Urdu stories of Tanveer.

5000 Words
ہانیہ فاطمہ کھرل، لاہور ایک دن احمد اور ایمن کے امی ابو نے جنگل میں سیر کو جانے کا پروگرام بنایا۔اگلے دن جنگل پہنچ کر انھوں نے خیمے لگائے اور سب جنگل میں سیر کرنے لگے۔انھوں نے قسم قسم کے پھل دار درخت،خوبصورت پھول اور بیلیں دیکھیں۔ وہاں پر انھیں تیتر،کوئل،فاختہ اور ہُدہُد وغیرہ بھی دیکھنے کو ملے۔شام ہوئی تو وہ سب اپنے خیموں کی طرف واپس لوٹ آئے اور آگ جلا کر کھانا پکایا گیا۔ کھانے کے بعد وہ سب خیمے میں چلے گئے۔ایمن اور احمد کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ان کا دل جنگل میں جانوروں کو ڈھونڈنے اور دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔حالانکہ ان کے والدین نے انھیں سختی سے منع کیا تھا کہ خیمے سے باہر نہ نکلنا۔وہ یہ نصیحت بھول گئے اور جنگل کا جائزہ لینے چل پڑے۔ اس شب چودھویں کی رات تھی اور چاند کی روشنی سے ہر چیز واضح دکھائی دے رہی تھی۔ چلتے چلتے انھیں محسوس ہوا کہ وہ کافی دور آ گئے ہیں۔انھوں نے واپس جانا چاہا تو انھیں یاد نہ رہا کہ وہ کہاں سے آئے تھے،اس لئے وہ ایک درخت کے کٹے ہوئے تنے پر بیٹھ گئے۔کچھ دور انھیں روشنی سی نظر آئی۔وہ ایک جھونپڑی تھی۔دونوں اسی طرف چل دیے۔ انھوں نے دروازے پر دستک دی تو تھوڑی دیر بعد ایک بزرگ باہر آئے۔بچوں نے انھیں سلام کیا:”السلام علیکم دادا جی!ہم راستہ بھٹک گئے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد کریں گے؟“ بزرگ نے سلام کا جواب دے کر پوچھا:”اتنی رات میں یہاں کیسے اور کیوں آئے؟“ ایمن بولی:”ہم جانور دیکھنے اپنے خیمے سے دور آ گئے اور کھو گئے۔“ بزرگ نے کہا:”بیٹی!تم دونوں کو اپنے امی کے بغیر نہیں آنا چاہیے تھا۔“ دونوں نے کہا:”جی ہم اپنی غلطی مانتے ہیں۔“ بزرگ نے کہا:”آؤ میں تم دونوں کو تمہارے والدین کے پاس لے جاؤں۔“ وہ دونوں ان بزرگ کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی امی ابو کے پاس آ پہنچے۔جہاں ان کے والدین انھیں اِدھر اُدھر پہلے ہی سے تلاش کر رہے تھے۔انھوں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔بچوں نے والدین سے معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی۔ ثروت یعقوب ماوٴنٹ واشنگٹن نامی پہاڑی چوٹی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شمال مشرقی علاقے نیو ہیپمشائر کی بلند ترین چوٹی ہے ۔کسی زمانے میں یہاں کے رہنے والے اسے ہوم آف دی گریٹ اسپرٹ یعنی عظیم روح کا گھر کہکر پکارتے تھے ۔ مگر آج دنیا بھر کے لوگ اسے ہوم آف دی ورلڈز درسٹ دیدر یعنی دنیا کے بد ترین موسم کا گھر کہتے ہیں ۔ماوٴنٹ واشنگٹن کا موسم نہایت سرد ہے ۔یہاں سال بھر شدید برفباری ہوتی ہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کی برف بہت ٹھوس ہوتی ہے ۔ ہر وقت گہری دھند چھائی رہتی ہے اور شدید طوفانی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ۔ یہ چوٹی 6,288فٹ بلند ہے یہاں کو موسم ماوٴنٹ ایورسٹ اور قطب جنوبی جیسا سرد ہے ۔ماوٴنٹ واشنگٹن کی چوٹی پر کم ترین درجہ حرارت 46.0ریکارڈ کیا گیا تھا۔ (جاری ہے) اس چوٹی کے شدید موسم کی بنیادی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے ۔یہ چوٹی متعدد طوفانوں کے راستے میں کھڑی ہے ۔ خاص طور سے ان طوفانوں کے راستے میں جو بحراوقیاونس سے جنوب، خلیجی خطے اور بحران کاہل کے جنوب مغربی علاقوں کی طرف جاتے ہیں ۔ خاص طور سے موسم سرما میں یہاں خطر ناک طوفانی ہواؤں کے جھکڑ بھی چلتے ہیں ۔1932ء میں اسی چوٹی پر ماوٴنٹ واشنگٹن آبزرومیٹری کی ابتدائی عمارت تعمیر کی گئی تھی ۔جس کو زنجیروں کے ساتھ زمین سے مضبوطی سے باندھا گیا تھا کہ کہیں طوفانی ہوائیں اسے اڑانہ دیں۔ عائشہ خان وہ بچے کا ماتھا چومتی ہے۔اچھا بچے میں تمہیں ضرور داخل کرواوٴں گی،تم فکر نا کرو،سکول واپسی پر حاشر کی بہن اپنا منی باکس لے کر ماں کے پاس آئی،اماں آپ ان پیسوں سے حاشر کو آرمی سکول داخل کروا آئیں۔نہیں بیٹی میں یہ تم سے نہیں لے سکتی پر کیوں اماں؟کیا میرا بھائی نہیں؟پر بیٹی تم یہ پیسے اپنی چیزوں کیلئے جمع کرتی ہو وہ بھی سکول میں بھوکی رہ کر بیٹی کو ساتھ لگاتے ہوئے،اور ویسے بھی اتنے پیسوں میں سکول میں داخلہ نہیں ہو سکتا بیٹی اماں سکول میں داخل نہیں کروا سکتے،حاشر کو تو کیا ہوا،فوجی وردی تو لے کر دے سکتے ہیں نا۔ ”اتنی دیر میں حاشر نے ٹی وی لگایا،جہاں جرنل صاحب اپنے اعزاز میں ہونے والے عشائیہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے،معصوم حاشر اپنے ننھے گالوں پر ہاتھ رکھ کر بڑے انہماک سے ان کی باتیں سننے لگا۔ وہ کہہ رہے تھے میرے جوانو۔ملک و قوم کے رہنماؤ،ہمارے ملک کو دہشت گرد عناصر کا خطرہ ہے،میرے ساتھیو ہم مسلمان ہیں اور فرمان خداوندی ہے کہ حق کی خاطر لڑو۔ اس دہشت گردی کو ہم نے اپنے ملک سے اُکھاڑ کر جڑ سے ختم کرنا ہے“۔ اتنے میں اُس کی بہن کمرے میں آتی ہے اور کہتی ہے یہ دیکھو حاشر تمہارے لئے کیا آیا ہے کچھ دیر بعد حاشر شیشے میں فوجی وردی پہنے کھڑا تھا اماں میں کیسا لگ رہا ہوں؟بہت پیارا:”ماں اسے پیار کرتی ہے۔وہ ماں کو زبردست طریقے سے سلیوٹ کرتا ہے۔“کچھ دن بعد ماں کمرے میں آدھی رات کو آتی ہے تو حاشر پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ”میرا بیٹا کیا کر رہا ہے؟حاشر کہتا ہے“ماں جی ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب خوب پڑھو گے تو ہی اچھے انسان بن پاؤ گے کیا اماں میں اچھا انسان بن پاؤں گا؟جیسے ہمارے فوجی اچھے انسان ہیں۔ہماری حفاظت کرتے ہیں انشاء اللہ ضرور۔کچھ دن بعد ماسٹر صاحب حاشر کی ماں کو سکول آنے کا کہتے ہیں۔ محمد مقبول الٰہی ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتا تھا۔کھیتوں کی مکمل پہرے داری کرتا تھا،مگر جب فصل پک کر تیار ہو جاتی تو گاؤں کا سردار اس کی ساری فصل زبردستی لے لیتا اور اسے تھوڑا سا حصہ دے دیتا۔ کسان اور اس کی بیوی کی بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ایک دن کسان کھیت میں کھدائی کر رہا تھا۔بے خیالی میں وہ زیادہ زمین کھود گیا۔اچانک ہی اسے محسوس ہوا کہ زمین کے اندر کچھ ہے۔اس نے بڑی مشکل سے وہاں سے ایک صندوق نکالا۔وہ بڑا حیران ہوا۔ اس نے صندوق کھولا۔اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔صندوق ہیرے اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔اس نے سوچا کہ اس بات کا علم گاؤں کے سردار کو نہ ہونا چاہیے ورنہ وہ اس کو زبردستی چھین لے گا۔ (جاری ہے) وہ خزانے کو چھپتے چھپا کر گھر لے آگیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا،”اس دولت کو کہاں چھپایا جائے؟“ بیوی نے جواب دیا،”اس کو ہم صحن میں دفن کر دیتے ہیں۔“ کسان نے ایسا ہی کیا۔کچھ دیر بعد اس کی بیوی کہنے لگی،”میں پانی بھرنے جا رہی ہوں۔“ بیوی کے جانے کے بعد کسان سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگاکہ میری بیوی اس دولت کا ذکر دوسری عورتوں سے ضرور کرے گی اور پھر اس راز کا علم سردار کو بھی ہو جائے گا۔یہ خیال آتے ہی کسان اٹھا اور ہیروں سے بھرا صندوق صحن سے نکالا اور گھر سے باہر ایک خفیہ جگہ میں دفن کر دیا اور واپس آگیا۔ جب اس کی بیوی گھر آئی تو اس نے سنجیدگی سے کہا،”کل ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑ کر لائیں گے۔“ بیوی نے حیران ہو کر کہا،”مچھلیاں اور جنگل سے؟