اسم ذات کی اقسام
اسم ذات:
اسم ذات کسی چیز کا وہ نام ہے جس سے اس چیز کی حقیقت دوسری چیزوں سے الگ سمجھی جائے۔
مثلاً:– گھوڑا چالاک جانور ہے ، بلی میاؤں میاؤں کرتی ہے ،کتاب قلم، پنسل، سلیٹ ،تختی بازار سے خریدو ، گائے دودھ دیتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اُوپر کی مثالوں میں گھوڑا، بلی، گائے، کتاب، قلم، پنسل، سلیٹ، تختی، ہر ایک چیز دوسری ذات سے جدا جدا ہے۔ ہر ایک چیز کا نام الگ لیتے ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے جدا ہے۔ یعنی جنس اور ذات کے لحاظ سے یہ چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایسے اسم ،اسم ذات کہلاتے ہیں۔
اسم ذات کی چھ قسمیں ہیں:
(١) اسم تصغیر (٢) اسم مکبر (٣) اسم آلہ (٤) اسم ظرف (٥) اسم صوت (٦) اسم جمع
(١ ) اسم تصغیر:
اسم تصغیر وہ اسم ہے جس کے معنوں میں چھوٹا پن پایا جائے۔
مثلاً:- ہمارا باغیچہ پھولوں سے سجا ہوا ہے۔
صندوقچہ میں کیا ہے۔
ڈبیا ادھر لاؤ۔
ڈھولک کس کی ہے۔
پیالی میں پانی ہے وغیرہ۔
اُوپر کی مثالوں میں باغیچہ، صندوقچہ، ڈبیا، ڈھولک اور پیالی۔ سب چیزوں کے نام ہیں اور ان میں چھوٹای کے معنی پائے جاتے ہیں ایسے اسم، اسم تصغیر کہلاتے ہیں۔
(٢) اسم مکبر:
اسم مکبر وہ اسم ہے جس کے معنوں میں کسی قسم کی بڑائی پائی جائے۔
مثلاً:- صدر کی سواری شہر میں سے جارہی ہے۔سر پر پگڑ بندھا ہوا ہے۔ ایک خادم چھتر کا سایہ کیے ساتھ جا رہا ہے۔
اوپر کی عبارت میں پکڑ میں پکڑی کی نسبت اور چھتر میں چھتری کی نسبت بڑائی پائی جاتی ہے ۔جس چیز کے نام میں اس چیز کی نسبت بڑائی پائی جائے اس سے اسم مکبر کہتے ہیں۔
(٣) اسم آلہ:
اسم آلہ وہ اسم ہے جس میں اوزار یا ہتھیار کے معنی پائے جائیں۔
مثلاً:- ڈھال، تلوار، بلم، پھکنی ،ڈوی ،چاقو، جھولا، اور چھلنی۔
اوپر کے دیے ہوے الفاظ سب کے سب اسم آلہ ہیں ۔یہ سب اوزار اور ہتھیار ہیں۔
(٤) اسم ظرف:
اسم ظرف وہ اسم ہے جس میں وقت یا کسی جگہ کے معنی پاے جائیں۔
١ جس اسم میں وقت کے معنی پائے جائیں اسے ظرف زماں کہتے ہیں۔
٢ جس اسم میں جگہ کے معنی پائے جائیں اسے ظرف مکاں کہتے ہیں۔
مثلاً:-– ہم کل عید گاہ سیر کے لیئے گئے۔
مدرسہ کھل گیا ہے۔
قلمدان میں قلم رکھ دو۔
بت خانے میں کون ہے۔
مسجد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔
آج عید ہے۔
چار بج چکے ہیں۔
اُوپر کے فقروں میں کل، آج ، چار بجے، سے وہ زمانہ معلوم ہوتا ہے جس میں فعل واقع ہوا ہو۔جس اسم میں وقت کے معنی پائے جائیں اسے ظرف زماں کہتے ہیں۔اور عید گاہ ، مدرسہ، قلمدان، بت خانہ، اور مسجد سے وہ جگہ پائی جاتی ہے جہاں فعل یعنی کام واقع ہوا ہے پس ایسے اسم ظرف مکاں کہلاتے ہیں۔
(٥) اسم صوت
اسم صوت وہ اسم ہے جس میں کسی طرح کی آواز کے معنی پائی جائیں۔
مثلاً:— دھوبی پانی میں کھڑا چھو چھو کر رہا ہے۔
کوا کائیں کائیں کرتا ہے۔
بارش چھم چھم برستی ہے۔
بلی میاؤں میاؤں کرتی ہے۔
اُوپر کی مثالوں میں چھو چھو، کائیں کائیں، چھم چھم، اور میاؤں میاؤں آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ایسے اسم اسم صوت کہلاتے ہیں۔
(٦) اسم جمع:
اسم جمع وہ اسم ہے جس میں جمع کی کوئی علامت نہ ہو مگر معنی جمع کا دے۔
مثلاً:– محفل علم و ادب کا دفتر شہر کے وسط میں ہے۔
دشمن سے لڑنے کے لیے فوج میدان جنگ میں جا رہی ہے۔
ہماری جماعت کا مانیٹر عبدالمجید ہے۔
اُوپر کی مثالوں میں فوج، محفل، دفتر، جماعت ایسے الفاظ ہیں جو بظاہر واحد ہے مگر معنی جمع کا دیتے ہیں۔یعنی ایک مجمع کو ظاہر کر رہے ہیں۔ایسے اسم ، اسم جمع کہلاتے ہیں.
اسم مصدر کی اقسام
مصدر:
مصدر وہ لفظ ہے جس میں کسی کام کا اظہار تو ہوتا ہے لیکن اس کے لوازم اس میں نہیں پائے جاتے یعنی وہ کلمہ جس میں کسی کام یا حرکت کا بیان ہو اور اس میں زمانہ نہ پایا جائے اس کو مصدر کہتے ہیں۔اس کے آخر میں ‘نا’ آتا ہے۔جیسے کھانا، جانا، گانا وغیرہ۔اگرچہ مصدر کے آگے ‘نا’ ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر لفظ جس کے آخر میں ‘نا’ ہو وہ مصدر ہی ہو۔جیسے بانا ، نانا،کانا،وغیرہ۔ مصدر کی پہچان کے لیے نشانی یہ ہے کہ ‘نا’ ہٹانے سے مصدر حکم بن جاتا ہے جیسے ‘لکھنا’ سے ‘لکھ’ ‘جانا’ سے ‘جا ‘ وغیرہ۔
مصدر کی قسمیں:
١- بناوٹ کے لحاظ سے مصدر کی دو قسمیں ہیں
(١) مصدر وضعی یا اصلی (٢) مصدر غیر وضعی یا جعلی
(١) مصدر وضعی یا اصلی:- وہ مصدر ہے جو صرف مصدری معنوں کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
(٢) مصدر غیر وضعی یا جعلی:-وہ مصدر ہے جو دوسری زبانوں کے الفاظ پر مصدر یا علامت مصدر زیادہ کرکے بناے گے ہوں۔
مثلاً:
انصاف کرنا،خریدنا، وغیرہ۔
١-کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا۔
٢-انصار کرنا، روشن کرنا، دھوکا دینا ،بھیک مانگنا، لکچر دینا، ایکٹ کرنا۔
٣-للچانا،لرزنا،خریدنا،آزمانا،ہتھیانا۔
نمبر 1 کی مثالوں میں ایسے مصادر ہیں جو صرف مصدری معنوں ہی کے لئے وضع کئے گئے ہیں یعنی جب سے زبان بنی ہے تب سے اسی طرح بولے جاتے ہیں ایسے مصدر، مصدرِ اصلی کہلاتے ہیں۔
نمبر 2 کے مصادر ایسے ہیں کہ فارسی، عربی، ہندی ،انگریزی الفاظ پر مصدر زیادہ کر کے بنائے گئے ہیں۔
نمبر 3 کے مصدر فارسی اور اردو لفظوں میں کچھ تبدیلی کر کے بنائے گئے ہیں ایسے مصدر، مصدر جعلی کہلاتے ہیں۔
٢- کمی پیشی کے لحاظ سے مصدر کی قسمیں
(١) مجرد (٢) مزید فیہ
(١) مجرد:- مصدر مجرد وہ مصدر ہے کہ اگر اس میں سے کوئی حرف کم کردیں تو مصدر، مصدر نہ رہے۔
(٢) مصدر مزید فیہ:– مصدر مزید فیہ وہ مصدر ہے جو مصدر مجرد پر کچھ حرف زیادہ کرکے بنایا گیا ہو۔
دونوں کی مثالیں:
١-دھونا، ستانا، لکھنا، آنا۔
٢-دھو لینا،ستا چکنا،لکھ دینا،آجانا،چلے جانا۔
نمبر1 کے مصادر سے کاموں کا کرنا، ہو نا سمجھا جاتا ہے یعنی وہ صرف مصدری معنی دیتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی حرف کم کردیں تو مصدری صورت بدل جاتی ہے یعنی مصدر نہیں رہتا۔ایسے مصادر مجرد ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے مصادر ایسے ہیں کہ مصدروں پر کچھ حرف زیادہ کیے ہوئے ہیں۔ایسے مصدر مزیدفیہ کہلاتے ہیں۔
٣- معنی کے لحاظ سے مصدر کی قسمیں:
(١) مصدر لازم (٢) مصدر متعدی
(١) مصدر لازم :- مصدر لازم وہ مصدر ہے جس کا فعل صرف فاعل کو چاہے۔
(٢) مصدر متعدی:- مصدر متعدی وہ مصدر ہے جس کا فعل ، فاعل اور مفعول دونوں کو چاہے۔
دونوں کی مثالیں:
١- مجیب پیٹھا، خادمہ اٹھی ،مینہ برسا،بجلی گری۔
٢-رشید نے گھوڑا خریدا،فاطمہ نے امتحان پاس کیا،دھوبی نے کپڑے دھوے، اس نے روٹی کھائی۔
نمبر ١ کے فقروں میں بیٹھا، اٹھی،برسا،گری فعل ہیں بیٹھنا، اٹھنا،برسنا، گرنا مصدروں سے بنائے گئے ہیں۔مجیب،خادمہ ،مینہ ،بجلی فعلوں کے فاعل ہیں۔فعل اور فاعل مل کر بات پوری ہو گئی ہے اور کسی مفعول کی ضرورت نہیں۔ایسے فعلوں کے مصدروں کو مصدر ملازم کہتے ہیں۔
دوسرے۲ نمبر کے فقروں میں خریدا، پاس کیا، دھوے،کھائیں،فعل ہیں اور ان کے فاعل رشید، فاطمہ، دھوبی رشید ہیں۔لیکن صرف فعل اور فاعل ملنے سے ان جملوں کا مطلب پورا نہیں ہوتا۔”خریدا” کے لیے اس چیز کا ہونا بھی ضروری ہے جو خریدی گی ہو۔”پاس کیا” کے لیے وہ چیز جو پاس کی گئی ہو اور “دھو لیے” کے لیے وہ چیز جو دھوی گئی ہو اور “کھائی “کیلئے وہ چیز جو کھائی گئی ہو۔جب تک ایسی چیزوں کا ذکر نہ ہو بات پوری نہیں ہوتی اور وہ چیزیں ان جملوں میں گھوڑا، امتحان، کپڑے، روٹی ہیں۔پس ایسے فعل جو مفعول کو چاہیں ان کے مصادر متعدی کہلاتے ہیں۔
مصدر متعدی کی قسمیں:
١- مفعول کے لحاظ سےمصدر متعدی کی قسمیں
مفعول کے لحاظ سے مصدر متعدی کی تین قسمیں ہیں:
(١) مصدر متعدی بہ یک مفعول:– وہ مصدر ہے جس سے بنا ہوا فعل ایک مفعول کو چاہے۔ مثلاً:-دیکھنا، سننا، لانا وغیرہ
(٢) مصدر متعدی بہ دو مفعول:-وہ مصدر ہے جس سے بنا ہوا فعل دو مفعولوں کو چاہیے۔مثلا:- سیکھانا، بتانا، کھلانا وغیرہ
(٣) مصدر متعدی بہ سہ مفعول:-وہ مصدر ہے جس سے بنا ہوا فعل تین مفعولوں کو چاہے۔مثلا:- کھلوانا، پلوانا، دلوانا وغیرہ۔
٢- بناوٹ کے لحاظ سے مصدر متعدی کی قسمیں:
بناوٹ کے لحاظ سے مصدر متعدی کی تین قسمیں ہیں۔
(١) متعدی بنفسہ :- وہ مصدر ہیں جو بذات خود متعدی ہیں۔
(٢) متعدی بالواسطہ:- وہ مصدر ہے جو مصدر لازم سے بنے۔
(٣) متعدی المتعدی:- وہ مصدر ہیں جو متعدی مصدروں سے پھر متعددی بنائے گئے ہوں۔
مثال:– ١- کھانا، لکھنا
٢-پکانا، چلانا
٣-کھلانا ،لکھوانا
پہلے دو مصدر بذات خود متعدی ہیں۔نمبر ٢ کے مصدر لازم مصدروں سے بنائے گئے ہیں یعنی “چلنا اور پکنا” سے۔تیسرے دو مصدر متعدی مصدروں” کھانا اور لکھنا” پر کچھ حرف بڑھا کر بنائے گئے ہیں۔پس پہلی قسم کے مصدر متعدی بنفسہ ،دوسری قسم کے متعدی بالواسطہ،اور تیسری قسم کے متعدی المتعدی ہیں.
اسم صفت کی اقسام
صفت
وہ اسم ہے جس سے کسی اسم کی بھلائی یا برائی ظاہر ہوتی ہے۔یعنی صفت ان الفاظ کو کہتے ہیں جو کسی اسم کی حالت یا کیفیت یا مقدار کے بارے میں بتاتے ہیں۔
مثلاً:- کالی بلی میں کالی صفت ہے۔،موٹا آدمی میں آدمی اسم ہے اور موٹا اس کی صفت ہے۔،اونچے اونچے درخت میں اونچے اونچے صفت ہیں۔اسی طرح کسی اسم کی اچھائی یا برائی بھی صفت میں بیان کی جاتی ہے جیسے :اچھا، برا، نیک اور جس اسم کی بھلائی یا برائی ظاہر ہوتی ہے اس کو موصوف کہتے ہیں۔
صفت کی پانچ قسمیں ہیں:
(١) صفت ذاتی یا تفصیلی (٢) صفت نسبتی (٣) صفت عددی (٤) صفت مقداری (٥) صفت ضمیری۔
(١) صفت ذاتی یا تفصیلی:
صفت ذاتی وہ صفت ہے جو کسی چیز یا شخص کی ذاتی حالت کو ظاہر کرتی ہو۔یعنی صرف ذاتی وہ صفت ہے جس سے کسی چیز کی حالتِ بیرونی یا اندرونی ظاہر ہوتی ہو۔
مثلاً:- بہادر لڑکا، اچھی کتاب ، ہوشیار استاد۔
اُوپر کے مرکبات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمات لڑکا، کتاب، اور استاد کی ذاتی حالت کو ظاہر کر رہے ہیں۔پس ایسی صفت جو کسی کی ذاتی صفت کو ظاہر کرے صفت ذاتی کہلاتی ہے۔
(٢) صفت نسبتی:
صفت نسبتی وہ الفاظ ہیں جن کا کسی دوسری چیز سے لگاؤ یا نسبت ظاہر ہوتی ہے جیسے: کشمیری، پنجابی، شورش کاشمیری, کابلی بادام، پنجابی سپاہی،میں کشمیری، پنجابی ،کابلی وغیرہ الفاظ صفت نسبتی ہیں۔
آئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
کشمیری شال اچھا ہوتا ہے۔
میرے استاد محترم محمد حسین جموی ہیں۔
محمود حسین بدخشی میرے دوست ہیں۔
اُوپرکی مثالوں میں کشمیری ،جموی، بدخشی۔ یہ سب صفتیں نسبت سے حاصل ہوئی ہیں۔نسبت کے معنی لگاو کے ہیں اس لئے ایسی صفتیں نسبتی کہلاتی ہیں اور جس چیز کی طرف نسبت دی جاتی ہے اسے منسوب الیہ اور جس کی نسبت کی جاتی ہیں اسے منسوب کہتے ہیں۔
اُوپر کی مثالوں میں کشمیر، جموں، بدخشاں ،منسوب الیہ اور شال، محمد حسین، محمود حسین، منسوب ہیں۔
(٣) صفت عددی:
صفت عددی وہ صفت ہے جس میں تعداد کے معنی پائے جائیں۔یعنی صفت عددی وہ الفاظ ہوتے ہیں جن سے کسی اسم کی تعداد معلوم ہوتی ہے۔جیسے دو آدمی، پانچ مرغے،تین گز زمین، وغیرہ میں دو، پانچ ،تین صفت عددی ہیں اسی طرح سب لوگ، سارے کھیت ،تمام دنیا۔ ،میں سب، سارے، اور تمام۔ صفت عددی کہلاتے ہیں۔
آئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
تین شال خریدے گئے۔
سات آدمی آئے۔
تیسری جماعت کہاں ہے؟
آج چاند کی چودھویں تاریخ ہے۔
تمام آدمی حاضر ہیں۔
یہ آم اس سے دوگنا ہے۔
یہ دروازہ اس دروازے سے تگنا چوڑا ہے۔
اُوپر کی مثالوں میں لفظ تین ، سات ، تیسری ، چودھویں، تمام، دوگنا ، تگنا۔سب صفت کے معنی دیتے ہیں لیکن ہر ایک سے کچھ تعداد معلوم ہوتی ہے اس لئے یہ سب صفت عددی کہلاتے ہیں۔
صفت عددی کی دو قسمیں ہیں:
(١) عدد معین:
وہ صفت عددی ہے جس سے کسی شے کی تعداد ٹھیک ٹھیک معلوم ہو۔
جیسے:- پانچ ، سات ، بیس، سو، وغیرہ۔
(٢) عدد غیر معین:
وہ صفت عددی ہے جس سے کسی شے کی تعداد ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو۔
جیسے:-چند، کئی بعض، کم، کچھ، سب، کل، بہت وغیرہ۔
(٤) صفت مقداری:
صفت مقداری وہ صفت ہے جو کسی چیز کی مقدار کو ظاہر کرتی ہو۔یعنی صفت مقداری وہ صفت ہے جس میں کسی اسم کی مقدار معلوم ہوتی ہو ۔جیسے چمچہ چائے، بہت دھن، تھوڑی رقم، وغیرہ میں چمچہ، بہت ، تھوڑی ،صفت مقداری ہیں۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
میں نے کچھ دودھ پیا۔
اسے زیادہ درد ہے۔
تھوڑا سا پانی پی لو۔
سیر بھر کھانڈ لاو۔
اوپر کی مثالوں میں کچھ، زیادہ، تھوڑا سا، سیر بھر، صفت کی مقدار ظاہر کر رہے ہیں۔اس لئے ایسے لفظوں کو صفت مقداری کہتے ہیں۔
(٥) صفت ضمیری:
صفت ضمیری وہ الفاظ ہیں جو صفت کا کام دیتے ہیں۔
جیسے:- یہ شخص میرا دوست ہے،
وہ کتاب میری ہے،
کون جانا چاہتا ہے،
اوپر کی مثالوں میں یہ، وہ، کون۔ وغیرہ الفاظ صفت ضمیری کہلاتے ہیں.
اسم ضمیر:
اسم کی بجائے جو الفاظ بیان کیے جاتے ہیں وہ ضمیر کہلاتے ہیں یعنی اسم ضمیر وہ کلمہ ہے جو کسی دوسرے اسم کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً:- وہ، میں، ہم ، تم، تمہارا ،میرا ، تیرا وغیرہ۔
ضمیر کی چار قسمیں ہیں:
(١) ضمائر شخصی (٢) ضمائر موصولہ (٣) ضمائر استفہامیہ (٤) ضمائر اشارہ
(١) ضمائر شخصی:
وہ ضمیر ہے جس میں کسی شخص کے بارے میں ذکر کیا جائے۔
مثلاً:–
١-میں نے دو گھوڑے خریدے۔ہم دہلی سے آئے۔
٢-تو کہاں جائے گا۔؟تم اس جگہ مکان بناؤ۔
٣۔وہ یہاں نہیں رہتے۔وہ کدھر گیا۔
نمبر ١ کے فقروں میں”میں اور ہم” سے وہ شخص مراد ہے جو باتیں کر رہا ہے اور اس سے متکلم کہتے ہیں۔
نمبر ٢ کے فقروں میں “تو اور تم” سے وہ شخص مراد ہے جس سے بات ہورہی ہے اور اس سے مخاطب کہتے ہیں۔
نمبر ٣ کے جملوں میں” وہ “سے وہ شخص مراد ہے جس کے بارے میں ذکر ہو رہا ہے اسے غائب کہتے ہیں۔
ضمیر شخصی کی تین قسمیں ہیں:
(١) ضمیر متکلم:
ضمیر متکلم وہ ضمیر ہے جو کلام کرنے والا اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔
(٢) ضمیر مخاطب:
ضمیر مخاطب وہ ضمیر ہے جو کلام کرنے والا مخاطب کے لیے استعمال کرتا ہے۔
(٣) ضمیر غائب:
ضمیر غائب وہ ضمیر ہے جو اس شخص کے لئے آئے جس کا ذکر ہو رہا ہو اور جو حاضر نہیں ہوتا۔
(٢) ضمیر موصولہ:
ضمیر موصولہ وہ ضمیر ہے جس کے ساتھ ہمیشہ ایک جملہ یعنی صلہ ہوتا ہے۔ضمائر موصولہ یہ ہیں:
جو، جوجو، جو کہ، وہ جو، جو کوئی، جو چیز، جو کچھ، جونسی،وغیرہ۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
جو لڑکا محنت کرتا ہے کامیابی حاصل کرتا ہے۔جونسا قلم چاہو لے لو۔جو کچھ تم نے سنا صاف صاف بتا دو۔
ان مثالوں میں جو، جونسا، جو کچھ ایسے کلمے ہیں کہ جب تک ان کے ساتھ ایک اور جملہ نہ ملے پورے معنی نہیں دیتے ہیں۔ایسے کلموں کو موصول کہتے ہیں۔اردو جملوں ان کے ساتھ ملایا جاتا ہے اسے ‘صلہ’ کہتے ہیں۔ موصول اور صلہ مل کر پوری بات نہیں ہوتی بلکہ صلہ اور موصول ملکر کلام کا جزو ہوتے ہیں۔اگر صرف ‘جو محنت کرتا ہے’ کہا جائے تو نتیجے کا انتظار باقی رہتا ہے۔اسی طرح ‘جونسا قلم چاہو’ ۔’جو کچھ تم نے سنا’ ۔ان سے پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔پس موصول اور صلے کے بعد ایک اور جملے کا آنا ضروری ہے تاکہ بات پوری ہو جائے۔
(٣) ضمائر استفہامیہ:
استہفامیہ اس ضمیر کو کہتے ہیں جو پوچھنے کے موقع پر بولی جاتی ہے۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
تم کیا کر رہی ہو؟ ، میں نے کسے پکارا ہے؟
اس لڑائی میں کتنے مرے؟ تم نے کتنا کھایا؟ یہ لو کتابیں تمھیں کونسی پسند ہے ؟
اُوپر کی مثالوں میں کیا، کون، کسے، کتنے، کتنا، کونسی، وغیرہ سب کلمے سوال پوچھنے کے موقع پر استعمال کئے ہیں اور کسی اسم کی جگہ آئے ہیں پس جو کلمے پوچھنے کے موقع پر کسی اسم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ضمائر استفہامیہ کہلاتے ہیں۔
(٤) ضمائر اشارہ:
ضمیر اشارہ وہ ضمیر ہے جو بطور اشارہ کے استعمال ہوتی ہے یعنی ضمیر اشارہ وہ ضمیر ہے جس سے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جائے۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
یہ میرا ہے، وہ آپکے لیے ہے، وہ رام لال کی ہے،وہ دیکھو چاند نکل رہا ہے،یہ دیکھو سانپ جارہا ہے۔
ترکی ان مثالوں میں “وہ” اور “یہ” سے کسی اسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔قریب کے لیے “یہ” اور بعید کے لیے “وہ” کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے ۔پس “یہ” اور “وہ” اشارہ ہیں اور جس چیز کی طرف اشارہ کیا جائے اسے “مشار الیہ” کہتے ہیں.
فاعل اور مفعول کی اقسام
اسم فاعل:
وہ اسم مشتق ہے جو اس کام کے کرنے والے کو ظاہر کرے جو مصدر میں پایا جاتا ہے یا جس کی ذات سے ہی کام کا کرنا ظاہر ہو۔
مثلاً:– لکھنے والا ،پڑھنے والا، پینے والا، دوڑنے والا، کھانے والا۔
ان کلموں میں لکھنے والا اس شخص کو ظاہر کرتا ہے جس سے لکھنے کا کام وجود میں آیا، یعنی جو لکھے،اسی طرح پڑھنے والا اس کو جو پڑھے،دوڑنے والا اس کو جو دوڑے۔کھانے والا جو کھائے،پینے والا جو پیے۔
اور یہ وہ کام ہیں جو ان مصدروں کے معنوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے اسم ، اسم فاعل کہلاتے ہیں۔
اسم فاعل کی دو قسمیں ہیں:
(١) اسم فاعل سماعی (٢) اسم فاعل قیاسی
(١) اسم فاعل سماعی:
وہ اسم فعل ہے جو ہر فعل سے نہیں بنایا جا سکتا۔جس طرح لوگ استعمال کرتے ہیں یا اہل زبان نے استعمال کیا ہے ویسے ہی استعمال کیا جا سکے۔سماعی اسم فاعل کے آخر میں والا، ہارا ، ایرا، یا او، اک، ڑی وغیرہ لگاتے ہیں۔ کیسے لکڑہارا، سنار، لوہار، سپیرا ، کھلاڑی وغیرہ۔
(٢) اسم فاعل قیاسی:
وہ اسم فاعل ہے جس کو ایک مقررہ قاعدے سے بنایا جائے۔مصدر کا الف ہٹا کر اس کے آگے یائے مجہول لگاتے ہیں اور پھر والا، والے ،والی، والیاں، میں سے ایک لفظ لگا کر بنایا جاتا ہے۔جسے کھانا سے کھانے والا، کھانے والے، کھانے والی،کھانے والیاں وغیرہ۔
اسم مفعول اور اسکی قسمیں:
اسم مفعول:
وہ اسم ہے جس سے وہ شخص یا چیز سمجھی جاتی ہے جس پر فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے۔جیسے کھایا ہوا، کھائے ہوئے، کھائی ہوئی، وغیرہ۔اس کے علاوہ رنجیدہ دیدہ، مجروح، مرغوب ،محتاج وغیرہ بھی اسم مفہول کہلاتے ہیں۔
اسم مفعول کی دو قسمیں ہیں:
(١) اسم مفعول قیاسی ( ٢) اسم مفعول سماعی
(١) اسم مفعول قیاسی:
وہ اسم ہیں جوہ اس قاعدے کے مطابق بنایا گیا ہو۔
(٢) اسم مفعول سماعی:
وہ اسم ہے جس کو عام قاعدے سے بنانا گیا ہو.
فعل کی مختلف اقسام
معنی کے لحاظ سے فعل کی چارقسمیں ہیں:
(١) فعل لازم (٢) فعل متعدی (٣) فعل ناقص (٤) فعل معدولہ
(١) فعل لازم:
وہ فعل ہے جس میں کسی کام کا کرنا پایا جائے مگر اس کا اثر صرف کام کرنے والے تک رہے یعنی فعل لازم وہ فعل ہے جس میں کام کا اثر صرف کام کرنے والے یعنی فاعل تک ہی محدود رہے۔
مثلاً:– “فاروق بولا،” میں “فاروق” فاعل اور “بولا” فعل لازم ہے۔
یاد رکھو کام کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں۔
(٢) فعل متعدی:
وہ فعل ہے جس کا اثر فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچے۔
مثلاً:- کرتار سنگھ نے رجسٹر خراب کر دیا۔ یہاں ،کرتار سنگھ “فاعل ” رجسٹر “مفعول” اور “خراب کر دیا” فعل متعدی ہے۔
فعل لازم اور فعل متعدی کو فعل تام بھی کہتے ہیں۔
یاد رکھو جس پر کام کیا جائے اسے مفعول کہتے ہیں۔
(٣) فعل ناقص:
اس فعل کو فعل ناقص کہا جاتا ہے جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی اثر کو ثابت کرے۔
مثلاً:- علاو دین بیمار ہے، لڑکی گم ہوگئی ، یہ اچھا ہوا، اس پر کیا بیتی؟
افعال ناقصہ اکثر یہ آتے ہیں۔
, ہے ، اور ,تھا، کے تمام صیغے ہونا، ہوجانا،بننا،بن جانا،رہتا،پڑنا،نکلنا،نذرآنا،دکھائی دینا،معلوم ہونا،وعیرہ کے تمام صیغے۔
(٤) فعل معدولہ:
فعل معدولہ کسی کام کا کرنا ظاہر نہیں کرتا بلکہ ہونا ظاہر کرتا ہے۔یہ نہ لازم ہوتا ہے نہ متعدی۔
جیسے:-کھلنا، بکنا،وغیرہ۔دروازہ کھلا،باجہ بجائیں،۔کھلا اور بجا فعل معدولہ ہیں۔
کمی پیشی کے لحاظ سے فعل کی قسمیں:
کمی پیشی کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں:
(١) فعل مفرد (٢) فعل مرکب
(١ )فعل مفرد:
فعل مفرد وہ ہے جو مصدر مجرد سے بنتا ہے۔
مثلاً:-آتا ہے، جائیگا، لکھا ہوگا وغیرہ۔
(٢) فعل مرکب:
فعل مرکب وہ ہے جو مصدر مرکب سے بنا ہو اور اسی کو امدادی فعل بھی کہتے ہیں۔
مثلاً:-کھا سکتا ہے، پڑھنا چاہیے، آیا ہی چاہتا ہے وغیرہ۔
فاعل کے لحاظ سے فعل کی قسمیں:
فاعل کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں:
(١) فعل معروف (٢) فعل مجہول
(١) فعل معروف:
فعل معروف وہ فعل ہیں جن کے فاعل ہمیں معلوم ہوں۔
مثلاً:- شفیق نے خط لکھا” میں “لکھا” فعل معروف ہے۔
(٢) فعل مجہول:
فعل مجہول وہ فعل ہے جس کا فاعل ہمیں معلوم نہ ہو۔
مثلاً:- “خط لکھا گیا” میں “لکھا گیا” فعل مجہول ہے
فعل کی اقسام
زمانے کے لحاظ سے فعل کی چھ قسمیں ہیں:
(١) ماضی (٢) حال (٣) مستقبل (٤) مضارع (٥) امر (٦) نہی
(١) فعل ماضی:
وہ فعل ہے جس میں کسی کام کا کرنا یا ہونا گزرے ہوئے زمانہ میں ہوتا ہے۔
مثلاً:– جاوید اقبال مدرسہ گیا۔
رشید نے روٹی کھائی۔
احمد بازار جاتا تھا۔
دیکھو اُوپر کی مثالوں میں جاوید ،رشید اور احمد گزشتہ زمانے میں کام کرتے ہیں اور ان افعال میں فعل ماضی پایا جاتا ہے۔ایسے افعال جن کا ہونا یا کرنا یا سہنا گزشتہ زمانے میں پایا جائے فعل ماضی کہلاتے ہیں۔
(٢) فعل حال:
وہ فعل ہے جس میں کسی کام کا ہونا یا کرنا موجودہ زمانہ میں سمجھا جائے۔
مثلاً:- بچے میدان میں کھیلتے ہیں۔
بجلی چمکتی ہے۔
بادل گرجتا ہے۔
احمد خا نہ کھاتا ہے۔
دیکھو اُوپر کی مثالوں میں کھیلتے ہیں، چمکتی ہے ،گرجتا ہے، اور کھاتا ہے ایسے فعل ہیں کہ ان میں موجودہ زمانہ پایا جاتا ہے،ایسے فعل، فعلِ حال کہلاتے ہیں۔
(٣) فعل مستقبل:
وہ فعل ہے جس میں کسی کام کا ہونا یا کرنا آئندہ یعنی آنے والے زمانہ میں سمجھا جائے۔
مثلاً:-لڑکے سیر کو جائیں گے۔
پرسوں ہم فلم دیکھنے آئیں گے۔
ہم موسم گرما میں گلمرگ روانہ ہوں گے۔
اُوپر کی مثالوں میں” جائینگے، آئینگے، روانہ ہونگے،” میں زمانا آئندہ پایا جاتا ہے۔ جن فعلوں میں زمانہ آئندہ پایا جاتا ہے وہ فعل مستقبل کہلاتے ہیں۔
(٤) فعل مضارع:
جس فعل میں حال اور مستقبل دونوں پائے جائیں اس کو فعل مضارع کہتے ہیں۔
مثلاً:-وہ چراغ روشن کرے تو میں جاؤں۔
وہ کھانا کھائیں تو ہمیں خوشی حاصل ہو۔
دیکھو اُوپر کے جملوں میں “کرے، جاؤں، کھائیں، حاصل ہو۔
ایسے فعل ہیں کہ ان میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں۔
پس ایسے افعال جن میں حال اور مستقبل دونوں پائے جائیں اس کو فعل مضارع کہتے ہیں۔
(٥) فعل امر:
فعل امر وہ فعل ہے جس کے ذریعے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے۔
مثلاً:- اسے خط لکھو یا لکھ۔
بنچ پر بیٹھو۔
اپنی کتاب کھولو۔
اپنا سبق یاد کرو۔
اُوپر کے فقروں میں لکھو، لکھ، بیٹھو، کھولو، اور کرو ،ایسے فعل ہیں جن کے ذریعے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ایسے فعل جن کے ذریعے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے فعل امر کہلاتے ہیں۔
(٦) فعل نہی:
فعل نہی وہ فعل ہے جس کے ذریعے کسی کام کے کرنے سے روکا جائے۔
مثلاً:- نئی کتاب خراب نہ کرو۔
کسی کو گالی مت دیں۔
جانوروں کو مت ستاوٗ۔
اُوپر کی مثالوں میں “نہ کرو” اور “مت ستاو” ایسے فعل ہیں جن کے ذریعے کسی کام کے کرنے سے روکا گیا ہے۔ایسے فعل جن کے ذریعے کسی کام کے کرنے سے روکا جائے فعل نہی کہلاتے ہیں.
فعل ماضی کی اقسام
فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں:
(١) ماضی مطلق (٢) ماضی قریب (٣) ماضی بعید (٤) ماضی استمراری (٥) ماضی احتمالی (٦) ماضی تمنائی یا شرطی
(١) ماضی مطلق:
ماضی مطلق وہ فعل ہے جس میں زمانہ گزشتہ پایا جائے اور اس میں زمانے کے قریب و بعید کی قید نہ ہو۔
مثلاً:– اشرف نے روٹی کھائی۔
اس نے چھٹی لی۔
محمود دوڑا۔
اُوپر کے فقروں میں کھائی، لی، دوڑا، فعل ماضی ہیں ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ کام زمانہ ماضی میں ہوا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کام کئے ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا ہے یا بہت۔جس فعل ماضی میں نہ پایا جائے کہ زمانہ کو گزرے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی ہے یا زیادہ اسے ماضی مطلق کہتے ہیں۔
(٢) ماضی قریب:
ماضی قریب وہ فعل ہے جس میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔
مثلاً:- رشید نے خط لکھا ہے۔
دیکھو ان جملوں میں “لکھا ہے” اور “کھائی ہے” کے فعلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رشید نے ابھی خط لکھا ہے اور قرشی نے ابھی مار کھائی ہے یعنی ان فعلوں میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جاتا ہے جسے ماضی قریب کہتے ہیں۔
(٣) ماضی بعید:
ماضی بعید وہ فعل ہے جس میں دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے۔
مثلاً:- ہم نے چور دیکھا تھا۔
مینہ برسا تھا۔
دیکھیے اُوپر کی مثالوں میں “دیکھا تھا” “برسا تھا” اور “گری تھی” ایسے فعل ہیں کہ ان سے دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جاتا ہے۔ایسے فعلوں کو ماضی بعید کہتے ہیں۔
(٤) ماضی استمراری:
اسے ماضی ناتمام بھی کہا جاتا ہے۔یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کا جاری رہنا سمجھا جاتا ہے یعنی کام ختم نہیں ہوا ہوتا۔
مثلاً:-وہ گانا گا رھا تھا۔
رانی پھول توڑ رہی تھی۔
اس کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں “رہا تھا، رہے تھے، رہی تھی، رہیں تھیں” وغیرہ آتا ہے۔
(٥) ماضی احتمالی:
اسے ماضی شکیہ بھی کہتے ہیں۔یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا احتمال یعنی شک پایا جائے۔ماضی مطلق پر ہوگا بڑھانے سے ماضی احتمالی بن جاتا ہے۔
مثلاً:- کریم نے چڑیا دیکھی ہوگی۔
دیکھو اُوپر کی مثالوں میں کریم کا دیکھنا،شیکسپیئر کا آنا،اور منشی کا خط لکھنا، شک کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔جس فعل ماضی میں کام کا ہونا شک کے ساتھ سمجھا جائے اسے ماضی شکیہ یا احتمالی کہتے ہیں۔
(٦) ماضی تمنائی یا شرطی:
یہ وہ ماضی ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کرنے کی تمنا، شرط، یا آرزو پائی جاتی ہے۔یہ مادہ کے بعد ‘تا’ بڑھانے سے بنتی ہے۔آتا، جاتا، کھاتا،روتا، پڑھتا، وغیرہ آخر میں ہوتے ہیں۔جیسے: اگر وہ آتا تو میں خوش آمدید کہتا، اگر تم جاتے تو وہ مان جاتا وغیرہ۔
ایک اور مثال دیکھیے۔
کاش! وہ اس وقت وہاں نہ جاتا۔
احمد سیب خریدتا۔اگر احمد نے سیب خرید ہ ہوتا۔احمد نے سیب خریدہ ہوں۔ایسے فعل ہیں جو شرط یا آرزو کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔جیسے:-اگر احمد سیب دیتا تو میں کھاتا وغیرہ۔یہ شرطی صورت تھی، آرزو کے موقع پر یوں کہا کرتے ہیں۔
کاش! احمد سے خریدتا، کاش! احمد سیب خریدا ہوتا۔اس لیے اسے ماضی تمنائی بھی کہتے ہیں.
حروف کی اقسام
(1) حروف علت:
وہ حروف جو کسی امر کا اثر ظاہر کریں حروف علت کہلاتے ہیں۔
آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں:
عزیز حاضر نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ مصروف ہے۔
محنت کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ ترقی کا پہلا قدم ہے۔
اُوپر کی مثالوں میں “کیونکہ، اس لئے کہ” سبب کے لیے آئے ہیں۔سبب کو علت کہتے ہیں۔لہذا اس قسم کے حروف کو حروف علت کہا جاتا ہے۔جن جملوں کے ساتھ حروف علت واقع ہو ان جملوں کو علت اور پہلے کو معلول کہتے ہیں۔
(2) حروف عطف:
وہ غموں اور مصیبتوں میں پالا گیا ہے۔
پہلےخورشید آیا پھر اشرف آیا۔
خلیل اپنا کام کر کے گھر جائے گا۔
موہن انسان نہیں بلکہ گدھا ہے۔
دیکھو اُوپر کے فقروں میں “اور، پھر، کرکے، بلکہ” ایسے حروف ہیں کہ انہوں نے دو کلموں یا فقروں کو آپس میں ملایا ہے یا ان کو ایک حکم میں شامل کیا ہے۔ایسے حروف حروف عطف کہلاتے ہیں۔
حروف عطف سے پہلے جملے یا کلمے کو معطوف علیہ کہتے ہیں۔حرف عطف کے بعد کے جملے یا کلمے کو معطوف کہتے ہیں۔
(3) حروف تردید:
حروف تردید وہ حروف ہیں جو رد کرنے کے مقام پر بولے جائیں۔
آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
میں اس لڑکے کو جماعت سے نکال دوں یار رکھوں؟
دیکھو اُوپر کے فقروں میں “خواہ، چاہے، یا” ایسے حروف ہیں کہ انہوں نے پہلی چیز کو رد کر کے دوسری چیز پیش کیا ہے۔ رد کرنے کو تردید کہا جاتا ہے۔
(4) حروف استدراک:
ایسے حروف جو شک اور وہم کو دور کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں حرف استدراک کہلاتے ہیں۔
آیئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
مجید تو دوست تھا مگر بےوفا نکلا۔
چورکوپکڑنے کی کافی کوشش تو کی گئی اللا کامیابی نہ ہوئی۔
۔
(5) حروف استثناء:
ایسے حروف جو کل سے جز کو الگ کریں حروف استثناء کہلاتے ہیں۔
آیئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:
بشیر کے سوا سب آے تھے۔
تمام لڑکے بغیر کریم کے جماعت سے باہر چلے گئے۔
ساری چیزیں گم ہوگئی مگر قلم بچ گیا ہے۔
سب سو گے الا حمید۔
دیکھو اُوپر کی مثالوں میں “سوا”نے بشیر کو سب آدمیوں سے “مگر” نے ساری چیزوں کو قلم سے “الا”نے حمید کو سب آدمیوں سے جدا کیا ہے۔ایسے حروف جو کل سے جز کو الگ کریں حروف استثناء کہلاتے ہیں۔
(6) حروف شرط و جزا:
ایسے حروف جو جملے میں شرط کے معنی پیدا کریں حروف شرط کہلاتے ہیں اور ایسے حروف جو جزا کے مقام پر استعمال ہوں حروف جزا کہلاتے ہیں۔
آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں:
اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو نہ توڑیں گے
توکل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
پشہ سےسیکھیے شیوۂ مردانگی کوئی
Tanveer Hajiz author of this book.