محمد خرم رفیق پرہار،بہاول پور کسی زمانے میں چین میں ایک امیر احمق آدمی رہتا تھا۔اس کا نام پنگ سن تھا۔اس کا ایک نوکر پوشیح تھا۔وہ اپنے آقا سے بھی زیادہ بے وقوفی کی حرکتیں کرتا تھا۔ایک دن پنگ سن نے سوچا کہ دریا کے کنارے چہل قدمی کریں۔ اس نے اپنے جوتے پہنے خیال نہیں کیا کہ ایک جوتے کا نلا موٹا ہے اور ایک کا پتلا۔وہی جوتے پہن کر ٹہلنے لگا۔پیچھے پیچھے اس کا نوکر بھی تھا۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد پنگ سن کو محسوس ہوا کہ چلنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ایک پیر دوسرے کے مقابلے میں نیچے چلا جاتا تھا۔ نوکر سے کہا:”میرے پیر میں شاید کچھ تکلیف ہے۔“ نوکر نے جواب دیا:”شاید بارش سے سڑک پر گڑھے پڑ گئے ہیں۔“ ایک آدمی اُدھر سے گزر رہا تھا۔ (جاری ہے) اس نے ان کی بات سنی اور کہا:”جناب!سڑک بالکل برابر اور چکنی ہے۔بارش بھی عرصے سے یہاں نہیں ہوئی۔ “ ”پھر میرے پیر کیوں اوپر نیچے جا رہے ہیں؟“ پنگ سن نے پوچھا۔ اجنبی نے کہا:”جناب !آپ ایک موٹے تلے کا اور ایک پتلے تلے کا جوتا پہنے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ سے آپ کو چلنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔اگر آپ کے دونوں جوتوں کے تلے برابر ہوں تو چلنا کچھ دشوار نہیں ہو گا اور آپ کو ٹہلنے میں لطف آئے گا۔ “ پنگ سن نے جوتوں کی طرف دیکھا اور یقین ہو گیا کہ آدمی ٹھیک کہہ رہا ہے۔اس نے اپنے نوکر سے کہا:”گھر جاؤ اور میرے لئے جوتوں کا دوسرا جوڑا لے آؤ۔“ نوکر گھر پہنچا۔اس نے دوسرا جوڑا دیکھا تو وہ ایک جیسا نہیں تھا۔ ایک کا نلا موٹا تو دوسرا نلا پتلا تھا۔اس نے سوچا یہ تو ویسے ہی جوتے ہیں جیسے اس کا آقا پہنے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو پھر ان جوتوں کو لے جانے کا کیا فائدہ۔وہ خالی ہاتھ واپس آگیا۔ پنگ سن نے اسے دیکھا تو پوچھا:”میرے دوسرے جوتے کہاں ہیں؟“ نوکر نے جواب دیا:”میرے آقا!آپ نے جوتے لانے کا کہا تھا۔ میں نے ان جوتوں کو غور سے دیکھا تو پتا چلا وہ بھی بالکل ایسا ہی جوڑا ہے۔ایک کا نلا پتلا اور ایک کا موٹا ہے۔اس لئے میں نہیں لایا۔“ ”میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم جیسا عقل مند نوکر ملا ہے۔آج شاید قسمت میں تکلیف ہی لکھی تھی۔“پنگ سن نے کہا اور انہی جوتوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے رہے۔
اُمِ ابراہیم مصطفی شرفو بہت شریف،سیدھا سادہ،لیکن بے وقوف نوکر تھا۔ایک دن بیگم صاحبہ نے اس سے کہا:”شرفو!میں ذرا باہر جا رہی ہوں۔میری ایک سہیلی آنے والی ہے،تم اسے ڈرائنگ روم میں یا میرے کمرے میں بیٹھانا اور دیکھو وہ سیدھی سادھی سی خاتون ہیں تم انھیں پریشان مت کرنا۔ کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔“ ”ٹھیک ہے بی بی جی!آپ فکر نہ کریں۔“ بیگم صاحبہ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد کال بیل بجی۔شرفو نے دروازہ کھولا تو سامنے اسے ایک سیدھی سادھی سی عورت دکھائی دی۔شرفو نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ ”السلام علیکم!میں بیگم صاحبہ سے ملنے آئی ہوں۔دراصل وہ․․․․“عورت نے جیسی ہی کہنا شروع کیا،شرفو ایک دم سے بولا:”ارے رے رے،آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (جاری ہے) بیگم صاحبہ نے آپ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔آپ اندر آئیے،تشریف لائیے،آرام سے بیٹھ جائیں۔ شرفو خاتون کو اصرار کرکے اندر لے گیا۔دراصل میں ان سے یہ کہنے آئی تھی کہ․․․․“خاتون مزید کچھ کہنے لگی،شرفو نے اس کو چپ کروا دیا:”ارے آپ وضاحت نہ دیں مجھے سب کچھ بیگم صاحبہ نے بتا دیا ہے،بس آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔“ شرفو میاں بسکٹ اور نمکو وغیرہ بھی لے آئے اور کہا:”آپ یہ لیں نا۔ “ ”ارے رے رے نہیں نہیں،میں،م،م،م مجھے کچھ نہیں کھانا،میں تو بس․․․․وہ ایک دم گھبرا گئی۔ ”نہیں محترمہ!آپ تکلف نہ کریں،ہماری بیگم صاحبہ ناراض ہوں گی۔“ شرفو کے بے حد اصرار پر خاتون چیزوں کو بڑی رغبت سے کھانے لگی۔ اتنے میں دروازے پر پھر گھنٹی بجی۔شرفو نے جا کر دیکھا۔ایک خاتون کھڑی تھیں۔ ”جی آپ کون؟“شرفو نے تعجب سے سامنے کھڑی عورت کو دیکھا۔ ”میں مسز عاطف سے ملنے․․․․“ شرفو نے عورت کی بات کاٹ دی:”جی آپ تھوڑا سا انتظار کریں۔ بیگم صاحبہ کہیں گئیں ہوئی ہیں۔آپ پھر کبھی آجائیے گا،ابھی ڈرائنگ روم میں ان کی سہیلی تشریف رکھتی ہیں۔“ شرفو نے اپنی طرف سے بہت عقل مندی سے بات کی۔ ”لیکن میں ضروری کام سے آئی ہوں۔“عورت بولی۔ ”دیکھیں جی کام کے لئے بہت سی ماسیاں آتی ہیں ہم ہر ایک کو کام نہیں دے سکتے نا۔ “شرفو اپنی موج میں بولا۔ ”کیا!میں تمہیں کام والی ماسی نظر آتی ہوں!تمہیں تمیز نہیں،میں جا رہی ہوں،فرزانہ سے تمہاری شکایت کروں گی۔“عورت غصے میں بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔ شرفو نے شکر ادا کیا کہ عورت گئی اور پھر اندر خاتون کے پاس آیا،جو کھانے سے اب فارغ ہو چکی تھیں۔ ”اگر آپ کو بیگم صاحبہ کے کمرے میں بیٹھنا ہے تو وہاں چلیے۔“ شرفو عورت کو بہت اصرار کرکے بیگم صاحبہ کے کمرے میں چھوڑ کر آیا تو بیگم صاحبہ بھی آگئیں:”شرفو!میری مہمان آئیں ہیں کیا؟کہاں ہیں وہ؟“ ”جی بیگم صاحبہ!وہ آپ کے کمرے میں ہیں۔ “ ”اچھا ٹھیک ہے ،دو چائے بھجوا دو۔“ بیگم صاحبہ کمرے میں گئیں تو وہاں ان کو اپنی سلائی والی عورت ریحانہ بیٹھی ہوئی ملی۔ ”ریحانہ تم!یہاں کیا کر رہی ہو؟“بیگم صاحبہ نے حیرت سے پوچھا۔ان کو شرفو کی بے وقوفی کا اندازہ بھی ہوا۔ ”بیگم صاحبہ!میں تو آپ سے سلائی کے پیسے لینے آئی تھی،مگر آپ کے نوکر نے ایک نہ سنی۔“اس نے ساری بات بتا دی۔ ”اُف شرفو!شرفو!اِدھر آؤ،یہ تم نے انھیں کیوں پکڑ کر یہاں بیٹھایا ہے؟اور میری مہمان کہاں ہے؟“ بیگم صاحبہ !یہی تو ہیں آپ کی مہمان سیدھی سادھی سی خاتون۔ “ ”شرفو!تم اس حد تک بے وقوف ہو،یہ مجھے اندازہ ہو گیا ہے۔یہ تو ریحانہ ہے،کپڑے سلائی والی۔“بیگم رضوانہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ اُدھر شرفو صاحب بڑبڑاتے ہوئے باہر کو لپکے ۔اسی وقت سیٹھ صاحب اندر داخل ہوئے تو وہ ان سے ٹکرا گئے۔ ”اوہ․․․․صاحب جی!معاف کر دیں۔“شرفو نے کہا۔ ”کیا ہوا،اتنے ہڑبڑائے ہوئے کیوں ہو؟“عاطف صاحب بولے۔ ارے صاحب جی!بیگم صاحب کو شاک (صدمہ) لگا ہے۔“شرفو صاحب انجانے میں اعلیٰ قسم کی اردو بول گئے۔ ”کیا کہا؟“عاطف صاحب گھبرا کر پلٹے:”فرزانہ!فرزانہ کہاں ہو،کیا ہوا؟“ ”ارے نہیں صاحب جی!وہ سیدھی سادھی عورت نے شاک دے دیا۔ “شرفو مزید ہڑبڑایا۔ ”کیا کہہ رہے ہو تم۔“سیٹھ صاحب بولے۔ ادھر شرفو کے پیچھے بیگم صاحبہ نمودار ہوئیں۔اس سے پہلے کہ وہ شرفو کو باتیں سناتیں شرفو تو یہ جا وہ جا۔ بیگم صاحبہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور سیٹھ صاحب بھی کچھ کچھ سمجھ گئے اور وہ بھی وہیں کھڑے کھڑے مسکرانے لگے۔
اُسیدالرحمن،کراچی کسی گاؤں کے لوگ بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔ان کے گاؤں میں کوئی مہمان آجائے تو بہت آؤ بھگت کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ان کے گاؤں میں ایک مہمان آیا۔گاؤں والوں نے اس کے آگے طرح طرح کے کھانے دسترخوان پر چُن دیے۔ ساتھ ہی ایک بڑا سا ڈنڈا رکھ دیا۔مہمان کھانے دیکھ کر بہت خوش ہوا،لیکن ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔میزبانوں سے پوچھا:یہ ڈنڈا کیوں رکھا ہے؟“ انھوں نے کہا:”یہ ہماری روایت ہے۔آپ ڈریں نہیں اور کھانا شروع کریں۔“ مہمان اَڑ گیا کہ پہلے مجھے ڈنڈے کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ میزبان لاکھ قسمیں کھائیں کہ اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا،لیکن مہمان نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔دل ہی دل میں وہ ڈر رہا تھا کہ کھانا کھلانے کے بعد یہ لوگ میری درگت بنائیں گے۔ (جاری ہے) مہمان کا کھانا کھانے سے انکار سن کر پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ ایک بزرگ کو مہمان کے پاس لایا گیا کہ وہ ڈنڈے کی حقیقت بیان کریں۔بزرگ ڈنڈا دیکھ کر غصے ہوئے اور کہا اتنا لمبا ڈنڈا نہیں رکھتے۔ اسے تین فٹ کم کرو۔ڈنڈے کو فوراً تین فٹ کم کیا گیا،لیکن مہمان اب بھی کھانے سے انکاری تھا۔ وجہ ڈنڈے کی اب بھی لمبائی پانچ فٹ تھی۔گاؤں والے بہت پریشان ہوئے ایک اور بزرگ جن کی عمر نوے برس ہو گی ان کو لایا گیا۔وہ بھی ڈنڈے کی لمبائی دیکھ کر آگ بگولا ہو گئے۔کہنے لگے کہ ہاتھ کی لمبائی کے مطابق چھڑی رکھتے ہیں۔اس کو کم کرو۔ ڈنڈے کٹ کر چھڑی کے برابر ہو گیا۔اب چھڑی سے تو مہمان کو کوئی ڈر نہ تھا،لیکن اس کا تجسس برقرار تھا کہ اس ڈنڈے کی اصل حقیقت ہے کیا؟ آخر ایک بزرگ کو جن کی بھنوؤں اور پلکوں کے بال تک سفید تھے ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا۔انھوں نے چھڑی دیکھی تو برس پڑے اور کہنے لگے،پیالی میں ایک تنکا رکھا جاتا ہے تاکہ اگر مہمان کے دانتوں میں گوشت کا کوئی ریشہ رہ جائے تو وہ اسے نکال سکے۔ ڈنڈے کی حقیقت جان کر مہمان نے سکون کا سانس لیا،پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور گاؤں والوں کا شکریہ ادا کرکے اپنی راہ ہو لیا۔
اُسیدالرحمن،کراچی ایک شخص سڑک سے گزر رہا تھا۔اچانک اس کی نظر پانچ ہزار کے نوٹ پر پڑی جو سڑک کی ایک طرف کھڑی گاڑی کے ٹائر کے نیچے دبا تھا۔ اس نے گاڑی کے آس پاس دیکھا کہ کوئی ہے تو نہیں،پھر گاڑی کے ٹائر کے پاس بیٹھ کر نوٹ نکالنے کی بہت کوشش کی ،مگر نوٹ نہیں نکلا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی،مگر وہ لاک تھا۔گاڑی کو دھکا لگانے کی کوشش کی،لیکن گاڑی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تھک ہار کر وہ سڑک پار کرکے سامنے ایک اوپن ایئر کیفے میں بیٹھ گیا،جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس نے کرسی اس زاویہ پر رکھی کہ گاڑی پر نظر رہے۔ اچانک ایک فٹ بال اُچھلتی ہوئی ٹائر کے پاس آکر رک گئی۔وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ کرسی پر پہلو بدلنے لگا۔ایک لڑکا جس کی وہ فٹ بال تھی،آیا اس نے کک لگائی اور وہ جا وہ جا۔ (جاری ہے) اس کی جان میں جان آئی۔ پھر ایک خاتون گاڑی کے پاس آکر رکیں۔ انھوں نے باسکٹ زمین پر رکھی اور پسینا صاف کرنے لگی۔اس شخص نے بے چینی سے اپنی اُنگلیاں چٹخانی شروع کر دی،لیکن اس کے جانے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ایک جمعدار آکر اس روڈ کی صفائی کرنے لگا۔اس کا تو حال ہی بُرا ہو گیا کہ اب تو نوٹ ہاتھ سے گیا۔ لیکن خیر گزری جمعدار کی نظر بھی نوٹ پر نہ پڑی اور وہ اِدھر اُدھر جھاڑو مار کر چل پڑا۔اچانک ایک شخص تیزی سے گاڑی کی چابی اُنگلی میں گھماتا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا اور روانہ ہو گیا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر ڈالتے ہوئے اُٹھا ہی تھا کہ کیفے میں بیٹھے تمام لوگ تیزی سے اُٹھے اور بھاگ کر وہاں پہنچ گئے،جہاں نوٹ پڑا تھا۔ اچانک بھگدڑ کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔
اُسیدالرحمن،کراچی ایک شخص سڑک سے گزر رہا تھا۔اچانک اس کی نظر پانچ ہزار کے نوٹ پر پڑی جو سڑک کی ایک طرف کھڑی گاڑی کے ٹائر کے نیچے دبا تھا۔ اس نے گاڑی کے آس پاس دیکھا کہ کوئی ہے تو نہیں،پھر گاڑی کے ٹائر کے پاس بیٹھ کر نوٹ نکالنے کی بہت کوشش کی ،مگر نوٹ نہیں نکلا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی،مگر وہ لاک تھا۔گاڑی کو دھکا لگانے کی کوشش کی،لیکن گاڑی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تھک ہار کر وہ سڑک پار کرکے سامنے ایک اوپن ایئر کیفے میں بیٹھ گیا،جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس نے کرسی اس زاویہ پر رکھی کہ گاڑی پر نظر رہے۔ اچانک ایک فٹ بال اُچھلتی ہوئی ٹائر کے پاس آکر رک گئی۔وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ کرسی پر پہلو بدلنے لگا۔ایک لڑکا جس کی وہ فٹ بال تھی،آیا اس نے کک لگائی اور وہ جا وہ جا۔ (جاری ہے) اس کی جان میں جان آئی۔ پھر ایک خاتون گاڑی کے پاس آکر رکیں۔ انھوں نے باسکٹ زمین پر رکھی اور پسینا صاف کرنے لگی۔اس شخص نے بے چینی سے اپنی اُنگلیاں چٹخانی شروع کر دی،لیکن اس کے جانے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ایک جمعدار آکر اس روڈ کی صفائی کرنے لگا۔اس کا تو حال ہی بُرا ہو گیا کہ اب تو نوٹ ہاتھ سے گیا۔ لیکن خیر گزری جمعدار کی نظر بھی نوٹ پر نہ پڑی اور وہ اِدھر اُدھر جھاڑو مار کر چل پڑا۔اچانک ایک شخص تیزی سے گاڑی کی چابی اُنگلی میں گھماتا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا اور روانہ ہو گیا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر ڈالتے ہوئے اُٹھا ہی تھا کہ کیفے میں بیٹھے تمام لوگ تیزی سے اُٹھے اور بھاگ کر وہاں پہنچ گئے،جہاں نوٹ پڑا تھا۔ اچانک بھگدڑ کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔
سیدہ زینب علی،کراچی چچا آزاد ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ایک دن اتوار کو حیرت انگیز طور پر صبح ہی صبح اُٹھ گئے تھے۔ان کی بیگم اور بچے سو رہے تھے ۔آج کیک کھانے کو ان کا دل چاہ رہا تھا۔بیگم سو رہی تھیں اور ابھی سب دکانیں بھی بند تھیں۔ آخر انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی کیک بنا لیں۔بس یہ خیال آتے ہی وہ کھڑے ہوئے اور باورچی خانے کی طرف لپکے۔انھوں نے پہلے تو اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں پھر آگے بڑھ کر پکوان کی ترکیبوں والی کتاب اُٹھائی۔انھوں نے اس میں سے کیک بنانے کی ترکیب نکالی اور اشیاء کے نام پڑھنے لگے۔ پہلے نمبر پر میدہ لکھا تھا۔نظر کمزور ہونے کی وجہ سے میدے کی جگہ بیسن نکال لیا۔اب ان کو انڈا درکار تھا۔انڈا نکال کر اسے توڑنے ہی والے تھے کہ وہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گرا۔ (جاری ہے) انھوں نے جھنجلا کر پیر پٹخے اور دوسرا انڈا نکال کر ڈال دیا۔ اب انھوں نے پسی چینی اور کوکو پاؤڈر کی تلاش شروع کی۔پسی چینی تو مل گئی،مگر کوکو پاؤڈر نہ ملا۔تنگ آکر انھوں نے اس کو تلاش کرنا ترک کیا اور پسی چینی کا پیکٹ اُٹھا کر اس پتیلے میں ڈالنے لگے،مگر ان کی نظریں اس وقت پتیلے کے بجائے کتاب پر تھیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدھی سے زیادہ چینی نیچے گر گئی۔ انھوں نے اسے صاف کرنے کی زحمت نہ کی اور اب بیکنگ پاؤڈر کی تلاش میں تھے۔وہ تو نہ ملا،لیکن سرکے کو عرقِ گلاب سمجھ کر پتیلے میں ڈال دیا۔اچانک ان کو یاد آیا کہ وہ تیل ڈالنا بھول گئے ہیں۔یہ یاد آتے ہی وہ تیل کی طرف لپکے اور اس کا پیکٹ اُٹھا لائے۔ پیکٹ کھولنے کے دوران ہی وہ پھٹ گیا آدھا تیل نیچے بہہ گیا۔باقی پتیلے میں اُلٹ دیا۔اس کے بعد انھوں نے ان سب کا آمیزہ بنایا اور پتیلا اُٹھا کر اوون کی طرف بڑھے ،مگر اسی وقت نیچے پڑے انڈے اور گرے ہوئے تیل سے ان کا پیر بُری طرح پھسلا اور پتیلے سمیت گر پڑے۔ ان کی چیخ سن کر بیگم ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں اور باورچی خانے کی طرف بھاگیں،مگر باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔اس وقت وہ جگہ باورچی خانہ کہلانے کے لائق نہیں تھی۔ ”یہ․․․․․یہ کیا کیا آپ نے؟اب آپ خود ہی یہاں کی صفائی کریں گے،ورنہ آج کھانا نہیں ملے گا۔ “ انھوں نے غصے سے دھمکی دی۔چچا یہ دھمکی سن کر فوراً اُٹھے،مگر جب باورچی خانے کی حالت دیکھی تو وہ چکرا گئے۔اگر یہ ان کی بیگم کو پتا چل جاتا کہ انھوں نے کیک بنانے کے لئے پتیلے میں کیا کیا ڈالا ہے تو ان کا خیال یہی ہوتا کہ یہ کیک کھانے کے بجائے گرانے کے ہی قابل تھا۔
محمد اعجاز فاروق،لکی مروت ریل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور ریل گاڑی جنگل کے بیچوں بیچ رُک گئی۔سارے مسافر پریشانی کے عالم میں ریل گاڑی سے اُتر گئے اور آگے انجن کی طرف بڑھ گئے،تاکہ رکنے کی وجہ معلوم کر سکیں۔ شہاب الدین بھی اپنے بیٹے فیضان کے ساتھ نیچے اُتر گیا جو پچھلے دس گھنٹوں سے اپنے بیٹے بیوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔معلوم ہوا کہ انجن کی خرابی تقریباً ایک گھنٹے میں ٹھیک ہو گی۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔سب لوگ اِدھر اُدھر جنگل میں چلے گئے،تاکہ یہ ایک گھنٹہ کسی طرح سے گزر جائے۔ شہاب الدین بھی انہی کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔ جنگل میں کچھ دور جانے سے ان کو ایک نہر دکھائی دی،جس کے ساتھ پھل دار درخت بھی تھے۔ (جاری ہے) سب نے جا کر خوب پانی پیا اور جنگلی پھلوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ اچانک شہاب الدین نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں اور پھر چیخنے لگا:”میرا بیٹا کہاں گیا؟“سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے بیٹے کے غائب ہونے پر کچھ لوگ اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے۔ ایک گھنٹہ ڈھونڈنے کے باوجود ان کا بیٹا کسی کو نظر نہیں آیا،جس کی وجہ سے سارے مسافر پریشان ہو گئے۔شہاب الدین کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑی بن گئی تھی۔مسافر تسلی دے رہے تھے۔کوئی کہہ رہا تھا کہ جنگل میں گم ہوا ہو گا۔کسی نے کہا کہ شیر نے اس کو اپنی خوراک بنایا ہو گا۔ شاید پانی میں ڈوب گیا ہو گا۔سارے لوگ پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ آخر کہاں گیا ہو گا؟شہاب الدین رو رو کر دعائیں مانگ رہا تھا۔ انجن ایک گھنٹے کے بعد ٹھیک ہو گیا اور ڈرائیور نے سب مسافروں کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ شہاب الدین لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے ڈبے میں داخل ہوا۔جونہی وہ اپنے ڈبے میں داخل ہوا تو اگلا لمحہ حیران کن تھا اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ان کا بیٹا برتھ پر مزے کی نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔اس نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے سب مسافروں کو بلایا اور انھیں بھی اپنی خوشی میں شامل کر لیا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ گیا ہی نہیں تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو جگایا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ اس دوران مسافروں میں سے ایک مسافر نے کہا:”بغل میں بچہ،شہر میں ڈھنڈورا۔“
محمد اعجاز فاروق،لکی مروت ریل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور ریل گاڑی جنگل کے بیچوں بیچ رُک گئی۔سارے مسافر پریشانی کے عالم میں ریل گاڑی سے اُتر گئے اور آگے انجن کی طرف بڑھ گئے،تاکہ رکنے کی وجہ معلوم کر سکیں۔ شہاب الدین بھی اپنے بیٹے فیضان کے ساتھ نیچے اُتر گیا جو پچھلے دس گھنٹوں سے اپنے بیٹے بیوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔معلوم ہوا کہ انجن کی خرابی تقریباً ایک گھنٹے میں ٹھیک ہو گی۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔سب لوگ اِدھر اُدھر جنگل میں چلے گئے،تاکہ یہ ایک گھنٹہ کسی طرح سے گزر جائے۔ شہاب الدین بھی انہی کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔ جنگل میں کچھ دور جانے سے ان کو ایک نہر دکھائی دی،جس کے ساتھ پھل دار درخت بھی تھے۔ (جاری ہے) سب نے جا کر خوب پانی پیا اور جنگلی پھلوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ اچانک شہاب الدین نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں اور پھر چیخنے لگا:”میرا بیٹا کہاں گیا؟“سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے بیٹے کے غائب ہونے پر کچھ لوگ اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے۔ ایک گھنٹہ ڈھونڈنے کے باوجود ان کا بیٹا کسی کو نظر نہیں آیا،جس کی وجہ سے سارے مسافر پریشان ہو گئے۔شہاب الدین کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑی بن گئی تھی۔مسافر تسلی دے رہے تھے۔کوئی کہہ رہا تھا کہ جنگل میں گم ہوا ہو گا۔کسی نے کہا کہ شیر نے اس کو اپنی خوراک بنایا ہو گا۔ شاید پانی میں ڈوب گیا ہو گا۔سارے لوگ پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ آخر کہاں گیا ہو گا؟شہاب الدین رو رو کر دعائیں مانگ رہا تھا۔ انجن ایک گھنٹے کے بعد ٹھیک ہو گیا اور ڈرائیور نے سب مسافروں کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ شہاب الدین لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے ڈبے میں داخل ہوا۔جونہی وہ اپنے ڈبے میں داخل ہوا تو اگلا لمحہ حیران کن تھا اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ان کا بیٹا برتھ پر مزے کی نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔اس نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے سب مسافروں کو بلایا اور انھیں بھی اپنی خوشی میں شامل کر لیا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ گیا ہی نہیں تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو جگایا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ اس دوران مسافروں میں سے ایک مسافر نے کہا:”بغل میں بچہ،شہر میں ڈھنڈورا۔“
میں ایک صاف ستھرے گھر میں رہتا تھا۔ میرا مالک بہت خوش اخلاق انسان تھا۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ہر وقت میرا خیال رکھتا تھا۔ ابھی میں چھوٹا ساہی تھا جب میرے مالک نے میری دیکھ بھال شروع کی، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا، مجھے وقت پر کھانا دیتا اور کبھی بلاوجہ مجھے نہیں ڈانتا تھا۔ میرے مالک کے دو چھوٹے بچے بھی تھے وہ بھی مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے، پیار سے میری پیٹھ سہلاتے تو میں خوشی سے نہال ہوجاتا تھا۔ میں صبح سویرے خود ہی سیر کو نکل جاتا تھا۔ اور کچھ ہی دور رہنے والے اپنے دوستوں سے مل لیتا تھا۔ انہیں اپنے مالک کی باتیں سناتا تھا، اور پھر مقررہ وقت پر واپس آکر کھانا کھاتا تھا۔ اور دن بھر اپنے مالک کے گھر اور کبھی گھر سے باہر گھومتا رہتا تھا۔ (جاری ہے) ہرے بھرے پتے اور نرم گھاس کھا کر میں کافی صحت مند ہوگیا تھا۔ میرے مالک کے دونوں بچوں کا مجھ سے پیار بہت عجیب تھا۔ وہ اپنی زبان میں نہ جانے مجھے کیا کچھ سناتے رہتے اور میں چپ چاپ بس انہیں دیکھتا رہتا۔ وہ کبھی کبھی گھنٹوں میرے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ اور اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کبھی میری گردن کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے اور سبھی میرے لمبے لمبے کانوں کو ہاتھ لگا کر خوش ہوتے تھے۔ میں اس گھر میں بہت خوش تھا مجھے انسان اچھے لگنے لگے تھے۔ میں سوچتا تھا یہ سب انسان کتنے پیارے ہوتے ہیں جو ہم جانوروں سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اپنے دوستوں کی باتوں کا یقین نہیں کیا جو یہ کہتے تھے کہ انسان بہت برے ہوتے ہیں اور وہ جانوروں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان کی ان باتوں کا اس لیے یقین نہیں کرتا تھا کیونکہ میں بہت شرارتی بھی تھا اور خوب شرارتیں کرتا تھا لیکن میرے مالک نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا تھا۔ میرا مالک بہت غریب آدمی تھا۔ وہ اپنی آمدنی سے بمشکل گزارا کرپاتا تھا۔ کچھ دنوں سے میں مسلسل یہ دیکھ رہا تھا کہ میرا مالک بہت پریشان رہنے لگا ہے۔ اس کی نظر جب بھی مجھ پر پڑتی تو وہ اداس اور غمگین ہوجاتا تھا۔ اگلی صبح میں معمول کے مطابق جب کچھ ہی دور اپنے دوستوں سے ملنے گیا۔ تو وہاں بہت کم تع
زین شمسی انسان بہت عجیب فطرت رکھتا ہے بعض اوقات بڑے سے بڑا غم اُس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا اور بعض اوقات معمولی سی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتا اور دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں انسانی رویوں کی سفا کی یا حد سے زیادہ فرمانبرداری دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اب یہ فیصلہ آپ کریں گے کہ اس رویے کو درحقیقت کیا نام دیا جائے۔ہوا کچھ یوں کہ․․․․میں اپنے گھر میں آرام کررہا تھا کہ غلام قادر جو میرا بچپن کا دوست تھا اور اپنے علاقے کا وڈیرا بھی تھااس کا فون آیا اور اس نے کہا۔ ”کل اتوار ہے تمہاری چھٹی ہے میرے ساتھ گاؤں چلو میں تمہیں جو نئی زمینیں لی ہیں وہ دکھانا چاہتا ہوں۔“پہلے پہل تو میرا موڈ نہیں تھا پھر اس کے زور دینے پر میں نے حامی بھر لی مگر اس شرط پر کہ وہ اتوار کو رات ہی مجھے واپس شہر بھجوادے گا۔ (جاری ہے) کیونکہ اگلے دن میرا دفتر تھا نئی نئی نوکری میں چھٹی ملنا بھی محال تھا۔غلام قادر نے وعدہ کر لیا یوں اتوار کی صبح فجر کی نماز پڑھ کر ہم لوگ گاؤں کے لیے نکل پڑے۔راستے میں رک کر ناشتہ کیا اور پھر ایک طویل تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم لوگ گاؤں پہنچ گئے۔ جمال تم تھک گئے ہو گے کچھ دیر آرام کرلو۔کھانے کے بعد تیاررہنا میں تمہیں اپنی زرعی زمینیں دکھاؤں گا۔ میری کمر واقعی میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تختہ ہو چکی تھی اس کی یہ آفر سنہری لگی لہٰذا فوراً حامی بھر لی ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد اٹھ کر نہایا تو تازہ دم ہو گیا۔ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھاکہ ملازم گرما گرم کھانے لے آیا۔ ”تمہارے صاحب کدھر ہیں؟“میں نے ملازم سے پوچھا۔ ”بس جی آپ شروع کریں وہ آرہے ہیں۔“ابھی ملازم کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ غلام قادر بھی آگیا۔ ہم نے ڈٹ کر مرغی کی کڑھائی جو دیسی گھی میں بنی تھی۔مکئی کی روٹی سر سوں کا ساگ اور جگ بھر لسی سے پیٹ پوجا کی پھر غلام قادر نے مجھے گاڑی میں بیٹھایا اور خود گھرکے اندر چلا گیا۔میں گاڑی میں بیٹھا دور دور تک پھیلے سبز کھیتوں کا نظارہ کرنے لگا․․․․کچھ دیر ہی گزری ہو گی جب غلام قادر باہر آگیا۔ اس کے ہمراہ ایک بارہ‘تیرہ سال کا دبلا پتلا سابچہ تھا وہ اس بچے کو اپنے ساتھ لپٹا ئے گاڑی کے قریب آیا تو میں بھی گاڑی سے اتر کر باہر آگیا۔ ”جمال میرے بیٹے غلام محمد سے ملو۔“بچے نے میری جانب اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے سلام کیا۔ میں نے غلام محمد سے مصافحہ کرنے کے بعد اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی وہ ہو بہو اپنے باپ کی کاپی تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ مدبراور خاموش تھا۔ ”یار جمال “غلام محمد میرا اکلوتا بیٹا ہے اور میرا سب کچھ اسی کا ہے۔ “غلام قادر نے پیار سے بیٹے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔میں نے بھی مسکرا کر غلام محمد کی جانب دیکھا اس کی کالی چمکتی آنکھوں میں بہت ٹھہراؤ تھا۔ ”میں اپنے بیٹے کو بس ایک ہی بات سمجھا تا ہوں کہ کام کوئی بھی ہو کبھی ادھورامت چھوڑنا‘وقت ضائع مت کرنا‘انسان چلا جاتا ہے مگر اس کا کام ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ “ ”یہ بات تو بالکل سچ ہے ۔“میں نے پیار سے غلام محمد کے سر پر ہاتھ رکھا۔وہ دھیمے سے مسکرایا اور باپ سے مزید چپک کر کھڑا ہو گیا۔پھر ہم لوگ زمینوں کی طرف روانہ ہو گئے۔واقعی میں غلام قادر کا علاقہ بہت سر سبز تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد گاڑی رُک گئی ہم سب گاڑی سے اتر آئے تب غلام قادر نے مجھ سے کہا۔ ”جمال جہاں تک تمہاری نظر دیکھ سکتی ہے یہ سب میری زمینیں ہیں‘یہ پھل یہ درخت‘کھیت کھلیان‘جنگل‘باغات اور جانور سب میرے ہیں۔ یہاں میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔“اس وقت غلام قادر کے چہرے پر بڑی فاتحانہ چمک تھی۔ ”یہ سب میں اپنے والد کے انتقال کے بعد سے سنبھال رہا ہوں بلکہ اس میں بہت اضافہ بھی کیا ہے اور اب میرے بعد میرا بیٹا یہ سب سنبھالے گا۔ “اس نے محبت پاش نظروں سے بیٹے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔اچانک کسی انجانی سمت سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں میں بے انتہا خوفزدہ ہو گیا۔غلام قادر کے گارڈز نے اتر کر پوزیشن سنبھال لی۔ہم تینوں گاڑی کی آڑ میں آگئے۔ ”جمال یار پریشان نہ ہو یہاں ہو تا رہتاہے۔ “ غلام قادر نے مجھے خوفزدہ پا کر کہا۔وہ اور غلام محمد بالکل مطمئن کھڑے تھے میں ان دونوں کا اطمینان دیکھ کر مزید خوف زدہ ہو گیا۔گارڈز مختلف سمتوں میں فائرنگ کررہے تھے گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے سارا ماحول گونج رہا تھا ۔ غلام قدر نے مجھے بتایا ۔ ”یہ چور اُچکے ہیں جو کٹی فصل چرانے کے چکر میں رہتے ہیں رات سے اس علاقے میں ایک چور کو میرے آدمیوں نے گھیرا ہوا ہے ہم انتظار کررہے ہیں کہ اس کے پاس گولیاں ختم ہوں تو پھر پکڑیں اور خوب جوتے کاری کریں۔ “وہ رعونت سے بولا۔اس کی بات سن کرمیں نے اطمینان اپنے اندر اترتا محسوس کیا۔مگر دفعتاً وہ ہو گیا جو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا ایک اندھی گولی غلام قادرکی کھوپڑی توڑتی ہوئی گزر گئی وہ منہ کے بل زمین پر گر گیا۔خوف اور وحشت سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں میرا پورا وجود جیسے زلزلوں کی زد میں تھا۔ میں ٹھہراسیدھا سادھا شہری لڑکا جس نے بندوق کو قریب تک سے تو دیکھا نہیں تھا اور یہاں میرے سامنے میرادوست خون میں لت پت پڑا تھا۔غلام محمد باپ کی لاش سے لپٹ کر رورہا تھا۔گارڈز نے تھوڑی ہی دیر میں سامنے جھنڈ میں سے ایک اور لاش برآمد کرلی جو یقینا اسی شخص کی تھی جو چھپ کر فائرنگ کررہا تھا جب گارڈز اس کی لاش گھسیٹ کر لائے تو غلام محمد نے باپ کے سینے سے سر اٹھا کر دیکھا اپنے آنسو صاف کیے اور چند لمحے حیرت سے لاش کو دیکھتا رہا اور پھر سراٹھا کر گارڈز سے کہا۔ ”اوئے یہ تو برابر والے گاؤں کے وڈیرے کا منشی ہے۔“گارڈز نے اثبات میں سر ہلایا۔میں آگے بڑھ کر غلام محمد کو سینے سے لگا نا چاہتا تھا وہ معصوم سا بچہ تھاجس کے سامنے اس کے باپ کو انتہائی سفا کی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ غلام محمد نے میری جانب دیکھا اور جملہ اس کے منہ سے نکلا اس نے مجھے 440واٹ کا جھٹکادیا۔”آئیے جمال چاچا․․․․باقی زمین میں آپ کو دکھادوں اور بچل بابا کو گھر لے جاؤمیں کام مکمل کر کے آتا ہوں
آپ کو دکھادوں اور بچل بابا کو گھر jao.
۔“