پانچویں آسمان پر موجود ڈاک خانے کا راستہ یہاں سے ہو کر جاتا ہے؟نمرہ نے راہ چلتے فرشتے کو روک کر پوچھا۔جی ہاں مگر ڈاک خانہ کچھ ہی منٹوں میں بند ہونے والا ہے ۔فرشتے نے گھڑی دیکھتے ہوئے نمرہ کو جواب دیا۔مگر عموماً ڈاک خانہ تو دوپہر 3 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ نمرہ فرشتے کے جواب پر یک دم بولی۔جی ہاں مگر معاملات جمعہ کے روز کچھ اور ہوتے ہیں محترمہ۔فرشتہ لمبی سانس بھرتے ہوئے جواباً بولا۔ گھڑی اس وقت 12 بجا رہی تھی اور نمرہ اپنی بے انتہا کوششوں کے باوجود ابھی تیسرے آسمان تک ہی پہنچی تھی۔ ایسے ہی کچھوے کی چال چلتی رہی تو آج بھی شکایت نامہ پوسٹ نہ ہو پائے گا اور پھر بات کل پہ پر جائے گی۔نمرہ خود سے بات کرتے ہوئے ایک دم منفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی”نہیں․․․چاہے جو ہو جائے شکایت نامہ تو میں آج ہی پوسٹ کروں گی“۔ (جاری ہے) نمرہ نے فوراً وقت نہ ضائع کرتے ہوئے اپنے ہیل والے جوتے اُتارے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا دوڑ لگا دی۔نمرہ اتنی تیز بھاگ رہی تھی جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔ہوا کے گھوڑے پر سوار راستے کی زینت بنے کئی واقعات نمرہ نظر بند کرتی جا رہی تھی۔ پانچویں آسمان پر موجود ڈاک خانے کے راستے میں کئی باغات پڑتے تھے۔جو ہر لحاظ سے حسین اور پر سکون تھے۔ان باغات کو نظر بند کرتے ہوئے کئی بار نمرہ کا دل کرتا کہ کہیں رُک کر آرام کرلے مگر ذہن پر سوار شکایت نامے کا خیال اُس کا حوصلہ ٹوٹنے نہ دیتا۔ بالآخر نمرہ ڈاک خانے کے باہری دروازے سے داخل ہوئی۔سوالیوں کی لمبی قطار دیکھ کر نمرہ حیرت زدہ رہ گئی۔ہر کوئی اپنا خط پوسٹ کرنے کی اُمید لئے ڈاک خانے کے بنیادی دفتر کے باہر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ نمرہ من ہی من میں سوچنے لگی“میں واحد نہیں ہوں جو اللہ کو شکایت نامہ بھیجنے کی نیت سے آئی ہوں․․․․․میرے علاوہ بہت سے اور بھی ہیں جو اپنی موت سے خوش نہیں۔ “انتظار کرنے والوں کی قطار میں نمرہ کا نمبر آخری تھا۔گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد آخر وہ وقت آہی گیا جس کا نمرہ کو بے صبری سے انتظار تھا۔جیسے ہی نمرہ ڈاک خانے کے بنیادی دفتر میں داخل ہوئی تو اُس کی نظر اُس فرشتے پر پڑی جو اللہ کے نام لکھے خطوط پوسٹ کرنے کا کام سر انجام دیتا تھا۔ وہ فرشتہ بہت جلدی میں تھا۔اُس نے نمرہ کو خوش آمدید کہے بغیر ہی اپنے کاؤنٹر پر”بند“ کا بورڈ لگا دیا۔”دفتر بند ہو گیا ہے آپ اگلے ہفتے تشریف لے آیئے گا“فرشتے نے نمرہ سے معذرت کرتے ہوئے کہا۔ ”دیکھیں میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں آج۔ ۔۔اور میرا آج کے آج یہ خط پوسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔نمرہ فرشتے سے التجا کرتے ہوئے بولی۔ ”محترمہ جمعہ کا وقت ہے اور میں معمول سے تھوڑا لیٹ ہو گیا ہوں۔میں اس وقت آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“فرشتہ تیز لہجے میں بولا۔ ”دیکھیں میں اپنی اچانک موت سے خوش نہیں ہوں اور مجھے اپنی یہ شکایت جلد از جلد اللہ تک پہنچانی ہے۔میرے بہت سے کام زمین پر ادھورے پڑے ہیں جن کا مکمل ہونا بہت ضروری ہے۔“نمرہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے فرشتے سے بولی”پلیز مجھے یہ خط پوسٹ کرنے دیں اللہ آپ کا بھلا کرے۔ “نمرہ کی پُراصرار التجا فرشتہ زیادہ دیر ترک ہوں ناں کر پایا۔وہ ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔”محترمہ!“ فرشتے نے نمرہ کو مخاطب کرکے ایک لمبی سانس کھینچی۔آپ ایک کام کریں․․․․“فرشتہ بات مکمل کرتے ہوئے بولا۔ ”آپ اس کمرے میں موجود کمپلینٹ باکس میں اپنا خط اس مہر کے ساتھ خود ہی ڈال دیں․․․․․میں تھوڑا جلدی میں ہوں۔“فرشتہ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہاں سے چلا گیا۔اب اُس خالی ڈاک خانے میں نمرہ اپنے شکایت نامے کے ہمراہ تنہا کھڑی تھی۔ فرشتے نے جس جانب اشارہ کیا تھا وہ کمرہ بنیادی آفس کے شمال میں واقع تھا۔نمرہ نے وقت ضائع نہ کرتے ہوئے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔قدم بڑھاتے ہوئے نمرہ کے ہاتھ اپنے بائیں کندھے پر لٹکے ہوئے پرس سے شکایت نامہ نکالنے میں مصروف تھے۔ جیسے ہی نمرہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا شکایت نامہ لے کر کمرے میں داخل ہوئی اس کی نظر تھوڑی دور پڑے کمپلینٹ باکس پر پڑی جو خالی تھا۔یہ ڈبا خالی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ باہر لگے سوالیوں کے ہجوم کی میں خود گواہ ہوں۔نمرہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اُس کی نظر کمپلینٹ باکس سے تھوڑا دور رکھے ایک اور باکس پر پڑی جس کے باہر ”تھینک یو“لکھا تھا۔ وہ باکس اس قدر بھرا ہوا تھا کہ اُس کی اُوپر والی سطح پر موجود کچھ خطوط آسانی سے نکالے جا سکتے تھے۔“لوگ مرنے کے بعد بھی عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کرتے․․․․ورنہ کمپلینٹ باکس میں ڈالے جانے والے خط کبھی کسی دوسرے باکس کی عزت نہ بڑھاتے۔ “نمرہ کا خیال تھا کہ لوگ غلطی سے اپنی شکایات دوسرے ڈبے میں ڈال گئے ہیں۔جبکہ اُن کا اصل مقام کمپلینٹ باکس تھا۔کیوں نہ میں ہی ان لوگوں کی غیبی مددگار بن جاؤں؟نمرہ نے مدد کرنے کے خیال سے سوچا۔نمرہ اب تھینک یو باکس کے پاس کھڑی ایک ایک کرکے خط نکالنے لگی۔ خط بغیر کسی لفافے کے تھے اس لئے آسانی سے پڑھے جا سکتے تھے۔اور یہی وجہ تھی کہ نمرہ نہ چاہتے ہوئے بھی خطوط پڑھنے لگی۔پہلا خط جو نمرہ نے پڑھا وہ ایک بوڑھے آدمی کا تھا جس کے دو بیٹے تھے۔ خط میں لکھا تھا: اے میرے رب میں تیرا کس طرح شکر ادا کروں۔ تو میرے بیٹوں کی نیت سے خوب واقف تھا۔تو جانتا تھا کہ وہ میرے فرمانبردار اس وجہ سے نہیں ہیں کیونکہ وہ میری اولاد ہیں۔ان کی وفاداری کے پیچھے ان کے مکارانہ ارادے اور اُن کی سوتیلی ماں کے نام وہ جائیداد ہے جو میں نے کئی برسوں پہلے اُسے نکاح کے وقت دی تھی۔ میرے بیٹے وفاداری کی آڑ میں مجھ سے وہ جائیداد لینا چاہتے تھے۔اُن کا مقصد اپنی دوسری ماں کی تمام تر خدمتیں فراموش کرکے اُسے بے گھر کرنا تھا۔مگر تو نے ایسا ہونے نہ دیا۔میری اچانک موت نے میرے بیٹوں کے ناپاک ارادے ناکام کر ڈالے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں کی خدمت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بے شک تو تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بے شک موت برحق ہے۔“ دوسرا خط لکھنے والی روح ایک جوان بے اولاد عورت کی تھی۔ اس خط میں لکھا تھا: ”اے میرے رب میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں۔میں کئی سالوں سے بے اولاد تھی اور اس بات سے بے خبر تھی کہ میرا شوہر کسی دوسری عورت سے ناجائز رشتہ قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔ میری بیماری سے ہوئی اچانک موت نے مجھے دنیا کی اذیت بھری زندگی اور میرے شوہر کی بے وفائی دونوں سے نجات دے دی۔بے شک تو تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بیشک موت برحق ہے۔“ تیسرا خط اس مرد کا تھا جو سڑک پر ہونے والے کار حادثے کا شکارہو چکا تھا۔ خط میں لکھا تھا: ”اے میرے رب میں تیرا کس طرح شکر ادا کروں۔میری موت نے میری اولاد کو وہ حق عطا کیا جو میں اپنی زندگی میں شاید نہ عطا کر پاتا۔ میری موت میرے امیر بھائی کے دل میں خدا خوفی کا باعث بنی۔اور اس نے میری اولاد کو ان کا جائز حق دے دیا اب میری اولاد کبھی روٹی کی محتاج نہیں ہو گی۔ بے شک تو تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بے شک موت برحق ہے۔“ اگلا خط اُس بچے کا تھا جس نے دنیا میں کل تین روز گزارے۔ خط میں لکھا تھا: ”اے میرے رب میں تیرا کس طرح شکر ادا کروں۔تو نے مجھے میرے والدین کی بخشش کا وسیلہ بنایا ہے۔ شاید ہی میری زندگی میرے والدین کے حق میں اتنی کارآمد ہو پاتی جتنی میری موت ہے۔بے شک تو تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بیشک موت برحق ہے۔“ آخری خط جو نمرہ نے پڑھا وہ زینب کا تھا۔ خط میں لکھا تھا: ”اے میرے رب میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں۔ تو نے میری موت روشن کر دیا۔اے میرے رب میں شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے دنیا کی عدالت کا محتاج نہ رکھا۔دنیا کی عدالتیں پامال عزتوں کا انصاف کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔میری عزت تو نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لی۔۔۔میں شکر گزار ہوں تیری عطا کردہ جنت کی۔ بیشک تو تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بیشک موت برحق ہے۔“ جیسے ہی نمرہ نے رب کے نام زینب کا خط پڑھا اُسے اپنا وجود اپنے ہاتھ میں موجود شکایت نامہ جیسا چھوٹا محسوس ہونے لگا۔ ”محترمہ آپ ابھی تک یہاں ہیں؟“فرشتے کی اچانک آمد پر نمرہ پریشان ہوگئی۔ ”ہاں۔۔بس۔۔وہ میں جا رہی تھی۔“نمرہ نے گھبرا کر جواب دیا۔”مگر خط تو آپ نے کمپلینٹ باکس میں ڈالا نہیں؟“فرشتے کے سوال پر نمرہ نے اپنا خط اپنی ہتھیلی میں زور سے دبا لیا۔”ہاں․․․وہ مجھے خیال نہیں رہا میں جلدی میں غلط خط اُٹھا لائی۔ ۔پھر کسی دن تشریف لے آؤں گی۔“نمرہ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔”آپ بس رب کو شکریہ کہہ دیجیے گا․․․․․خدا حافظ۔“ نمرہ کے جاتے ہی فرشتے نے ایک بار پھر باکس کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولا”بے شک رب تمام علم رکھنے والا کارساز ہے۔بیشک موت برحق ہے۔“
مہوش اختر،نارتھ کراچی مریم اور علی بہن بھائی تھے،جب کہ سکندر اور زینب بھی اسی محلے میں رہتے تھے۔بچپن سے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے چاروں میں بہت اچھی دوستی تھی۔علی نویں جب کہ باقی تینوں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ محلے بھر کو صاف رکھنے کے لئے انھوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ضروری سامان کی ایک لسٹ تیار کی گئی اور کام کو آپس میں تقسیم کیا گیا۔سب سے پہلا مرحلہ گھر والوں کو راضی کرنا تھا۔سکندر کی والدہ نہایت سمجھدار خاتون تھیں۔چاروں نے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے بچوں کے فیصلے کو سراہا اور باقی تینوں بچوں کے والدین سے بھی اجازت دلوا دی۔ دوسرے دن چاروں نے محلے والوں سے چندہ جمع کرنا شروع کیا۔گھروں پر جا کر ان کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔ (جاری ہے) لوگ انھیں جانتے تھے، اس لئے چندہ دینے پر بہ خوشی راضی ہو گئے۔ جمع شدہ رقم سے بچوں نے جھاڑو،کچرا دان اور دیگر ضروری اشیاء خریدیں۔گٹر لائن کی مرمت کے لئے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا۔سیوریج نظام صحیح ہونے میں تین دن لگ گئے۔اب اگلہ مرحلہ صفائی کا تھا۔علی اور سکندر نے جھاڑو سنبھالی جب کہ زینب اور مریم نے کچرا اُٹھا کر کچرا دان میں ڈالنے کا کام شروع کیا۔ ساتھ ہی ساتھ چاروں دوستوں کی نوک جھونک اور ہنسی مذاق بھی چلتی رہی۔یہ بچے کام اتنے جوش و جذبے،اعتماد اور مزے کے ساتھ کر رہے تھے کہ محلے کے دوسرے بچے بھی اپنے گھروں سے جھاڑو اُٹھا کر لے آئے اور ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر جب چاروں نے گلی پر ایک نظر ڈالی تو ان کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا،کیونکہ ان کی کوششوں نے محلے کو خوبصورت اور دلکش بنا دیا تھا۔ ایسے میں انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا:’ارے!زینب کہاں گئی؟“علی نے زینب کو غائب پا کر پوچھا۔ ”وہ گلی کے کونے پر کوڑا دان رکھنے گئی ہے۔“مریم نے بتایا۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ زینب نے کوڑے دان کے اوپر”مجھے استعمال کرو“ کے الفاظ تحریر کر دیے تھے جو لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے لئے تھے۔ ”اب ہمیں اس صفائی مہم کا آخری کام کرنا ہے۔ “علی نے گھر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ سکندر نے کہا:”پھر ہماری گلی مستقل طور پر صاف رہنے لگے گی۔“علی نے کہا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔“ دوسرے دن انھوں نے لوگوں میں ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا۔جس میں گلی کو صاف کرنے میں تعاون کرنے پہ شکریہ ادا کیا گیا تھا اور ساتھ ہی مستقل طور پر صاف رکھنے کے لئے درخواست اور ضروری ہدایات درج تھیں۔ بچوں کی ان کاوشوں کو سراہتے ہوئے محلے کے تمام لوگوں نے ان پر عمل کرنے کا عہد کیا۔بچے اپنے مشن کو مکمل ہوتا دیکھ کر بہت خوش تھے،کیونکہ ان بچوں نے نہ صرف اپنے علاقے کے لئے ایک اہم کام کیا تھا،بلکہ اپنے بڑوں کو اس طرف راغب کر لیا تھا۔مسئلے کو حل کرنے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر انسان کو صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے انفرادی طور پر اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے،کیونکہ قطرے قطرے سے ہی دریا بنتا ہے۔
تنزیلہ احمد قصبے سے دور پہاڑی علاقے میں عاقل نامی لڑکا اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔گیارہ سالہ عاقل پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کے والد پہاڑوں کو توڑ کر پتھر ملک کے مختلف حصوں میں بھیجنے والے ٹھیکے دار کے ساتھ کام کرتے تھے اور امی عورتوں کے لئے سلائی کڑھائی کرتیں اور یوں ان کی گزر بسر ہوتی۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر عاقل اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا تھا۔وہ سلائی اور کڑھائی کیے ہوئے کپڑے ماں کے بتانے پر خواتین کے گھروں میں پہنچا آتا۔اس کی امی کو باہر بھی نہ جانا پڑتا اور وقت کی بچت بھی ہو جاتی۔جو سامان ماں کو چاہیے ہوتا باہر سے وہ بھی خرید لاتا۔ ایک روز اسے کسی خاتون کے کپڑے دینے جانا پڑا،جن کا گھر کافی دور تھا۔جب وہ کپڑے دے کر واپسی کے لئے مڑا تو شام ہونے والی تھی۔ (جاری ہے) ناہموار سنسان پہاڑی راستے پر وہ چلا آرہا تھا کہ اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔اسے محسوس ہوا کہ آواز بڑے پتھر کے پاس سے آرہی ہے۔ ”کون ہے؟“کہتا وہ پتھر کے قریب پہنچا تو وہاں اپنے برابر ایک بہت خوب صورت بچے کو دیکھا جو اپنا پیر پکڑے کراہ رہا تھا۔اس کے پاؤں میں نوکیلا کانٹا چبھا تھا جس کی وجہ سے پاؤں میں سوجن ہو رہی تھی اور خون بھی رس رہا تھا۔ ”تم کون ہو؟یہاں کیسے آئے،یہ کانٹا کیسے چبھا؟“اسے دیکھتے ہی عاقل نے حیرانی سے کئی سوال پوچھ ڈالے۔ ”بہت تکلیف ہو رہی ہے،کانٹا نکالنے کی ہمت بھی نہیں۔کیا تم میری مدد کرو گے؟“بچے نے مدد مانگی تو وہ سر ہلاتے ہوئے اس کے پاؤں کے پاس جھکا۔ ”ارے وہ دیکھو،کتنا خوب صورت پتھر ہے۔“عاقل نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جیسے ہی بچے نے اُدھر دیکھا،عاقل نے جھٹ سے کانٹا نکال دیا۔ ”ارے کانٹا نکل گیا،میں ڈر رہا تھا کہ بہت تکلیف ہو گی،مگر تم نے تو کمال کر دیا۔ “بچے نے خوشی سے کہا۔عاقل مسکرایا اور اپنی کلائی پر لپیٹا رومال پھاڑ کر اس کے پاؤں میں پٹی بھی باندھ دی۔ ”بہت شکریہ دوست!میں تمہارا احسان مند رہوں گا۔شام ڈھل رہی ہے،اب ہمیں اپنے گھر جانا چاہیے۔“ ”ٹھیک ہے،مگر تمہارا گھر کہاں ہے؟تم نے اپنا نام بھی نہیں بتایا۔ “ ”میرا نام بنٹو ہے اور جنگل کے اُس پار ہمارا گھر ہے۔“بنٹو آہستگی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ ہلائے ہوئے مخالف سمت چلنے لگا۔عاقل بھی تیزی سے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔گھر پہنچا تو امی کو پریشان پایا۔انھوں نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عاقل نے سب سچ سچ بتا دیا۔ جس پر امی نے اسے بہت شاباشی دی۔ عاقل کے ابو رات میں تھکے ہارے گھر آئے تو بہت پریشان تھے۔بیوی کے پوچھنے پر وہ بولے کہ ٹھیکے دار عام پتھر بیچنے کی آڑ میں غیر قانونی طور پر قیمتی پتھر اسمگل کرتا تھا۔وہ پکڑا گیا اور کام کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اب پتا نہیں گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ دن گزرتے گئے۔سلائی کڑھائی سے کی گئی جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔اس روز ان کے گھر راشن نہیں تھا اور اتنے پیسے بھی نہیں کہ کچھ خریدا جا سکے ۔عاقل کی امی نے اسے کڑھائی والا کُرتا دیا کہ انہی خاتون کے گھر دے آؤ،تاکہ جو پیسے ملیں اس سے کھانے کا بندوبست ہو سکے۔ جب وہ کپڑے پہنچا کر آرہا تھا تو اسے بنٹو نظر آیا۔دونوں دوست باتیں کرنے لگے۔بنٹو نے پریشانی کی وجہ پوچھی۔پھر اسے ایک سنہری تھیلی دی کہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھنا،جب کوئی مسئلہ ہو تو سچے دل سے دعا کرنا اور اس میں سے ایک بیج نکال کر زمین میں دبا دینا۔ عاقل گھر پہنچا ماں کو پیسے دیے۔ابو دکان سے بن لے آئے اور انھوں نے شکر ادا کرکے بھوک کی شدت کم کی۔رات میں سونے سے پہلے عاقل نے دعا کی اور پھر تھیلی میں سے ایک چھوٹا سا بیج نکا ل کر گھر کے پچھلے حصے کی مٹی میں دبا دیا۔ اگلی صبح وہ دروازے پر تیز دستک سے جاگے۔ ”کون ہے؟“عاقل کے ابو نے پوچھا اور دروازے پر کھڑے اپنے ایک دوست کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ ”ایک بڑی کمپنی نے پہاڑوں کی کھدائی کا حکومت سے معاہدہ کیا ہے۔وہاں کے لوگوں نے تمہاری ایمانداری سے متاثر ہو کر تمہیں انچارج بنانے کے لئے کمپنی کے نمائندے سے کہہ دیا ہے۔ میرے ساتھ چلو،انھوں نے تمہیں بلایا ہے۔“دوست کے بتانے پر وہ کھل اُٹھے اور اس کے ساتھ چلے گئے۔عاقل اور اس کی امی بہت خوش ہوئے۔عاقل بھاگ کر گھر کے پچھلے حصے میں گیا اور وہاں ایک چھوٹا سا پودا لہلہاتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک روز اس نے دعا مانگی کہ ماں کے کام میں برکت ہو اور پھر بیج بو دیا۔اگلے روز اس بیج سے بھی پودا نکل آیا۔عاقل جب بھی کپڑے دینے پہاڑی پر جاتا تو واپسی پر وہاں ضرور رکتا،جہاں بنٹو سے ملاقات ہوئی تھی،مگر بنٹو نہ ملا۔وقت گزرنے کے ساتھ عاقل کے گھریلو حالات بہت بدل گئے تھے۔ اس نے سنہری تھیلی اور اس میں موجود بیج بہت سنبھال کر رکھے۔ وہ بنٹو کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ایک رات اس نے ایک انوکھی خواہش کی اور بیج بو دیا۔ اگلے روز اپنے گھر میں بنٹو اور اس کے ساتھ ایک بہت خوبصورت خاتون کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بھاگ کر ان کے پاس گیا۔ ”تم کہاں کھو گئے تھے بنٹو!اتنے مہینے گزر گئے،مگر تم سے ملاقات نہیں ہوئی۔“ ”ہم یہاں سے چلے گئے تھے۔“بنٹو مسکرایا۔ ”کہاں چلے گئے،بتایا کیوں نہیں؟“ ”تمہاری نیکی اور رحم دلی سے متاثر ہو کر بنٹو تمہارا دوست بنا اور تمہیں جادوئی سنہری تھیلی اور بیج دیے۔ ہم انسان دوست ہیں،مگر عام انسانوں کے سامنے نہیں آتے۔اس وقت تمہاری خواہش پر ہمیں تم سے ملنے آنا پڑا۔“خاتون نے کہا تو وہ سب چونکے۔ ”امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔تم محنتی،اچھے اور رحم دل انسان ہو۔تم نے میری مدد کی اور میں نے تمہاری۔ اگر تم ایسی خواہش کرتے جو بُری ہوتی تو پودا نہ اُگتا اور نہ کبھی خواہش پوری ہوتی۔تمہاری خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہم تم سے ملنے پرستان سے آئے ہیں۔“ ”تو کک․․․․کیا آپ؟“عاقل نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں ہم انسان نہیں،میں پری زاد ہوں اور امی ملکہ پری ہیں۔ “ان کی بات سن کر عاقل بھونچکارہ گیا۔ ”اب ہمیں جانا ہو گا۔ہمیشہ اچھے کام کرنا،جھوٹ سے بچنا اور دوسروں کی مدد کرتے رہنا ورنہ سنہری تھیلی اور بیج غائب ہو جائیں گے۔اچھا دوست خدا حافظ!“بنٹو نے کہا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں غائب ہو گئے۔
بہت دور ایک پہاڑی علاقے میں ایک گاؤں آباد تھا ۔ اس میں دو دوست رہتے تھے ۔ ایک کا نام مان اور دوسرے کا فان تھا ۔ مان پہاڑ کی چوٹی پر جبکہ فان پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا ۔ وہ بچپن کے دوست تھے ، مگر ان کی عادتوں میں بہت فرق تھا ۔ مان انتہائی سنجیدہ اور تنہائی پسند آدمی تھا ۔ وہ اکیلا رہتا تھا اور لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتا تھا ۔ وہ کبھی کسی کے گھر نہ جاتا , نہ دوسروں کو اپنے گھر بلاتا ۔ شام کو گاؤں کے مرد اپنے کاموں سے فارغ ہوکر چائے خانے پر جمع ہوجاتے اور دنیا جہاں کی باتیں کرتے ۔ مگر مان کبھی وہاں کا رخ نہ کرتا ۔ بس وہ بے دلی سے اپنے کھیت میں کام کررہا ہوتا یا لوگوں سے نظریں چرائے راستے پر آتا جاتا نظر آتا ۔ اس کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے اداس آدمی ہے ۔ (جاری ہے) اس کے برعکس دوسرا دوست فان جو پہاڑ کے دامن میں رہتا تھا ۔ ایک ہنس مکھ آدمی تھا ۔ وہ ہمیشہ خوش باش نظر آتا ۔ لوگوں سے میل جول رکھتا ۔ ان کی تقریبات میں شریک ہوتا اور انھیں اپنی خوشیوں میں شریک کرتا ۔ اس نے جب دیکھا کہ مان دن بدن رنجیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بالکل بند کر دیا ہے تو وہ فکرمند ہو گیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی ترکیب سوچنے لگا ۔ کئی دن تک سوچ بچار کے بعد آخر اسے ایک ترکیب سوجھ گئی ۔ آغاز بہار کے ایک دن جب خوشگوار ہوا چلی رہی تھی ۔ وہ پھلوں کی ٹوکری کندھے پر رکھے مان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ مان نے دروازہ کھول کر حیرت سے اسے دیکھا ۔ فان نے اسے سلام کیا اور ٹوکری اس کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے بولا ۔ " تم تو ملنے آتے نہیں , میں نے سوچا میں خود ہی مل آؤں ۔ لو یہ میرے باغ کے پھل ہیں ۔ " مان نے اسے اندر بلا لیا ۔ دونوں بیٹھ گئے ۔ فان اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا ، لیکن مان بہت کم بول رہا تھا۔ آخر فان نے پوچھا۔ " کیا تم بیمار ہو ؟" " نہیں ۔" اس نے اداسی سے کہا ۔ " پھر تم نے ایسا رنجیدہ منہ کیوں بنا رکھا ہے ؟ چلو بازار کا چکر لگا کر آتے ہیں ، سنا ہے سردیوں کے لیے خان بابا کے پاس اچھا کپڑا آیا ہے ۔ " مان کشاں کشاں اس کے ساتھ چل دیا ۔ فان نے اپنے لیے کپڑوں کا ایک جوڑا خریدا اور دوسرا مان کو بھی تحفتاً دلا دیا ۔ مان منع کرتا رہا مگر فان نہ مانا ۔ پھر دونوں رخصت ہوکر اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔ چند دن بعد فان پھر جال ہاتھ میں پکڑے جھاڑیوں کو ڈنڈے سے ہلاتا ، ادھر ادھر نظریں گھماتا اس کے گھر کی طرف آنکلا اور زور سے دروازہ بجاتے ہوئے آواز لگائی ۔ " مان ! ۔۔۔۔ مان باہر آؤ ! ۔۔۔۔ میں نے آج ایک عجیب و غریب پرندہ دیکھا ہے ۔ اس کے پر نیلے جسم سبز اور آنکھیں لال تھیں ۔ وہ اسی طرف اڑ کر آیا ۔ آؤ ! اسے تلاش کرتے ہیں ۔ " مان لمبی تانے سو رہا تھا ۔ وہ سمجھا گاؤں پر کوئی آفت نازل ہو گئی ہے ۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور پاؤں میں چپل پہنے بغیر گھر سے دوڑتا ہوا باہر نکلا ۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر فان نے قہقہہ لگایا ۔ اسے ہنستے دیکھ کر مان ناراض ہو کر واپس جانے لگا ، لیکن فان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے چل دیا۔ " اوہ یار ، بلا وجہ دن میں سونا جوان آدمی کو زیب نہیں دیتا ۔ " دونوں قریبی جنگل میں چلے گئے اور وہاں دیر تک گھومتے رہے ۔ وہ پرندہ ڈھونڈتے ہوئے باتیں بھی کر رہے تھے ۔ مان کا موڈ ٹھیک ہو گیا تھا ۔ پھر تھک کر فان بولا۔ " جانے وہ پرندہ کہاں گیا ۔ چلو چھوڑو ۔ آؤ ! کچھ کھا پی لیں ۔ " اس نے اپنے تھیلے میں سے بیسنی روٹی اور اچار نکالا اور بولا ۔ " آجاؤ دونوں چیزیں بہت مزے دار ہیں ۔ تمہاری بھابھی نے بنائی ہیں ، مزہ آ جائے گا ۔ " " ایسا لگتا ہے تم گھر سے تیاری کر کے چلے تھے ؟ " مان بولا ۔ " ہاں ، میں ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہوں ۔ " فان بولا ۔ دونوں گھاس پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگے ۔ وہ باتیں بھی کر رہے تھے ۔ فان نے کہا ۔ " تمھیں شادی کرلینی چاہیے ۔ " " میں یوں ہی ٹھیک ہوں ۔ " مان بولا ۔ " مجھے تو نہیں لگتا کہ تم خوش ہو ۔ " فان بولا ۔ مان اس سے دوسری باتیں کرنے لگا ۔ فان سمجھ گیا کہ مان ابھی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔ اس نے دوبارہ وہ بات نہ کی ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔ پھر ایک دن اسی طرح فان ہاتھوں میں بڑا سا ڈبہ اٹھائے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے مان کے دروازے پر آواز لگا رہا تھا ۔ " مان مان !! دروازہ کھولو ۔ کیا تم اپنے سب گھوڑے گدھے بیچ کر سوئے ہو ؟ " مان نے دروازہ کھولا تو وہ چلایا۔ " دوست ! مجھے مبارکباد دو ۔ آج میری سالگرہ ہے ۔ مجھے اس دنیا میں آئے پچیس برس گزر گئے ہیں ۔ " مان بہت مشکل سے مسکرایا اور اسے مبارک باد دی ۔ دونوں اندر آبیٹھے ۔ فان ہاتھ ملتے ہوئے بولا ۔ " میں آج بہت خوش ہوں ۔ آج کے مبارک دن میں اس دنیا میں آیا تھا ۔ " مان نے گردن ہلائی پھر کچھ سوچ کر بولا ۔ " مگر ابھی دو تین مہینے پہلے تو تمہاری سالگرہ تھی ؟ " " وہ میری نہیں میری شادی کی سالگرہ تھی ۔ اچھا چُھری لاؤ ۔ میں کیک کاٹوں اور ہاں کنجوسی نہیں چلے گی ۔ تمھیں مجھے کوئی نہ کوئی تحفہ بھی دینا ہوگا ، چاہے وہ مرغی کا سر ہی کیوں نہ ہو ۔ " مان نے زوردار قہقہہ لگایا ۔ پھر وہ چھری لایا ۔ فان نے کیک کاٹا اور وہ مزے سے کیک کھانے لگے ۔ ساتھ ہی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ بھی کررہے تھے ۔ فان بولا ۔ " تمھیں یاد ہے ؟ بچپن میں ہم اخروٹ توڑنے جنگل میں جایا کرتے تھے اور ایک دفعہ ہمیں وہاں چڑیل نظر آئی تھی ۔ " " ہاں اچھی طرح یاد ہے ۔ ہم اس سے ڈر کر بھاگے تھے ۔ تم گر گئے تھے اور سر پر چوٹ لگی تھی ۔ کئی دن تک تمھیں آرام کرنا پڑا تھا ۔ اس دوران وہ چڑیل اور بھی کئی لوگوں کو نظر آتی رہی ۔ آخر سب نے وہاں جانا چھوڑ دیا , مگر بعد میں پتا چلا تھا کہ وہ ایک بے گھر عورت تھی ۔ اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا ۔ " مان بولا ۔ فان نے گردن ہلائی اور بولا ۔ " واہ ! تمھاری یاداشت بہت اچھی ہے ۔ مجھے حیرت ہے ۔ جب تم لوگوں سے ملتے ہو تو ان سے باتیں کیوں نہیں کرتے ؟ " " بس ، مجھے زیادہ باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا ۔ " مان شرما کر بولا ۔ " ہاں , کم بولنا اچھی بات ہے , لیکن دلچسپ اور اچھی باتیں سب شوق سے سنتے ہیں ۔ " فان بولا ۔ مان سر ہلانے لگا ۔ غرض وہ دیر تک خوش گپّیاں کرتے رہے ۔ پھر فان وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ پھر فان نے حکمت عملی بدلی اب وہ خود نہیں جاتا تھا بلکہ مان کو بلا لیتا ۔ ایک دن اس نے اپنے گھر کے آگے سے گزرتے پھیری والے سے جو پہاڑ کی چوٹی تک جاتا تھا اپنا پیغام بھیجا ۔ " آج میرے بیٹے کا نتیجہ نکلا ہے ۔ وہ اپنی جماعت میں اول آیا ہے ۔ دوپہر کو گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب ہے ۔ تمھارا بھتیجا کہتا ہے کہ چاچا کے بغیر مزہ نہیں آۓ گا ۔ لہذا تم فوراً چلے آؤ ۔ " پیغام پڑھ کر مان نے گہری آہ بھری ۔ اس کا دل کہیں جانے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔ کچھ دیر تک وہ یونہی بے خیالی میں بیٹھا رہا ۔ پھر اٹھا اور منہ ہاتھ دھو کر اپنا نیا سوٹ الماری میں سے نکالا اور پہن کر گھر سے نکل گیا ۔ ہاں راستے میں وہ بچے کے لئے تحفہ لینا نہیں بھولا تھا ۔ گھر میں زور شور سے تقریب جاری تھی ۔ بہت سے لوگ وہاں موجود تھے ، شروع میں مان کچھ بجھا بجھا رہا ۔ مگر پھر لوگوں میں گھل مل گیا ۔ اسے وہاں بہت مزہ آیا تھا۔ گھر آکر بھی وہ تقریب کے خیالوں میں کھویا رہا ۔ پھر ایک روز مان کو پیغام ملا ، لکھا تھا۔ " میرے دوست ! میں رات سے بہت بیمار ہوں ، لگتا ہے میرا آخری وقت آگیا ہے ۔ میری خواہش ہے جب میری جان نکلے تو تم میرے قریب موجود ہو ۔ " مان اچھل کر کھڑا ہو گیا ۔ اس نے تیزی سے لباس بدلنا شروع کیا اور جلدی میں بازو اور گردن ، قمیض کے گریبان میں پھسا بیٹھا ۔ وہ غصے سے کچھ بُڑبُڑایا اور خود کو اس شکنجے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا , مگر ناکام رہا ۔ آخر وہ چلانے لگا۔ " ارے !! ۔۔۔۔۔ کوئی ہے جو مجھے آکر نکالے ۔۔۔۔۔ میں پھنس گیا ہوں ۔ " آخر اُس کے پڑوسی نے آ کر اس مصیبت سے نجات دلائی ۔ پھر اس نے موزہ پہننا ۔ مگر دوسرا ہم رنگ موزہ مل نہیں رہا تھا ۔ لہذا اس نے الگ رنگ کاموزہ پہن لیا اور اٹھ کر اس طرح بھاگا کہ اس کے ایک پیر میں جوتا تھا اور دوسرا وہ بھاگتے ہوئے پہننے کی کوشش کر رہا تھا ۔ پہاڑی ڈھلوان پر سے اترتے ہوئے وہ لڑھک گیا ، مگر فورا سنبھلا ۔ اس کی پڑوسن اپنی کھڑکی میں کھڑی تھیں ۔ وہ پورے گاؤں میں کہانیاں سنانے والی نانی کے نام سے مشہور تھیں ۔ مان کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر وہ چلائیں ۔ " کیا تمہارے گھر کی چھت گر رہی ہے ؟ یا تم شادی کرنے جا رہے ہو ؟ " مگر مان نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا ۔ جب وہ فان کے گھر پہنچا تو دیکھا ۔ گھر میں مزیدار کھانوں کی خوشبوئیں آرہی ہیں اور فان جو اسے کھڑکی سے آتے دیکھ کر فوراً بستر پر لیٹ گیا تھا ، زور زور سے کراہ رہا ہے ۔ اس کے پاس بیٹھ گیا.