Urdu stories with Tanveer.

5000 Words
شیخ شہباز شاہین میری اہلیہ کی اپنے محلہ میں قائم بیوٹی پارلر کی مالکن سے اچھی خاصی دوستی تھی۔وہ اکثر اس کی تعریفیں کرتی رہتی۔پھر ایک روز اُس نے شہلا نامی اس خاتون کے بارے میں مجھے بتایا کہ اس کی زندگی میں کیسے خوشیوں کی جگہ غموں نے بسیرا کر لیا۔ شہلا کی کہانی میں اپنی اہلیہ کی زبانی بیان کر رہا ہوں۔ شہلا سے میری ملاقات ایک بیوٹی پار لر میں ہوئی تھی۔میں نے اس پارلر کی بہت تعریف سنی تھی اور جب میں نے اپنی آنکھوں سے پارلر اور اس کی مالکن شہلا کو دیکھا تو یہ بات سو فیصد درست تھی۔ شہلا ایک خوش شکل اور سمارٹ لڑکی تھی ۔اس کے کام کے ساتھ ساتھ اُس کا اخلاق بھی بہت اعلیٰ تھا ۔ہر ایک سے بڑے تپاک سے ملتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوسروں کا احساس بھی بہت کرتی تھی اور کم پیسے لے کر بھی کام کر دیتی تھی۔ (جاری ہے) جو خاتون ایک دفعہ اُس کے پارلر جاتی دوسری مرتبہ بھی ضرور جاتی۔ اس کی وجہ شہلا کا کم معاوضہ پر کام کرنا اور خوش اخلاق ہونا تھا۔پہلی دفعہ ہی اُس نے اپنے حسن سلوک سے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ اب میں بھی شہلا کے پارلر کو ترجیح دینے لگی اور یوں میری شہلا سے دوستی ہو گئی۔شہلا نے مجھے اپنے بارے میں بتایا کہ اس کی شادی کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی مگر اس کا شوہر نشہ کرتا تھا جس کی وجہ سے طلاق ہو گئی۔ میں نے اُسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں شاید یہ تمہارا امتحان تھایا ہو سکتا ہے کہ تمہیں اُس سے اچھا لڑکا مل جائے لیکن وہ دلبرداشتہ ہو چکی تھی اور دوسری بار کسی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھی۔بہر حال وقت گزرتا رہا۔ان گزرتے دنوں میں شہلا سے میری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ پھر میرے لئے ایک رشتہ آیا۔جھٹ پٹ منگنی اور پھر شادی ہو گئی۔میری شادی پر شہلانے مجھے نہایت خلوص سے تیارکیا تھا۔شادی کے بعد میں دوسرے شہر چلی گئی اور اب شہلا سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی تھی ۔ایک دن میں اپنے میکے گئی تو شہلا سے ملنے بھی چلی گئی۔ پارلر میں شہلا کی امی بھی موجود تھیں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ شہلا کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہوا ہے،تم ہی اسے سمجھاؤ کہ ماں باپ ہمیشہ ساتھ نہیں جیتے۔میں نے آنٹی سے کہا”آپ فکر نہ کریں،شہلا ضرور شادی پر آمادہ ہو جائے گی۔ “ اس دن تو میں وہاں سے چلی آئی مگر دل میں سوچا کہ اس بارے میں ضرور شہلا کو قائل کروں گی ۔کچھ مہینوں بعد یہ جان کر خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ شہلا کی شادی ہو چکی ہے اور وہ اپنے سسرال میں ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب میں حسب معمول شہلا کو ملنے اس کے پارلر گئی،وہاں موجود کسی لڑکی نے بتایا کہ وہ پارلر بیچ چکی ہے ۔ مجھے ایک عام پارلر پر آنے والی خواتین کی طرح سمجھتے ہوئے وہ لڑکی کہنے لگی”آپ مجھے بھی شہلا کی طرح سمجھئے اور اطمینان سے کام کر وائیے۔“لیکن میں اس وقت شدید بے چینی محسوس کررہی تھی۔میں حیران تھی کہ شہلانے اتنے اچھے علاقے میں چلتا ہوا پارلر کیوں بیچ دیا۔ گھر آکر امی کو بتایاکہ شہلا کی شادی ہو چکی ہے۔امی بھی بڑی حیران ہوئیں۔میں نے امی سے کہا ”مجھے اس کے پارلر بیچنے کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی ہے۔شہر کا معروف پارلر جس کی مالک شہلا تھی وہ اُسے فروخت کرکے سسرال جا چکی ہے۔ “امی نے مجھے کہا”اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے،شہلا نے سوچ سمجھ کر ہی اُسے فروخت کیا ہو گا۔“مگر جانے کیوں میر ادل مطمئن نہ ہوا۔ انہی دنوں میرے شوہر نے معمولی سی بات پر مجھے گھر سے نکال دیا اور میں میکے کی دہلیز پر آبیٹھی ۔ کچھ عرصہ کافی پریشانی رہی پھر میں نے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ہمت کی اور ایک سکول میں ملازمت شروع کردی۔ ایک دن سکول جاتے ہوئے شہلاکی امی مجھے راستے میں مل گئیں۔میں نے اُن سے شہلا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے اور گھر پر ہے۔ تم اسے ملنے ضرور آنا۔ کچھ دن بعد میں نے وقت نکال کر شہلا کے گھرکی راہ لی تو شہلا مجھے دیکھ کر گلے لگ گئی۔قریب ہی جھولے میں ننھا منا گول مٹول سابچہ لیٹا ہوا تھا۔شہلا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا”یہ تمہارا بھانجا ہے تم خالہ بن چکی ہو۔ “مجھے اندازہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا ۔میں نے بے انتہا خوشی کا اظہارکیا اور بچے کو اُٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور اُسے ایک ہی سانس میں کئی دعائیں دے ڈالیں ۔شہلا بولی”خالہ بھانجے کو پیار سے فرصت ملے تو بندی کی طرف بھی دیکھ لینا۔ “ میں نے بچہ اس کی گود میں دیتے ہوئے پوچھا ”اس کا باپ کہاں ہے؟“تو وہ جھٹ سے بولی”وہ سعودیہ چلے گئے ہیں ،اسی لئے میں ادھر آگئی ہوں۔“میں نے کہا”فون وغیرہ تو آتا ہو گا؟“کہنے لگی”ہاں ،وہ ہر روز فون کرتے ہیں۔ “ ”اور کچھ پیسے بھی بھیجتے ہیں کہ نہیں؟اس پر شہلا نے بتایا ”کیوں نہیں جتنے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے میں منگوالیتی ہوں۔“یہ کہتے ہوئے اچانک ہی اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔میں نے یہ تبدیلی فوراً محسوس کر لی اور اس کے آنسو چھپانے سے پہلے پوچھا”شہلا مجھے سچ سچ بتاؤ اصل بات کیا ہے۔ ہم دونوں دوست ہیں اورا یک دوسرے سے دل کا حال کہہ کر بوجھ ہلکا کر سکتی ہیں۔“ وہ کافی دیر انکار کرتی رہی اور اپنے حالات چھپانے کی کوشش کرتی رہی مگر میں نے بالآخر اسے سچ بولنے پر مجبور کر دیا۔چند لمحے پہلے اپنے شوہر کے حوالے سے جو باتیں اُس نے کی تھیں ایسا کچھ نہیں تھا۔ شہلا کے شوہر نے اُسے طلاق دے دی تھی اور وہ دوبارہ میکے آچکی تھی۔ میں نے شہلا سے کہا”اب تم کیا کرو گی،چلتا ہوا پارلر بھی تم بیچ چکی ہو۔“وہ بولی،”اب میں گھر پر ہی ایک کمرے میں یہ کام کر لیا کروں گی۔“میں نے کہا،”تمہارا پارلر شہر کا ایک معروف پارلر تھا۔ اب پارلر رہانہ گھر بچ سکا ۔اللہ تعالیٰ تمہیں حوصلہ دے۔“وہ بولی”حالات نے میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے جی تو چاہتا ہے خود کشی کرلوں لیکن پھر اس ننھی سی جان کا خیال آتا ہے۔“اس نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔میں نے کہا ”اگر اس کابا پ اسے بھی چھین لے تو پھر کیا کروگی؟“میری بات سن کر اس کی رنگت پیلی پڑ گئی۔ معلوم ہوا کہ اس کا سابقہ شوہر یہ دھمکی دے چکاتھاکہ وہ اپنے بیٹے کو شہلا سے چھین لے جائے گا۔بہر حال میں اسے تسلی دیکر واپس لوٹ آئی۔مگر میری بات سچ ثابت ہوئی ۔چند ہفتوں بعد ہی بچے کا باپ اسے لینے پہنچ گیا۔شہلا بہتیر اروئی ،قدموں میں گری لیکن وہ بچہ چھین کرلے گیا۔ شہلا نے پیروں فقیروں کے درپر جا جا کر دعائیں مانگنا شرع کردیں کہ اللہ تعالیٰ میرا بیٹا مجھے واپس دلادے ۔میں نے کہا”اللہ تعالیٰ تمہاری دعا ضرور سنے گا مگر تمہیں عملی طور پر بھی کچھ کرنا چاہیے۔تمہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ “وہ کہنے لگی”میں عدالت نہیں جاؤں گی وہ بد تمیز انسان عدالت میں گھٹیاپن پر اُتر آیا تو میں جیتے جی مرجاؤں گی ۔میں نے اللہ کی عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ وہ میرا بیٹا مجھے ضرور دے گا۔“ اور پھر خدا نے اُس کی سن لی۔ ایک دن اس کا سابقہ شوہر بچے کو خود ہی واپس لے آیا۔شہلا اپنے بچے کو دیکھ کر بے حد مسرور تھی ۔نجانے اللہ نے اس کے دل میں کیا ڈالا تھاکہ وہ بچے کو اس کی ماں کے حوالے کر کے چلا گیا۔ گھر کے کمرے میں بنایا گیا پارلر شہلا اور اُس کے بچے کی ضروریات کے لئے کافی ہے ۔ بچہ اب چار سال کا ہو چکا ہے۔شہلا اسے سکول داخل کرواچکی ہے اور اس کی زندگی اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کے لئے وقف ہو چکی ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ میں روکھی سوکھی کھا کر اپنے بچے کو تعلیم ضرور دلواؤں گی۔کبھی کبھی وہ اپنی بیتی زندگی بھی یاد کرتی ہے اور پھرکئی کئی دن بیماررہتی ہے لیکن اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ سب کچھ بھول جاتی ہے ۔ یاد رہتا ہے تو صرف اپنامقصد کہ اپنے بیٹے کو ایک پڑھانا لکھانا اور اچھا انسان بنانا ہے۔مجھے اُمید ہے شہلا کی اُمیدیں ضرور رنگ لائیں گی۔ رفعت خان میں بچپن ہی سے بہت حساس واقع ہوئی ہوں میرادل شروع ہی سے حد درجہ نرم ہی رہتا ہے کسی کو غمگین دیکھتی ہوں تو خود بھی بہت اداس ہو جاتی ہوں چاہے وہ کوئی فلمی سین یا ٹی وی کا ڈرامہ ہی کیوں نہ ہو بلکہ بعض دفعہ تو میری ہچکی بندھ جاتی ہیں اور اپنی اسی کمزوری سے میں نے بار ہا نقصان ہی اٹھایا ہے مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میں پانچویں کلاس کی طالب علم تھی تو ہمارے گھر ایک بہت ہی لا غراور ضعیف سے بابا جی آتے تھے لاٹھی ٹیکتے ہوئے میں ان کو دیکھ کر بہت روتی تھی کہ اتنے بوڑھے ہو کر بھی وہ گلی گلی پھررہے ہیں میں اکثر ان کو اپنے حصے کا کھانا دے آتی تھی اور ان کے پاس بیٹھ کر باتیں بھی کرتی تھی وہ مجھے بدلے میں ڈھیر ساری دعائیں دیتے تھے لیکن اس وقت مجھے یہ سب کچھ سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ ابھی بھی کسی بہت ضعیف اور کسی بہت چھوٹے سے بچے کو محنت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں دل بہت کڑھتا ہے اورکوشش کرتی ہوں کہ ان کے لیے کچھ کر سکوں لیکن ایک ایسا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا جس نے میری سوچوں کو کافی حد تک بدل دیا پھر میں بھی حالات اور وقت کے ساتھ بدل گئی جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ قارئین کی نظر ہے پھر آپ فیصلہ کیجیے گا کہ کیا اب میں صحیح ہوں یا غلط․․․․․ ہوا یوں کہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی اپنے لیے امی کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے میرا پانچ سالہ بیٹا بہت دنوں سے سائیکل کے لیے ضد کررہا تھا میں نے سوچا چلو آج میں سارے کام نبٹاتی ہوں میں نے اپنا پروگرام اس طرح بنایا کہ ساری شاپنگ کرلوں آخر میں سائیکل لے لوں تاکہ اس کو لے کر پھر نانہ پڑے کیونکہ وہ ایک بڑی چیز ہے اور کسی شاپر میں نہیں آسکتی تھی۔ (جاری ہے) اس بات پر عمل کرتے ہوئے میں نے ساری شاپنگ کرلی اچھا خاصہ اماؤنٹ خرچ ہوا تھا میرے ہاتھ میں چار پانچ شاپنگ بیگ تھے جن کو سنبھالنا بڑا مشکل ہورہا تھا اورکافی ٹائم بھی ہو گیا تھا بھوک پیاس دونوں ہی لگنی شروع ہو گئی تھیں۔ خیر میں نے رکشہ رکوایا‘جس رکشے کو ر کوایا اس کو اچھے خاصے ضعیف سے انسان چلا رہے تھے۔مجھے ان کو حسب معمول دیکھ کر بڑا دھچکہ لگا کیونکہ وہ خاصے کمزور اور لا غر دکھائی دے رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ نہ جانے کب سے کھانا نہیں کھایا ہے پیٹ بھر کر ان کو دیکھ کر میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ میں ان کو زیادہ کر ایہ دے دوں گا ۔ یہ سوچ کر میں ان کے رکشے میں بیٹھ گئی ساتھ میں سارے شاپنگ بیگ بھی رکھ لیے سنبھال کر‘رکشے میں بیٹھے ہی مجھے بھوک پیاس نے شدت سے ستانا شروع کر دیا میں نے ایک برگر والے کی شاپ پر رکشہ رکوایا اس برگر کے ساتھ گنے کے جوس والا بھی تھا جب میں برگر کا آرڈر دینے لگی تو خیال آیا کہ بابا جی یعنی رکشے والے کو بھی کھلا دینا چاہیے یہ سوچ کر میں نے بابا جی سے کہا۔ ”آپ بھی کچھ کھالیں۔“توکہنے لگے۔ ”میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں جب میں شام کو گھر جاؤں گا تو چٹنی روٹی کھالوں گا۔“میں نے کہا۔ ”ارے بابا جی آپ کھالیں پیمنٹ میں کروں گی‘آپ نے جو بھی کھانا ہے کھالیں۔ “پھر شاید انہوں نے کباب روٹی کی فرمائش کی کیونکہ برگر والے کے ساتھ کباب روٹی کا ہوٹل بھی تھا کباب روٹی کے ساتھ انہوں نے لسی کا آرڈر دیا جو کہ میں نے منظور کر کے اس کی بھی پیمنٹ کردی میں نے اپنا برگر کھا کر گنے کا جوس پی کر خدا کا شکر ادا کیا اور ساتھ میں اپنے اندر ایک اطمانیت سی محسوس کرنے لگی کہ میں نے کسی بھوکے کوکھانا کھلایا صرف اپنے رب کی خاطر کہ شاید وہ مجھ گناہگار سے راضی ہو جائے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لویہ کون سی کمال کی بات ہے یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن اصل بات تو آگے چل کر شروع ہو گی پھر آپ کو بھی افسوس ہو گا۔ خیرکھانے پینے سے جب فارغ ہوئے تو میں نے بابا جی سے کہا۔ ”اب آپ مجھے لائٹ ہاؤس سائیکل مارکیٹ لے چلیں پھر وہاں سے سائیکل لے کر آپ مجھے گھر چھوڑ دیجیے گا۔“بابا جی نے کہا۔ ”کیوں نہیں بیٹی تم نے بھی تو میرا پیٹ بھرا ہے میں بھلا اپنی بیٹی کو گھرکیوں نہیں چھوڑوں گا۔ “یہ کہہ کر انہوں نے رکشہ سائیکل مارکیٹ کی طرف موڑ دیا دس منٹ کے بعد ہم سائیکل مارکیٹ میں موجود تھے اور ہاں ان کو جب میں نے کھلایا تو مجھے اپنے اندر بڑا سکون محسوس ہوا کہ میں نے نیکی کی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ انسان جب کوئی نیکی خاص خدا کی رضا کے لیے کرتا ہے تو دل کو بڑا سکون محسوس ہوتا ہے مجھے بھی بس ایسا لگ رہا تھا لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ سکون عارضی ہے۔ خیر جناب سائیکل کی دکان پر رکشہ رکوایا تو میں نے سوچا کہ میں سائیکل لینے کے لیے اتروں گی تو ساتھ میں شاپنگ کے شاپرز ہیں پر ابلم ہو گی اور سائیکل خریدنا مشکل ہو جائے گا۔یہ سوچ کر میں نے بابا جی سے کہا۔ ”کیا میں اپنا سامان رکشے میں چھوڑدوں جتنی دیر میں سائیکل لوں گی آپ میرے سامان کا خیال رکھیے گا بس صرف پانچ سے دس منٹ لگیں گے آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا۔ “ ”ارے نہیں بیٹی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا تم اطمینان سے سائیکل خریدلو سامان کی فکرمت کرووہ میں دیکھ لوں گا۔“مگر مجھے تھوڑی ہچکچاہٹ ہورہی تھی کچھ بھی ہو ہر کسی پر اعتبار کرنا نہیں چاہیے اور پھر سامان اچھے خاصے اماؤنٹ کا تھا بابا جی نے جب یہ دیکھا کہ میں تھوڑی پریشان ہو رہی ہوں اور سامان چھوڑ کر جانا نہیں چاہ رہی تو وہ بولے۔ ”ارے بیٹی تم نے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھلایا پانی پلایا کیا وہ تمہارے ساتھ کوئی فراڈ کر سکتا ہے۔میں اس عمر میں ایسا کوئی غلط کام کرکے خدا کو ناراض نہیں کر سکتا جاؤ بیٹی سائیکل خرید لو اور سامان کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ۔ “بابا جی کہ اس طرح کہنے پر میں نے سوچا کہ شاید وہ صحیح کہہ رہے ہیں اور یہی میری سب سے بڑی بھول تھی یا میری سادگی تھی کہ میں نے ان پر بھروسہ کر لیا۔سوائے پر س کے میں نے باقی سارا سامان رکشے میں چھوڑا اور سائیکل لینے اندر شاپ پر چلی گئی البتہ ذہن نشین کر لیا کہ رکشہ کہاں پر کھڑا ہے تاکہ واپسی میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ خیر میں نے دس منٹ کے اندر اندر سائیکل خریدی اور بہت خوش تھی کہ اپنے پیارے سے بیٹے کی خواہش پوری کردی زیادہ بڑی سائیکل نہیں تھی خود ہی ہاتھ میں پکڑ کر دکان سے باہر آئی اور تھوڑا سا چل کر جب نظریں دوڑائیں تو رکشہ نظر نہ آیا میں نے سوچا کہ شایدمیں جگہ بھول گئی ہوں گی پھر میں نے چاروں جانب نظروں کو دوڑایا لیکن مجھے میرا مطلوبہ رکشہ نظر نہ آیا میں تھوڑا اور آگے کی طرف بڑھی اور رکشے کو ڈھونڈ نا شروع کیا رکشے تووہاں بہت سارے تھے لیکن میرا والا رکشتہ تو نظر ہی نہیں آرہا تھا میں نے دوبارہ اس علاقے کو اچھی طرح سے دیکھا لیکن وہ موصوف وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ پانچ چھ دفعہ میں نے ڈھونڈا آس پاس کے لوگوں سے پوچھا دکان والوں سے بھی رابطہ کیا لیکن وہ بابا جی رکشے سمیت غائب ہو چکے تھے اور پھر ہر کوئی وہاں پر اتنا مصروف تھا کہ کسی نے کوئی خاص توجہ ہی نہ دی میرادل اس وقت ایسا دھڑک رہا تھا جیسے کہ باہر ہی نکل آئے گا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھاکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کیا اتنی جلدی کسی کی نیت خراب ہو سکتی ہے ۔ کیا کوئی بھی ارادے اتنے ڈرامائی انداز میں بد ل سکتا ہے وہ بھی ایک بوڑھا اور کمزور سالا غر شخص کیا دھوکہ دیااس شخص نے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ایک ہاتھ میں میرا پرس اور دوسرے میں سائیکل پکڑے میں اس وقت حیرت زدہ کھڑی ہوئی تھی میں پھر بھی وہاں پر تقریباً ایک گھنٹے تک رہی اور بار بار اِدھر اُدھر دوڑتی رہی کہ شاید وہ کہیں سے نمودار ہو جائے یہ دیکھ کر کچھ لوگ میری طرف آئے اور کہا۔ ”محترمہ غلطی آپ کی ہے آپ نے اپنا سامان اس طرح سے کیوں چھوڑا کیوں اتنا اعتبار کیا‘کیا آپ کوپتہ نہیں ہے یہ دنیا دھوکے بازوں سے بھری پڑی ہے مال ودولت دیکھ کر تو اپنے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں وہ تو پھر ایک غیر شخص تھا۔ “ مجھے اس وقت ایسا لگ رہا تھاکہ میں جنگل بیاباں میں کھڑی ہوں اور میری چاروں طرف اعتبار و اعتماد کی کرچپاں بکھری پڑی ہوں مجھے اپنے سامان کا اتنا افسوس نہیں ہورہا تھا جتنا افسوس اس بات کا ہورہا تھا کہ میں نے کتنے خلوص سے ان کا خیال رکھا اور انہوں نے اس کا مان بھی نہ رکھا خدانخواستہ میں نے ان پرکوئی احسان نہیں کیا تھا کھانا کھلا کر یہ تو خدا کی طرف سے وسیلہ بنتا ہے لیکن بندے کو اتنا احساس تو ہونا چاہیے کہ ابھی جو شخص میرے ساتھ اتنا مخلص ہے کم از کم اس کا تھوڑا خیال تو رکھ لیں لیکن شاید انہوں نے میرے خلوص کا مذاق اڑایا تھا یقین کریں میں نے پھر پور خلوص وچاہت کے ساتھ ان کی ضعیفی کا خیال کیا تھا اور انہوں نے کس طرح سے مجھے جل دے کر بے اعتبار ی کی دیوار کھڑی کر دی تھی۔ میرامان ایک چھنا کے کے ساتھ زمین بوس ہو گیا میرے قدم ایک دم سے بہت بھاری ہو گئے دل ڈوب سا گیا ڈھیلے ہاتھ پیروں کے ساتھ دوسرا رکشہ رکوایا اور بہت ہی روہانسے انداز کے ساتھ رکشے میں سوار ہو گئی۔چہرہ بالکل زردسا ہو گیا سوچ سوچ کر دماغ شل سا ہو گیا جب رکشے والے نے بار بار پوچھا۔ ”کہاں جانا ہے؟“تو میں نے غائب دماغی کے ساتھ اپنے علاقے کا پتہ بتایا اور رکشے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی بار بار آنکھوں سے آنسو گرتے رہے سارے راستے آنسوؤں کو خشک کرتی رہی جو کہ رک ہی نہیں رہے تھے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن میں کچھ دیر پہلے کتنا سارا سامان تھا اب ہاتھ تقریباً خالی سے تھے کتنے ارمان سے میں نے اپنے بچوں کی شاپنگ کی تھی کیونکہ میں بازار بہت کم جاتی ہوں اور جب جاتی تو کافی شاپنگ کرلیتی ہوں میرا بازار جانا بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن اب تو لگ رہا تھا شاید اب کبھی نہ جاسکوں۔ کیونکہ میرے ساتھ یہ پہلی بار ہوا تھا اس لیے صبر ذرا مشکل ہی سے آرہا تھا لگ رہا تھا کہ رکشے میں پر لگ جائیں اور ایک لمحے میں گھر آجائے لیکن جانے کیوں راستہ لمبا ہی ہوتا جا رہا تھا یا مجھے ایسا لگ رہا تھا ۔ بڑے ڈوبتے دل کے ساتھ گھرمیں داخل ہو ئی سب سے نظریں ملاتے ہوئے عجیب سا لگ رہا تھا اپنے لٹنے کا غم اپنے خلوص کو بے مول ہوتے دیکھ کر دل کو صبر ہی نہیں آرہا تھا سامنے ہی میرے بچے اور امی کھڑی ہوئی تھیں میرا اتراہوا چہرہ دیکھ کر میری امی گھبراگئیں اور پوچھا۔ ”ارے کیا ہوا ہے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں‘ہائے میری بچی کچھ تو بتا کہ کیا ہوا اور تم صرف سائیکل لائی ہوتم تو کافی سامان کی لسٹ لے کر گئیں تھیں۔“مجھے ایک دم سے رونا آگیا اور پھر میں روتی ہی چلی گئی۔اور پھر اپنے لٹنے کی داستان حرف بہ حرف امی کو بلکہ سب گھر والوں کو سنائی سب نے سن کر کہا۔ ”یہ تو تمہاری بچپن کی عادت ہے ہر کسی پر اعتبار کر لینا پہلے کی بات اور تھی اور دور بہت بدل گیا ہے لوگوں کے انداز وارادے سب بدل گئے ہیں انسان کے اندر سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے اب تو یہ زمانہ ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی نیکی نہ ہی کی جائے الٹے نیکی گلے ہی پڑجاتی ہے اب تم یہی دیکھ لو تم نے کتنے خلوص سے بابا جی کا خیال رکھا اور انہوں نے کتنے بھونڈے طریقے سے تمہارے خلوص کو ٹھکرا دیا وہ کتنے دن اس سامان سے اپنی ضرورت کو پورا کریں گے کتنے دن اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہاں تووہ کچھ دن اس سے مزے کرلیں گے۔خدا کے ہاں تو ہمیشہ ہی اس کی سزا پاتے رہیں گے۔“ان سب کی باتیں میرے دل کو بدل رہی تھیں اور دماغ میں پیوست ہورہی تھیں اب زمانہ اور زمانے کے دستورسب کچھ بدل گیا ہے اب انسان انسان نہیں رہا ہے وہ خود غرض اور مفاد پرست ہو گیا ہے بہر حال اب میرا مائنڈ پہلے جیسا نہیں رہا ہے یا مجھے عقل آگئی ہے جو بھی ہو اس واقعے سے اتنا ضرور ہوا کہ میرے دل میں دراڑپڑگئی ہے اب کسی کے ساتھ نیکی سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہیے۔ اور ہاں میں نے پھر بھی بابا جی کو معاف کر دیا ہے کیونکہ ہمارے انبیاء کرام تو بڑے بڑے جرم معاف کر دیتے تھے خدا کے لیے وہ اتنے بڑے اور عظیم انسان تھے جب وہ اتنے عظیم ہو کر معاف کر سکتے ہیں ہم تو پھر ایک ادنیٰ سے غلام ہماری کیا اوقات کے ہم ان کی برابری کریں لیکن کم از کم ان کی اچھائیوں کا تو مان رکھ سکتے ہیں۔ “جائیے بابا جی میں نے آپ کو اپنے بچوں کے صدقے میں معاف کیا خدا بھی آپ کو معاف کر دے آمین۔“ بلقیس ریاض بعض اوقات آپ اپنے اردگرد اتنی زیادہ بُرائی دیکھتے ہیں کہ آپ کو اچھائی بھی دکھائی نہیں دیتی۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اچھائی کو زیادہ اہمیت دیں اور بُرائی کو نظر انداز کردیں۔اچھائی کو اہمیت دینے سے ہی اچھائی پھیلے گی اور معاشرتی بُرائیوں کو روکنا ممکن ہو سکے گا۔ گھر سے نکلی تو موسم بالکل صاف تھا۔گاڑی اسلام آباد کی صاف اور شفاف سڑک جو کہ مر گلہ کی طرف جاتی تھی رواں دواں تھی۔اچانک موسم ابر آلود ہو گیا اور گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی۔شاید کوئی حادثہ ہو گیا تھا۔گاڑیاں لائن کی صورت میں کھڑی نظر آئیں،ہلکی ہلکی بوندا باندی ہونی شروع ہو گئی پھول بیچنے والے لڑکے ہاتھوں میں گلدستے لئے گاڑیوں کے بیچوں بیچ لوگوں کو پھول خریدنے کے لئے اُکسا رہے تھے۔ (جاری ہے) ایک لڑکا میری گاڑی کے قریب آیا شیشے پر دستک دی اور التجا کی کہ میں پھول خریدلوں ۔میں نے پرس کھول کر ریز گاری چیک کی پانچ روپے کانوٹ نکال کر اسے دیا اورکہا؛”یہ تم لے لو پھول مجھے نہیں چاہئے“وہ خوشی خوشی نوٹ لے کر چلا گیا․․․․․اسی طرح ایک اور عورت آئی اور اس نے بھی پھول خریدنے کی فرمائش کی میں نے اسے بھی روپے دے کر چلتا کیا اور بڑی کوفت کے ساتھ ٹریفک کے رش کو دیکھا․․․․نہ جانے راستہ کب کھلے گا۔ “ ”پریشان نہ ہوں․․․․․بس کھیلنے والا ہے“ڈرائیور نے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی کچھ تیز ہو گئی اور گداگرلوگوں کی عید ہو گئی ایک کے بعد ایک بھیک مانگنے لگا۔ڈرائیور نے مجھ سے کہا۔ ”بیگم صاحبہ! آپ بالکل ان کو خیرات نہ دیں جب تک ٹریفک نہیں کھلتی انہوں نے جینا حرام کر دینا ہے“میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور وہ دروازہ کھٹکھٹاتے رہے مگر میں نے ان کی جانب نہ دیکھا ۔ گداگروں کے جاتے ہی میں نے دیکھا کہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا وہاں کھڑا تھا۔اس نے ایک ہاتھ میں شام کے اخبار اور دوسرے ہاتھ سے بوری کو تھاما ہوا تھا جو بارش سے بچنے کے لئے سر پر رکھی ہوئی تھی۔ ”بیگم صاحبہ پلیز اخبار لے لیں“میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب کسی گداگر یا پھول بیچنے والے کو نہیں دیکھوں گی۔ مجھ سے جواب نہ پا کر وہ اگلی گاڑیوں کی طرف چلا گیا۔گھوم گھما کے وہ پھر میرے دروازے پر دستک کرتے ہوئے بولا:پلیز بیگم صاحبہ میں سٹوڈنٹ ہوں یہ دو اخبار لے لیں صبح سے ایک بھی نہیں بکا․․․․․آپ کی عنایت ہو گی۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی جانب دیکھا ․․․․․ایک نہایت ہی معصوم لڑکا التجا بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔ ”آج پیسوں کی بہت ضرورت ہے ․․․․․گھر پہ میری امی پریشان ہونگی بہت دیر ہو گئی ہے․․․․․گھر دور بھی بہت ہے ․․․․اگر آپ جو بھی لے لیں گی تو کچھ نہ کچھ تو گھر لے ہی جاؤں گا۔“ میں نے دل میں سوچا۔ ”چلو بے چارہ بارش میں بھیگ رہا ہے․․․․خیرات کردو“․․․․میں نے پرس میں سے دس کا نوٹ نکالا اور ہلکی سی کھڑکی کھول کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ وہی جملہ دہرایا۔ ”اخبار بھی نہیں چاہئیں“․․․․ اس لڑکے نے ہولے سے کہا۔ ”میری ماں نے منع کیا ہے کہ خیرات نہیں لینی․․․․․آپ دس روپے کے تین اخبار لے لیں․․․․ورنہ اپنا نوٹ واپس لے لیں“اس نے نوٹ واپس کرتے ہوئے کہا․․․․چار ونچار مجھے اخبار بھی لینی پڑیں․․․․اور وہ بھیگنا بھگانا ۔ گاڑیوں کے بیجوں بیچ راستہ بناتا ہوا فٹ پاتھ پر چلنے لگا․․․․․اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی لہر دوڑرہی تھی․․․․․وہ مطمئن تھا․․․․میں ابھی تک حیرت میں مبتلا تھی کہ دنیا میں اس طرح کے لوگ بھی ہیں جو کسم پرسی میں وقت گزاررہے ہیں اور رزق حلال کما رہے ہیں․․․․․․ایسی ماؤں کو بھی سلام کرنے کو بھی چاہتا ہے کہ اتنی اچھی ترتیب․․․․․ خیرات جیسی لعنت سے اپنے بچے کو دور رکھا․․․․․اگر لوگ اسی طرح صبروتحمل سے محنت کریں تو خدا مدد ضرور کرے گا․․․․․کم از کم روزی میں برکت ضرور ڈالے گا۔ اتنے سارے گداگروں میں صرف ایک لڑکا ایسا تھا اور اگر سب کے سب اسی خیال کے ہو جائیں محنت مزدوری کریں․․․․․وہ دن دور نہیں جب کہ یہ ملک امن چین اور خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔ چہرے پر اطمینان اور سکون کی لہر دوڑرہی تھی․․․․․وہ مطمئن تھا․․․․میں ابھی تک حیرت میں مبتلا تھی کہ دنیا میں اس طرح کے لوگ بھی ہیں جو کسم پرسی میں وقت گزاررہے ہیں اور رزق حلال کما رہے ہیں․․․․․․ایسی ماؤں کو بھی سلام کرنے کو بھی چاہتا ہے کہ اتنی اچھی ترتیب․․․․․ خیرات جیسی لعنت سے اپنے بچے کو دور رکھا․․․․․اگر لوگ اسی طرح صبروتحمل سے محنت کریں تو خدا مدد ضرور کرے گا․․․․․کم از کم روزی میں برکت ضرور ڈالے گا۔ اتنے سارے گداگروں میں صرف ایک لڑکا ایسا تھا اور اگر سب کے سب اسی خیال کے ہو جائیں محنت مزدوری کریں․․․․․وہ دن دور نہیں جب کہ یہ ملک امن چین اور خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔لٹنے کی داستان حرف بہ حرف امی کو بلکہ سب گھر والوں کو سنائی سب نے سن کر کہا۔ ”یہ تو تمہاری بچپن کی عادت ہے ہر کسی پر اعتبار کر لینا پہلے کی بات اور تھی اور دور بہت بدل گیا ہے لوگوں کے انداز وارادے سب بدل گئے ہیں انسان کے اندر سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے اب تو یہ زمانہ ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی نیکی نہ ہی کی جائے الٹے نیکی گلے ہی پڑجاتی ہے اب تم یہی دیکھ لو تم نے کتنے خلوص سے بابا جی کا خیال رکھا اور انہوں نے کتنے بھونڈے طریقے سے تمہارے خلوص کو ٹھکرا دیا وہ کتنے دن اس سامان سے اپنی ضرورت کو پورا کریں گے کتنے دن اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہاں تووہ کچھ دن اس سے مزے کرلیں گے۔خدا کے ہاں تو ہمیشہ ہی اس کی سزا پاتے رہیں گے۔“ان سب کی باتیں میرے دل کو بدل رہی تھیں اور دماغ میں پیوست ہورہی تھیں اب زمانہ اور زمانے کے دستورسب کچھ بدل گیا ہے اب انسان انسان نہیں رہا ہے وہ خود غرض اور مفاد پرست ہو گیا ہے بہر حال اب میرا مائنڈ پہلے جیسا نہیں رہا ہے یا مجھے عقل آگئی ہے جو بھی ہو اس واقعے سے اتنا ضرور ہوا کہ میرے دل میں دراڑپڑگئی ہے اب کسی کے ساتھ نیکی سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہیے۔ اور ہاں میں نے پھر بھی بابا جی کو معاف کر دیا ہے کیونکہ ہمارے انبیاء کرام تو بڑے بڑے جرم معاف کر دیتے تھے خدا کے لیے وہ اتنے بڑے اور عظیم انسان تھے جب وہ اتنے عظیم ہو کر معاف کر سکتے ہیں ہم تو پھر ایک ادنیٰ سے غلام ہماری کیا اوقات کے ہم ان کی برابری کریں لیکن کم از کم ان کی اچھائیوں کا تو مان رکھ سکتے ہیں۔ “جائیے بابا جی میں نے آپ کو اپنے بچوں کے صدقے میں معاف کیا خدا بھی آپ کو معاف کر دے آمین۔“ بلقیس ریاض بعض اوقات آپ اپنے اردگرد اتنی زیادہ بُرائی دیکھتے ہیں کہ آپ کو اچھائی بھی دکھائی نہیں دیتی۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اچھائی کو زیادہ اہمیت دیں اور بُرائی کو نظر انداز کردیں۔اچھائی کو اہمیت دینے سے ہی اچھائی پھیلے گی اور معاشرتی بُرائیوں کو روکنا ممکن ہو سکے گا۔ گھر سے نکلی تو موسم بالکل صاف تھا۔گاڑی اسلام آباد کی صاف اور شفاف سڑک جو کہ مر گلہ کی طرف جاتی تھی رواں دواں تھی۔اچانک موسم ابر آلود ہو گیا اور گاڑی ٹریفک میں.

Read on the App

Download by scanning the QR code to get countless free stories and daily updated books

Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD