انوار آس محمد میری گاڑی بہت پرانی ہو چکی ہے۔اس وجہ سے آئے دن خراب ہوتی رہتی ہے۔اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔گاڑی خراب تھی،اس لئے مجھے جیسے ہی تنخواہ ملی،میں گاڑی کو اپنے مکینک کے پاس لے گیا۔مہنگائی اتنی ہے کہ بہت دیکھ بھال کر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مکینک تو بہت مصروف تھا،اس لئے اس نے گاڑی اپنے ایک شاگرد کے حوالے کر دی اور میرے پاس آکر آہستہ سے کہا:”نجم صاحب!لڑکا نیا ہے،لیکن اپنے کام میں ماہر ہے۔بہت غریب ہے اس لئے میں نے کام پر رکھ لیا ہے۔“ مجھے تو کام سے دلچسپی تھی،چاہے کوئی بھی کرے۔ لڑکا گاڑی کی مرمت کرنے میں مصروف ہو گیا اور میں کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔وہ واقعی بہت مہارت سے کام کر رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد بات چیت شروع ہو گئی۔وہ بہت غریب تھا۔ (جاری ہے) ماں گھروں میں کام کرتی تھی۔باپ بے چارا فالج کا شکار تھا اور کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ ایک بہن تھی جس کی شادی کرنا تھی۔اس کی شادی کے لئے پیسے بھی جمع کرنا تھے۔میں اس کی باتیں سنتا رہا اور اس پر ترس کھاتا رہا۔اچانک آواز آئی:”اللہ کے نام پر کچھ دے دے بیٹا!“دیکھا تو ایک فقیرنی تھی جس کا ایک ہاتھ بھی کٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنا پرس نکالا۔دس روپے کا نوٹ تلاش کیا،لیکن نہیں ملا،نہ میرے پاس سکے تھے۔ ”معاف کرو اماں!“ میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ میں تو خود مہنگائی کا مارا ہوں،میں زیادہ پیسے بھیک میں نہیں دے سکتا۔فقیرنی اُداس ہو کر آگے بڑھ گئی۔ مکینک لڑکے نے جب اسے جاتے دیکھا تو آواز دے کر روکا:”اماں رکو۔“فقیرنی ٹھہر گئی اور لڑکے نے جلدی سے اپنی جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر فقیرنی کے حوالے کر دیا۔فقیرنی خوش ہو گئی اور اس کو دعا دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ میں اس غریب مکینک لڑکے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔پچاس روپے کانوٹ اُف،پچاس کا نوٹ تو میرے پرس میں بھی تھا،لیکن میں نے فقیرنی کو نہیں دیا۔ وہ غریب مکینک لڑکا بہت سخی نکلا۔غریب ہونے کے باوجود اس نے بوڑھی فقیرنی کی مدد کی۔ ”صاحب!بے چاری بوڑھی ہے ایک ہاتھ بھی نہیں ہے اس عمر میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتی۔“لڑکے نے مجھے دیکھ کر کہا۔ میں لڑکے کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا۔مجھ جیسے لوگ اپنے اوپر ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں،لیکن اگر کوئی مانگ لے تو پانچ دس روپے سے زیادہ پیسے نہیں دیتے۔مجھے لڑکے کی سخاوت پر فخر ہونے لگا اور اپنے آپ سے شرمندہ ہونے لگا۔
رخسار ملک ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شہر ایران میں ایک لکڑ ہارا رہتا تھا جو بہت غریب تھا وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا گزارا کیا کرتا تھا۔ لکڑ ہارے کی تین لڑکیاں تھیں جن سے وہ بے پناہ محبت کرتا۔ ایک دفعہ ایران میں شدید قحط سالی آئی۔ جس سے لکڑ ہارا اور اس کی بیوی موت کا نشانہ بنے جبکہ لکڑ ہارے کی تینوں لڑکیاں بے بسی اور لاچاری کا شکار تھیں۔ شدید بھوک کی وجہ سے تینوں بہنیں ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئیں۔ ایک دن مصر کا بادشاہ ایران کے دورے پر آیا۔ تینوں لڑکیوں کی حالت زار مصر کے بادشاہ کے کان میں پڑی۔ بادشاہ بہت ظالم تھا۔ اس نے اپنی جیب سے بھاری رقم نکال کر دونوں لڑکیوں کو دی اور تیسری لڑکی کو لے کر مصر کیلئے روانہ ہوا باقی دونوں کچھ نہ کر سکیں۔ (جاری ہے) محل پہنچتے ہی بادشاہ نے لڑکی کو لے کر ایک کمرے میں قید کر لیا۔ بادشاہ لڑکی پر بہت ظلم کرتا اور اس سے ہر کام کرواتا۔ لڑکی بادشاہ کے ہر کام کرتی اور کام ختم کرنے کے بعد نماز کیلئے چلی جاتی۔ ہر نماز کے بعد خدا سے دعا کرتی کہ اس ظالم بادشاہ سے اسے نجات مل جائے۔ ایک دن لڑکی سارے کام ختم کرنے کے بعد نماز کیلئے بیٹھی اور روتے ہوئے دعا مانگنے لگی بادشاہ رونے کی آواز سن کر اپنے کمرے سے باہر نکلا اور دیکھنے لگا کہ لڑکی شدید روتے ہوئے خدا سے دعا مانگ رہی ہے تو اپنے کمرے کی طرف چلا گیا جب صبح بیدار ہوا تو لڑکی کو بلایا لڑکی بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوئی اور بادشاہ لڑکی سے کہنے لگا کہ آج سے تم آزاد ہو’’جائو‘‘۔ لڑکی بادشاہ کے یہ الفاظ سن کر بے حد خوش ہوئی اور بادشاہ کے چنگل سے آزاد ہو گئی سبق:۔ نماز کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں کیونکہ نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے۔
غریب اللہ غازی پرانے زمانے کا دور تھا۔ایک شخص ٹوپیاں فروخت کرکے اپنی گزر بسر کیا کرتا تھا۔لوگ اس وقت ننگے سر پھرنا معیوب سمجھتے تھے اس لئے اپنے سروں پر ٹوپی یا پگڑی رکھتے تھے ایک دن گرمی کے موسم میں ٹوپیاں بیچنے والا دوپہر کے وقت ایک درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گیا اسے نیند آگئی۔ اس کے برابر میں ٹوپیوں سے بھرا ہوا تھیلا رکھا ہوا تھا۔جب سوکر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ٹوپیوں سے بھرا ہوا تھیلا غائب ہے۔اچانک اس کی نظر درخت کے اوپر بیٹھے ہوئے بندروں پر پڑی جہاں بندر اس کی ٹوپیوں سے کھیل رہے تھے۔ ٹوپیاں فروخت کرنے والا پریشانی میں اپنا سر کھجانے لگا۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تمام بندر اس کی نقل کرتے ہوئے اپنا اپنا سر کھجا رہے ہیں اس نے ایک دو حرکتیں اور کیں بندر اس کی ہر حرکت کی نقل کرتے رہے۔ (جاری ہے) اچانک اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اس نے اپنے سر پر سے ٹوپی اتار کر زمین پر پھینک دی۔ درخت پر موجود تمام بندروں نے اس کی نقل کرتے ہوئے اپنے اپنے سروں سے ٹوپیاں اتار کر زمین پر پھینک دیں ۔ اس طرح ٹوپیوں کے مالک نے اپنی ٹوپیوں کو جمع کیا۔تھیلے میں دوبارہ ڈال کر واپسی کی راہ لی۔کافی عرصہ بعد اسی ٹوپیاں بیچنے والے ایک ایک پوتا بھی ٹوپی فروش بن گیااس نے اپنے دادا جان سے بندروں والی کہانی سن رکھی تھی۔ اس نے بندروں کو آزمانے کے لئے ایک دن ٹوپیاں تھیلے میں ڈالیں اور دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے لیٹ گیا اس کی توقع کے عین مطابق کچھ دیر بعد بندروں نے اس کا تھیلا اٹھا لیا۔اس نے اپنے دادا کے مطابق سر کھجانا شروع کیا تو بندروں نے بھی اس کی نقل کی لیکن کچھ دوسری حرکتیں کرنے کے بعد اس نے اپنی ٹوپی زمین پر پھینکی لیکن بندروں نے اپنی ٹوپیاں نہ پھینکیں ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندر درخت سے نیچے اترا زمین پر پڑی ہوئی ٹوپی اٹھائی پھر اس نے ٹوپی فروش کے تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ بے وقوف کیا تو سمجھتاہے کہ صرف تیرا ہی دادا تھا جو تجھے کہانی سنا گیا ہمارا دادا بھی ہمیں بتا گیا کہ آئندہ کسی ٹوپی فروش کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بننا اس لئے ہم بندروں نے تمہاری نقل میں اپنی ٹوپیوں کو اپنے سروں سے اتار کر پھینکنے سے انکار کر دیا تھا پیارے بچو اس واقعہ کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ انسان اور بندروں سے ہوشیار کون رہا ہمارے سو سائٹی کے بندربھی بندروں کی طرح سیانے ہو گئے ہیں آج اگر ہم دیکھیں تو ہماری سوسائٹی میں دوسروں کو بے وقوف بنانے کی وبا عام ہے ہر فرد اپنے مفاد کی خاطر دوسرے کا گلا کاٹنے پر تلا ہوا ہے بے پناہ ہوشیاری کے سحر میں ایک فیکٹری مالک پھل فروش ،دودھ والا ،مہنگائی کاروناروتے ہیں لیکن ہر فرد سے مصنوعی مہنگائی کر رکھی ہے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی عقل مند ہے اور دوسرے بے وقوف ہیں آج ہر شخص اپنے منافع کو سود کے ساتھ وصول کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جو معاشرے کے لئے ایک المیہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہو شیاری چالا کی کو چھوڑ کر اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔
غریب اللہ غازی پرانے زمانے کا دور تھا۔ایک شخص ٹوپیاں فروخت کرکے اپنی گزر بسر کیا کرتا تھا۔لوگ اس وقت ننگے سر پھرنا معیوب سمجھتے تھے اس لئے اپنے سروں پر ٹوپی یا پگڑی رکھتے تھے ایک دن گرمی کے موسم میں ٹوپیاں بیچنے والا دوپہر کے وقت ایک درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گیا اسے نیند آگئی۔ اس کے برابر میں ٹوپیوں سے بھرا ہوا تھیلا رکھا ہوا تھا۔جب سوکر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ٹوپیوں سے بھرا ہوا تھیلا غائب ہے۔اچانک اس کی نظر درخت کے اوپر بیٹھے ہوئے بندروں پر پڑی جہاں بندر اس کی ٹوپیوں سے کھیل رہے تھے۔ ٹوپیاں فروخت کرنے والا پریشانی میں اپنا سر کھجانے لگا۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تمام بندر اس کی نقل کرتے ہوئے اپنا اپنا سر کھجا رہے ہیں اس نے ایک دو حرکتیں اور کیں بندر اس کی ہر حرکت کی نقل کرتے رہے۔ (جاری ہے) اچانک اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اس نے اپنے سر پر سے ٹوپی اتار کر زمین پر پھینک دی۔ درخت پر موجود تمام بندروں نے اس کی نقل کرتے ہوئے اپنے اپنے سروں سے ٹوپیاں اتار کر زمین پر پھینک دیں ۔ اس طرح ٹوپیوں کے مالک نے اپنی ٹوپیوں کو جمع کیا۔تھیلے میں دوبارہ ڈال کر واپسی کی راہ لی۔کافی عرصہ بعد اسی ٹوپیاں بیچنے والے ایک ایک پوتا بھی ٹوپی فروش بن گیااس نے اپنے دادا جان سے بندروں والی کہانی سن رکھی تھی۔ اس نے بندروں کو آزمانے کے لئے ایک دن ٹوپیاں تھیلے میں ڈالیں اور دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے لیٹ گیا اس کی توقع کے عین مطابق کچھ دیر بعد بندروں نے اس کا تھیلا اٹھا لیا۔اس نے اپنے دادا کے مطابق سر کھجانا شروع کیا تو بندروں نے بھی اس کی نقل کی لیکن کچھ دوسری حرکتیں کرنے کے بعد اس نے اپنی ٹوپی زمین پر پھینکی لیکن بندروں نے اپنی ٹوپیاں نہ پھینکیں ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندر درخت سے نیچے اترا زمین پر پڑی ہوئی ٹوپی اٹھائی پھر اس نے ٹوپی فروش کے تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ بے وقوف کیا تو سمجھتاہے کہ صرف تیرا ہی دادا تھا جو تجھے کہانی سنا گیا ہمارا دادا بھی ہمیں بتا گیا کہ آئندہ کسی ٹوپی فروش کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بننا اس لئے ہم بندروں نے تمہاری نقل میں اپنی ٹوپیوں کو اپنے سروں سے اتار کر پھینکنے سے انکار کر دیا تھا پیارے بچو اس واقعہ کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ انسان اور بندروں سے ہوشیار کون رہا ہمارے سو سائٹی کے بندربھی بندروں کی طرح سیانے ہو گئے ہیں آج اگر ہم دیکھیں تو ہماری سوسائٹی میں دوسروں کو بے وقوف بنانے کی وبا عام ہے ہر فرد اپنے مفاد کی خاطر دوسرے کا گلا کاٹنے پر تلا ہوا ہے بے پناہ ہوشیاری کے سحر میں ایک فیکٹری مالک پھل فروش ،دودھ والا ،مہنگائی کاروناروتے ہیں لیکن ہر فرد سے مصنوعی مہنگائی کر رکھی ہے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ صرف وہی عقل مند ہے اور دوسرے بے وقوف ہیں آج ہر شخص اپنے منافع کو سود کے ساتھ وصول کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جو معاشرے کے لئے ایک المیہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہو شیاری چالا کی کو چھوڑ کر اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے۔
عاجز میرپوری ایک بادشاہ نے اپنے سب سے قابل وزیر سے کہا کہ اس کی مملکت میں سے پانچ احمق ترین لوگوں کو ایک مہینے میں تلاش کرکے اس کے حضور پیش کیا جائے۔ایک مہینے کی جدوجہد کے بعد وزیر نے صرف دو احمقوں کو پیش کیا۔ بادشاہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:”میں نے پانچ احمقوں کو پیش کرنے کے لئے کہا تھا۔“ وزیر نے کہا:”حضور!مجھے ایک ایک کرکے احمقوں کو پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔“ وزیر نے پہلا احمق پیش کرتے ہوئے کہا:”یہ بڑا احمق اس لئے ہے کہ بیل گاڑی میں سوار ہونے کے باوجود اس نے سامان اپنے سر اُٹھایا ہوا تھا۔ “ دوسرے احمق کو پیش کرتے ہوئے کہا:”اس شخص کے گھر کی چھت پر بیج پڑے تھے۔ان بیجوں کی وجہ سے چھت پر گھاس اُگ آئی۔ (جاری ہے) یہ شخص اپنے بیل کو لکڑی کی سیڑھی سے چھت پر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا،تاکہ بیل چھت پر چڑھ کر گھاس چَر لے۔ “ وزیر نے کہا:”عالمی جاہ!بطور وزیر مجھے اہم امور سلطنت چلانے تھے،مگر میں نے ایک مہینہ احمقوں کی تلاش میں ضائع کیا اور صرف دو احمق تلاش کیے،اس لئے تیسرا احمق تو میں خود ہوا۔“ وزیر نے ذرا سا توقف کیا تو بادشاہ چلایا:”چوتھا احمق کون ہے․․․․؟ وزیر نے عرض کہا:”عالم پناہ!جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ “ بادشاہ نے کہا:”کہو،تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔“ وزیر نے کہا:”عالی مرتبت!آپ بادشاہ وقت ہیں اور تمام رعایا اور سلطنت کے امور چلانے کے ذمے دار ہیں،مگر قابل ترین اور اہل افراد کو تلاش کرنے کے بجائے آپ نے احمق ترین لوگوں کو تلاش کرنے میں نہ صرف اپنا وقت برباد کیا،بلکہ ایک اہم وزیر کا وقت بھی برباد کیا،لہٰذا چوتھے احمق آپ ہیں۔ “ بادشاہ نے تلملاتے ہوئے سوال کیا:”اچھا اب بتا بھی دو پانچواں احمق کون ہے؟“ وزیر نے عرض کیا:”جہاں پناہ!پانچواں احمق یہ شخص ہے جو فیس بک سے چمٹا ہوا ہے،اپنے دفتری اور کاروباری فرائض اور خاندان کے بہت سے کاموں سے لاپرواہی برت رہا ہے۔ اسے اپنا قیمتی وقت ضائع ہونے کا احساس تک نہیں اور حد تو یہ ہے کہ ابھی تک ڈھیٹ بن کر یہ اسٹیٹس پڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بادشاہ سلامت اچانک اُٹھ کھڑے ہوئے۔غصے کی حالت میں بادشاہ سلامت نے تقریباً چیختے ہوئے کہا:”وائی فائی آف۔“ اور پورے دربار پر سناٹا چھا گیا۔
نائمہ راضیہ کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے،مگر جب میاں کنجوس کی شامت آئی تو ان کی بیوی نے ان سے آموں کی فرمائش کر دی۔میاں کنجوس کا اصل نام حامد خاں تھا،مگر محلے کا ہر چھوٹا بڑا کنجوسی کی وجہ سے ان کو ’میاں کنجوس‘ کہتا تھا۔ خیر،میاں کنجوس نے فرمائش سن تو لی،پھر بہت ہمت کرکے اپنے صندوق میں سے کچھ پیسے نکالے اور بہت شان سے اپنی جیب میں رکھ کر بازار کا رُخ کیا۔ سب سے پہلے ایک آم والے کے پاس پہنچے اور دام معلوم کیا تو پتا چلا ڈیڑھ سو روپے کلو․․․․یہ سنتے ہی میاں کنجوس کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولے:”ارے بھئی،اتنے مہنگے!کچھ تو کم کرو۔ “ یہ سن کر آم والے نے جواب دیا:”اس سے سستے لینے ہیں تو آگے جاؤ۔ (جاری ہے) “ میاں کنجوس فوراً آگے ہو لیے۔آگے چل کر دام دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آم ڈیڑھ سو روپے کلو ہی ہیں۔دام سن کر کنجوس میاں بُرا سا منہ بنا کر اس سے بولے:”خدا کا خوف کرو،اتنے مہنگے آم بیچتے ہو۔ “ ”اتنا عمدہ مال سستا نہیں ملے گا۔“آم والے نے کہا۔ اب میاں کنجوس ایک اور آم والے کے پاس پہنچے۔آموں کی حالت قابل دید تھی۔پچکے،گلے سڑے جن سے رس بہہ رہا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں مکھیاں،بھنبھنا رہی تھیں۔ میاں کنجوس نے پوچھا:”بھئی آم کیا کلو دیے ہیں؟“ آم والے نے جواب دیا:”سب سے سستا لگایا ہے۔ صرف اسی روپے کلو۔“ میاں کنجوس غصے سے جھنجھلائے اور بولے:”اتنے خراب آم اسی روپے کلو۔“آم والے نے کہا:”بابو جی!اس سے سستا آم کہیں نہیں ملے گا۔ہاں آپ کو مفت چاہئیں تو وہ سامنے کنوئیں پر آم کا درخت لگا ہے وہاں سے توڑ لو۔ “ یہ سن کر میاں کنجوس بہت خوش ہوئے اور بھاگے بھاگے جا کر کنویں پر چڑھ گئے اور اُچھل اُچھل کر آم توڑنے لگے۔اچانک ان کا پیر پھسل گیا اور میاں کنجوس کنویں میں جا گرے۔وہ تو خیر ہوئی کہ کنواں خشک تھا،مگر میاں کنجوس گرتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے اور کپڑے جھاڑ کر کنویں میں پڑے ہوئے آم اُٹھا کر جھولی میں بھرنے لگے،مگر جب اُوپر نظر اُٹھائی تو بہت پریشان ہوئے کہ اب کنویں سے کس طرح نکلا جائے۔ یہ خیال آتے ہی میاں کنجوس لگے چیخنے چلانے․․․․ اسی وقت اُدھر سے ایک گھوڑا گاڑی والا گزرا۔اس نے جب یہ آوازیں سُنیں اور میاں کنجوس کو کنویں میں دیکھا تو اسے رحم آگیا اور اس نے اپنی گھوڑا گاڑی کا رسا نکالا اور کنویں کے اندر لٹکا کر اُوپر سے رسا مضبوطی سے پکڑ لیا اور کہا کہ رسا پکڑ کر آجائیں۔ میاں کنجوس نے ایسا ہی کیا،مگر ابھی ذرا سا ہی چڑھے تھے کہ گھوڑا گاڑی والا ان کا وزن نہ سہہ سکا اور دھڑام سے کنویں میں آن گرا اور میاں کنجوس دوبارہ کنویں میں پریشان ہو کر چلانے لگے۔ان کے ساتھ گھوڑا گاڑی والے نے بھی چلانا شروع کر دیا۔ اچانک اس آم کے درخت کا مالک وہاں پہنچ گیا۔اس نے دیکھا اور حیران ہو کر پوچھا کہ تم دونوں کنویں میں کیا کر رہے ہو؟تب میاں کنجوس نے تمام بات اُس آموں کے مالک کو بتائی۔ مالک نے کہا:”اگر آپ مجھے دو سو روپے دیں تو میں آپ کو نکال دوں گا۔“ یہ سن کر میاں کنجوس نے چارونا چار وعدہ کر لیا اور جب دونوں کو مالک نے باہر نکال دیا تو میاں کنجوس نے مجبوراً دو سو کے نوٹ مالک کو دیے اور خالی ہاتھ گھر آگئے۔
حرا باسط پیارے بچو!شیخ چلی کا نام تو آپ نے یقینا سنا ہو گا اور اس کی کہانیاں پڑھ کر لطف اندوز بھی ہوئے ہوں گے۔آج ہم اس کی حماقت سے بھرپور کہانی سناتے ہیں۔کسی گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی جس کا ایک ہی بیٹا تھا،جس کا نام چلی تھا۔ وہ بہت کام چور،بے وقوف،سست اور کاہل تھا۔اسے بس ایک ہی کام آتا تھا،شیخی بگھارنے کا۔جہاں چند لوگوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھتا،ان کے قریب جا کر خود بھی بیٹھ جاتا اور انہیں گفتگو کا موقع دیئے بغیر اپنے جھوٹے سچے کارنامے بیان کرنے لگتا۔ گاؤں کے لوگ اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے اور اس کا نام ہی”شیخ چلی“ رکھ دیا تھا۔وہ اپنے نام کی طرح بڑے بڑے خیالی منصوبے بناتا لیکن کسی پر عمل نہیں کرتا۔ایک دن اس کے ”خیالی پلاؤ“ پکانے کی عادت سے چڑ کر ایک شخص نے اس سے کہا:”شیخ صاحب!آپ اتنے بڑے منصوبے کیوں بناتے ہیں؟ آپ نے ایک ہفتے بعد اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے،اپنی موت کا خیال کریں“۔ (جاری ہے) یہ سننا تھا کہ بے وقوف شیخ چلی کو ایک ہفتے بعد اپنی موت کا یقین ہو گیا اور اس نے اس کی تیاری شروع کر دیں۔پہلے اس نے قبر کھدوائی اور اس میں جا کر لیٹ گیا۔چھ دن گزر گئے،کچھ نہ ہوا، ساتویں روز شیخ چلی نے سوچا کہ یہ اس شخص کے بتائے ہوئے ایک ہفتے کا آخری دن ہے،شاید اب موت کا فرشتہ آنے والا ہے۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے کان میں آواز پڑی”اگر کوئی اللہ کا نیک بندہ،انڈے کی ٹوکری میرے گھر پہنچا دے تو میں اسے اجرت میں ایک اشرفی دوں گا“۔شیخ چلی اشرفی کا نام سن کر قبر سے باہر نکل آیا اور انڈے کی ٹوکری اٹھا کر سر پر رکھ لی۔ یہ دیکھ کر ٹوکری کے مالک نے کہا،”شیخ صاحب،ذرا سنبھال کر لے جانا،انڈے ٹوٹنے نہ پائیں،ورنہ ایک دمڑی بھی نہیں دوں گا،الٹا ہرجانہ لے لوں گا“۔ شیخ چلی بڑے غرور سے بولا،میاں صاحب!میں شیخ چلی ہوں،کوئی چھوٹا موٹا شخص نہیں ہوں،پورا گاؤں مجھے جانتا ہے“،یہ کہہ کر وہ انڈے کی ٹوکری لے کر چل پڑا۔ خیالی پلاؤ پکانے کی تو عادت تھی ہی،سر پر انڈوں کی ٹوکری رکھ کر راستہ چلتے ہوئے اس کی ذہنی رو بہک گئی اور لگا خیالی پلاؤ پکانے، ”انڈے پہنچانے کی مزدوری مجھے ایک اشرفی ملے گی،بڑی رقم ہے،اس سے میں مرغی خریدوں گا،وہ انڈے دے گی، انڈے بیچ کر بکری لوں گا،جو بچے دے گی،بکری کے بچے بیچ کر گائے لوں گا۔ گائے دودھ دے گی،میرے بچے دودھ مانگیں گے تو میں ان سے کہوں گا،”یہ لو دودھ“،اتنا کہتے ہوئے اس نے ٹوکرا پکڑے دونوں ہاتھ ہٹا لیے،جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر پڑا اور سارے انڈے ٹوٹ گئے۔ انڈے کے مالک نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ آہ و بکا کرتے ہوئے بولا،”ہائے میرے انڈے“،دوسری طرف شیخ چلی روتے ہوئے دہائی دے رہا تھا،”ہائے میرے بچے“۔ دونوں کی آہ وزاری سن کر لوگ جمع ہو گئے اور شیخ چلی کی بات سن کر اسے باور کرایا کہ”تمہاری تو شادی بھی نہیں ہوئی،بچے کہاں سے آگئے جو تم رو رہے ہو،ہاں انڈوں کے مالک کا تم نے جو نقصان کیا ہے،اس کا ہرجانہ تمہیں دینا پڑے گا۔“ بات شیخ چلی کی ماں تک پہنچی،اس نے وہاں آکر ہرجانے کی رقم ادا کرکے شیخ چلی کی گلوخلاصی کرائی۔
بلقیس ریاض نیویارک کے ساحل سمندر پر فیری (کشتی) کھڑی تھی جو کہ لوگوں کو بیٹھا کر سٹیچو آف لبرٹی تک پہنچاتی․․․․مگر فیری میں سوار ہونے کیلئے پہلے ٹکٹ لینی پڑتی تھی۔ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم تھا۔ فیری کچھا کچھ بھری تھی۔قطار میں کھڑے لوگ دوسری․․․․تیسری فیری کے انتظار میں کڑی دھوپ میں ہاتھوں میں کوک برگر․․․․جوس اور مووی کیمرے پکڑے کھڑے تھے․․․․اس ہجوم میں صرف جوان اور بچے ہی نہیں تھے بلکہ بوڑھے حضرات بھی نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔ قطار میں کھڑے لوگوں کا جی بہلانے کیلئے ایک سیاہ فام شخص اپنے کرتب دکھا رہا تھا․․․․میوزک بج رہا تھا اور کرتب دکھاتے دکھاتے لوگوں سے روپے بھی بٹور رہا تھا۔مگر کسی کو مجبور نہیں کر رہا تھا کہ کوئی اسے روپے دے۔ (جاری ہے) ساحل سمندر پر جہاز کشتیاں اور فیری کھڑی تھیں۔ دور سے سٹیچو آف لبرٹی اور سمندر کے دوسرے کنارے پر عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔یہ مین ہیٹن نیویارک ڈاوٴن ٹاوٴن کی عمارتیں تھیں۔ لوگوں کی قطار کے سامنے ریڑھیوں پر سٹیچو آف لبرٹی اور امریکہ کے مختلف مقامات کی تصویریں بک رہی تھیں۔ قریب ہی بینچ بچھے تھے جہاں پر لوگ بیٹھے ہوئے․․․․اس انتظار میں تھے کہ اس لمبی سی قطار کو ٹکٹیں مل جائیں تو وہ بھی فیری کی ٹکٹ لینے کیلئے قطار میں کھڑے ہو سکیں۔ اس قدر دھوپ تھی مگر ساتھ ساتھ سمندر کی وجہ سے ہوا چل رہی تھی۔ ہمارے لئے تو موسم اتنا شدید نہیں تھا مگر امریکی لوگوں کا برا حال تھا۔منہ ان کے سرخ تھے مرد اور عورتوں نے بنیان اور نکریں پہن رکھی تھیں۔ایسا موسم تھا جیسا کہ اپریل میں ہمارے ملک میں ہوتا ہے مگر ان سے یہ گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی اگر پاکستان جون جولائی میں کسی سیر گاہ میں دوپہر کے وقت چلے جائیں تو ان کا کیا حال ہو۔ لوگوں کے ہجوم سے ہٹ کر ایک بینچ پر بیٹھی تھی کہ میری نگاہ دوسری جناب اُٹھ گئی۔ایک بوڑھا شخص صاف ستھری پینٹ قمیض اور ٹائی باندھے میوزک کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ اتنا ضعیف تھا کہ وہ بمشکل اپنے پاؤں میوزک کے ساتھ اٹھاتا۔قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ بھکاری ہے۔ایک ڈبہ اس کی میز پر رکھا تھا․․․․لوگ سٹیچو آف لبرٹی کی ٹکٹ لینے کیلئے جب وہاں سے گزرتے تو کچھ ڈالر اس کے ڈبے میں ڈال جاتے۔بھیک مانگنے کیلئے وہ ان تھک محنت کر رہا تھا۔ اتنا مہذب بھکاری جو کسی سے سوال نہیں کر رہا تھا کہ مجھے اللہ کے نام پر کچھ دو․․․․لوگوں کی مرضی پر چھوڑا ہوا تھا․․․․چاہیں تو کچھ خیرات کر جائیں۔ مجھے رہ رہ کر خیال ستا رہا تھا کہ اگر وہ لوگ بھیک بھی مانگتے ہیں تو اس کیلئے انہیں محنت کرنی پڑتی ہے․․․․وہ بھی لاچاری کے سبب وہ بھیک مانگتے ہیں اور ایک ہمارا ملک ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ محنت مزدوری کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں․․․اور جوان عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے صدا لگاتی ہیں”اللہ کے نام پر کچھ دے دو․․․․تمہارا بیٹا سلامت رہے․․․․․بی بی تو حج کرنے چلی جائے․․․تیرا شوہر جیتا رہے“․․اگر اتنی دعائیں سننے کے بعد بھی آپ کچھ نہ دیں تو وہ بددعاؤں پر اتر آتی ہیں․․․․جو منہ میں آتا ہے بکے چلی جاتی ہیں․․․․․ بددعاؤں کے خوف سے لوگ انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے ہیں․․․․اگر کہیں کہ”بی بی کام کرو گی“تو سو بہانے بنائیں گی۔ اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ کام کیسے کر سکتی ہوں․․․میرا شوہر اندھا ہے اس کو کھانا کون بنا کر دے گا․․․یہ سن کر انہیں مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی․․․․․خیر بات ہو رہی تھی ساحل سمندر پر کھڑی فیری کی اور اس پر سوار ہونے والے لوگوں کی․․․وہ نہ جانے کتنے گھنٹے سے قطار میں لگے ہوئے تھے․․․ان میں جینے کی امنگ تھی․․․․وہ ہر لمحے کو مقید کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں․․․وہ صرف آج کا سوچتے ہیں یہ نہیں کہ برسوں کے بعد کیا ہو گا․․․مستقبل سے بے نیاز زندگی گزارتے ہیں۔ میں یہی سوچتے ہوئے وہاں سے چلی آئی کہ جو اچھے اصول انھوں نے زندگی میں اپنا لیے ہیں ہمیں بھی وہ سیکھ کر اختیار کر لینے چاہئیں تاکہ ہمارا معاشرہ بھی بہتری اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکے۔
پانچویں آسمان پر موجود ڈاک خانے کا راستہ یہاں سے ہو کر جاتا ہے؟نمرہ نے راہ چلتے فرشتے کو روک کر پوچھا۔جی ہاں مگر ڈاک خانہ کچھ ہی منٹوں میں بند ہونے والا ہے ۔فرشتے نے گھڑی دیکھتے ہوئے نمرہ کو جواب دیا۔مگر عموماً ڈاک خانہ تو دوپہر 3 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ نمرہ فرشتے کے جواب پر یک دم بولی۔جی ہاں مگر معاملات جمعہ کے روز کچھ اور ہوتے ہیں محترمہ۔فرشتہ لمبی سانس بھرتے ہوئے جواباً بولا۔ گھڑی اس وقت 12 بجا رہی تھی اور نمرہ اپنی بے انتہا کوششوں کے باوجود ابھی تیسرے آسمان تک ہی پہنچی تھی۔ ایسے ہی کچھوے کی چال چلتی رہی تو آج بھی شکایت نامہ پوسٹ نہ ہو پائے گا اور پھر بات کل پہ پر جائے گی۔نمرہ خود سے بات کرتے ہوئے ایک دم منفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی”نہیں․․․چاہے جو ہو جائے شکایت نامہ تو میں آج ہی پوسٹ کروں گی“۔ (جاری ہے) نمرہ نے فوراً وقت نہ ضائع کرتے ہوئے اپنے ہیل والے جوتے اُتارے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا دوڑ لگا دی۔نمرہ اتنی تیز بھاگ رہی تھی جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔ہوا کے گھوڑے پر سوار راستے کی زینت بنے کئی واقعات نمرہ نظر بند کرتی جا رہی تھی۔ پانچویں آسمان پر موجود ڈاک خانے کے راستے میں کئی باغات پڑتے تھے۔جو ہر لحاظ سے حسین اور پر سکون تھے۔ان باغات کو نظر بند کرتے ہوئے کئی بار نمرہ کا دل کرتا کہ کہیں رُک کر آرام کرلے مگر ذہن پر سوار شکایت نامے کا خیال اُس کا حوصلہ ٹوٹنے نہ دیتا۔ بالآخر نمرہ ڈاک خانے کے باہری دروازے سے داخل ہوئی۔سوالیوں کی لمبی قطار دیکھ کر نمرہ حیرت زدہ رہ گئی۔ہر کوئی اپنا خط پوسٹ کرنے کی اُمید لئے ڈاک خانے کے بنیادی دفتر کے باہر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ نمرہ من ہی من میں سوچنے لگی“میں واحد نہیں ہوں جو اللہ کو شکایت نامہ بھیجنے کی نیت سے آئی ہوں․․․․․میرے علاوہ بہت سے اور بھی ہیں جو اپنی موت سے خوش نہیں۔ “انتظار کرنے والوں کی قطار میں نمرہ کا نمبر آخری تھا۔گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد آخر وہ وقت آہی گیا جس کا نمرہ کو بے صبری سے انتظار تھا۔جیسے ہی نمرہ ڈاک خانے کے بنیادی دفتر میں داخل ہوئی تو اُس کی نظر اُس فرشتے پر پڑی جو اللہ کے نام لکھے خطوط پوسٹ کرنے کا کام سر انجام دیتا تھا۔ وہ فرشتہ بہت جلدی میں تھا۔اُس نے نمرہ کو خوش آمدید کہے بغیر ہی اپنے کاؤنٹر پر”بند“ کا بورڈ لگا دیا۔”دفتر بند ہو گیا ہے آپ اگلے ہفتے تشریف لے آیئے گا“فرشتے نے نمرہ سے معذرت کرتے ہوئے کہا۔ ”دیکھیں میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں آج۔ ۔۔اور میرا آج کے آج یہ خط پوسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔نمرہ فرشتے سے التجا کرتے ہوئے بولی۔ ”محترمہ جمعہ کا وقت ہے اور میں معمول سے تھوڑا لیٹ ہو گیا ہوں۔میں اس وقت آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“فرشتہ تیز لہجے میں بولا۔ ”دیکھیں میں اپنی اچانک موت سے خوش نہیں ہوں اور مجھے اپنی یہ شکایت جلد از جلد اللہ تک پہنچانی ہے۔میرے بہت سے کام زمین پر ادھورے پڑے ہیں جن کا مکمل ہونا بہت ضروری ہے۔“نمرہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے فرشتے سے بولی”پلیز مجھے یہ خط پوسٹ کرنے دیں اللہ آپ کا بھلا کرے۔ “نمرہ کی پُراصرار التجا فرشتہ زیادہ دیر ترک ہوں ناں کر پایا۔وہ ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔”محترمہ!“ فرشتے نے نمرہ کو مخاطب کرکے ایک لمبی سانس کھینچی۔آپ ایک کام کریں․․․․“فرشتہ بات مکمل کرتے ہوئے بولا۔ ”آپ اس کمرے میں موجود کمپلینٹ باکس میں اپنا خط اس مہر کے ساتھ خود ہی ڈال دیں․․․․․میں تھوڑا جلدی میں ہوں۔“فرشتہ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہاں سے چلا گیا۔اب اُس خالی ڈاک خانے میں نمرہ اپنے شکایت نامے کے ہمراہ تنہا کھڑی تھی۔ فرشتے نے جس جانب اشارہ کیا تھا وہ کمرہ بنیادی آفس کے شمال میں واقع تھا۔نمرہ نے وقت ضائع نہ کرتے ہوئے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔قدم بڑھاتے ہوئے نمرہ کے ہاتھ اپنے بائیں کندھے پر لٹکے ہوئے پرس سے شکایت نامہ نکالنے میں مصروف تھے۔ جیسے ہی نمرہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا شکایت نامہ لے کر کمرے میں داخل ہوئی اس کی نظر تھوڑی دور پڑے کمپلینٹ باکس پر پڑی جو خالی تھا۔یہ ڈبا خالی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ باہر لگے سوالیوں کے ہجوم کی میں خود گواہ ہوں۔نمرہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اُس کی نظر کمپلینٹ باکس سے تھوڑا دور رکھے ایک اور باکس پر پڑی جس کے باہر ”تھینک یو“لکھا تھا۔ وہ باکس اس قدر بھرا ہوا تھا کہ اُس کی اُوپر والی سطح پر موجود کچھ خطوط آسانی سے نکالے جا سکتے تھے۔“لوگ مرنے کے بعد بھی عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کرتے․․․․ورنہ کمپلینٹ باکس میں ڈالے جانے والے خط کبھی.