خوشی سے تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟“ کسان مسکرا کر بولا،”کل جب تم جنگل جاؤ گی تو خود دیکھ لینا۔ “ اگلے دن کسان سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکلا اور گاؤں کے مچھیرے سے بہت ساری تازہ مچھلیاں خرید لایا۔اس نے تندور کی روٹیاں بھی خریدیں اور جنگل کی طرف چل پڑا۔وہاں ایک جگہ دیکھ کر اس نے مچھلیاں زمین پر پھیلا دیں اور کچھ آگے جا کر درختوں پر روٹیاں لٹکا دیں۔ یہ سب کام کرکے وہ گھر واپس آگیا۔اس کی بیوی ابھی تک سو رہی تھی۔ جب سورج نکلا تو کسان اپنی بیوی کو لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔اس کی بیوی نے زمین پر مچھلیاں دیکھیں تو حیران رہ گئی۔پھر اس نے سب مچھلیوں کو اپنی ٹوکری میں رکھ لیا ۔ آگے جا کر درختوں پر روٹیاں دیکھیں تو کسان سے کہنے لگی،”درختوں پر روٹیاں لگی ہوئی ہیں۔“ کسان نے کہا،”یہاں روٹیوں کی بارش ہوتی ہے۔کچھ روٹیاں درختوں پر اٹک جاتی ہیں۔“اس کی بیوی بڑی حیران ہو رہی تھی۔ کسان اور اس کی بیوی کے دن پھر گئے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ اچھا کھاتے تھے۔تھوڑے دن بعد ہر طرف یہ بات پھیل گئی کہ کسان کو کوئی خزانہ مل گیا ہے۔اب یہ راز بھی نہیں رہا تھا ۔ہر کوئی جانتا تھا کہ خزانہ اس نے گھر کے صحن میں چھپا رکھا ہے۔پھر بھلا یہ بات سردار سے کیسے چھپی رہ سکتی تھی ۔ پہلے اس نے کسان کی بیوی کو اور پھر کسان کو اپنے ہاں بلوایا۔کسان جب سردار کے پاس گیا تو سردار نے کہا،”کیا یہ سچ ہے کہ تمہیں ہیرے جواہرات سے بھرا صندوق ملا ہے؟“ کسان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا،”یہ بالکل جھوٹ ہے۔ “ سردار نے گرج کر کہا،”تمہاری بیوی مجھے سب کچھ بتا چکی ہے۔“ کسان نے ہاتھ جوڑ کر کہا،”میری بیوی کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔یہ تو آج کل الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ہے۔“ جب کسان کی بیوی نے یہ سنا کہ اس کا شوہر اسے پاگل کہہ رہا ہے تو وہ غصے سے بولی،”حضور!جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ حقیقت ہے ۔ یہ صندوق ہمارے صحن میں دفن ہے۔“ سردار نے خوش ہو کر پوچھا،”یہ ہیرے جواہرات کا صندوق کس دن ملا تھا؟“ کسان کی بیوی نے کہا،”اس دن صبح کو جس کے ایک دن بعد ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑنے گئے تھے۔یہ سچ ہے ۔یہ وہ دن تھا جب آسمان سے پکی پکائی روٹیوں کی بارش ہوئی تھی۔ “ یہ عورت تو واقعی پاگل ہے۔”سردار نے مسکراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ سردار کے ایک خادم نے سردار کے کان میں کچھ کہا۔سردار نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ کسان کے گھر جاؤ اور صحن کھود کر خزانے کا پتا لگاؤ۔خادموں نے سارا صحن کھود ڈالا ،مگر وہاں انہیں کوئی خزانہ نظر نہ آیا۔وہ سب واپس چلے گئے ۔یوں غریب کسان اپنی عقلمندی سے نہ صرف ظالم سردار کے ظلم سے بچ گیا،بلکہ اپنا خزانہ بھی بچا لیا۔ اطہر احمد شیخ رفیق لاہور کے ایک محلے میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔اُس محلے میں شاہد بھی اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا ۔یہ دونوں ایک ہی سکول اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ۔دونوں اپنی کلاس میں اچھے نمبر حاصل کرتے تھے ۔ شاہد کے والدین خاصے امیر تھے ۔اُسکے والدہ کا ایک بہت بڑا بزنس تھا جبکہ رفیق کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔اُسکے والد ایک دفتر میں کلرک تھے ،وہ بڑی مشکل سے رفیق کی فیس اداکرتے تھے ۔رفیق اور شاہد امتحان کے دنوں میں سخت محنت کرتے تھے اور دونوں کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ وہ اول پوزیشن حاصل کریں ۔ شاہد مسلسل دوسال سے اول پوزیشن حاصل کر رہا تھا ۔اِس طرح رفیق کے دل میں شاہد کیلئے حسد کا مادہ پیدا ہو گیا۔وہ اب ہر وقت سوچوں میں گم رہتا تھا ،اُسکی بھوک پیاس بالکل ختم ہو چکی تھی ۔ (جاری ہے) وہ چاہ رہا تھا کہ اول پوزیشن حاصل کر کے شاہد کو نیچا دکھائے ۔ ایک دن سب لڑکے کر کٹ کھیل رہے تھے ۔شاہد اِس سال بھی تمہیں اول پوزیشن حاصل کرنی چاہیے تا کہ تم ایک بڑا انعام حاصل کر سکو ،جیسے مسلسل تین سال تک اول آنے کی وجہ سے ملتا رہا ہے ۔رفیق کے ایک ہم جماعت احمد نے شاہد سے کہا۔”انشاء اللہ تعالیٰ اِس سال بھی اول ہی آؤں گا مگر کیا کروں ،میرا مقابلہ رفیق سے ہے تم تو جانتے ہی ہو میرا اور اُسکا مقابلہ اول پوزیشن حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے اور میں صرف دو یا تین نمبروں کے فرق سے اول پوزیشن حاصل کرتا ہوں ۔ شاہد نے جواب دیا۔”بے فکر ر ہو ،اِس سال میں ہر گز تمہیں اول پوزیشن حاصل نہیں کرنے دوں گا“؛رفیق نے حسد بھر سے لہجے سے کہا؛ ”انسان کی بڑائی بڑے بول سے نہیں ہوتی بلکہ اخلاق سے ہوتی ہے “؛شاہد بولا۔”یہ لیکچر کسی اور کو جا کر سناؤ“اور ہاں تم میرے منہ مت لگا کر و اور تمہیں میرا چیلنج ہے کہ اس سال میں اول پوزیشن لے کر دکھا ؤں گا بتاؤ چیلنج قبول ہے ؟“رفیق نے شاہد کی طرف دیکھ کر کہا جس سے اُسکا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ”ٹھیک ہے رفیق ! میں اِس سال بھی اول پوزیشن لے کر تمہارا غرور توڑوں گا۔ویسے یہ سن لو کہ حسد کرنے والا کبھی خوش نہیں رہتا“؛شاہد نے جواب دیا۔ کیا مطلب ؟میں تم سے حسد کرتا ہوں ؟تم میں کیا خوبی ہے جو میں تم سے حسد کروں گا؟رفیق غصے سے بولا۔ ”میں تم سے زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا۔“شاہد کہتا ہو ا تیزی سے چلا گیا۔ رفیق اِس سال خوب دل لگا کر پڑھ رہا تھا وہ ہر حالت میں اول آنا چاہتا تھا ۔وہ اپنے والد کی حالت دیکھ کر بھی مہنگی چیزوں کی فرمائش کر تا رہتا تھا۔ ایک دن رفیق کے والد تھکے ہارے آفس سے آئے تو اُس نے اپنے والد سے سائیکل خرید نے کی فرمائش کی ۔اُسکے والد نے کہا؛”بیٹا ایک سائیکل جو دو سال پہلے خرید ی تھی وہ تمہارے پاس موجود ہے پھر دوسری سائیکل کیوں ؟”اونہہ وہ پرانی سائیکل مجھے اچھی نہیں لگتی جبکہ میرے دوستوں کے پاس نئی نئی سائیکلیں ہیں “مجھے شرم آتی ہے مجھے تو آپ نئی سائیکل لے کر دیں۔ رفیق نے منہ پھلا کر کہا؛رفیق اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔اِسی لئے اُسکے والد اُسے ناراض نہیں کر سکتے تھے ۔اُسکی ہر فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ”اچھا بیٹا ہم اپنے بیٹے کو نئی سائیکل لے دیں گے اب خُوش ہو؟“ رفیق کے والد نے اُسکی طرف مسکراکر کہا۔ اگلے دن رات کے دوبج گئے لیکن رفیق کے والد گھر نہیں پہنچے۔رفیق اور اُسکی امی بہت پریشان ہو گئے ۔اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو وہاں رفیق کے والد کے دوست کھڑے تھے ۔رفیق نے اُن سے پوچھا کہ ”کیا بات ہے ،آپ پریشان کیوں ہیں اور ابا جان اب تک گھر کیوں نہیں آئے ،کیونکہ آپ بھی تو اُن کے ساتھ کام کرتے ہیں “۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ”تمہارے ابا جان صبح سے کام کررہے تھے وہ دو پہر کا کھانا کھانے بھی نہیں گئے ۔میں نے اُنہیں مسلسل کام کرنے سے منع کیا تو اُنہوں نے جواب دیا؛“آج مجھے آرام نہیں کرنا،آج میں نے اپنے بیٹے کیلئے سائیکل خریدنی ہے “۔ آخر کام ختم کرکے وہ جانے کیلئے اُٹھے دو سڑھیوں سے اُتر رہے تھے کہ اُن کا پاؤں پھسل گیا،اِس طرح اُن کے سر پر چوٹ لگی۔ہم نے اُنہیں ہسپتال پہنچا دیاہے۔ ”چاچا اب کیا ہو گا“۔رفیق کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔کیونکہ اُسکے والد کی یہ حالت اِسی کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ بیٹا تم فکر نہ کر واب اُ ن کی حالت بہتر ہے “۔والد کے دوست نے رفیق کو دلاسہ دیا۔تھوڑی دیر میں رفیق اور اُسکی امی والد کے دوست کے ساتھ ہسپتال پہنچ گئے ۔رفیق کے والد کی حالت خطرے سے باہر تھی لیکن وہ پریشان تھا کیونکہ اُسے اپنے والد کی زیادہ پریشانی نہیں تھی بلکہ اُس نے کل سکول کی فیس جمع کرانی تھی اور کل آخری تاریخ تھی ۔ اُسکی امی نے سکول کی فیس اُسے دی تھی لیکن وہ والد کیلئے دوائیاں لانے میں خرچ ہو گئے ۔ رفیق نے اپنے والد کے ایک دوست سے فیس کیلئے روپے اُدھا ر مانگے لیکن انہوں نے کہا کہ میں تو خود ایک غریب آدمی ہوں روزانہ جتنا کماتا ہوں وہ گھر میں ہی خرچ ہو جاتا ہے ۔ اب رفیق کو اپناقیمتی سال برباد ہو تا نظر آیا۔سکول کی فیس تین سو روپے تھی اور اُسکے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔اگلے دن وہ سکول نہیں گیا۔سارا دن کمرے میں بند روتا رہا ۔شام کو وہ گھر سے باہر نکلا تو سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ رفیق نے اُنہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا؛”رفیق تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے تم آج سکول نہیں آئے“۔سر میرے پاس سکول کی فیس نہیں تھی،اِسی شرمندگی میں سکول نہیں آیا“۔رفیق نے سر جھکا کر جواب دیا؛”لیکن تمہاری فیس تو کسی نے جمع کرا دی ہے“۔ ”کیا مطلب سر کسی نے میری فیس جمع کر دای؟“رفیق نے حیرت سے پوچھا۔ ”بھئی جس نے فیس جمع کرائی ہے اُس نے اپنا نام بتانے سے منع کر دیا ہے “یہ کہہ کر ہیڈ ماسٹرصاحب چلے گئے ۔اتفاق سے کچھ فاصلے پر شاہد اور احمد آپس میں باتیں کر رہے تھے اُنہوں نے اُسے نہیں دیکھا لیکن اُ ن کی باتوں کی آواز اُسکے کانوں تک پہنچ رہی تھی ۔ ”شاہد تم نے اُس مغرور لڑکے کی فیس کیوں جمع کرائی ہے ،تمہارے لئے تو اُسکو سامنے سے ہٹانے کا بہت اچھا موقع تھا“۔احمد شاہد سے کہہ رہا تھا ۔یہ سُن کر رفیق پر سکتہ طاری ہو گیا۔ ”احمد میں یہ مانتا ہوں کہ رفیق تعلیم کے میدان میں میرا حریف ہے اور میرا اُس سے مقابلہ بھی چل رہا ہے لیکن مصیبت کے وقت میں اُسکی مدد کرنا بھی تو ضروری تھا۔ پھر وہ میرا پڑوسی بھی ہے بھلا میں اُسکا ایک سال کیسے ضائع کر سکتا تھا “شاہد بولا۔یہ سُن کر رفیق دل ہی دل میں بہت شرمند ہ ہوا وہ سوچنے لگاکہ وہ ایک امیر باپ کا بیٹا ہو کر مغرور نہیں ہے اور اُسکے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہے اور میں ایک غریب باپ کا بیٹا ہو کر اتنا مغرور ہوں ۔اُس نے دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور شرمندگی کا احساس لئے ہوئے گھر روانہ ہو گیا۔ محمد ذوالقرنین خان پروفیسر علیم کی گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔اب تک کئی مکینک اس پر سر کھپا چکے تھے،مگر نقص کوئی نہیں پکڑ سکا تھا۔علیم صاحب کے دوست پروفیسر صدیق نے انھیں اپنے بہنوئی کے گیراج کا پتادے کر کہا تھا کہ وہاں مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ حال ہی میں ان کا تبادلہ اس شہر میں ہوا تھا۔راستوں سے نا واقفیت کی وجہ سے گیراج تلاش کرنے میں انھیں دقت پیش آئی۔خدا خدا کرکے وہ اس تک پہنچ ہی گئے۔گاڑی ایک طرف لگا کر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔وہاں بہت ساری گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہر گاڑی پرکام ہو رہا تھا۔ پروفیسر کچھ دیر تو تذبذب کے عالم میں کھڑے رہے پھرجب کسی نے ان پر توجہ نہیں دی تو قریب کھڑے ایک جوان مکینک کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ،جو ایک عجیب سے نمونے کی گاڑی کا بونٹ اُٹھائے بہت انہماک سے اپنا کام کررہا تھا۔ (جاری ہے) ”ارے میاں!ہمیں گاڑی ٹھیک کرانی ہے۔“ اس مکینک نے ان پر سر سری نگاہ ڈالی اور ایک کمرے کی طرف اشارہ کرکے بولا:”دفتر سے پرچی بنالیں۔کوئی مکینک دستیاب ہوا تو ابھی آپ کے ساتھ بھجوادیں گے ،ورنہ․․․․سر!آپ علیم صاحب ہیں؟“مکینک نے بات ادھوری چھوڑ کر انھیں غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ پروفیسر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”سر!میں آپ کا نالائق طالب علم نعمان ہوں۔“وہ مسرت سے بولا۔ اگلے ہی لمحے وہ اسے پہچان چکے تھے۔وہ اسے بھول بھی کیسے سکتے تھے۔پروفیسر صاحب کی نگاہوں کے سامنے بارہ سال قبل پیش آنے والا ایک تکلیف دہ واقعہ گھوم گیا۔ انھوں نے تاسف سے اسے دیکھا۔نعمان نے اپنا کام وہیں چھو ڑا اور پروفیسر صاحب کی گاڑی کے پاس آکھڑا ہوا۔اسے پروفیسر صاحب کی گاڑی کا بونٹ کھولتے دیکھ کر ایک دومکینک دوڑے چلے آئے،مگر اس نے دونوں کو واپس بھیج دیا۔نعمان نے پروفیسر صاحب کو قریب ہی ایک کمرے میں بٹھادیا۔ ایک غلط فہمی کی وجہ سے نعمان کو کالج سے نکال دیا گیا۔اب اتنے برسوں بعد نعمان سے پروفیسر علیم کی اچانک ملاقات ایسے حالات میں ہوئی تھی کہ منھ موڑ کر جابھی نہیں سکتے تھے۔وہ اسے ایک کامیاب انسان بنانا چاہتے تھے۔پروفیسر صاحب دیکھ رہے تھے کہ نعمان بڑی محویت سے ان کی گاڑی کو ٹھیک کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ایک مکینک بھی اس کی مدد کو چلا آیا تھا۔ ”چلو ،کوئی بات نہیں اب وہ رزق حلال کما رہا ہے،کسی غلط صحبت کا شکار تو نہیں ہوا۔“انھوں نے زیر لب کہا۔کچھ دیر بعد نعمان ان کی طر ف آیا۔ ”سر!گاڑی میں کچھ کام رہ گیا ہے۔ اسے میرا ساتھی دیکھ لے گا۔آج آپ میرے مہمان ہیں۔کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔“اس نے بہت اپنائیت سے کہا۔ علیم صاحب نے اسے ٹالنے کی بہت کوشش کی،مگر وہ احترام سے انھیں پکڑ کر ایک صاف ستھرے کمرے میں لے آیا۔جب وہ واش روم سے ہاتھ منھ دھو کر اور کپڑے تبدیل کرکے آیا تو مکینک بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ ”تم یہاں کام کرتے ہو؟“اس کے بدلے ہوئے حلیے کو دیکھ کر علیم صاحب نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ ”سر!یہ گیراج ابا جی کا ہے۔میں کبھی کبھار چکر لگا لیتا ہوں۔“یہ کہہ کر مسکرایا اور انٹر کام پر کسی کو کھانا لانے کو کہا۔ کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی ،مگر ماضی کی کسی بات کا ذکر نہیں ہوا۔نعمان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے علیم صاحب کے دل پر جمی کدورت کسی حد تک دور ہو گئی۔گاڑی کاکام مکمل ہونے کے بعد علیم صاحب نے جب اُجرت پوچھی تو نعمان نے صاف لفظوں میں یہ کہتے ہوئے پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ یہ گیراج ہمارا اپنا ہے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آپ سے پیسے لوں۔اس نے علیم صاحب کی ایک نہ چلنے دی اور انھیں گاڑی میں بٹھا کر ہی دم لیا۔ اگلے دن پروفیسر صدیقی نے انھیں فون کیا:”ارے صاحب!آپ تو وہ شخص نکلے،جس کا تذکرہ برسوں سے ہمارے خاندان میں ہوتا رہا ہے۔ “انھوں نے جوش سے کہا۔ علیم صاحب یہ سن کر حیران ہوئے:”میں سمجھا نہیں۔“ ”میرا بھانجا نعمان کبھی آپ کا شاگرد رہا ہے؟“انھوں نے تصدیق چاہی۔ علیم صاحب نے”ہاں“میں جواب دیا۔ ”آپ یوں کریں کہ شام کو میرے گھر آئیں۔ “صدیقی صاحب نے کہا۔ علیم صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرلی۔ شام کو علیم صاحب پروفیسر صدیقی کے پاس موجود تھے۔جب نعمان کا ذکر آیا تو علیم صاحب نے بنا لگی لپٹی رکھے صدیقی صاحب کو بتایا کہ اس لڑکے کو انھوں نے زمین سے اُٹھا کر عرش پر پہنچانا چاہا،مگر اس نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ “ صدیقی صاحب کو مایوس دیکھ کر علیم صاحب نے بات بدلتے ہوئے کہا:”صدیقی!تمھارا بھانجا مکینک بہت اچھا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اس نے یہ ہنر سیکھ لیا اور اب اپنے والد کا گیراج سنبھال لے گا۔“ یہ سن کر پروفیسر صدیقی مسکرادیے اور بولے:”مگر وہ تو کچھ اور کرنا چاہتاہے۔ “ ”کیا کرنا چاہ رہا ہے؟“علیم صاحب نے تجسس سے پوچھا۔ ”ابھی آئے گا خود پوچھ لینا۔“پروفیسر صدیقی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔ تھو ڑی دیر بعد نعمان بھی وہاں آگیا۔اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبا تھا۔ علیم صاحب کو وہاں بیٹھا دیکھ کر وہ کھل اٹھا۔ ”سر!جب انکل نے مجھے بتایا کہ آپ آئے ہوئے ہیں تو میں دوڑا آیا۔میری خوش قسمتی ملا حظہ کریں کل آپ سے ملاقات ہوئی اور آج اٹامک انرجی کمیشن سے بلاواآگیا۔“اس نے اپنے استاد کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔ علیم صاحب ہکا بکا اسے دیکھے جارہے تھے۔پروفیسر صدیقی نے کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بولے:”آپ کا شاگرد امریکا سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر آیا ہے۔وہاں بہت سے اداروں کی جانب سے اسے کام کی پیش کش ہوئی ،مگر یہ اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ شکر ہے اسے اٹامک والوں نے بلا لیا،ورنہ یہ تو آج کل دن بھر ایک نئی قسم کی گاڑی بنانے میں جتے رہتے ہیں۔“صدیقی صاحب نے باتوں باتوں میں اس کے گیراج میں کام کرنے کی وجہ بتا دی۔علیم صاحب کو بھی وہ عجیب وغریب گاڑی یاد آگئی۔ ”ماموں !آج اسی گاڑی میں آپ کے گھر آیاہوں۔“نعمان نے مسکرا کر صدیقی صاحب سے کہا۔نعمان کے جانے کے بعد صدیقی صاحب نے حقائق سے پردہ اُٹھایا:”اس دن جب نعمان ہال کے پاس سے گزررہا تھا توکسی لڑکے نے اس پر جملے کسے ۔ یہاں تک بات رہتی تو نعمان برداشت کر لیتا،مگر جب اس نے آپ کا مذاق اُڑایا تو نعمان سے برداشت نہیں ہوا اور وہ اس لڑکے پر پل پڑا۔اس دوران انگریزی کے استاد نے انھیں چھڑانے کی کوشش کی تو ان دونوں میں سے کسی کا ہاتھ ان کے چہرے پر جالگا اور خون بہنے لگا۔ نعمان کو اس وقت صدمہ پہنچا جب سب کی ہمدردی اس لڑکے کے ساتھ ہو گئی۔نعمان کا ساتھ دینے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔آپ کی بلا تحقیق سفارش پر اسے ہنگامہ کرنے کے جرم میں کالج سے نکال دیا گیا۔اس دن کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔اپنے اندر قابلیت پیدا کرنے کے لیے اس نے دن رات ایک کر دیے تھے۔ یہ سب سننے کے بعد علیم صاحب بہت خوش بھی تھے اور ایک غلط فہمی کی وجہ سے افسردگی نے بھی انھیں گھیرا ہوا تھا۔ ساجدہ کمبوہ فرید صاحب یونہی گھر میں داخل ہوئے انہوں نے دیکھا کہ سبھی گھر والے ان کے بیٹے نصیر کے ارد گرد کھڑے تھے اور نصیر کی ماما نے اسے پکڑ رکھا تھا جبکہ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ ”بھئی کیا ہوا“؟فرید صاحب نے گھبرا کر پوچھا۔ ”باہر سے کرکٹ کھیل کر آیا ہے آتے ہی اس کی نوز سے خون نکلنے لگا ہے“اس کی ماما نے کہا اس کا مطلب ہے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے۔ جلدی سے جاؤ ٹھنڈا پانی لاؤ۔زیادہ ٹھنڈا بھی نہ ہو اس کے سر پر ڈالیں گے فوراً اس کا خون رُک جائے گا۔ ”نصیر کا بھائی صغیر جلدی سے گیا اور فریج سے بوتل نکال لایا یہ لیں پاپا جان۔ فرید صاحب نے پانی چیک کیا اور کہا”یہ مناسب ٹھنڈا ہے۔انہوں نے نصیر کے سر پر انڈیلنا شروع کیا کچھ دیر بعد خون بہنا بند ہو گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا۔ ”یا اللہ تیرا شکر ہے میں تو گھبرا گئی تھی“نصیر کی ماما نے کہا۔ خون دیکھ کر گھبرانا فطری عمل ہے اور خصوصاً اپنی اولاد کا،فرید صاحب نے کہا۔ ”یہ نکسیر کیسے پھوٹتی ہے بابا جانی“؟صغیر سے چھوٹی رمشا نے پوچھا۔ گرمی کی وجہ سے،ناک کی چھوٹی اور باریک نالیوں میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ناک کی اندرونی جھلی پھٹ جاتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے جسے ہم نکسیر پھوٹنا کہتے ہیں۔ اس لئے گرم علاقوں میں نکسیر پھوٹنا ایک عام سی بات ہے نصیر کا مسلسل گرمی میں کرکٹ کھیلنا اس کا سبب بنا۔فرید صاحب نے رمشا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا”کیا اس سے پہلے اس کا سدباب ہو سکتا ہے“نصیر کی ماما نے پوچھا صرف اس کے لئے احتیاط بہت ضروری ہے طبی ماہرین کے مطابق دوران خون کا دماغ کی جانب کسی وجہ سے دباؤ بڑھنے سے ناک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی جگہ پر شگاف پڑ سکتا ہے اور یہی نکسیر پھوٹنا کہلاتا ہے۔ اس کی دو حالتوں میں ناک سے خون کے قطروں کا بہنا اور بعض اوقات قطروں کا نکلنا شامل ہوتا ہے۔اسی لئے سردیوں میں کم اور گرمیوں میں زیادہ نکسیر پھوٹتی ہے۔ ”کیا سردیوں میں بھی نکسیر پھوٹتی ہے‘؟فاطمہ نے پوچھا اس پر سبھی مسکرانے لگے اور طنزیہ نظروں سے فاطمہ کو دیکھنے لگے جس پر وہ شرمندہ ہو گئی۔جی بالکل سردیوں میں بھی نکسیر پھوٹ سکتی ہے فاطمہ کا سوال بہت اچھا ہے اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں ناک پر چھوٹ کا لگنا منہ کے بل گرنا،بلڈ پریشر کا اچانک بڑھنا،ناک کی اندرونی جھلی کو ناخن سے کھجانا اور ناک کی اندرونی جھلی پر پانی ok خطرہ ہو سکتا ہے؟نصیر نے پوچھا”کیوں نہیں“ زیادہ خون بہہ جانے سے جان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ زیادہ خون بہہ جانے سے مریض کا بے ہوش ہو جانا معمولی بات ہے اور بروقت طبی امداد کا نہ ملنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ ”پاپا جان!اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہیں“؟صغیر نے پوچھا۔ شدید گرمی میں باہر نکلنے سے گریز کریں،چھتری،کپڑے سے چہرہ ڈھانپ کر اور پانی کا زیادہ استعمال کرنے سے اس سے بچا جا سکتا ہے۔دن میں تین چار بار ضرور نہانا چاہیے اور سالن میں گرم مصالحوں اور تیز مرچوں کا استعمال مت کریں اس کے علاوہ انڈوں،مچھلی اور چائے کا استعمال بھی کم کرنا چاہیے۔ ”پاپا جان!آپ نے سب کچھ منع کر دیا ہم کھائیں کیا“؟فاطمہ نے کہا بھئی آپ زیادہ سبزیاں لوکی یعنی کدو شریف،شلجم،مولی،سلاد اور چٹنی کا استعمال کریں اس کے ساتھ ساتھ تخم ملنگون،چھلکا،دہی،دودھ اور دہی کا استعمال کریں۔ نصیر بیٹا سن لو اپنے پاپا کی باتیں گرمیوں میں کرکٹ ہاکی سے اجتناب کریں۔بے مقصد گھر سے باہر نہ نکلیں اور دن میں تین چار بار نہانا چاہیے اس کی ماما نے کہا۔ اور گرم چیزوں مثلاً سموسوں،پکوڑوں سے پرہیز اور آئس کریم ہمیں بھی کھلائیں،فاطمہ نے کہا پاپا جان!آپ نے طبی نقطہ نظر سے بھائی کا کرکٹ کھیلنا بند کر دیا ورنہ بھائی کب رُکنے والا تھا۔رمشا نے کہا پاپا جان!آپ نے نکسیر کے نام پر شیطان قید کر دیا ورنہ ماما کے کہنے پر․․․․ فاطمہ باز آ جا ورنہ․․․نصیر نے غصے سے کہا۔ دیکھا بچو!نکسیر کا پھوٹنا معمولی بات نہیں اس کے بہت سے نقصانات ہیں ذرا سی لاپرواہی سے جان جانے کا بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ سب کو تندرستی و صحت دے ۔آمین
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD