہوں تو مجھے ہنستی آ جاتی ہے۔ ویسے تمام جانور سچ کہتے ہیں ذرا ٹھہرو گے میں اپنے بچوں کو لے آؤں وہ بھی تمہیں دیکھ کر ہنس لیں۔ زرافے کو احساس ہوا کہ واقعی میں خوبصورت ہوں جو اتنے جانور مجھے دیکھ کر باتیں کرتے ہیں۔لومڑی اپنے بچوں کو لے کر آئی وہ بھی اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ وہ زرافے کو لے کر جھیل پر گئی۔وہ پانی میں اپنا عکس دیکھ کر شرمندگی محسوس کرنے لگا اُس نے دل میں سوچا کہ آج کے بعد کسی کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا نہ ہی کسی کا مذاق اُڑاؤں گا ہم سب جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے پھر مذاق کیسا؟ محمد ابو بکر ساجد․․․․پھولنگر پیارے بچو!ایک جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اُن میں ایک زرافہ بھی تھا جو قد کاٹھ اور ڈیل ڈول میں بہت بڑا تھا۔ایک دن اچانک شیر نے اپنی خوراک بنانے کیلئے اُس پر حملہ کر دیا۔ زرافہ کی گردن چونکہ بہت لمبی ہوتی ہے،اُسے شہ رگ سے نہیں پکڑا جا سکتا تھا۔ اسی لئے شیر نے اُس پر پیچھے سے حملہ کیا۔اُس کی کھال بھی سخت تھی جس کی وجہ سے اُس کی کھال کو نقصان نہ پہنچا۔بلکہ اُلٹا زرافے نے شیر کو ایک ٹانگ مار دی۔ ٹانگ سیدھی شیر کے سینے میں لگی اور وہ گر کر تڑپنے لگا۔زرافے نے غصے میں اُس پر اپنی ٹانگ سے دوسرا حملہ کیا جس سے شیر وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔اب زرافہ غرور سے اَکڑنے لگا کہ اُس نے شیر کو مار دیا ہے،دوسرے جانور اُسے حقیر لگنے لگے تھے۔ (جاری ہے) وہ اُنہیں اُلٹے سیدھے ناموں سے پکارنے لگا۔سب جانوروں پر زرافے کی دہشت طاری تھی۔ایک دن چند جانور لومڑی کے پاس آئے اور اُس سے زرافہ کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کی کہ وہ زرافے کی دہشت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ اب تو دوسرے شیر بھی اُس سے ڈرنے لگے تھے۔ زیبرا نے روتے ہوئے کہا:بی لومڑی زرافہ مجھے لائنوں والا گدھا کہتا ہے،یہ بھی کہتا ہے کہ تم میں اور گدھے میں کوئی فرق نہیں ہے صرف لائنوں کی وجہ سے تم عقل مند نہیں بن سکتے۔ گدھے نے کہا زرافہ مجھے ڈھینچوں ڈھینچوں کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جانوروں میں سب سے بیوقوف ہوں۔ ہرنی نے کہا!بی لومڑی زرافہ مجھے بکری کے خاندان سے ملاتا ہے۔ اونٹ نے منہ اونچا کیا اور کہنے لگا:زرافے نے مجھے کہا کہ میری طرح بن جانے سے تم بہادر نہیں بن سکتے۔مجھے تو تم بیمار لگتے ہو،دیکھو یہ پھوڑا ہے جسے تم کوہان کہتے ہو۔ بس بس سب چپ کرو‘زرافے کی سب باتیں اُسے مغرور ثابت کرتی ہیں،مجھے اس کا بندوبست کرنا ہو گا۔لومڑی نے کہا۔کچھ سوچتے ہوئے لومڑی دانستہ زرافہ کے سامنے گئی۔زرافے کا دھیان اُس کی طرف گیا ہی تھا کہ لومڑی زور زور سے ہنستی ہوئی ایک طرف چلی گئی زرافے کو بہت غصہ آیا۔ اگلے دن پھر یہی ہوا۔لومڑی نے اُسے دیکھا تو زرافہ اور بھی تلملایا دو چار دن چھوڑ کر لومڑی نے پھر یہی کیا جس سے زرافہ آگ بگولہ ہو گیا کہ دو چار دن سے لومڑی مجھے دیکھ کر کیوں ہنستی ہے۔آخر اُس نے لومڑی سے کہا کہ ”تم میری طرف دیکھ کر ہنستی کیوں ہو؟“ اس پر لومڑی نے کہا:”جناب جنگل میں جانور طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ ایک خوبصورت‘بے ڈھنگا دراز قد لمبی سی گردن‘چھوٹا سا منہ‘چار ٹیڑھے پیر‘اتنا بڑا بدن اور چھوٹی سی دم والا ایک جانور ہے،میں جب تمہیں دیکھتی ہوں تو مجھے ہنستی آ جاتی ہے۔ ویسے تمام جانور سچ کہتے ہیں ذرا ٹھہرو گے میں اپنے بچوں کو لے آؤں وہ بھی تمہیں دیکھ کر ہنس لیں۔ زرافے کو احساس ہوا کہ واقعی میں خوبصورت ہوں جو اتنے جانور مجھے دیکھ کر باتیں کرتے ہیں۔لومڑی اپنے بچوں کو لے کر آئی وہ بھی اُسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ وہ زرافے کو لے کر جھیل پر گئی۔وہ پانی میں اپنا عکس دیکھ کر شرمندگی محسوس کرنے لگا اُس نے دل میں سوچا کہ آج کے بعد کسی کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا نہ ہی کسی کا مذاق اُڑاؤں گا ہم سب جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے پھر مذاق کیسا؟ سیدہ نازاں جبیں رامین روتے روتے سو گئی تھی،کیونکہ اس کی گڑیا کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ گڑیا کے کپڑے بالکل ٹھیک تھے۔اچانک اس کے کمرے کی کھڑکی پر دو پرندے آ کر بیٹھ گئے۔ رامین پرندوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔یہ دونوں درزی پرندے کہلاتے ہیں۔انھوں نے کہا:”اچھی رامین!یہ کپڑے ہم نے سیے ہیں۔“ ”کیا واقعی تمہیں سلائی آتی ہے؟“رامین نے ان پرندوں سے پوچھا۔ ”بالکل آتی ہے،تبھی تو ہمیں درزی پرندہ کہا جاتا ہے۔ “درزی پرندے نے جواب دیا۔ ”اچھا!تو تم اپنا گھونسلا بھی سلائی کرکے ہی بناتے ہو گے۔ذرا مجھے بھی تو بتاؤ کہ کیسے بناتے ہو تم اپنا گھونسلا؟“رامین نے دلچسپی سے پوچھا۔ مادہ پرندے نے بتایا:”سب سے پہلے تو ہم دونوں مل کر پتے جمع کرتے ہیں،پھر میں اپنے پیروں سے انھیں قریب لا کر اپنی تیز چونچ سے ان کے کنارے ملاتی ہوں اور پھر ان پتوں میں سوراخ کرکے مکڑی کے جالے،خشک گھاس پھوس،روئی وغیرہ کو دھاگے کی شکل دے کر اس سے پتوں کو سیتی ہوں۔ (جاری ہے) “ ”اور سوئی کہاں سے لاتی ہو؟“رامین نے اہم سوال کیا۔ ”ہماری چونچ لمبی اور باریک ہوتی ہے۔ہم اسی سے سوئی کا کام لیتے ہیں۔پتوں کو ایک ساتھ ملا کر اور ان میں ٹانکے لگا کر ایک پیالے کی شکل دے دیتی ہوں۔“ مادہ پرندے نے جواب دیا۔ ”لیکن تم بغیر ناپ کے کیسے گھونسلا سی لیتی ہو؟“ رامین نے تجسس سے سوال کیا۔”پہلے میں خود کو ایک پتے میں لپیٹ کر دیکھتی ہوں،اگر ناپ ٹھیک نہیں ہوتا تو ایک یا دو پتے اور جوڑ لیتی ہوں اور پھر مزید اسی جسامت کے پتوں کو جمع کرکے سلائی کا کام شروع کرتی ہوں۔ “ مادہ درزی پرندے نے فخر سے بتایا۔”تم یا تمہارے بچوں کے بیٹھنے سے گھونسلا ٹوٹ نہیں جاتا؟“رامین نے پوچھا۔ ”ہم بہت احتیاط سے چوڑے،مضبوط اور لچکدار پتوں کا انتخاب کرتے ہیں،تاکہ ہمارے گھر کی بناوٹ بھی اچھی ہو اور وہ مضبوط بھی ہوں۔ “ نَر پرندے نے رامین کی اُلجھن دور کی۔”اور اگر کسی وجہ سے تمہارا گھونسلا ٹوٹ جائے یا خراب ہو جائے تو پھر کیا کرتے ہو؟“ ”کسی نقصان یا ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں اپنے گھر کی مرمت میں خود کرتی ہوں۔مزید پتے لا کر یا ٹانکے لگا کر اسے جوڑ لیتی ہوں۔ “مادہ نے فخریہ اپنے ہنر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ ”اس کے علاوہ ہم گھونسلے کے اندر نرم گھاس،جانوروں کے بال اور پَر بھرتے ہیں،تاکہ گھونسلا آرام دہ اور محفوظ ہو۔“ نَر پرندے نے بتایا۔”میری مدد کرنے کا بہت شکریہ درزی پرندوں!“رامین نے کہا۔ ”کوئی بات نہیں،ہمیں ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے۔“درزی پرندوں نے خوش اخلاقی سے کہا اور اُڑ گئے۔ نوید اختر کسی دور دراز ملک میں ایک ننھی منی لڑکی اپنی امی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ان کا گھر جنگل کے قریب ہی ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا۔اس لڑکی کا نام شمائلہ تھا لیکن گاؤں کے تمام لوگ اس کو شمائلہ لال ٹوپی والی کہا کرتے تھے کیونکہ وہ ہر وقت لال رنگ کی ٹوپی پہنے رہتی تھی۔ ایک روز شمائلہ صبح سو کر اُٹھی تو اس کی امی نے کہا”بیٹی!تمہاری نانی اماں کچھ بیمار ہیں میں ایک ضروری کام کی وجہ سے آج انہیں ملنے نہیں جا سکتی۔ایسا کرو تم جا کر اپنی نانی اماں کی خیریت دریافت کر آؤ اور اس ٹوکری میں میں نے ان کے لئے کچھ پھل رکھ دیئے ہیں یہ ان کو دے آؤ۔ “شمائلہ جب پھلوں کی ٹوکری لے کر جانے لگی تو اس کی امی نے آواز دے کر کہا”دیکھو بیٹی راستے میں کسی اجنبی سے کوئی بات نہ کرنا اور سیدھی نانی اماں کے گھر جانا۔ (جاری ہے) “شمائلہ نے کہا”جی اچھا․․․․امی“نانی اماں کا گھر پورا جنگل عبور کرنے کے بعد تقریباً آخری کنارے پر تھا۔ شمائلہ لال ٹوپی والی اُچھلتی کودتی اپنے آپ میں مگن جا رہی تھی کہ ایک بھیڑیے نے اس کا راستہ روک لیا اور پوچھا:”پیاری بچی تم اتنی صبح کہاں جا رہی ہو اور تمہاری اس ٹوکری میں کیا ہے“شمائلہ بولی”میری نانی اماں بیمار ہیں میں ان کی تیمارداری کے لئے جا رہی ہوں۔ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھے جانے دو۔میری امی نے راستے میں کسی بھی اجنبی سے بات کرنے سے منع کیا تھا۔“ بھیڑیے نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر تم نانی اماں کے لئے ان جنگلی پھولوں کا ایک گلدستہ بنا کر لے جاؤ تو وہ بہت خوش ہوں گے۔ “شمائلہ کو یہ تجویز پسند آئی اور وہ جنگلی پھول توڑنے لگی۔ بھیڑیا بھاگم بھاگ نانی اماں کے دروازے پر پہنچا اور دروازے پر ہلکی سی دستک دی اندر سے نانی اماں نے پوچھا”کون ہے؟“چالاک بھیڑیے نے آواز بدل کر کہا”یہ میں ہوں نانی اماں․․․شمائلہ لال ٹوپی والی۔ “ نانی اماں بولیں”بیٹی دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ“بھیڑیے نے دروازہ کھولا اور ایک ہی جست میں نانی اماں کی چارپائی کے قریب جا کھڑا ہوا اور پلک جھپکتے میں نانی اماں کو نگل گیا۔ اب اس نے نانی اماں کے کپڑے پہنے اور ان کا کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ شمائلہ وہاں آ پہنچی۔شمائلہ نے دروازے پر دستک دی تو چالاک بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز کی نقل کرتے ہوئے پوچھا”کون ہے؟“شمائلہ بولی”یہ میں ہوں نانی اماں․․․․․شمائلہ لال ٹوپی والی”بھیڑیے نے نانی اماں کی آواز میں کہا”اندر آ جاؤ بیٹی․․․․دروازے کو کنڈی نہیں لگی ہوئی۔ “ شمائلہ دروازہ کھول کر خوش گھر کے اندر داخل ہوئی اور بولی”نانی اماں مجھے امی جان نے آپ کی خیریت دریافت کرنے بھیجا ہے اور اس ٹوکری میں انہوں نے آپ کے لئے کچھ پھل بھجوائے ہیں۔“بات کرتے کرتے شمائلہ کی نظر جب نانی اماں پر پڑی تو حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگی۔ ”آپ کے کانوں کو کیا ہوا یہ اتنے بڑے کیوں ہیں۔“ بھیڑیے نے کہا”بیٹی تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ذرا میرے قریب تو آؤ۔“شمائلہ نے بیڈ کے قریب آتے ہوئے کہا”اوہ․․․․نانی اماں آپ کی آنکھیں اس قدر بڑی کیسے ہو گئیں۔ “بھیڑیے نے کہا”بیٹی ذرا میرے اور قریب آؤ“اب شمائلہ بیڈ کے بالکل پاس آ کر بولی”آپ کے دانت بھی بہت بڑے بڑے ہیں۔“بھیڑیے نے اپنی اصل آواز میں کہا”ہاں․․․میں تمہیں کھا جاؤں گا“یہ کہتے ہی بھیڑیا نانی اماں کے بستر سے نکل کر شمائلہ کو ہڑپ کر گیا۔ شمائلہ اور نانی اماں کو کھا کر بھیڑیا اسی جھونپڑی میں لیٹ کر سو گیا۔ادھر ایک لکڑ ہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جا رہا تھا۔اچانک اسے یاد آیا کہ بوڑھی نانی اماں کافی دن سے بیمار ہیں۔لکڑ ہارے نے سوچا کیوں نہ میں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے سے پہلے نانی اماں کو ملتا جاؤں۔ یہ سوچ کر وہ نانی اماں کے گھر جا پہنچا۔وہاں اس نے دیکھا کہ نانی اماں کے بستر پر ایک نہایت خونخوار قسم کا بھیڑیا سو رہا ہے۔جب کہ وہ خود گھر میں نہیں ہیں بھیڑیے کا پھولا ہوا پیٹ دیکھ کر لکڑ ہارا سمجھ گیا کہ نانی اماں کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ اس نے تیزی سے لکڑیاں کاٹنے والا کلہاڑا نکالا اور ایک ہی وار میں بھیڑیے کے دو ٹکڑے کر دیئے۔بھیڑیے کا پیٹ پھٹتے ہی نانی اماں اور شمائلہ باہر آ گریں۔لکڑ ہارا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ دونوں صحیح سلامت تھیں۔ شمائلہ اور اس کی نانی اماں نے لکڑ ہارے کا شکریہ ادا کیا۔اور شمائلہ خوشی خوشی اپنے گھر واپس روانہ ہو گئی لیکن اس دن کے بعد کبھی شمائلہ نے کسی اجنبی سے بات نہ کی۔ تیمور جان،بہلم پٹھان اکبر اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔والد موچی تھے۔اکبر سرکاری سکول میں پڑھتا تھا۔اسے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔وہ ہر وقت سوچتا تھا کہ کاش!میں کسی ملک کا راجا ہوتا۔میں بہت امیر ہوتا،جو چاہتا وہ کرتا۔ وہ اکثر خواب دیکھتا کہ وہ راجا بن گیا ہے۔سب اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔عالیشان محل ہے،جہاں وہ ہیرے جواہرات کے تخت پر بیٹھا ہے،مگر جب وہ اُٹھتا ہے تو خود کو اس چارپائی پر پاتا۔ ایک دن اکبر اپنے گھر کے قریب جنگل میں گیا۔ اچانک اس نے ایک بلی دیکھی۔اس نے دیکھا کہ بلی کے پیر میں کوئی نوکیلی چیز چبھی ہوئی ہے۔وہ بلی کے پیر سے نوک دار چیز نکالتا ہے تو وہ بلی ایک خوبصورت پری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔وہ پری کہتی ہے:”تم نے جادوئی تیر نکال کر مجھے آزاد کرایا۔ (جاری ہے) میں تمہاری احسان مند ہوں۔اس لئے تمہاری کوئی دو خواہش پوری کروں گی۔“ اکبر جلدی سے کہتا ہے کہ مجھے کسی ملک کا راجا بنا دو۔ پری نے کہا:”آنکھیں بند کرو۔“ اکبر نے آنکھیں کھولیں تو وہ حیران رہ جاتا ہے وہ تخت پر بیٹھا ہے۔ سب درباری اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔ایک درباری کہتا ہے:”حضور والا!آپ کے لئے کھانا تیار ہے۔“ کھانا دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔اتنا لذیذ کھانا اس نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا،مگر اس کے ساتھ کئی مسئلے درپیش آتے ہیں۔ لوگ اس کے پاس اپنے جھگڑوں کے فیصلے کرانے آنے لگے،مگر وہ درست فیصلے نہیں کر پاتا۔زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے وہ بیمار رہنے لگا۔اکبر نظام حکومت صحیح طریقے سے سنبھال نہیں پایا،اس لئے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کے ملک کی کمزور حالت دیکھ کر حملہ کر دیا۔ اکبر کو جنگ میں لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا،اس لئے وہ ہار گیا۔پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اسے قید کر لیا۔اسے لذیذ کھانے کے بجائے جیل کا باسی کھانا ملتا ہے۔وہ اپنے والدین کو اپنے گھر کو یاد کرتا ہے۔جہاں پر اسے کوئی مشکل نہیں تھی۔ اس کی طبیعت ٹھیک رہتی تھی۔ اسے کھانے کو خالص غذا ملتی تھی۔اسے پری کی بات یاد آئی۔اس نے مشرق کی طرف منہ کرکے تین تالیاں بجائیں۔پری آئی تو اس نے کہا:”مجھے پہلے جیسا بنا دو۔“ پری نے کہا:”آنکھیں بند کرو۔“ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ وہ اسی جنگل میں ہے،اب پچھتاوے کیا ہوت،جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ محمد عمر امتیاز میرا گھر ایک بہت خوبصورت اور سرسبز علاقے میں ہے،جہاں پھولوں سے لدے ہوئے درخت اور خوشنما پودے ہیں۔گھر کے قریب بھی ایک بڑا سا درخت ہے۔کچھ عرصے پہلے اس پر نہ جانے کہاں سے ایک بندر آ کر درخت پر رہنے لگا۔ محلے کے بچے اس سے بہت خوش رہتے،کیونکہ بندر نے کبھی انھیں تنگ نہیں کیا،بلکہ اپنی نت نئی شرارتوں سے وہ بچوں کا دل بہلاتا۔میری اپنی گیارہ سالہ بیٹی منہل اور دو سالہ بیٹا علی اس کو کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتے رہتے،مگر مجھے بندر سے نہ جانے کیوں چڑ تھی۔ میں اکثر اپنے شوہر سے کہتی:”محلے والوں سے کہہ کر اس بندر کو کہیں چھوڑ آئیں۔“ میرے شوہر ناراضی سے کہتے:”اس بے چارے نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا،تمہیں اس سے نہ جانے کیا بیر ہے۔ (جاری ہے) “ میں کہتی:”اچھا کم از کم بچوں کے کمرے کی کھڑکی میں جالی وغیرہ ہی لگوا دیں۔ “ وہ درخت بچوں کے کمرے کے قریب ہی تھا،جس پر بندر بیٹھا رہتا تھا۔میں اکثر تازہ ہوا کے لئے کھڑکی کے پٹ کھول دیا کرتی تھی۔ میرے شوہر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا:”کیا کبھی بندر اندر آیا یا کمرے میں گھس کر کوئی نقصان پہنچایا؟“ان کی مرضی دیکھ کر میں بھی خاموش ہو گئی۔ چند دن بعد حسب معمول منہل سکول اور شوہر آفس گئے ہوئے تھے۔علی سو رہا تھا اور میں باورچی خانے کے کاموں میں مصروف تھی کہ اچانک علی کے چیخنے کی آواز آئی۔میں فوراً کمرے کی طرف بھاگی۔کمرے کا منظر دیکھ کر میں سکتے میں کھڑی رہ گئی۔ اس منظر نے مجھے اپنا ایک منفی خیال ہمیشہ کے لئے بدلنے پر مجبور کر دیا۔بندر نے تقریباً دو فیٹ کا سانپ دُم سے پکڑ رکھا تھا اور اس کا سر فرش پر پٹخ پٹخ کر مار رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں سانپ بے جان ہو گیا۔اچانک علی کی آواز سن کر میں ہوش کی دنیا میں واپس آ گئی۔ میں نے لپک کر علی کو گود میں لے لیا۔ بندر نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔اس نے کھڑکی سے باہر چھلانگ لگائی اور باہر رکھے کوڑے دان میں سانپ پھینک کر دوبارہ درخت پر بیٹھ گیا۔علی نے بندر کو دیکھ کر تالیاں بجائیں بندر نے علی کو خوش دیکھ کر درخت پر کودنا شروع کر دیا۔میری آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ ہیں بھیڑیے کا پھولا ہوا پیٹ دیکھ کر لکڑ ہارا سمجھ گیا کہ نانی اماں کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ اس نے تیزی سے لکڑیاں کاٹنے والا کلہاڑا نکالا اور ایک ہی وار میں بھیڑیے کے دو ٹکڑے کر دیئے۔بھیڑیے کا پیٹ پھٹتے ہی نانی اماں اور شمائلہ باہر آ گریں۔لکڑ ہارا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ دونوں صحیح سلامت تھیں۔ شمائلہ اور اس کی نانی اماں نے لکڑ ہارے کا شکریہ ادا کیا۔اور شمائلہ خوشی خوشی اپنے گھر واپس روانہ ہو گئی لیکن اس دن کے بعد کبھی شمائلہ نے کسی اجنبی سے بات نہ کی۔ تیمور جان،بہلم پٹھان اکبر اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔والد موچی تھے۔اکبر سرکاری سکول میں پڑھتا تھا۔اسے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔وہ ہر وقت سوچتا تھا کہ کاش!میں کسی ملک کا راجا ہوتا۔میں بہت امیر ہوتا،جو چاہتا وہ کرتا۔ وہ اکثر خواب دیکھتا کہ وہ راجا بن گیا ہے۔سب اس کے احترام میں کھڑے ہیں۔عالیشان محل ہے،جہاں وہ ہیرے جواہرات کے تخت پر بیٹھا ہے،مگر جب وہ اُٹھتا ہے تو خود کو اس چارپائی پر پاتا۔ ایک دن اکبر اپنے گھر کے قریب جنگل میں گیا۔ اچانک اس نے ایک بلی دیکھی۔اس نے دیکھا کہ بلی کے پیر میں کوئی نوکیلی چیز چبھی ہوئی ہے۔وہ بلی کے پیر سے نوک دار چیز نکالتا ہے تو وہ بلی. ok

Great novels start here

Download by scanning the QR code to get countless free stories and daily updated books

Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD