شکیل صدیقی چچا اچھن کو موٹر کار میں گھومنے کا بہت شوق تھا،خود ان کے پاس کار نہیں تھی جس کا انہیں بہت افسوس تھا وہ ایسے ہی ہاتھ پرہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ گئے انہوں نے پیسے جمع کرنا شروع کردیے وہ بچوں کے رسالوں میں کہانیاں لکھا کرتے تھے جس سے انہیں قلیل سی آمدنی ہوجایا کرتی تھی گھر کا خرچ تو ان کے بچے چلارہے تھے کہانیاں لکھ کر وہ خود اپنا خرچ چلاتے تھے یعنی بیڑی پینا اور قوام والا پان کھانا ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ آخر انہوں نے دس ہزار روپے جمع کرلیے۔ میں ان کا بھتیجا نعمان ہوں میں دسویں کلاس میں ہوں مگر مجھے بھی کار چلانے شوق ہے میں نے میدان میں اپنے دوستوں کی کاریں چلائی مشق ہوگئی ہے لہٰذا میں اب سڑکوں پر بھی چلا سکتا ہوں جب یہ پتا چلا کہ چچا کار خریدنے والے ہیں تو میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا میں نے ان سے تنہائی میں بات کی کہ وہ مجھے بھی کار چلانے کا موقع دیں گے۔ (جاری ہے) ہفتے کی شام انہوں نے بتایا کہ وہ مچھو کباریے کی دکان پر جاکر کار کا سودا کریں گے انہوں نے کہا ہو پندرہ ہزار مانگ رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دس ہزار میں دے دے گا میں نے ابو سے اجازت لی اور چچا کے گھر پہنچا ان کا بڑا لڑکا شہزاد بھی ساتھ ہولیا وہ ڈرائیورنگ نہیں جانتا تھا صرف سودا کرنے جارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم مچھو کباڑیے کی دکان پر پہنچ گئے پندرہ ہزار میں یہ کار ہے اچھن بھائی اس نے چچا سے مصافحہ کرنے کے بعدایک طرف اشارہ کرکے بتایا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا وہ عجیب و غریب سی چیز تھی لگتی تو کار تھی لیکن بے حد قدیم ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جب کار ایجاد ہوئی تھی تو اس زمانے کا کوئی ماڈل ہے شہزاد نے مایوسی سے کہا اسے کون چلائے گا۔ چچا نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور مچھو سے کہا اگر دس ہزار لے لو تو میں خریدنے پر تیار ہوں۔ ٹھیک ہے نکالو اس نے ہاتھ پھیلادیا۔ چچا نے اس کے ہاتھ پر رقم رکھ دی اور انتظار کرنے لگے پانچ منٹ بعد مچھو نے پوچھا اب کیا چاہیے؟ کاغذات چچا نے جواب دیا۔ کاغذات کہاں سے لاﺅںَمچھو نے بے چارگی سے کہا اگر آپ کوئی حادثہ نہیں کریں گے تو کار چلتی رہے گی ورنہ کوئی پوچھے گا نہیں یہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی ہے ایک انگریز افسر کے پاس تھی اس نے میرے دادا کو تحفے میں دے دی اس لیے کہ دادا سپاہی تھے اور اس افسر کے ماتحت تھے جب وہ مرنے لگے تو انہوں نے ابا کو دے دی اور ابا نے مجھے اور اب میں آپ کو فروخت کررہا ہوں اس وضاحت سے چچا کچھ مطمن ہوگئے لیکن شہزاد بدستور الجھن میں مبتلا تھا وہ دوبارہ مجھ سے بولا اسے چلائے گا کون نعمان؟ میں چلاﺅں گا بھائی میں نے جواب دیا پھر پیچھے جاکر دیکھا کار کا نام ڈی لکس تھا میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ملکہ برطانیہ اول نے بھی یہ کار چلائی تھی۔ اس میں پٹرول تو ہے نا؟چچا نے پلٹ کر مچھو سے پوچھا۔ ہاں جی بالکل ہے آپ چلا کر دیکھیں وہ مسکرا کر بولاکوئی گڑ بڑ ہوجائے تو میرے پاس لے آئیے گا۔چچا کو کچھ حوصلہ ہوا وہ دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے اکنیشن میں چابی لگی تھی انہوں نے اسے گھمایا اور ایکسلریٹر پر پاﺅں رکھ دیا کار کے انجن نے انگڑائی سی لی اور گھڑ گھڑا کربیدار ہوگیا پھر حیرت انگیز طور کر کار چل پڑی لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے ہر حصے سے آواز آرہی تھی یوں لگتا تھا جیسے کار کو اس کی مرضی کے بغیر چلایا جارہا تھا یا اس کے ساتھ زبردستی کی جارہی ہو میں نے دیکھا کہ گلی میں کھڑے ہوئے بچے ڈر کر اپنے گھروں کے اندر دُبک گئے اور دروازے کھڑکیوں سے جھانکنے لگے جیسے وہ کار نہیں مریخ سے آئی کوئی بلا ہو۔ کار ہچکیاں لے رہی تھی یعنی چلتے چلتے ایک آدھ لمحے کے لیے رک جاتی تھی شہزاد بھائی اب بھی اس کی طرف سے مطم¿ن نہیں تھے میرے کان میں دھیمے سے کہنے لگے خدانخواستہ اگر یہ کہیں رک گئی تو دربارہ وہ سٹارٹ نہیں ہوگی پھر اسے دھکا کون لگائے گا؟انگریزوں کے زمانے کی کار ہے معمولی بات نہیں ہے۔ میں اور آپ،میں نے شرارت سے جواب دیا۔ چچا ڈرائیورنگ کی مشق کررہے تھے اس لیے کار کو میدان کی طرف لے جانے لگے کار کی رفتار بے حد دھیمی تھی اتنی دھیمی کہ رامو دھوبی اپنے گدھے پر کپڑوں کی گٹھریاں لادے اپنی دکان پر جارہا تھا لیکن گدھا گاڑی کار سے آگے نکل گئی تھی جب میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ بہت سے راہ گیر بھی اس سے آگے نکل چکے ہیں گویا گار چل نہیں رہی بلکہ ٹہل رہی تھی۔ جب کار میدان میں پہنچ گئی تو چھوٹے لڑکے سہم کر بھاگ گئے لیکن بڑے لڑکے غور سے اسے دیکھنے لگے کیوں کہ انہوں نے اتنی حیرت انگیز چیز اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔میدان میں پہچن کر شہزاد بھائی نے چچا سے کچھ نہیں کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئے چچا کو بھی پروا نہیں تھی وہ شوق اور جستجو سے کار چلانے میں مشغول تھے میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ کار سیدھی جانے کے علاوہ دائیں بائیں بھی چل رہی ہے جیسے کوئی سانپ لہر ارہا ہے۔ سامنے والے حصے میں کچھ لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے ایک کھلاڑی نے کچھ زور کا شارٹ مار دیا تو فٹ بل لڑھکتی ہوئی کار کی طرف آنے لگی ایک کھلاڑی اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا اس نے کار کو بالکل نظر انداز کردیا تھا بہر حال چچا اسے کیسے نظر انداز کر سکتے تھے انہوں نے بریک لگادیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کار ایک جھٹکے سے رک گئی چند لمحوں پہلے جو ایک قیامت مچی ہوئی تھی اور میرے کان بج رہے تھے ایک دم سے سناٹا چھاجانے کی وجہ سے کچھ عجیب سا معلوم ہوا جیسے دنیا ساکت ہوگئی ہے اور اس نے سورج کے گرد گھومنا بند کردیا۔ اس کھلاڑی نے فٹ بال کو کار تک پہنچنے سے پہلے روک لیا اورمڑ کر اپنے ساتھیوں کی طرف پھینک دیا کارچوں کہ اپنی جگہ پر رکگئی تھی اس لیے چچا نے دوبارہ اگنیشن میں چابی گمائی اس بار صاف معلوم ہوگیا کہ کار انجن ناراض ہے گھڑگھڑاہٹ سی ہوئی اور پوری کار دائیں بائیں ہلنے جلنے لگی لیکن اپنی جگہ سے ایک کانچ بھی نہیں سرکی دھکا لگانا پڑے گا چچا اچھن نے میری طرف مڑ کر کہا۔ میں نے سر ہلایا اور کار کا دروازہ کھول کر باہر آگیا دو چار لڑکوں کو جمع کرکے کار کو دھکا لگا یا تو وہ دوبارہ چل پڑی دائیں جانب سے چند گائےں آرہی تھی اور ایک ان میں سے کار کے سامنے سے ہوکر میدان میں لگی گھاس کی طرف بڑھنا چاہ رہی تھی چچا نے اسے بچانے کے لیے دوبارہ بریک لگادیے جس نتیجہ اچھا نہیں نکلا کار ایک جھٹکے سے رک گئی لیکن اس وقت میرے اور چچا دونوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں جب ہم نے دیکھا کہ کار کا اسٹیئرنگ چچا کے ہاتھ میں آگیا چچا جھنجلا کر کار سے اتر آئے ان کا کار چلا نے کا شوق ختم ہوچکا تھا سب لڑکے بھی کار چھوڑ کر ہانپنے لگے۔ ہاں بیٹے شاباش لگاﺅ دھکا چچا نے لڑکوں کو حوصلہ دیا۔ اب اسے کہاں لے جانا ہے؟ان میں سے ایک بولا یہیں پڑا رہنے دیجیے اور کباڑیے کو بلا لیجئے۔ چچا کو یہ تجویز معقول لگی انہوں نے اس نامعقول کار سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کرلیا مچھو کے بجائے انہوں نے چوتھی گلی کے کباڑیے رمضانی سے سودا کرنا مناسب سمجھا وہ کار کو دھکا لگواتے ہوئے وہاں پہنچ گئے رمضانی اس وقت ٹین کے ڈبوں کو صاف کررہا تھا چچا نے جھجکتے ہوئے کہا کار خریدو گے؟ کون سی کار کہاں ہے کار؟اس نے چونک پر پوچھا چچا نے کار کی طرف اشارہ کیا۔ اچھا یہ کار ہے؟اس نے یقین نہ کرنے والے لہجے میں کہا کیا اسے آپ بیچنا چاہتے ہیں؟لیکن یہ چلے گی کیسے ہینڈل تو آپ کے ہاتھ میں ہے؟ تم لگالینا چچا نے ملائمت سے کہا اوررمضانی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے پرزے علا حدہ کرکے تول میں لوہے کی قیمت پر فروخت کردیے جائیں تو اس طرح نجات پائی جاسکتی ہے کتنے پیسے دے دوں؟ دس ہزار میں خریدی تھی چچا نے ہینڈل اسے تھماتے ہوئے کہا آپ نے غلطی کی تھی ان میں ایسی غلطی نہیں کرسکتا آپ ایسا کیجیے کہ اس کے پرزے کھول کر علاحدہ کیجیے تو میں خریدلوں گا۔ چچا کسی اور جھنجٹ نہیں پڑتا چاہتے تھے اس لیے کہنے لگے زیادہ پریشان نہ کرو چلو لوہے کے دام میں لے لو تم بھی کیا یاد کرو گے؟ پانچ سوروپے دے دوں؟ دس ہزار والی کارپانچ سو میں حیرت سے چچا کا منہ کھلا کر کھلا رہ گیا شہزاد بھائی نے بھی سودا بازی میں حصہ لے لیا لیکن رمضانی پانچ سو سے بڑھنے پر تیار نہ ہوا سب پر مایوسی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ لاﺅ۔چچانے بجھے ہوئے دل سے کہا۔ رمضانی کباڑیے نے اپنی تجوری میں سے ایک میلا کچیلا نوٹ نکال کر ان کی طرف بڑھادیا لڑکے جو اس کا رکو دھکا دیتے ہوئے وہاں تک لائے تھے پسینا پونچھ رہے تھے چچا اچھن نے نوٹ شہزاد کی طرف بڑھادیا اور بولے انہیں چائے پلادینا پھر خالی ہاتھوں گھر کی طرف چل دیے۔
غلام رسول زاہد ”زہے نصیب بھائی اختشام ہمدانی ایک مدت کے بعد یاد کیا ہے آپ نے شکر ہے آپ کی آواز تو سنی شجاع تیموری نے چہکتے ہوئے کہا۔لائن کے دوسری طرف ان کے پرانے دوست اختشام ہمدانی تھے دونوں دوست اسکول اورکالج میں ساتھ ساتھ رہے تھے دونوں میں گہری دوستی تھی لیکن پھر اختشام حمدانی اعلا تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازم ہوگئے ترقی کرتے کرتے ان دونوں وہ وزارت خارجہ میں ایک عہدے پر فائز تھے شجاع تیموری کو اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی آدمی ذہین تھے اس لیے مختلف اداروںمیں انتطامی معاملات دیکھتے رہے کبھی کسی کاروباری ادارے میں رہے اور کبھی کسی صنعتی ادارے میں کچھ عرصے پہلے ہی انہوں نے ایک عالمی شہرت یافتہ سرکس میں مینجر کے طور پر کام شروع کردیا تھا یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا لیکن وہ اپنی اس نئی ذمے داری سے بہت لطف اُٹھارہے تھے۔ (جاری ہے) میں شرمندہ ہوں کہ اتنا غائب رہا احتشام ہمدانی نے خفت سے کہا کچھ دنوں سے طبیعت بہت اُداس تھی کچھ دفتری معاملات نے ایسا پریشان کیا ہے کہ ایک بے چینی سی لگی رہتی ہے ایسے میں تمہاری یاد آئی اور آتی چلی گئی شکر ہے میں تو سمجھا تھا آپ نے مجھے بالکل ہی بھلا دیا ہے شجاع تیموری نے خوش گوار لہجے میں کہا۔ بات دراصل یہ ہے احتشام ہمدانی کھنکھارتے ہوئے بولے بہت جی چاہ رہا ہے کہ دارلحکومت سے چند دنوں کی چھٹی لے لوں اور تمہارے شہر میں کچھ دن گزاروں جی بہل جائے گا کچھ پرانی یادیں تازہ ہوجائیں گی کیا تم مجھے چند دنوں کے لیے اپنا مہمان بنانا گوارا کروگے۔ خوش آمدید شجاع تیموری جوش بھری لہجے میں بولے سرآنکھوں پر میں آج ہی سے آپ کا انتظار شروع کررہا ہوں۔ تمہارے سرکس کا بہت چرچا سنا ہے سرکس کے ساتھ میرے بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں تمہارا سرکس بھی دیکھنا چاہتا ہوں ضرور ضرور شجاع تیموری بولے آپ آئیں تو سہی آپ ہمارے سرکس کو ساری زندگی بھلا نہیں سکیں گے۔ شجاع تیموری کو اُمید نہیں تھی کہ ان کا پرانا دوست اتنی جلدی ان کے پاس آن پہنچے گا اگلے ہی دن سہ پہر کے وقت احتشام ہمدانی ان کے گھر میں موجود تھے دونوںدوست تپاک کے گلے ملے شجاع تیموری نے اپنے مہمان دوست کی خوب آﺅ بھگت کی دونوں کافی دیر تک پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے اور قہقہے لگاتے رہے شام کا وقت ہوا تو شجاع تیموری نے احتشام ہمدانی سے اجازت چاہی کیوں کہ سرکس میں ان کی ذمے داریوں کا وقت ہوگیا تھا آپ آرام کریں میں کوشش کروں گا کہ جلدی واپس آجاﺅں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ملازم موجود ہیں بلا جھجک اسے حکم دیجیے گا میں نے اسے سمجھا دیا ہے۔ نہیں نہیں احتشام ہمدانی نے ہاتھ ہلاتے ہوئے تیزی سے کہا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا راستے میں ہوائی جہاز میں خوب آرام کرلیا میں سرکس سے لطف اندوز ہوں گا اور تم اپنا کام نمٹاتے رہنا۔ شجاع تیموری ان کی یہ بات سن کر بے حد خوش ہوئے دونوں دوست خوش گپیاں کرتے ہوئے سرکس کے قریب پہنچ گئے ہر طرف روشنی اور چہل پہل تھی دور سے ہی سرکس کا نام سیون اسٹار انٹرنیشنل سرکس جگمگاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ شجاع تیمور ی نے اپنے مہمان دوست کو خاص جگہ پر بیٹھایااور عملے کو ان کا خیال رکھنے کی ہدایت دیں سرکس کھچا کھچ بھرا ہوا تھا سرکس کے فن کاروں نے بہت سے حیرت انگیز اور دل چسپ کرتب دکھائے کچھ دیر بعد شجاع تیموری بھی احتشام ہمدانی کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ واقعی تمہارے سرکس کا معیار ہر لحاظ سے بین الاقوامی ہے احتشام ہمدانی نے تعریف کی۔آپ کی پسندیدگی کا شکریہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سرکس کے تمام انتظامات ترقی یافتہ ملکوں کے معیار کے مطابق کیے گئے ہیں ہم اپنے فن کاروں کو بھاری معاوضہ دیتے ہیں،اسی گفتگو کے دوران دو مسخرے بھڑکیلے لباس پہنے الٹی سیدھی باتیں کررہے تھے اور تماشائی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے اچانک احتشام ہمدانی کے چہرے کا رنگ بدل گیا،یہ یہ ان کے ہاتھ کا اشارہ ایک مسخرے کی طرف تھا اور ان کے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے یہ تو یہ تو راجا اکرام ہے میرا بھاگا ہوا ملازم،شجاع تیموری حیرت زدہ ہوکر ان کی طرف دیکھنے لگا چند دن پہلے ہی یہ شخص یعنی راجا اکرام موقع پاکر میری قیمتی چیزیںچراکر غائب ہوا ہے نہ جانے کم بخت نے کس طرح میری تجوری کھولی اور اس میں سے بیش قیمت زیورات اور بھاری رقم نکال لی میں دفتر سے واپس آیا تو تجوری کھلی ہوئی تھی اور قیمتی چیزیں غائب تھیں میں نے اسے بہت ڈھونڈا ہے قسمت کی خوبی دیکھیں کہاں آن کر ملا ہے۔ شجاع تیموری سوچتے ہوئے بولا لیکن آپ کو یقین ہے کہ یہی مسخرہ راجا اکرام ہے؟مٰں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ دونوں مسخروں نے خوب میک آپ کیا ہوا ہے اور نقلی ناک لگا رکھی ہے آپ سے پہچاننے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی؟ہرگزنہیں ہمدانی نے زور سے سرہلایا راجا اکرام ہر تھوڑی دیر بعد اپنے دائیں کان کی لو کھینچتا ہے اور یہ مسخرہ اب تک کئی بار یہ عمل دہراچکا ہے یہ دیکھیں ایک بار پھر اس نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے دائیں کان کی لو کھینچاہے نہایت عجیب بات ہے شجاع تیموری بڑبڑا ئے:نہایت عجیب ،،،اتنی دیر میں دونوں مسخرے اُچھلتے کودتے عقبی دروازے پر لٹکے ہوئے پردے کے پیچھے غائب ہوگئے احتشام ہمدانی تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے مجھے فوراً اس کے خیمے میں لے چلو دوست نقدی اور زیورات کی اتنی اہمیت نہیں ہیں تجوری میں میرے بہت قیمتی کاغذات تھے کم بخت نے سب کچھ میرے ہی تھیلے میں ڈالا اور رفو چکر ہوگیا تھا دراصل مجھے وہ کاغذات چاہیے شجاع تیموری پریشانی کی حالت میں اُٹھے اور اپنے دوست کو ساتھ لے کر باہر کا رُخ کیا دونوں بیرونی دروازے کی طرف لپکے دروازے کے باہر ایک ہجوم تھا غالبا کوئی جھگڑا ہوا تھا چیخ و پکار اور شور و ہنگامہ برپا تھا اچانک ایک طرف سے ایک سپاہی نمودار ہوا اورصورت حال پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا کیا مصیبت ہے ہمیں جلدی راجا اکرام کے پاس پہنچ جانا چاہیے ایسا نہ کہ وہ فرار ہوجائے احتشام ہمدانی گھبرا کر بولے بے فکر رہیں شجاع تیموری نے انہیں تسلی دیں میں اپنے نائب کی ذمہ داری لگا کر دو منٹ میں فارغ ہوجاتا ہوں دراصل سرکس کے انتظامات میں میری ذمہ داری ہیں ایسا نہ ہوکہ یہ جھگڑا پھیل جائے اور سرکس کا سارا پروگرام گڑ بڑ ہوجائے یہ کہہ کر وہ ایک لمبے قد کے آدمی کی طرف بڑھ گئے جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ان کی طرف آرہا تھا شجاع تیموری نے اس شخص کو کچھ ہدایت دیں اور دوبارہ پلٹ کر احتشام ہمدانی کے پاس آگئے ہجوم ابھی تک اسی طرح موجود تھا اگرزحمت نہ ہو تو صرف چند منٹ کے لیے میرے دفتر میں تشریف رکھیں شجاع تیموری نے کہا مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی تھوڑی دیر بعد وہ ہانپتے ہوئے اپنے دفتر میں داخل ہوئے اور احتشام ہمدانی کا ہاتھ تھام کربولے آئیے میرے ساتھ انہوں نے تیز تیز چلتے ہوئے سرکس کا چکر کاٹا اور عقب کی بڑھے جہاں خیموں کی قطاریں نظر آرہی تھیں۔ چھولداریوں اور خیموں کے نزدیک شجاع تیموری نے ایک فن کار کو روکا اس کے سر پر جادو گروں والی مخصوص لمبی ٹوپی تھی اور اس نے لمبا سیاہ کوٹ پہن رکھا تھا لگتا تھا وہ ابھی اپنی ٹوپی سے کبوتر نکال کر دکھا سکتا ہے۔”مسٹر ہامان! شجاع تیموری نے پوچھا چند دن جو نیا مسخرہ ہمارے سرکس میں آیا تھا اس کا خیمہ کدھر ہے؟جناب جادوگر جھکتے ہوئے بولا آپ غالباً راجا اکرام کا پوچھ رہے ہیں دائیں قطار میں چوتھا خیمہ اسی کا ہے وہی جس کے سامنے سرخ جھنڈیاں لگی ہیں خیریت تو ہے جناب؟ہاں خیریت ہے شجاع تیموری نے جان چھڑاتے ہوئے کہا بس کچھ دیکھنا ہے میرے دوست ایسا نہ ہو اس نے مجھے پہچان لیا ہو احتشام نے خدشہ ظاہر کیا پھر اس لڑائی جھگڑے نے کافی وقت برباد کردیا ہے اگر ایساہے تو اسے فرار ہونے کے لیے کافی وقت مل گیا ہے بظاہر تو اس بات کا امکا ن نہیں شجاع تیموری بولے سرکس کا وہ حصہ جہاں فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں خوب روشن ہوتا ہے جب کہ باقی جگہ نیم روشن اور نیم تاریک ہوتی ہے اتنی دور سے تماشائیوں کے چہرے واضح نظر آتے ،اب وہ دونوںاس خیمے کے دروازے پر تھے جس کی نشان دہی جادو گر فن کار نے کی تھی۔ شجاع نے راجا اکرم کا نام لے کر اسے تین چار دفعہ پکارا جب کوئی جواب نہ ملا تو لپک کر خیمے میں داخل ہوگئے احتشام ہمدانی بھی ان کے پیچھے تھے خیمہ خالی تھا اندر کوئی بھی موجود نہیں تھا خیمے کے اندر موجود ایک بڑا سا صندوق کھلا پڑا تھا کچھ کپڑے اور روزمرہ استعمال کی چیزیں صندوق کے اردگرد بکھری پڑی تھیں لگتا تھا کسی نے افراتفری میں صندوق خالی کیا ہے چارپائی کے نزدیک رکھی تپائی بھی اوندہھی پڑی تھی اور اس پر دھرے ہوئے جگ گلاس زمین پر لڑھکے ہوئے تھے وہ کم بخت ایک بار پھر بھاگ نکلا ہے احتشام مایوس ہوکر چارپائی پر ڈھے گئے میرا خدشہ درست نکلا۔ فی الحال ہم وہ کام تو کرہی سکتے ہیں شجاع تیموری نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا ایک تو ہمیں پورے خیمے کی بہت باریک بینی سے تلاشی لینی چاہیے اور دوسرے ہمیں مقامی پولیس کو فوراً اطلاع کرنی چاہیے آپ خود ایک بہت بڑے افسر ہیں لیکن اس شہر میں پولیس کے کچھ افسروں سے میری اچھی جان پہچان ہیں تلاشی تو واقع ہی ہمیں لینی چاہیے احتشام تھکے ہوئے لہجے میں بولے لیکن پولیس کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا ویسے بھی میں ایک اعلا حکومتی عہدے پر فائز ہوں خواہ مخواہ اُلجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں اس طرح کے معاملات میں دونوں نے خیموں کا ایک ایک کونا چھان مارا لیکن کوئی چیز نہیں مل سکی۔
مزاج بخیر سہیل بھائی جان کو بہت اچھی ملازمت مل گئی تھی، جس کی خوشی میں امی نے خاندان بھر میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ ابو جی کے کہنے پر ہم شاہدہ خالہ کے ہاں بھی مٹھائی لے کر گئے۔ امی کے ساتھ چند دن پہلے ہی ان کی کسی بات پرنوک جھونک ہو گئی بلکہ بات بڑھ کر جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ دونوں ہی نے جینا مرناختم کرنے کی قسم کھا لی تھی۔ خاندان کے کچھ لوگ امی کی طرف داری میں اور کچھ شا ہد ہ خا لہ کی حمایت میں تھے۔ جب ہم دونوں بھائی میٹھائی لے کر گئے تو نہ صرف انھوں نے مٹھائی لینے سے انکار کر دیا ، بلکہ غصے میں باتیں بھی سنائیں :'' لے جاوٴ یہ مٹھائی۔ اس سے بہتر ہے کہ میں زہر کھالوں۔“ وہ غصے سے بولیں اور ہم سر جھکائے باہر نکل آئے۔ منے ! اگر یہ باتیں امی کو پتا چلیں تو جانتے ہونا کیا ہوگا ؟ باہر نکل کر وہ ہم سے بولے۔ (جاری ہے) ہم نے سمجھ داری سے سر ہلا دیا۔ ایک پارک میں بیٹھ کر مزے سے مٹھائی کھائی۔ تھوڑی دیر چہل قدمی کی اور پھر گھر آ گئے۔ لے لی انھوں نے مٹھائی ، کچھ کہا تو نہیں؟ امی جان کالہجہ تفتیشی تھا۔ جی نہیں ، انھوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا، بلکہ آپ کو بہت بہت مبارک باد دے رہی تھیں۔ بڑی تواضع کی ہماری۔“ بھیا نے سب اچھا کی رپورٹ دی اور وہ خوش ہو گئیں۔ یہ انھوں نے اچھا کیا۔ انسان کو دل میں کوئی رنجش نہیں رکھنی چاہیے۔ شاہدہ باجی ذرا جذباتی قسم کی ہیں ، لیکن دل کی بہت اچھی ہیں۔‘ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں:’ جاوٴں گی کسی دن ان سے ملنے ‘ وہ مطمئن اور مسرور ی کیفیت میں کہہ رہی تھیں۔ ہم نے سوالیہ نگاہوں سے بھائی کی طرف دیکھا ، جوا با انھوں نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ چند دن کے بعد مسرت پھوپی کے گھر ایک اہم تقریب ہورہی تھی ، جہاں سب کا جمع ہونا بھی ضروری تھی۔ اُف ، آگے کیا ہوگا! یہ سوچتے ہوئے ہم گاڑی میں بیٹھ گئے اور سہیل بھائی نے گاڑی آگے بڑھادی۔ مسرت پھوپو نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ ابو جی نے مٹھائی اور تحائف ان کے حوالے کئیے اور دیگر افراد کے ساتھ جا بیٹھے۔ ہم امی جی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ہال پر نظر دوڑاتے ہوئے ان کی نگاہ شاہدہ خالہ پر پڑی اور وہ تیر کی ما ندان کی طرف بڑھیں۔ سہیل بھائی امی جی کے پیچھے پیچھے تھے اور ہم سہیل بھائی کے پیچھے۔ السلام وعلیکم باجی ! کیسی ہیں آپ؟“امی نے گرم جوشی سے سلام کیا تو ہم ہونق بنے کھڑے تھے۔ شاہدہ خالہ کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو گئیں ، وہ منہ ہی منہ میں جواب د یتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔ ” مبارک ہو باجی! سنا ہے، حامد میاں نے میٹرک میں ٹاپ کیا ہے۔ امی خوش دلی سے بولیں۔ تو پتا چل گیا تمھیں۔ اب بھلا اس رسمی مبارک کی کیا ضرورت تھی۔“ شاہدہ خالہ کے روکھے لہجے پرامی ذرا چو نکیں۔ لیکن آپ نے بھی تو اب تک مجھے سہیل کو ملازمت ملنے کی مبارک با دنہیں دی۔ مٹھائی تو ہم نے بھجوائی تھی۔‘ معاملہ بگڑتا دیکھ کر سہیل بھائی کھنکھارنے لگے۔ ”ارے کیسی مٹھائی ہم نے کب رکھ لی تھی …... اس سے پہلے کہ دوسرا جملہ امی کے کانوں تک پہنچتا، ہم نے ایک زور دار چیخ ماری۔ ارے کیا ہوا میرے بچے کو یہ اچانک کیا ہو گیا ؟ حسب توقع امی گھبرا اٹھیں۔ دانت میں درد۔“ ایک اور چیخ مار کر ہم نے اپنی تکلیف کی وضاحت کی۔شاہدہ خالہ نے امی کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا:نائلہ !تم ہٹو زرا تم میں تو زرا حوصلہ نہیں ہے کسی بھی بات پرفوراگھبرا جاتی ہو۔ آؤ بیٹا فائق ! دانت درد کا علاج ہے میرے پاس۔ ایسے ہی موقع کے لیے پرس میں کچھ نہ کچھ لے کر نکلتی ہوں۔شاہدہ خالہ نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے چلیں۔سہیل بھائی ، امی کوتسلی دے رہے تھے اور پھر انھوں نے رخ موڑ کر ہماری جان دار اداکاری پر ہمیں بھر پور مسکراہٹ سے نوازا، ورنہ نیکی بر باد ہوتی اور گناہ لازم ہوتا۔
عطا شاہ: ایک کسان تھا اس نے جوار بوئی جب فصل پک گئی ایک شیر آیا اور کھیت میں گھس گیا کسان ایک چھپر پر بیٹھا ہوا تھا شیر نے اسے کہا نیچے اُترو میں تمہیں کھا جاوٴں گا۔ کسان نے کہا کہ ا بھی تو میں دُبلا پتلا ہوں میں ذرا کھا پی کر موٹا ہو جاوٴں تو مجھے کھا لینا۔ شیر روزانہ آتا اور کہتا میں تمہیں کھا جاوٴ گا کسان اس کے خوف سے لاغر ہوتا گیا، اس کی بیوی ے اس سے دریافت کیا کہ خوب کھا پی لیتے ہو مگر دبلے ہوتے جا رہے ہو۔ کسان نے کہا کہ ایک شیر روزانہ آتا ہے مجھے ڈراتا ہے کہ میں تمہیں کھا جاوٴں گا میں اس لیے دبلا ہو رہا ہوں۔ کسی نہ کسی دن شیر مجھے کھا ہی جائے گا بیوی نے پوچھا شیر کس وقت آتا ہے کسان نے کہا دوپہر کو۔پھر اس کی بیوی نے مردانہ کپڑے پہنے گھوڑے پر سوار ہوئی ہتھیار بھی اُٹھا لئے۔ (جاری ہے) جوار کے کھیت میں آئی اس نے دیکھا کہ شیر اس چھپرکے نیچے کھڑا ہے بیوی نے آواز لگائی اے کسان!کسان نے کہا جی مالک!۔ بیوی نے کہا بادشاہ نکلاہے شیروں کے شکار کے لیے تم نے آس پاس شیر کے پاوٴں کے نشا ن دیکھئے ہیں پچھلے سال کے یا اس سے بھی پہلے کے۔کساننے شیر سے پوچھا اب بتاوٴ کیا کروں تمہارے بارے میں بتاوٴں یا نہ بتاوٴں۔ شیر نے کہا ہاں یہ بادشاہ کا وزیر ہے شیر نے کہا اب مجھے ضرور بھگاوٴ یہاں سے۔ کسان نے کہا تم چپ رہو۔ میں چادر تمہارے اوپر ڈال دیتا ہوں۔ شیر سو گیا۔ اور کسان نے اس کے اوپر چادر ڈال دی پھر اس نے جواب دیا۔ اے سوار میں نے شیر کے پاوٴں کے نشان نہیں دیکھے سوار نے پوچھا وہ موٹی کالی چیز کیا پڑی ہوئی ہے شال کے نیچے۔ کسان نے کہا یہ لکڑی ہے۔ میں نے اسے حقہ جلانے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ بیوی نے کہا اس کا کچھ حصہ مجھے کاٹ کر دے دو میں بادشاہ کے لیے لے جاوٴں گا وہ بھی حقہ پیتا ہے ۔کسان نے شیر سے پوچھا اب میں کیا کروں۔ شیر نے کہا اب میرا کان کاٹ کر دے دو۔ کسان نے شیر کا کاٹ کاٹ کر دے دیا۔ بیوی نے کہا اس سے ذرا بڑا ٹکڑا دے دو۔ شیر نے کہا اب دوسرا کان بھی کاٹ کر دے دوکسان نے دوسرا کان بھی کاٹ کر دے دیا۔ بیوی نے غصے میں کہا اس سے بڑا ٹکڑا کیوں کاٹ کر نہیں دے دیتا اس لکڑی کے تنے سے ۔ پھر شیر نے کہا اب میری د م کاٹ کر دیدو دم بھی کاٹ کر دے دی۔بیوی نے کہا تم تھوڑا سا کاٹتے ہو تم چھوڑو میں خود کاٹ لوں گا۔ یہ سنتے ہی شیر بھاگ کھڑا ہوا، سامنے سے ایک گیدڑ آیا اس نے شیر سے پوچھا تمہارے کان بھی کٹے ہوئے ہیں اور دم بھی۔ خون بہہ رہا ہے اور تم بھاگ رہے ہو یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے شیر نے کہا کہ بادشاہ کی فوج نے مجھ پر حملہ کر دیا ہے میرے کان کاٹ دئیے ہیں اور دم بھی کاٹ لی ہے بس خدا نے میری جان بچائی ہے۔گیدڑ نے کہا اے بزدل تجھ کو ایک عورت نے ڈرایا ہے نہ بادشاہ ہے نہ فوج ہے۔ ایک عورت نے تمہارے کان بھی کاٹ ڈالے اوردم بھی!۔شیر نے کہا میں نے اپنی آنکھوں سے فوج اوروزیر دیکھا ہے گیدڑ نے کہا یہ عورت تھی آوٴ میں تمہیں دکھادوں۔شیر نے کہا تمہارے ساتھ چلتا ہو ں ایک رسی تم اپنے گلے میں ڈالو اور اس کایک سرا میرے گلے میں بھی۔ پھر گیدڑ نے رسی اپنے گلے میں اور شیر کے بھی گلے میں ڈالی اور دونوں ساتھ ساتھ چلے۔ سوار نے دیکھا کہ شیر کو گیدڑ کھینچتا ہوا لا رہا ہے اس نے گیدڑ سے پوچھا کہ تم نے بادشاہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں چودہ شیر تمہارے پاس لاوٴں گا اب صرف ایک لے کر آئے ہووہ بھی کان کٹا۔ یہ سنتے ہی شیر بھاگ کھڑا ہوا اور گیدٹ کو گھسیٹتا چلا گیا۔ گیدڑ کا سر تن سے جدا ہو گا ٹانگیں بھی ٹوٹ گئیں اورمر گیا، شیر اپنے کٹے ہوئے کان اور دم کے بغیر بھاگا۔ کسان اور اس کی بیوی جوار کے کھیت میں خوشی خوشی رہنے لگے۔
دانیہ بٹ: دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ”بلی“ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ”خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟“بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا۔ شیر طیش میں آگیا اور کہاخالہ مجھے اس انسان کا پتہ بتاو۔ ابھی اس سے تمہارا بدلہ لیتا ہوں۔ یہ سن کر بلی بولی تم نہیں جانتے انسان بہت خطرناک ہے، آخرخالہ شیرکولئے انسان بستی کی طرف روانہ ہوگئی راستے میں ان کا ٹکراو ایک لکڑہارے سے ہوا جو لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ لکڑہارے کودیکھتے ہی بلی نے کہا ”یہ انسان ہے“ شیرنے فوراً کہا میں تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے آیا ہوں اور اپنی خالہ کا بدلہ لینا میرا حق ہے،کیا تمہاری خالہ نے یہ نہیں بتایا کہ انسان بہت خطرناک ہے۔ (جاری ہے) انسان نے فوراً جواب دیا۔ میں تمہیں مزہ چکھا کرہی رہوں گا۔ جب لکڑہارے نے وقت کی نزاکت کوبھانپ لیا تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم یہیں رکو میں لکڑیاں جھونپڑی میں رکھ کر آتا ہوں۔“ اے انسان رک، مجھے کیا پتہ توواپس آئے گا یا بھاگ جائے گا “ شیرنے کہا۔ لکڑہارا واپس جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ لکڑہارے نے کہا مجھے لگتا ہے میرے آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاوگے۔ یہ بات سن کر شیر ہنسنے لگا اوربولا کہ میں نے تمہیں خود مقابلہ کرنے کے لئے کہا، بھلا میں کیوں بھاگوں گا؟ لکڑہارے نے کہا نہیں مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں ہے۔ شیرنے پریشانی کے عالم میں خالہ کی طرف دیکھا خالہ ترکیب میں ابھی آتا ہوں۔یہ سننا تھا کہ بلی شیرکے پاس آئی اور کہا کہ بھانجے میں نے تم سے کہا تھا کہ انسان بہت خطرناک ہوتا ہے اب سزا بھگتو اپنے غرورکی۔