علم نحو کی تعریف
علم نحو وہ علم ہے جو کلمات کے اعراب، ان کی صحیح املا و استعمال اور پڑھنے کے قواعد و ضوابط سے بحث کرتا ہے۔
نحو کے معنی طریق اور اسلوب کے ہیں اور اصطلاح میں اس سے قواعد کا وہ شعبہ مراد ہوتا ہے جس میں دو باتوں سے بحث کی جاتی ہے۔
(الف) جملے کے اجزاء یعنی اسم ٬ضمیر٬ صفت٬ فعل اور حرف اور ان کی جنسی تعداد اور حالت وغیرہ سے، اس طرح کہ ان میں پیدا ہونے والے تبدل و تغیرات واضح ہو جائیں۔
(ب) جملے کی ساخت یعنی مختلف کلمات کے جملوں میں استعمال ہونے والے طریقوں اور اس استعمال کی حالت میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا بیان علم نحو کے تحت آتا ہے۔ اسی طرح جملہ بنانے کے لئے مختلف کلمات کو ملانے کے طریقے اور کلموں کے مرکبات سے متعلق بحثیں بھی نحو ہی کے تحت آتی ہیں۔
اس تفصیل سے علم نحوکے دو شعبے معلوم ہوتے ہیں۔
نحو تفصیلی:
نحو تفصیلی وہ شعبہ ہے جس کے تحت جملے کے ہر جزو یعنی اسم، فعل، ضمیر، صفت وغیرہ کا الگ الگ بیان کیا جائے۔ تفصیل کے معنی ہیں الگ الگ کر کے دیکھنا۔
نحو ترکیبی:
نحو ترکیبی علم نحو کا وہ شعبہ ہے جس میں کلموں کو ملانے اور مختلف مرکبات کی قسموں اور ان کی شناخت کے اصولوں کو زیر بحث لایا جائے۔ ترکیب دو یا دو سے زائد چیزوں کو آپس میں ملانے کو کہتے ہیں.
مرکب کا بیان
کوئی بھی دو یا دو سے زیادہ پُرمعنی لفظوں کا مجموعہ، کلام یا مرکب ہوتا ہے۔ کلمات کے مجموعہ کو مرکب کہتے ہیں۔ جیسے بڑا گھر، چھوٹا برتن، صاف کپڑا وغیرہ۔
مرکب کی دو قسمیں ہوتی ہیں:
(1) مرکب ناقص (2) مرکب تام
(1) مرکب ناقص:
مرکب ناقص وہ مرکب ہے جس سے سننے والے کو پورا مطلب سمجھ میں نہ آئے۔
(2) مرکب تام:
مرکب تام یا جملہ وہ مرکب ہے جس کے سننے سے پورا مطلب سمجھ میں آجائے۔
آئیے ان دونوں کی مثالیں دیکھتے ہیں:
١-مقبول کا گدھا۔ سات روپے۔ سرخ ٹوپی۔ اسلام آباد۔ الماری اور میز۔
٢-مقبول کا گدھا تیز ہے۔ اس نے سات روپے لیے۔ سرخ ٹوپی خراب ہو گئی ہے۔ اسلام خان نے اسلام آباد بسایا ہے۔
نمبر ١ ،٢ کی مثالیں دو یا دو سے زیادہ کلمات سے بنی ہیں۔ان کلمات کے مجموعہ کو مرکب کہتے ہیں
ذرا غور سے دیکھیے نمبر ١ کی مثالیں پورا مفہوم ظاہر نہیں کرتی ہیں بلکہ ان مثالوں کے ساتھ اور لفظ ملانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے مرکب کو مرکب ناقص کہتے ہیں۔
نمبر ٢ کی مثالیں پورا مطلب ظاہر کرتی ہیں۔اس لیے ایسے مرکب مرکب تام کہلاتے ہیں۔ اس کو جملہ بھی کہتے ہیں۔
مرکب ناقص کی متعدد قسمیں ہیں:
(1) مرکب اضافی:
مرکب اضافی وہ مرکب ہے جو مضاف اور مضاف الیہ سے مل کر بنے۔
آیئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
رحیم کی ٹوپی۔جاوید کا قلم۔ وجے کی کتاب۔شیشے کی دوات۔
اوپر کی مثالوں میں ٹوپی کو رحیم کے ساتھ ۔قلم کو جاوید کے ساتھ۔کتاب کو ویجے کے ساتھ اور دوات کو شیشے کے ساتھ ایک قسم کا تعلق ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے تعلق اور لگاؤ کو اضافت کہتے ہیں۔اور جس اسم کا لگاؤ ہوتا ہے اسے مضاف اور جس کے ساتھ لگاؤ ہوتا ہے اس سے مضاف الہ کہتے ہیں۔
اُوپر کی مثالوں میں ٹوپی، قلم ، کتاب ، دوات، مضاف ہیں اور رحیم، جاوید، وجے، شیشے ،مضاف الیہ ہیں۔
(نوٹ) اردو میں اضافت کی علامتیں یہ ہیں: کا، کے، کی۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف پیچھے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے۔فارسی کے مرکب اضافی بھی اردو میں عام مستعمل ہیں۔ ان میں مضاف پہلے ہوتا ہے اور مضاف الیہ پیچھے اور مضاف کے آخری حرف کے نیچے زیر ہوتی ہے۔مثلا کتابِ موہن، کنارِ دریا وغیرہ۔
(2) مرکب توصیفی:
ایسے مرکب جو صفت اور موصوف سے مل کر بنیں، مرکب توصیفی کہلاتے ہیں۔
آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
سفید پھول، بہادر لڑکا، نیک استاد، ٹیڑہی تلوار۔
اوپر کی مثالوں میں سفید، بہادر،نیک،ٹیڑہی۔ایسے الفاظ ہیں جو صفت ہیں۔اور پھول،لڑکا،استاد،تلوار،ان کے موصوف ہیں۔ایسے الفاظ کے جوڑوں کو مرکب توصیفی کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ صفت اور موصوف سے بنے ہیں۔
پس جو مرکب صفت اور موصوف سے مل کر بنے مرکب توصیفی کہلاتا ہے۔
(نوٹ) یاد رکھنا چاہیے کہ اردو میں صفت پہلے آتی ہے اور موصوف پیچھے، مگر شعر میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے۔فارسی میں موصوف پہلے آتا ہے اور صفت بعد میں۔جیسے:-مرد نیک،جاہلِ مطلق،خدائے بزرگ۔
(3) مرکب عددی:
مرکب عددی وہ مرکب ہے جو عدد اور معدود سے مل کر بنے۔یاد رکھنا چاہیے مرکب عددی میں عدد پہلے آتا ہے اور معدود پیچھے مگر نظم میں یہ ترتیب بدل بھی جاتی ہے۔
آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
سو گھوڑے، چالیس سپاہی، بیس بندوقیں،34 لڑکے،پانچواں لڑکا۔
اوپر کی مثالوں میں سو، چالیس، بیس،٣٤، پانچواں ۔تو عدد ہیں اور گھوڑے ، سپاہی، بندوقیں اور لڑکے معدود ہیں۔پس ایسے مرکب مرکب مرکب عددی کہلاتے ہیں۔
(4) مرکب امتزاجی:
مرکب امتزاجی وہ اسم ہے جو دو یا دو سے زیادہ لفظ مل کر ایک اسم بن جائے۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
غلام محمد، کرتار سنگھ، آغا اشرف علی، رام چندر، لال چوک،اشوک نگر۔
اوپر کی مثالوں میں ایسے مرکبات ہیں جو دو یا دو سے زیادہ اسموں سے مل کر بنے ہیں اور پھر سب مل کر ایک اسم بن گئے ہیں۔دو یا دو سے زیادہ اسموں کو ملا کر ایک کرنے کو امتزاج کہتے ہیں۔
(5) مرکب عطفی:
ایسے مرکبات جو معطوف الیہ اور معطوف سے مل کر بنے مرکب عطفی کہلاتے ہیں۔
مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
چاند اور ستارے، دریا اور غذا، گھوڑے اور گدھے،علی و دلی۔
اوپر کے مرکبات میں ‘اور’ ‘و’ حروف عطف ہیں۔اور یہ مرکبات معطوف الیہ اور معطوف سے مل کر بنے ہیں اس لیے مرکب عطفی کہلاتے ہیں۔مرکب عطفی میں جب ایک سے زیادہ اسم کو ملایا جائے تو ‘اور’ صرف آخری دو اسموں کے درمیان آتا ہے۔جیسے: رشید، رحیم، موہن اور کمال یہاں آتے ہیں۔
(6) مرکب حال و ذوالحال:
حال وہ اسم ہے جو فاعل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔اور ذوالحال وہ فاعل یا مفعول ہے جس کی حالت ظاہر کی جائے۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
فرید ہستا ہوا آیا، افلاق نے روتا ہوا آدمی دیکھا۔
اوپر کی مثال میں ‘ہنستا ہوا’ اسم حالیہ ہے اور فرید کی جو فاعل ہے، حالت بیان کرتا ہے۔دوسری مثال میں ‘روتا ہوا’ اسم حالیہ ہے اور آدمی کی جو مفعول ہے، حالت کو بیان کرتا ہے۔پس ایسے مرکب کو حال کہتے ہیں اور جس کی حالت کو بیان کرتاہو خواہ وہ فاعل ہو یا مفعول اسے ذوالحال کہتے ہیں۔
(7) مرکب اشاری:
مرکب اشاری وہ مرکب ہے جو اشارہ اور مشار الیہ سے مل کر بنے۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں:
یہ لڑکا، وہ جانور ، یہ کتاب،وہ پنسل،وہ قلم،یہ کرسی۔
اوپر کی مثالوں میں ‘یہ’ اور ‘وہ’ کلمات اشارہ ہیں ۔اور لڑکا، جانور، کتاب، غیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کو مشار الیہ کہتے ہیں۔اسلیے یہ ایسے مرکب ہیں جو اشارہ اور مشار الیہ سے بنے ہیں۔بس مرکب اشاری وہ مرکب ہے جو اشارہ اور مشار الیہ سے مل کر بنے۔
(8) مرکب تمیز و ممیز:
ایسے لفظ جو شک دور کریں تمیز کہلاتے ہیں اور جس کی نسبت شک دور کریں اس سے ممیز کہتے ہیں۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
ایک سیر گھی، چار من آٹا، تین بوتلیں عرق کی،نوگز لٹھا، گیارہ عدد کلمیں۔
اگر اوپر کی مثالوں میں صرف ایک سیر، چار من، تین بوتلیں،نو گز، گیارہ عدد کہا جاتا تو شک رہتا کہ کونسی چیز ایک سیر یا چار من یا نو گز اور گیارہ عدد ہے۔ جب اس کے ساتھ گھی، بوتلیں، آٹا، عرق، لٹھا اور قلمیں مل گے ہیں تو شک دور ہو گیا۔پس ایسے لفظ جو شک دور کریں تمیز کہلاتے ہیں اور جس کی نسبت شک دور کریں اسے ممیز کہتے ہیں۔
(نوٹ) یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمیز اور ممیز اور عدد معدود میں فرق یہ ہے کہ تمیز اور ممیز میں وزن یا پیمانے یا گز یا فٹ یا عدد کا لفظ آتا ہے۔عدد معدود میں یہ لفظ نہیں آتے۔
(9) مرکب تابع مہمل و متبوع:
ایسے مہمل لفظ جو اسم کے بعد آئیں تابع مہمل کہلاتے ہیں اور جس لفظ کے بعد آئیں اسے متبوع کہتے ہیں۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
رشید اور مومن پانی وانی پئیں گے۔دھوم دھام سے یوم اقبال منایا گیا۔ادھر اتنی بھیڑ بھاڑ کیا ہے؟
اوپر کی مثالوں میں پانی وانی،دھوم دھام،بھیڑ بھاڑ ۔ایسے مرکب ہیں کہ ان میں ایک بامعنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ ہے۔ایسے مہمل لفظ جو اسم کے بعد آئیں تابع مہمل کہلاتے ہیں اور جس لفظ کے بعد آئیں اسے متبوع کہتے ہیں۔
(10) مرکب تابع موضوع متبوع:
ایسے لفظ جو بامعنی ہوں لیکن زائد ہوں۔انہیں تابع موضوع کہتے ہیں۔اور دوسرے کو متبوع کہتے ہیں۔
مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
اب کیا فائدہ رونا دھونا فضول ہے، مجید کی چال ڈھال نرالی ہے،مارپیٹ اچھی نہیں۔
اوپغ کی مثالوں میں رونا دھونا، چال ڈھال، مارپیٹ۔ایسے مرکب ہیں کہ ان میں ایک بامعنی لفظ کے بعد محاورے کے مطابق دوسرا بامعنی لفظ بھی ہے گو یہاں اس کا استعمال زائد ہے۔ایسے لفظ جو بامعنی ہوں لیکن زائد ہوں ۔انہیں تابع موضوع کہتے ہیں۔اور دوسرے کو متبوع کہتے ہیں۔دھونا، ڈھال اور پیٹ تابع موضوع اور رونا، چال اور مار متبوع ہیں۔
(11) مرکب بدل و مبدل منہ:
اسے مثالوں کے ساتھ سمجھتے ہیں۔
ہمارا بھائی قدیر مدرسہ گیا ہے۔ آج اس کا نوکر فضل گم ہو گیا۔
دیکھو پہلے فقرے میں “ہمارا بھائی قدیر” سے ایک ہی شخص مراد ہے۔اسی طرح دوسرے فقرے میں “اس کا نوکر فضل”سے ایک ہی شخص مراد ہے۔اگر ہم کہیں “ہمارا بھائی مدرسہ گیا” یا “قدیر مدرسہ گیا” تو دونوں سے ایک ہی مطلب ہوتا ہے مگر اصل مقصد تو “ہمارا بھائی” اور “اس کا نوکر” ہے ۔قدیر اور فضل صرف وضاحت کے لئے ہیں۔پس جو اسم اصل مقصود ہو تو اسے بدل کہتے ہیں اور دوسرے کو بدل منہ کہتے ہیں جو وضاحت کے لئے آتا ہے۔۔
(12) مرکب عطف بیان ومبین
اسے مثالوں میں سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال ہندوستان کے اعلی پائے کے شاعروں میں سے ہیں۔بہادر شاہ ظفر شاہان مغلیہ میں سے تھے۔
اوپر کی مثالوں میں سر محمد اقبال اور اقبال دونوں ایک ہی شاعر کے نام ہیں۔
اسی طرح بہادر شاہ اور ظفر دونوں ایک ہی بادشاہ کے نام ہیں۔
ان دونوں ناموں میں سے دوسرا نام پہلے نام کی نسبت زیادہ مشہور ہے۔دوسرے نام کے لانے سے پہلے نام کی اچھی طرح تشریح ہو گئی ہے۔اس قسم کے دوسرے نام کو عطف بیان اور پہلے نام کو جس کی وضاحت ہوتی ہے مبین کہتے ہیں۔
(13) مرکب تاکید و مؤکد!:
تاکید کے الفاظ کو مرکب تاکید کہتے ہیں اور جس اسم کی تاکید کریں اسے مؤکد کہتے ہیں ۔
آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔
سب کے سب آدمی آگے۔یہ مسئلہ سراسر غلط ہے۔فاروق اور فرہاد دونوں سونا مرگ گئے ہیں۔یہاں خطرہ ہے خطرہ۔
اوپر کی مثالوں میں “سب کے سب، سراسر، دونوں، خطرہ” ایسے الفاظ ہیں جو تاکید کے لیے آئے ہیں اور انہوں نے بالترتیب آدمی، مسلہ، فاروق اور فرہاد اور خطرہ کی تاکید کی ہے۔
پس تاکید کے الفاظ کو مرکب تاکید کہتے ہیں اور جس اسم کی تاکید کریں اسے مؤکد کہتے ہیں۔
(14) مرکب مستشنی و مستثنیٰ منہ:
یہ وہ مرکب ہے جو مستشنی اور مستثنیٰ منہ سے مل کر بنے۔
جیسے: سب رشید کے سوا آئے ہیں۔اس میں ‘رشید کے سوا’ مرکز مستثنیٰ اور ‘سب’ مستثنی منہ ہے۔
(15) مرکب جار مجرور:
وہ مرکب ہے جو حرف جار اور مجرور سے مل کر بنے۔
مثلاً:- کاغذ میز پر رکھ دو۔اس میں ‘میز پر’ مرکب جار مجرور ہے’ پر’ حرف جار ہے اور ‘میز’ مجرور ہے.
مرکب اضافی کی اقسام
مرکب اضافی کی سات قسمیں ہیں۔
(1) اضافت تملیکی:
جس مرکب میں مملوک کی اضافت مالک کی طرف یا مالک کی اضافت مملوک کی طرف ہو اسے اضافت تملیکی کہتے ہیں۔
مثلا:- موہن کی گاۓ۔
(2) اضافت ظرفی:
جس مرکب میں ظرف اور مظروف کے درمیان اضافت ہو اسے اضافت ظرفی کہتے ہیں۔
مثلا:- گھر کی مرغی،
رات کی ٹھنڈک وغیرہ
(3) اضافت تخصیصی:
جس میں مضاف اپنے مضاف الیہ کے سبب خاص ہو جائے۔
مثلا:- میرا لڑکا۔
(4) اضافت توضیحی:
جس میں مضاف الیہ مضاف کی وضاحت کرتا ہے۔
مثلاً:- رمضان کا مہینہ۔
گلستان کی کتاب۔
اضافت توضیحی اور تخصیصی میں فرق یہ ہے کہ:
توضیحی کے مضاف الیہ اور مضاف کو بطرز مبتدا اور خبر استعمال کرکے بامعنی بتا سکتے ہیں۔
(5) اضافت بیانی:
جس میں مضاف الیہ مضاف کا مادہ ہو۔
مثلاً:-شیشے کا گلاس۔
(6) اضافت تشبیہی:
جس میں مضاف الیہ مضاف کا مشابہ ہوتا ہے۔
مثلاً:-زلف کا سانپ۔
بارش کے موتی۔
بھون کی کمان۔
(7) اضافت استعارہ:
جس میں مضاف کو مضاف الیہ کا جز یا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔مگر درحقیقت وہ حصہ یا جز نہیں ہوتا۔
مثلاً:-عقل کے ناخن۔
قدرت کے ہاتھ.
جملہ کا بیان
جملہ:
الفاظ کے ایسے مسلسل مجموعے کو جملہ کہتے ہیں جس سے سننے والا بات کو پوری طرح سمجھ لے اور اس کا مفہوم حاصل کرلے، چاہے بات تقریر میں ہو یا تحریر میں۔جملے کے دو اصل عناصر ہوتے ہیں۔
١-مبتدا:
جب کسی شخص یا چیز کا ذکر کیا جائے تو اسے مبتدا کہتے ہیں۔
٢-خبر:
جو کچھ بھی مبتدا کے بارے میں کہا جائے اسے خبر کہتے ہیں۔
جملے کےدو بڑے جزو:
١-مسند الیہ:
مسندالیہ جملہ کا وہ جزو ہے کہ جس کی نسبت کچھ کہا جائے۔
٢-مسند:
مسند جملے کا وہ جزو ہے جس میں کسی شخص یا چیز کی بابت کچھ کہا جائے۔
آئیےمسندد اور مسندالںہ کو مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
چیزیں دکانوں پر سجی ہوئی ہیں۔
رات گزر گئی۔
دن چڑھ آیا۔
چور بھاگ گیا۔
ہوا چل رہی ہے۔
دیکھو اُوپر کے جملوں کے دو بڑے جز ہیں۔
چیزیں دکانوں پر سجی ہوئی ہیں
رات
گزر گئی
دن
چڑھ آیا
چور
بھاگ گیا
ہوا
چل رہی ہے۔
پہلا جزو مثلاً:-چیزیں، رات، دن ،چور، اور ہوا ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی بابت کچھ کہا گیا ہے ایسے جزو کو مسند الیہ کہتے ہیں۔
نمبر ٢ کے جزو مثلاً:-دکانوں پر سجی ہوئی ہیں، گزر گئی، چڑھ آیا، بھاگ گیا اور چل رہی ہے ایسے الفاظ ہیں جن میں مسندالیہ کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے ایسے جزو کو مسند کہتے ہیں۔
(الف) ترکیب یا صورت کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں۔
(1) مفرد جملہ:
مفرد جملہ اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں صرف ایک مسندالیہ اور ایک مسند ہو۔
مثلاً:- احمد لکھتا ہے، خواجہ کھاتا ہے وغیرہ۔
(2) مرکب جملہ:
مرکب جملہ اُس جملہ کو کہتے ہیں جس میں دو یا دو سے زیادہ مفرد جملے مل کر ایک مفہوم یا خیال کو ظاہر کریں۔
مثلاً:-ساجد اگر نہیں گیا تو میں بھی نہیں جاؤں گا۔
مرکّب جملہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) مرکّب مطلق:
اس مرکّب جملہ کو کہتے ہیں جس میں ہر مفرد جملہ جدا گانہ برابر کی حیثیت رکھتا ہے اور معنی کے لحاظ سے دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا۔
مثلاً:-احمد آیا۔اور شیر چلا گیا۔
(2) مرکّب ملتف:
اس مرکّب جملے کو کہتے ہیں جس میں ایک جملہ اصل ہوتا ہے اور باقی جملے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔جب تک ذیلی جملہ اصلی جملے سے ملا کر استعمال نہیں ہوتا اس وقت تک پورا مطلب بیان نہیں ہو سکتا۔
مثلاً: وہ کتاب جو گم ہوگئی تھی، مل گئی ہے۔ اس میں “وہ کتاب مل گئی”اصل جملہ ہے اور “جو گم ہوگئی تھی” ذیلی جملہ ہے۔معنی اور مطلب کے لیے دونوں کا ہونا ضروری ہے۔
(ب) معنی کے لحاظ سےجملے کی دو قسمیں ہیں:
(1) جملہ خبریہ:
اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کسی واقعہ کی حالت کی خبر ملے۔
مثلاً:-عادل آ گیا۔
فرید چلا گیا۔
خواجہ چالاک ہے۔ وغیرہ۔
(2) جملہ انشائیہ:
اس جملے کو کہتے ہیں جو کسی حکم یا استفہام یا انبساط یا تعجب یا تنبیہ اور دعا وغیرہ جیسے جذبات کو ظاہر کرے۔
مثلاً:- کاش! وہ آگے آتا۔
یہ کام کرنا اچھا نہیں۔
ماشااللہ! کیا خوب بات کہی ہے۔ وغیرہ۔
(ج) مسند کے لحاظ سے جملے کی دو قسمیں ہیں:
جملہ اسمیہ:
اس جملے کو کہتے ہیں جس میں مسند اور مسندالںہ دونوں موجود ہوں۔ مثلاً:- رام ذہین لڑکا ہے۔اس میں رام (مسند الیہ) اور ذہین لڑکا (مسند) ہے۔جملہ اسمیہ کے مسندالیہ کو مبتدا اور مسند کو خبر کہتے ہیں۔
جملہ اسمیہ کے مندرجہ ذیل ارکان ہوتے ہیں۔
١-مبتدا:-اس اسم کو کہتے ہیں جس کی طرف کوئی اسم یا فعل منسوب ہوتا ہے۔
٢-خبر:-اسے کہتے ہیں جو مبتدا کی طرف منسوب ہو۔
٣-فعل ناقص:-وہ فعل ہے جس سے بات پوری نہ ہو۔
٤-مسند اور مسندالیہ کی توسیع یا متعلقات خبر و مبتدا۔
مثلاً:-چاند روشن ہے۔ اس جملے میں چاند (مبتدا) روشن (خبر) اور ہے (فعل ناقص) ہے۔
موہن گھر میں نہ تھا۔اس جملے میں موہن (مبتدا) ہے،نہ تھا (فعل ناقص) ہے،اور گھر میں (متعلق خبر) ہے۔
جملہ اسمیہ کی پہچان کیسے کریں؟
١-اگر فعل ناقص ہے تو جملہ اسمیہ ہوگا۔ اگر فعل تام ہے تو جملہ فعلیہ ہوگا۔
٢-جملہ اسمیہ میں دو اسم ہوتے ہیں۔دونوں اسموں میں ایک اسم معرفہ اور دوسرا اسم نکرہ ہو تو معرفہ کو مبتدا اور نکرہ کو خبر کہتے ہیں۔
٣-اگر ایک اسم ذات ہوں اور ایک اسم صفت ہو تو اس ذات کو مبتدا اور صفت کوخبر کہتے ہیں۔
٤-اگر دونوں اسم معرفہ ہوں تو پہلے کو مبتدا اور دوسرے کو خبر کہتے ہیں۔
٥-اگر دونوں اسم نکرہ ہوں تو جو زیادہ خاص ہو وہ مبتدا اور دوسرے کو خبر کہتے ہیں۔
٦-مبتدا عام طور پر پہلے آتا ہے اور خبر بعد میں۔
٧-بعض اوقات مبتدا یا خبر یا فعل ناقص حذف ہوجاتا ہے۔
٨-خبر کبھی مفرد ہوتی ہے اور کبھی مرکب ہوتی ہے۔
٩-بعض اوقات مبتدا کی کئ خبریں ہوتی ہیں۔
١٠-بعض اوقات مبتدا مفرد ہوتا ہے اور کبھی مرکب ہوتا ہے۔
١١-بعض اوقات مبتدا اور خبر دونوں محذوف ہوتے ہیں۔
جملہ فعلیہ:
اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں مسند الیہ اسم یا فاعل، اور مسند فعل ہو۔مثلاً:-احمد نے کھانا کھایا۔اس میں احمد (فاعل یا اسم) کھانا (مفعول) اور کھایا (فعل) ہے۔
جملہ فعلیہ کے مندرجہ ذیل ارکان ہیں۔
١-فاعل:-وہ اسم جس کی ذات پر فعل واقع ہو
٢-مفعول:-وہ اسم ہے جس پر فاعل کا فعل واقع ہو۔
٣-فعل:-وہ کام جو فاعل سے صادر ہو۔
٤-فعل تام:-وہ فعل جس سے جملے کی تکمیل ہو۔
٥-مفعول اور فعل کی توسیع یا مطلقات فعل۔
آپ یہ جانتے ہیں کہ جس کے بارے میں ذکر کیا جائے اسے مسند الیہ اور جو کچھ ذکر کیا جائے اسے مسند کہتے ہیں۔
افعال تام کے مسندالیہ کو فاعل اور مسند کو مفعول کہتے ہیں۔
افعال ناقص کے مسندالیہ کو مبتدا اور مسند کو خبر کہتے ہیں۔
جملہ فعلیہ کی پہچان کیسے کریں؟
١-سب سے پہلے فعل پر نظر کیجیے اگر فعل تام ہے تو جملہ فعلیہہوگا
٢-اگر جملہ میں فعل لازم ہوگا تو جملہ فاعل پر ختم ہوتا ہے
٣-اگر فعل متعدی ہو تو مفعول ضرور آتا ہے۔
٤-بعض اوقات متعدی افعال کے دو مفعول ہوتے ہیں پہلے کو مفعول بہ اور دوسرے کو مفعول ثانی کہتے ہیں۔
٥-جملہ فعلیہ میں اجزا کی ترتیب یوں ہوتی ہے فاعل، مفعول،متعلق فعل،مگر متعلق فعل کبھی مفعول سے پہلے آتا ہے اور کبھی بعد میں۔
٦-فعل جب فقروں کے شروع میں آئے تو زور ظاہر ہوتا ہے۔
٧-کلام میں زور پیدا کرنے کی غرض سے کبھی مفعول پہلے بھی آسکتا ہے۔
٨-بعض اوقات جملے میں فاعل کو حذف کردیا جاتا ہے۔
٩-بعض اوقات جملے میں فاعل اور مفعول دونوں حذف کر دیے جاتے ہیں۔
١٠-کبھی جملہ میں فعل اور فاعل دانوں حذف ہوتے ہیں۔
١١-فعل مجہول میں فاعل نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ مفعول آتا ہے۔
١٢-ترکیب نحوی کے لحاظ سے جملہ فعلیہ میں سب سے پہلے فعل، پھرفاعل پھر مفعول اور آخر میں متعلقات فعل لکھے جاتے ہیں.
ترکیب نحوی کا بیان
کسی جملہ کے اجزا اور الفاظ کو الگ الگ کرکے ان کے آپسی رشتہ کو ظاہر کیا جائے تو اسے ترکیب نحوی کہتے ہیں۔ترکیب نحوی میں جملے کے مختلف اجزا اور الفاظ کے باہم تعلقات سے بحث ہوتی ہے اور اس کا موضوع کلام ہوتا ہے۔
اسمیہ جملہ میں مبتدا، خبر، متعلقات خبر اور فعل ناقص ہوتا ہے۔فعلیہ جملوں میں فاعل، مفعول، فعل اور متعلقات فعل ہوتے ہیں۔
ترکیب نحوی کرتے وقت چند اہم باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
1-جس جملہ کی ترکیب نحوی کرنی درکار ہو پہلے اس کا مطلب اور معنی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنا چاہیے۔کیونکہ جملے کے مطلب اور معنی کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
2-جب کسی شعر یا مصرعہ کی ترکیب نحوی کرنی ہو تو پہلے اس شعر کی نثر بنا لیجیے۔
3-فعل کے لحاظ سے یہ معلوم کیجئے کہ جملہ اسمیہ ہے یا جملہ فعلیہ ہے۔
4-اگر کوئی لفظ کلام سے حذف کیا ہوا ہو تو اسے پورا کر لیجئے۔
5-جملے کی ترتیب کو اس طریقے سے لکھئیے کہ دیکھنے یا پڑھنے والے پر مطلب پوری طرح واضح ہو جائے۔
6-جملہ اسمیہ میں سب سے پہلے فعل ناقص، پھر مبتدا پھر خبر اور آخر میں مطلقات معلوم کر کے لکھیے۔
7-جملہ فعلیہ میں سب سے پہلے فعل تام، پھر فاعل، پھر مفعول اور آخر میں متعلقات فعل معلوم کر کے لکھیے۔
8-جملہ اسمیہ اور فعلیہ کے اجزا معلوم کرنے کا پہلا بیان کیا ہوا طریقہ استعمال کیجئے۔
مثال نمبر 1
احمد چالاک ہے۔
ہے فعل ناقص
احمد مبتدا
چالاک خبر
فعل ناقص، مبتدا اور خبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔
مثال نمبر 2
کریم غریب کا مارا ہوا ہے۔
ہوا ہے
فعل ناقص
کریم مبتدا
غریب کا مارا خبر
یہ بھی جملہ اسمیہ ہوا۔
مثال نمبر 3
تم بڑے ظالم نکلے۔
نکلے فعل ناقص
تم ضمیر ہوکر مبتدا
بڑے ظالم خبر
یہ جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔
مثال نمبر 4
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا۔
نثر– دیدہ ور بڑی مشکل سے چمن میں پیدا ہوتا ہے۔
ہوتا ہے
فعل ناقص
دیدہ ور مبتدا
پیدا خبر
سے جار
بڑی مشکل مجرور
میں حرف اضافت
چمن مضاف الیہ
یہ بھی جملہ اسمیہ ہوا۔
مثال نمبر 5
کریم دوڑا
دوڑا
فعل تام
کریم فاعل
جملہ فعلیہ ہوا۔
مثال نمبر 6
احمد نے کتے کو مارا۔
مارا فعل تام
احمد فاعل
نے علامت فاعل
کتے مفعول
کو سلامت مفعول
یہ بھی جملہ فعلیہ ہوا۔
مثال نمبر 7
ارشد نے بازار سے ایک سائیکل خریدی۔
خریدی فعل تام
ارشد فاعل
نے علامت فاعل
ایک عدد
سائیکل معدود
سے
حرف جار
بازار مجرور
یہ جملہ فعلیہ ہے.
مترادف الفاظ (110)
مترادف الفاظ سے مراد وہ الفاظ ہوتے ہیں جو لکھنے میں تو مختلف ہوں مگر ان کے معنی ایک جیسے ہوں۔ ایسے الفاظ کسی بھی جملے میں استعمال کیے جائیں تو معنی ایک ہی رہتا ہے۔مترادف الفاظ کی مثالیں درج ذیل ہیں۔
الفاظ مترادف
آغاز ابتدا
آرام آسائش
آسان سہل
امیر مالدار
امیرکبیر دولت مند
امر حکم
آس امید
نذیر مثال
ہمدم ہم نفس
آسودہ خوشحال
استقامت ثابت قدمی
انجمن بزم
آسمان فلک
آدمی انسان
اجنبی ناواقف
اندھیرا تاریکی
باغ چمن
بدن جسم
بیمار مریض
بادشاہ تاجدار
بہشت جنت
بغض کینہ
بہادر شجاع
پرایا غیر
پرانا قدیم
پختہ مضبوط
پاگل دیوانہ
تلاش جستجو
تنہائی خلوت
تقصیر خطا
تصنع بناوٹ
توانگر امیر
تلوار تیغ
تالا کفل
تپش حرارت
تسلی اطمینان
تعریف توصیف
جدائی فرقت
جنم پیدائش
جنگ لڑائی
جبر تشدد
جھنڈا پرچم- علم
جام پیالہ
چست چاک وچوبند
چست چالاک
چاہت محبت
چاند ماہتاب
چابی کنجی
حرص طمع
حزن ملال
حاجت ضرورت
حرکت جنبش
حاضر موجود
حسین خوبصورت
خفیف معمولی
خیرخواہ خیراندیش
خوف ڈر
خوش شاد
خوشخبری مژدہ
دوزخ جہنم
دولت مال
دلیر دلاور
دبلا لاغر
درست صحیح
درخت شجر
دانا عاقل
دانشمند عقلمند
ذلت رسوائی
ذکر بیان
ذریعہ وسیلہ
دنیا جہان
امی ان پڑھ
ابد ہمیشہ رہنے والا
اصرار ضد
عقرب بچھو
صواب درست
زن عورت
ہلال نیا چاند
منسوب متعلق
تعویذ پناہ دینا
بحر سمندر
حول طاقت
اقل کم از کم
عمی اندھا
عبد غلام
اقرب نزدیک
عرض درخواست
ظن گمان
حلال جائز
اسرار بھید
تعویض بدلہ دینا
کاش افسوس
عقل دانائی
سحر صبح
سحر جادو
نسب خاندان
سدا ہمیشہ
ثمر پھل
حجر پتھر
سلاح ہتھیار
نقطہ نشان
قرن صدی سینگ
ہجر جدائی
نکتہ باریکی
صلاح مشورہ
صدا آواز
سفیر قاصد
صلاح مشورہ
سفیر قاصد
سم کھر.
قافیہ اور ردیف کا بیان
قافیہ
قافیہ عربی لفظ *قفو* سے مشتق ہے ـ قافیہ کے لغوی معنی ہیں *پیچھے چلنے والا* اور اصطلاحِ عروض میں شعروں یا مصرعوں کے آخر الفاظ کے جو حروف اور حرکات مکرر ہوں ان کو قافیہ کہتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قافیہ میں الفاظ کے آخر والا ہر ساکن حرف اور اس کے پہلے والی حرکت میں اتحاد ضروری ہے ـ قافیہ کو مصرع یاشعر کے سب سے آخر میں لانا لازمی ہوتا ہے اور اگر ردیف ہو تو یہ ردیف سے ٹھیک پہلے آئے گا یعنی ردیف اور قافیہ کے درمیان کوئی بھی لفظ موجود نہیں ہوتا ـ شعر کی بنیاد قافیہ ہے ردیف ہرگز نہیں۔ ردیف تو اضافی حسن ہے ـ عرف عام میں ہم صوت الفاظ کو *قافیہ* کہتے ہیں ـ
*قافیہ* ان مختلف المعنی ہم صوت الفاظ کو کہتے ہیں جو مصرعے کے آخر میں آتے ہیں اور اس کے بعد *ہم ردیف* ـ
قافیہ نو حروف پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں *حرف روی* قوافی کی بنیاد ہے اور اس میں چار حروف *حرف روی* سے پہلے اور چار حروف *حرف روی* کے بعد آتے ہیں جو بالترتیب حسب ذیل ہیں :
1. *حرفِ ردف*
2. *حرفِ قید*
3. *حرفِ تاسیس*
4. *حرفِ دخیل*
5. *حرفِ روی*
6. *حرفِ وصل*
7. *حرفِ خروج*
8. *حرفِ مزید*
9. *حرفِ نائرہ*
جو چار *حرف روی* سے پہلے آتے ہیں وہ یہ ہیں:
1. ردف
ردف اس حروف علت (ا، و ،ی) کو کہتے ہیں جو *حرفِ روی* کے پہلے بلا فصل آتے ہیں ان کی تکرار لازمی ہے ـ جیسے نور، طور، حور، دستور وغیرہ
2. قید
ردف کے علاوہ اس حرفِ ساکن کا نام ہے جو *حرفِ روی* کے پہلے بلا فصل کے واقع ہو پر یہ حرفِ علت نہ ہو *قید* کہلاتا ہے اس کی تکرار بھی لازم ہے ـ جیسے قبر، صبر، جبر وغیرہ
3. تاسیس
وہ الف ساکن ہے جو *حرفِ روی* کے درمیان ایک حرفِ متحرک کا فصل ہو اسے *تاسیس* کہتے ہیں ـ جیسے حاصِل، جاہِل، عاقِل ، شامِل وغیرہ
تاسیس کی تکرار ضروری نہیں لیکن اس کی تکرار سے قوافی کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسے ‘عاقل’ کا قافیہ ‘دل’ ہو سکتا ہے ـ
4. دخیل
وہ *حرفِ متحرک* ہے جو تاسیس اور حرفِ روی کے درمیان حائل ہو ـ جیسے حاصِل ، عاقِل میں *ص* اور *ق* دخیل کی مثال ہے ، یہاں آخری دو حروف *صِل اور قِل* ہیں ان دونوں میں *ل* مشترک ہے اسے *حرفِ روی* کہتے ہیں۔
ان دونوں میں پہلے والے حرف پر ایک جیسی *زیر* کی علامت ہے اس لئے ہم قافیہ ہیں یعنی قافیہ کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس میں آخری حرف ایک جیسا ہو اور اس سے پہلے حرف پر ایک جیسی حرکت( زبر، زیر، پیش) بھی ہو ـ
دخیل کی تکرار بھی ضروری نہیں لیکن ہو تو قوافی کے حسن میں اضافہ کرتی ہے، قافیے میں ہمیشہ تلفظ کا خیال رکھنا چاہیے ـ
اور جو چار حرفِ روی کے بعد آتے ہیں وہ یہ ہیں ـ
1. وصل
وہ حرف جو حرفِ روی کے عین بعد آتا ہے یعنی حرفِ روی کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *وصل* کہلاتا ہے ، یہ حرفِ روی کو متحرک کر دیتا ہے ـ مثلاً حالی، خالی، بیماری، گرفتاری وغیرہ۔
وصل کی پہچان یہ ہے کہ حذف کرنے سے لفظ با معنی رہتا ہے ـ
2. خروج
وہ حرف جو وصل کے بعد بغیر فصل کے آئے یعنی وصل کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *خروج* کہلاتا ہے ـ مثلاً سوتا، روتا میں *ت* کے فورًا بعد *الف* ہے جو *حرفِ خروج* ہے ـ
3. مزید
یہ وہ حرف ہے جو خروج کے بعد ہی آتا ہے یعنی *خروج* کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *مزید* کہلاتا ہے ـ مثلاً بُنے گا، سنے گا میں *ن* “حرفِ روی” ہے ، *ے* “حرفِ وصل” ، *گ* “حرفِ خروج” اور *الف* ” حرفِ مزید” ہیں ـ
4. نائرہ
وہ حرف ہے جو *مزید* سے متصل آئے اور *مزید* کے بعد ہی واقع ہو یعنی *مزید*
کے بعد بلا فاصلہ آنے والا حرف *نائرہ* کہلاتا ہے ـ مثلا *کہوں گا، رہوں گا* میں *ہ* “حرفِ روی” ، *و* “حرفِ وصل” ، *ں* “حرفِ خروج” ، *گ* “حرفِ مزید” اور *الف* “حرفِ نائرہ” ہیں ـ
آخرالذکر یہ یاد رکھیں حرفِ روی کے بعد جتنے بھی حروف آتے ہیں قوافی میں ان کی تکرار لازمی ہے یا ان چار حروف کا شمار اگر *ردیف* میں کر لیا جائے تو طلبہ کے لئے سہولت ہوگی ـ جس طرح ردیف کا *اعادہ* ضروری ہے اسی طرح ان چاروں حروف کا *اعادہ* بھی ضروریha.
مرکب الفاظ بناتے وقت جو حرف یا کلمہ لفظ کے شروع میں لگایا جائے اسے سابقہ کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں انہیں (Prefix) کہا جاتا ہے۔ عربی، ہندی اور فارسی تین زبانوں کے سابقے اردو زبان میں مستعمل ہیں۔ ان کی مثالیں درج ذیل ہیں۔
ا —— اچھوت، اٹل، امٹ
ان—- انمول، ان پڑھ، انگنت
بے—– بےعقل، بےادب، بےہوش
بد——بد زبان، بدخو، بدظن
با——باہوش، باعزٹ، باقاعدہ
پُر—–پرمغز، پُرمعنی، پرجوش
تنگ—– تنگ نظر، تنگ دلی، تنگ ظرف
خوش—-خوش خو، خوشخبری، خوش آمدید
خود—– خودآرا، خودنما، خودپسندی
زبر——زبردست
صاحب—–صاحب دل، صاحب جائیداد
سر—–سر بلندی، سرپرستی
لا—- لاپرواہی، لاکلام، لاوارث
غیر—–غیرحاضر، غیرمقلدین،
اردو لاحقے
مرکب الفاظ بناتے وقت جو حرف یا کلمہ ، لفظ کے آخر میں لگایا جائے اس سے لاحقہ کہتے ہیں۔ انگریزی میں انہیں (Suffix) کہتے ہیں۔آئیے ان کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
ا—–نیلا، پھیلا، پڑھیا
آور—–دلآور، زورآور، تناور
سر—–خودسر، ہمسر
فام—–گلفام، سیاہ فام، لالہ فام
ک—- سماجک، ویدک، سنسارک
کا——اچکا
تر—– بہتر، نیک تر
م—–سوم، یکم، دوم، چہارم
ور—- طاقتور، نامور، نصیب ور
مند—-بہرہ مند، عقلمند
ناک—- غمناک، خوفناک، عبرتناک
وش—– پری وش، ماہ وش، خوروش
Tanveer as a writer of kili behramshahi Mastung.