Urdu Stories in with author Tanveer.

5000 Words
تاجور نجیب آبادی: ڈاکٹر کمال الدین نے خدا خدا کر کے نوسال میں ایم۔ بی ۔ بی ایس کا امتحان پاس کیا۔یوں تو میڈیکل کالج کا کورس پانچ سال کا ہے ، مگر ہے بڑا سخت کورس، کمال الدین دماغ کے کچھ گٹھل تھے۔ انہوں نے نو سال لگ کر یہ آخری امتحان پاس کر کے اس مصیبت سے پیچھا چھڑا یا۔ اب فکرپڑی کمانے کی، آدمی تھے چلتے پر زے، سوچا کہ تاجروں کے محلے میں بڑا سا مکان کرائے پر لے کر کام شروع کیا جائے تاکہ امیر بیماروں کی آمدروفت ہونے لگے۔چنانچہ ایک بہت شان دار مکان کرائے پر لیا گیا۔اُسے خوب سجایا گیا ، رنگ برنگی شیشیوں میں الابلا ھر کے الماری سجادی گئی، اور نام چارے کو اپنے چھوٹے بھائی کو کمپاوٴنڈر کے طور پر رکھ لیا گیا۔ یہ مکان امیر لوگوں ل کے محلے میں تھا اسی لیے نمائشی انداز میں جی لگا کر سجایا گیا تھا مگر ایک کسر رہ گئی تھی اس میں ٹیلیفون نہ تھا ۔ (جاری ہے) آپ جانتے ہیں آج بڑے بڑے ڈاکٹروں کا اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ چنانچہ کمال الدین نے دوڑ دھوپ کر کے فون کی بھی منظوری لے لی۔ ٹیلیفون آگیا مگر ابی کنیکشن نہیں ملا تھا کنیکشن دینے کے لیے ٹیلیفون کے دفتر کا مستری آیا ڈاکٹر صاحب اس وقت اندر بیٹھے تھے انہوں نے مستری کو اندر آتا دیکھ کر، یہ گمان کر لیا کہ کوئی مریض پھنسا ہے ۔ اس پر اپنا رعب جمانا ضرور ی ہے مستری کو کرسی پر بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے آپ نے ریسیور اٹھایا، اور پے کنکشن کے فون پر باتیں شروع کر دیں اور آپ ہی فرضی سوالوں کے جواب دینے ل گے۔ جی ہاں میں ڈاکٹر کمال الدین ہوں۔ اور سر ابراہیم :السلام و علیکم۔ نواب صاحب میں اپنے مطلب میں تھا ، نہیں۔ کرنل ہاکسر بیمار ہیں۔ انہوں نے طلب کیا تھا ۔ ابھی ابھی وہاں سے آرہا ہوں۔ اچھا، اچھا آپ کی طبیعت بھی خراب ہے ۔ ۔؟ لیکن چھ بجے سے پہلے تو میں حاضر نہ ہو سکوں گا۔ اب تو میں کرنل باٹ کو دیکھنے چھاوٴنی جا رہا ہوں۔ ہاں ہاں اُنہیں جگر کی کچھ شکایت ہے، کرنل باٹ کو دیکھ کرپھر سربرہان کے ہاں جاوٴں گا۔جی ؟ جی ہاں ، جی ہاں۔ان کی طبیعت کچھ ناساز ہے ان کی کوٹھی سے فون پر فون آرہے ہیں۔ مگر کیا کروں مجبور ہوں وعدہ خلافی بھی تو نہیں کر سکتا۔ کیا فرمایا؟۔۔ وہاں سے پھر کہاں جانا ہے؟۔۔ یہ نہ پوچھئے، ڈاکٹروں کی زندگی بھی بڑی مصروف زندگی ہوتی ہے۔۔ ہاں عرض تو کر رہا ہوں۔ سربرہان کو دیکھ کر پھر وزیراعظم صاحب کی کوٹھی جاوٴں گا۔ اُن کا کوئی دوست مجھ سے علاج کرانے کی خاطر کئی دن سے اُن کے گاوٴں سے آیا ہوا ہے۔ قبلہ یہ سب کچھ صحیح ، مگر یہ ہمارا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی کو انکار نہیں کر سکتے۔ کوئی بلاتا ہے تو جانا ہی پڑتا ہے۔۔۔جی؟۔۔۔ کیا فرمایا؟ نو بجے رات ؟ بالکل ٹھیک مجھے بھی یہی ٹائم سوٹ کرے گا۔ کیونکہ پونے دس بجے رات کا وقت علاء الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کے لیے مقرر ہے ان کی ناک میں پھر غدود اُبھرآئے ہیں۔ ڈاکٹر کمال یہ فرضی باتیں اس لیے کر رہے تھے کہ آنے والا نووارد بیمار رعوب میں آجائے گا اور اُنہیں معقول فیس اس سے وصول ہو جائے گی چنانچہ بے کرنٹ کے فون پر گپیں ہانک کر آپ نووارد سے بولے۔ جناب معاف کیجئے گا، آپ کو بڑی دیر ہو گئی کیا کروں یہ اُونچے طبقے کے بیمار سانس ہی نہیں لینے دیتے ، بڑے لوگ ہیں ان سے بے پروائی بھی تو نہیں برتی جا سکتی ۔ اچھا اب فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے؟ نووارد نے جواب دیا، جناب میں خدا کے کرم سے بیمار نہیں۔ نہ علاج کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ ٹیلیفون کے دفتر کا مستری ہوں۔ آپ نے سپر نٹنٹدنٹ سے کنیکشن کی درخواست کی تھی میں اس لئے حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کے فون کو چالو کردوں۔ سیدہ زینب علی،کراچی چچا آزاد ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ایک دن اتوار کو حیرت انگیز طور پر صبح ہی صبح اُٹھ گئے تھے۔ان کی بیگم اور بچے سو رہے تھے ۔آج کیک کھانے کو ان کا دل چاہ رہا تھا۔بیگم سو رہی تھیں اور ابھی سب دکانیں بھی بند تھیں۔ آخر انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی کیک بنا لیں۔بس یہ خیال آتے ہی وہ کھڑے ہوئے اور باورچی خانے کی طرف لپکے۔انھوں نے پہلے تو اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں پھر آگے بڑھ کر پکوان کی ترکیبوں والی کتاب اُٹھائی۔انھوں نے اس میں سے کیک بنانے کی ترکیب نکالی اور اشیاء کے نام پڑھنے لگے۔ پہلے نمبر پر میدہ لکھا تھا۔نظر کمزور ہونے کی وجہ سے میدے کی جگہ بیسن نکال لیا۔اب ان کو انڈا درکار تھا۔انڈا نکال کر اسے توڑنے ہی والے تھے کہ وہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گرا۔ (جاری ہے) انھوں نے جھنجلا کر پیر پٹخے اور دوسرا انڈا نکال کر ڈال دیا۔ اب انھوں نے پسی چینی اور کوکو پاؤڈر کی تلاش شروع کی۔پسی چینی تو مل گئی،مگر کوکو پاؤڈر نہ ملا۔تنگ آکر انھوں نے اس کو تلاش کرنا ترک کیا اور پسی چینی کا پیکٹ اُٹھا کر اس پتیلے میں ڈالنے لگے،مگر ان کی نظریں اس وقت پتیلے کے بجائے کتاب پر تھیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدھی سے زیادہ چینی نیچے گر گئی۔ انھوں نے اسے صاف کرنے کی زحمت نہ کی اور اب بیکنگ پاؤڈر کی تلاش میں تھے۔وہ تو نہ ملا،لیکن سرکے کو عرقِ گلاب سمجھ کر پتیلے میں ڈال دیا۔اچانک ان کو یاد آیا کہ وہ تیل ڈالنا بھول گئے ہیں۔یہ یاد آتے ہی وہ تیل کی طرف لپکے اور اس کا پیکٹ اُٹھا لائے۔ پیکٹ کھولنے کے دوران ہی وہ پھٹ گیا آدھا تیل نیچے بہہ گیا۔باقی پتیلے میں اُلٹ دیا۔اس کے بعد انھوں نے ان سب کا آمیزہ بنایا اور پتیلا اُٹھا کر اوون کی طرف بڑھے ،مگر اسی وقت نیچے پڑے انڈے اور گرے ہوئے تیل سے ان کا پیر بُری طرح پھسلا اور پتیلے سمیت گر پڑے۔ ان کی چیخ سن کر بیگم ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں اور باورچی خانے کی طرف بھاگیں،مگر باورچی خانے میں داخل ہوتے ہی ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔اس وقت وہ جگہ باورچی خانہ کہلانے کے لائق نہیں تھی۔ ”یہ․․․․․یہ کیا کیا آپ نے؟اب آپ خود ہی یہاں کی صفائی کریں گے،ورنہ آج کھانا نہیں ملے گا۔ “ انھوں نے غصے سے دھمکی دی۔چچا یہ دھمکی سن کر فوراً اُٹھے،مگر جب باورچی خانے کی حالت دیکھی تو وہ چکرا گئے۔اگر یہ ان کی بیگم کو پتا چل جاتا کہ انھوں نے کیک بنانے کے لئے پتیلے میں کیا کیا ڈالا ہے تو ان کا خیال یہی ہوتا کہ یہ کیک کھانے کے بجائے گرانے کے ہی قابل تھا۔ محمد اعجاز فاروق،لکی مروت ریل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور ریل گاڑی جنگل کے بیچوں بیچ رُک گئی۔سارے مسافر پریشانی کے عالم میں ریل گاڑی سے اُتر گئے اور آگے انجن کی طرف بڑھ گئے،تاکہ رکنے کی وجہ معلوم کر سکیں۔ شہاب الدین بھی اپنے بیٹے فیضان کے ساتھ نیچے اُتر گیا جو پچھلے دس گھنٹوں سے اپنے بیٹے بیوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔معلوم ہوا کہ انجن کی خرابی تقریباً ایک گھنٹے میں ٹھیک ہو گی۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔سب لوگ اِدھر اُدھر جنگل میں چلے گئے،تاکہ یہ ایک گھنٹہ کسی طرح سے گزر جائے۔ شہاب الدین بھی انہی کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔ جنگل میں کچھ دور جانے سے ان کو ایک نہر دکھائی دی،جس کے ساتھ پھل دار درخت بھی تھے۔ (جاری ہے) سب نے جا کر خوب پانی پیا اور جنگلی پھلوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ اچانک شہاب الدین نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں اور پھر چیخنے لگا:”میرا بیٹا کہاں گیا؟“سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے بیٹے کے غائب ہونے پر کچھ لوگ اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے۔ ایک گھنٹہ ڈھونڈنے کے باوجود ان کا بیٹا کسی کو نظر نہیں آیا،جس کی وجہ سے سارے مسافر پریشان ہو گئے۔شہاب الدین کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑی بن گئی تھی۔مسافر تسلی دے رہے تھے۔کوئی کہہ رہا تھا کہ جنگل میں گم ہوا ہو گا۔کسی نے کہا کہ شیر نے اس کو اپنی خوراک بنایا ہو گا۔ شاید پانی میں ڈوب گیا ہو گا۔سارے لوگ پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ آخر کہاں گیا ہو گا؟شہاب الدین رو رو کر دعائیں مانگ رہا تھا۔ انجن ایک گھنٹے کے بعد ٹھیک ہو گیا اور ڈرائیور نے سب مسافروں کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ شہاب الدین لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے ڈبے میں داخل ہوا۔جونہی وہ اپنے ڈبے میں داخل ہوا تو اگلا لمحہ حیران کن تھا اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ان کا بیٹا برتھ پر مزے کی نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔اس نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے سب مسافروں کو بلایا اور انھیں بھی اپنی خوشی میں شامل کر لیا۔ بیوی نے بتایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ گیا ہی نہیں تھا۔اس نے اپنے بیٹے کو جگایا اور گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ اس دوران مسافروں میں سے ایک مسافر نے کہا:”بغل میں بچہ،شہر میں ڈھنڈورا۔“ میں ایک صاف ستھرے گھر میں رہتا تھا۔ میرا مالک بہت خوش اخلاق انسان تھا۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ہر وقت میرا خیال رکھتا تھا۔ ابھی میں چھوٹا ساہی تھا جب میرے مالک نے میری دیکھ بھال شروع کی، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا، مجھے وقت پر کھانا دیتا اور کبھی بلاوجہ مجھے نہیں ڈانتا تھا۔ میرے مالک کے دو چھوٹے بچے بھی تھے وہ بھی مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے، پیار سے میری پیٹھ سہلاتے تو میں خوشی سے نہال ہوجاتا تھا۔ میں صبح سویرے خود ہی سیر کو نکل جاتا تھا۔ اور کچھ ہی دور رہنے والے اپنے دوستوں سے مل لیتا تھا۔ انہیں اپنے مالک کی باتیں سناتا تھا، اور پھر مقررہ وقت پر واپس آکر کھانا کھاتا تھا۔ اور دن بھر اپنے مالک کے گھر اور کبھی گھر سے باہر گھومتا رہتا تھا۔ (جاری ہے) ہرے بھرے پتے اور نرم گھاس کھا کر میں کافی صحت مند ہوگیا تھا۔ میرے مالک کے دونوں بچوں کا مجھ سے پیار بہت عجیب تھا۔ وہ اپنی زبان میں نہ جانے مجھے کیا کچھ سناتے رہتے اور میں چپ چاپ بس انہیں دیکھتا رہتا۔ وہ کبھی کبھی گھنٹوں میرے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ اور اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کبھی میری گردن کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے اور سبھی میرے لمبے لمبے کانوں کو ہاتھ لگا کر خوش ہوتے تھے۔ میں اس گھر میں بہت خوش تھا مجھے انسان اچھے لگنے لگے تھے۔ میں سوچتا تھا یہ سب انسان کتنے پیارے ہوتے ہیں جو ہم جانوروں سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اپنے دوستوں کی باتوں کا یقین نہیں کیا جو یہ کہتے تھے کہ انسان بہت برے ہوتے ہیں اور وہ جانوروں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان کی ان باتوں کا اس لیے یقین نہیں کرتا تھا کیونکہ میں بہت شرارتی بھی تھا اور خوب شرارتیں کرتا تھا لیکن میرے مالک نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا تھا۔ میرا مالک بہت غریب آدمی تھا۔ وہ اپنی آمدنی سے بمشکل گزارا کرپاتا تھا۔ کچھ دنوں سے میں مسلسل یہ دیکھ رہا تھا کہ میرا مالک بہت پریشان رہنے لگا ہے۔ اس کی نظر جب بھی مجھ پر پڑتی تو وہ اداس اور غمگین ہوجاتا تھا۔ اگلی صبح میں معمول کے مطابق جب کچھ ہی دور اپنے دوستوں سے ملنے گیا۔ تو وہاں بہت کم تعداد میں میرے دوست کھڑے تھے۔ میں نے ایک قدرے بڑی عمر کے دوست سے جا کر پوچھا کہ سب کہاں چلے گئے تو اس نے مجھے ایک الگ ہی کہانی سنادی۔ اس نے کہا: عیدالاضحی آنے والی ہے، اس میں مسلمان اللہ کے حکم سے جانور ذبح کرکے قربانی کی سنت پوری کرتے ہیں۔ ہم بکروں اور بکریوں سمیت اونٹ، بیل، بھیڑ وغیرہ کی بھی قربانی کی جاتی ہے۔ گزشتہ کل ایک بڑی سی گاڑی میں کچھ لوگ آئے اورہمارے مالکوں کو ہمارے ساتھیوں کی قیمت دے کر ساتھ لے گئے۔ تاکہ وہاں جا کر منڈی میں انہیں فروخت کیا جائے۔ ہم سب بھی اسی انتظار میں ہیں کہ نہ جانے کب کوئی آئے اور ہمیں اپنے ساتھ لے جائے۔ میں یہ سب سن کر حیران تو بہت ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ مجھے سب باتیں سمجھ میں آگئیں، مجھے اپنے مالک کے غمگین ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی کہ میرا مالک بھی مجھے یونہی ایک دن فروخت کرکے اپنے اوپر چڑھا ہوا بہت سا قرضہ اتارے تو دے گا لیکن میری جدائی کا سوچ کر وہ اداس اور غمگین ہوجاتا ہے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ آس پاس رہنے والے میرے سب دوست چلے گئے۔ لیکن میرے مالک کے پاس مجھے خریدنے کے لیے کوئی نہ آیا۔ شاید اس لیے کہ میں اکلوتا تھا۔ اور خریدنے والوں کو اکٹھے جانور خریدنے تھے۔ میرا مالک یہ صورتحال دیکھ کر اور پریشان ہوگیا تھا۔ آخر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود مجھے لے جاکر شہر میں فروخت کرے گا۔ چنانچہ ایک دن صبح کو میرے مالک نے میرے گلے میں رسی ڈالی اور مجھے گھر کے دروازے تک لے آیا، اچانک مجھے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو میرے مالک کے دونوں بچے بھی مجھے پْرنم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے الوداع کہہ رہے ہوں۔ میں نے اپنے منہ سے مخصوص آواز نکال کر انہیں آخری بار دیکھا اور ہم رخصت ہوگئے۔ بکرا منڈی میں نہ جانے کہاں کہاں سے جانور لائے گئے تھے۔ بکرے خریدنے والوں کا بھی بہت ہجوم تھا، میرے مالک نے میرے سفید جسم پر مہندی لگائی ہوئی تھی۔ تاکہ میں خوبصورت نظر آؤں۔ ابھی میں منہ اٹھائے بکرا منڈی کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ دو ہٹے کٹے مشٹنڈے نوجوان، میرے مالک کے پاس آئے اور میرے بارے میں پوچھنے لگے۔ انسانوں کے ساتھ رہ کر مجھے ان کی باتیں سمجھ میں آنے لگیں تھیں۔ اچانک ان دونوں نوجوانوں میں سے ایک نے اپنے گندے ہاتھوں سے میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور میرا منہ کھول کر دیکھنے لگا۔ مجھے اس کے ہاتھوں سے بدبو آرہی تھی۔ آخر اس نے میرے منہ میں موجود دانتوں کو دیکھ کر میرا منہ چھوڑ دیا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن ابھی میری آزمائش باقی تھی۔ میرا منہ چھوڑ کر وہ میری گردن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ کبھی میری ٹانگ اور کبھی میری پیٹھ پر اپنے گندے ہاتھ لگا کر منہ سے کچھ بڑبڑاتا تھا۔ آخر کار وہ دونوں چلے گئے۔ اور میں نے شکر ادا کیا کہ ان کو میں پسند نہیں آیا۔ ان دونوں کے جانے کی دیر تھی، اب تو ہرکوئی مجھے دیکھنے آرہا تھا۔ میں ہرکسی کو اپنی آزمائش کروا، کروا کر تھک گیا تھا۔ بار بار منہ کھول، کھول کر میرے جبڑوں کو درد ہونے لگا تھا۔ نہ جانے یہ سب میرے منہ میں کیا تلاش کررہے تھے۔ خدا خدا کرکے رات کا وقت ہوا اور بکرا منڈی میں کچھ سکون نظر آنے لگا۔ میرا تھکن کے مارے برا حال ہورہا تھا۔ میرے مالک نے میرے گلے میں پڑی ہوئی رسی کے دوسرے کنارے کو اپنے پاؤں سے باندھا اور خود وہیں لیٹ گیا۔ میں بھی وہیں بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ اور نہ جانے کب مجھے نیند آگئی۔ اچانک تیز شور و غل سے میری آنکھ کھلی، سورج ابھی پوری طرح نکلا بھی نہ تھا۔ اور منڈی میں پھر وہی چہل، پہل شروع ہوگئی تھی۔ آج مسلسل رش زیادہ ہوتا جارہا تھا۔ مجھے دیکھنے والوں میں ایک بوڑھا دو چھوٹے بچوں کے ساتھ آیا۔ وہ دونوں چھوٹے بچے بہت شرارتی تھے۔ ایک نے میرا سینگ پکڑ لیا اور دوسرا میری ٹانگ کھینچنے لگا۔ میرا غصہ کے مارے براحال ہوگیا۔ دل تو بہت چاہا کہ ایک ٹانگ آج ان دونوں کو ماروں لیکن اپنے مالک کو دیکھ کر رک گیا۔ اس بوڑھے نے بھی حسبِ معمول کانپتے ہاتھوں سے میرے منہ میں موجود دانتوں کو غور سے دیکھا اور چھوڑ دیا۔ میں دل میں سو چنے لگا کہ شاید میرے گندے دانتوں کو دیکھ کر میں انہیں پسند نہیں آتا اور بات بھی یہی تھی۔ میں ہمیشہ اپنے دانتوں کو صاف رکھتا تھا۔ یہاں شہر میں گندا پانی اور سوکھی سڑی گھاس کھا کر میرے دانتوں پر بہت میل جم گئی تھی۔ اور انہیں شاید سفید دانتوں والا بکرا چاہیے تھا۔ یہ دن بھی جیسے تیسے گزر گیا۔ آج منڈی میں میرا تیسرا دن تھا۔ میرے مالک کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ اول میں کسی کو پسند نہیں آتا تھا۔ اور جوپسند کر لیتا وہ میری قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا چلا جاتاتھا۔ آج بھی منڈی کا رش پہلے سے بھی زیادہ ہوگیا تھا۔ مجھے مسلسل گندا پانی اور مرجھائی گھاس کھاتے ہوئے تیسرا دن ہوچکا تھا۔ لیکن میں نے اپنے مالک کی وجہ سے کوئی شکوہ نہ کرتا تھا۔ میرے مالک نے مجھے ہمیشہ اچھا کھانے کو دیا۔ آج مجھے اس کے مشکل وقت میں کام آنا تھا۔ حسبِ معمول آج بھی میرے منہ کو متعدد بار کھولا گیا۔ اور ہر آنے والے نے میرے دانتوں کو آنکھیں مٹکا، مٹکا کر دیکھا۔ میرا دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ جو بھی میرے پاس مجھے دیکھنے کے لیے آئے میں خود ہی اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے اپنا منہ کھول کر دکھا دوں۔ آج بھی میں کسی کو پسند نہیں آیا تھا وہ میری قیمت سن کر بھاگ جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں گاؤں کا پلا بڑھا ایک صحت مند بکرا تھا۔ میرے مالک نے تو میری اچھی قیمت لگانی تھی۔ اور میں خوبصورت اتنا تھا کہ اکثر میرے منڈی والے ساتھی بکرے مجھے دیکھ کر آہیں بھرتے تھے کہ کیسا گھبرو جوان بکرا ہے۔ عید میں تھوڑے ہی دن رہ گئے تھے۔ آج منڈی میں مجھے چوتھا دن شروع ہوچکا تھا۔ میں آج کافی بن سنور کر کھڑا تھا۔ میرے مالک نے مہندی لگا کر خوب تیار کیا تھا۔ شام کا وقت قریب تھا کہ ایک بڑی عمر کا آدمی اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ میرے پاس آیا، مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا اور میرے مالک سے میری قیمت پوچھی، وہ اپنے لباس اور وضع قطع سے امیر گھرانے کا لگ رہا تھا۔ آخر کار میں اسے پسند آگیا، میرے مالک نے قیمت لے کر میری رسی اس آدمی کو تھما دی۔ اور میرا مالک میری پیٹھ کو سہلانے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ اب مجھے کسی اور کے ہاں جانا ہوگا۔ میرا مالک اب کوئی اور ہوگا۔ وہ آدمی مجھے اپنی کار تک لے آیا، اور ہم ایک مختصر سفر کے بعد ایک عالیشان گھر کے گیٹ پر جاکر رکے۔ بکرا آگیا، بکرا آگیا۔ گھر کے سب بچے اونچی اونچی آواز میں چلا کر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ ہر کوئی اشتیاق سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ گھر کے صحن کے ایک کونے میں مجھے باندھ دیا گیا۔ گھر میں موجود بچے بہت حد تک شرارتی واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ کوئی میرا سینگ پکڑتا تو کوئی میری ٹانگ کھینچتا۔ کوئی میرے کانوں پر مارتا تو کوئی میرے بالوں کو کھینچتا۔ آخر کب تک برداشت کرتا۔ میں نے ایک بچے کو ہلکی سی ٹکر ماری یہ دیکھ کر مجھ سے سارے بچے دور ہٹ گئے۔ میں نے سکون کا سانس لیا، کم بخت جب سے آیا ہوں کسی نے نہ پانی کا پوچھا، نہ کھانے کا ، میرا غصہ دو بھر ہوگیا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کران بچوں کو دیکھا۔ تو مجھے دور ایک چھوٹا سا بچہ نظر آیا۔ جو بہت محبت سے میری طرف دیکھ رہا تھا، اس نے گھر میں پڑی گھاس لا کر میرے سامنے ڈالی، اور پانی بھی لا دیا۔ میں نے ممنونیت بھری نظروں سے اس بچے کو دیکھا اور دل میں خوش ہوا کہ چلو کوئی تو ہے میرا خیال رکھنے والا۔ عید میں صرف ایک روز باقی تھا۔ ایک بڑی بی میرے پاس سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے لائی اور بار بار میرے منہ میں ڈالنے لگی۔ میں نے سوچا ان شہر والوں کو یہ بھی پتا نہیں کہ ایک بکرے کو کیا کھانا دیا جاتا ہے، میں نے وہ سوکھے ٹکڑے نہیں کھائے اور زور زور سے آوازیں نکالنے لگا۔ وہ بڑی بی غصے میں آگئیں اور بولیں: اسکے نخرے تو دیکھو، نہ کچھ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے بس بول بول کر دماغ کھا جاتا ہے۔ میں پہلے ہی گاؤں کو یاد کر کے بہت اداس تھا۔ اوپر سے اس بڑی بی کی باتیں سن کر بہت افسوس ہونے لگا۔ دل توچاہا ایک زور دار ٹکر اس بڑی بی کو بھی جڑدوں۔ لیکن صبر کیا۔ اور کچھ نہ کہا۔ شام کو سب گھر والے اکھٹے ہوکر مجھے دیکھنے آئے۔ تو ایک چھوٹا بچہ کہنے لگا۔ ”امی اسکا دودھ کب نکالیں گے“؟مجھے یہ سن کر دل ہی دل میں بہت ہنسی آئی۔ اور سب گھر والے بھی ہنسنے لگے۔ جب سب گھر والے چلے گئے تو وہی کل والا بچہ جسے سب گھر والے حارث کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ میرے پاس آیا۔ پیارسے میری کمرکو سہلانے لگا۔ اور پھر رسی کھول کر مجھے باہر گھمانے کے لئے لے گیا۔ میں جہاں جاناچاہتا وہ میری رسی ڈھیلی چھوڑ دیتا تھا۔ اسے مجھ سے پیار ہوگیا تھا۔ وہ دن میں کئی بار گھر کے صحن میں آکھڑا ہوتا اور مجھے دیکھتا رہتا۔ وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ میری قربانی کا دن نزدیک آرہا تھامجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے چناگیا ہے۔ میں جنت میں جاؤ ں گا۔ اور وہیں عیش اور مزے سے رہوں گا۔حارث مجھ سے مانوس ہو گیا تھا۔ حارث نے چاند رات کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اداسی بھرے لہجے میں اپنے بابا کو مخاطب کیا۔”بابا کیا یہ ہمیشہ ہمیشہ ہمارے پاس نہیں رہ سکتا۔۔؟ بابا نے حارث کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا پیارے بیٹے کل ہم اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہو گا۔ اس سے اللہ جی خوش ہوں گے۔اللہ جی کیوں خوش ہوں گے بھلا۔حارث کے ننھے ذہن میں سوال آیا۔”بیٹے اس لیے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو جوان بیٹے کی قد و قامت،اسکی خوبروئی اور اسکی محبت پر اللہ کی رضا غالب آ گئی۔ خود اپنے بیٹے کے ہاتھ پاوٴں رسیوں میں جکڑ لئے اور اللہ کے تئیں عقیدت بھری محبت کا اظہار کرتے ہوئے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے حلق پر چھری چلا دی۔اللہ کو ابراہیم سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔جس طرح نار نمرود ابراہیم علیہ السلام کو جلا نہ سکی اسی طرح اللہ کے حکم سے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چل رہی چھری اس کے جسم سے لہو کا ایک قطرہ بھی بہا نہ سکی۔ جنت سے جانور منگایا گیا جسے حضرت اسماعیل کی جگہ ذبح کرکے خون بہایا گیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ امت مسلمہ کے فرزند ہر سال 10ذی الحجہ کو کسی جانور کی قربانی پیش کرکے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ یہ پست حوصلہ تیرا کیا ساتھ دیں گے ادھر آ زندگی تجھے ہم جی لیں گے“حارث کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ چلو بیٹے اب سو جاؤ صبح جلدی اٹھنا ہے،صبح عید قربان ہے۔ سب بچوں نے رنگ برنگے پیار ے لباس پہنے ہوئے تھے۔ وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ کسی کو میرا خیال تک نہ آیا۔ لیکن حارث عید کے دن بھی مجھے کھانا اور پانی دے رہا تھا۔ آج وہ اداس لگ رہا تھا، ، وہ میرے بارے میں بہت جذباتی ہوگیا تھا۔ سب مرد عید کی نماز پڑھ کر آئے۔ اور مجھے گھر کے صحن میں ہی ذبح کرنے کا ارادہ کرنے لگے۔ میرے گلے سے رسی کو نکال دیا گیا۔ مجھے زمین پر لٹا کر اللہ کے حضور اسکی رضا مندی کے لئے ذبح کیا جانے لگا۔ میں نے آخری بار جسے دیکھا۔ وہ نعمان تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے جھانکتا ہوا وہ مجھے اپنی بھیگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا۔ کہ وہ مجھے آخری بار دیکھ رہا ہے۔ میں نعمان سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن کچھ نہ کہہ پایا۔ میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ شکر یہ نعمان، میراخیال رکھنے کا، مجھے باہر سیر کروانے کا، مجھے پانی پلانے کا، اداس مت ہو، میں نہ سہی میرا کوئی نہ کوئی دوست پھر آئے گا، ہر سال آتا رہے گا۔ تم بس ہر سال اسی طرح اپنے قربانی کے بکرے کا خیال رکھ کر اسے رخصت کردیا کرنا۔۔۔۔ جاوید اقبال : لمبی اور بھاری چونج والا پرندہ اُڑتا ہوا باغ میں پہنچا تو اس کی نظر ایک لمبی تڑنگی بَلا پر پڑی جو باغ کے بالکل بیچ میں اپنے گول مٹول سر اور لمبی ٹانگ کے سہارے اپنے بازو پھیلائے کھڑی تھی۔ پرندے کے منھ سے چیخ نکلی اور وہ قلابازی کھا کر واپس پلٹا اور باغ سے دور چیڑ کے ایک اونچے پیٹر پاجا بیٹھا اور خوف زدہ نظروں سے اس بَلا کو دیکھنے لگا۔ باغ کے ایک کونے سے بوڑھے مالی نے پرندے کو خوف زدہ ہوک ر بھاگتے دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ”اب دیکھتا ہوں تم کیسے میرا باغ اُجاڑتے ہو“۔ اس نے زیرلب کہا۔ بوڑھا مالی ان پرندوں کے ہاتھوں سخت پریشان تھا۔ پرندے روزانہ باغ پر حملہ کرتے اور نہ صرف بہت سارے انجیر کھا جاتے، بلکہ بہت سے انجیر زمین پر بھی گرا دیتے۔ (جاری ہے) بے چارہ مالی اور اس کا کم عمر بیٹا سار ادن ہو ہو، ہاہا کر کے شور مچاتے اور خالی کنستر پیٹتے رہتے،تاکہ پرندے باغ سے دور رہیں۔ آج بوڑھے مالی کو قصبے کے بازار جانا تھا۔ بوڑھے مالی کی غیر موجودگی میں باغ کی نگرانی اس کے بیٹے کو کرنی تھی، مگر پچھلی رات سے اسے بخار تھا اور کم زوری کی وجہ سے وہ بستر سے اُٹھ نہیں سکتا تھا۔ بوڑھا مالی باغ کو پرندوں کے اُجاڑنے کیلئے یونہی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ مگر انگور اور انجیر بھی قصبے پہنچانا ضروری تھا۔ آخر اس نے ایک پرانا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لئے اسے دو لکڑیایں چاہیے تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری اس سے نسبتاََ چھوٹی۔ چند کپڑوں کو دھجیاں او ر ایک رسا۔ لکڑیاں کے لئے اس نے ایک پرانے سوکھے ہوئے درخت کا انتخاب کیا اور کلہاڑی سے اپنی ضرورت کے مطابق لکڑیاں کاٹ لیں۔ رسا اس باغ سے ہی مل گیا۔ دھجیوں کے لئے اسے کچھ کوشش کرنا پڑی۔آخر وہ چند پھٹے پرانے کپڑے ڈھونڈ نے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ جب اسے اپنی ضرورت کی چیزیں مل گئیں تو اس نے لمبی لکڑی زمین پر لٹا کو چھوٹی لکڑی کو اس کے سرے پر ایک فٹ کا فاصلہ چھوڑ کر صلیب کی شکل میں مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا۔ اب اس نے لمبی لکڑی کا ایک فٹ حصہ جو چھوڑا تھا وہاں کپڑوں کی دھجیاں لپیٹنی شروع کر دیں جب دھجیاں ایک گول چہرے کی شکل اختیار کر گئیں تو اس نے آنکھوں کی جگہ دو سوراخ کر دیے یہاں اس نے دوکالی دھجیاں ٹھونس دیں۔ نیچے منھ کی جگہ ایک چوڑا کٹ لگایا اور اس میں ایک سرخ کپڑا ٹھونس دیا۔ لیکن اس کا کچھ حصہ باہررہنے دیا، گویا یہ اس گول چہرے کی زبان تھی۔ پھر اس نے ایک لمبا سے کرتا اپنے بنائے ہوئے پتلے کو پہنا دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس اس نے باغ کے درمیان میں ایک گڑھا کھودا، جس کی گہرائی دو فیٹ تھی۔ جب گڑھا تیار ہو گیا تو اس نے لکڑی کے اس پتلے کو اس گڑھے میں کھڑا کر دیا اور پاوٴں سے خالی جگہ مٹی سے بھر دی۔ اب اس نے دورہٹ کے دیکھا یہ پتلا ایک خوف ناک بَلا کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ ایک جگہ چھپ کر پرندوں کا انتظار کرنے لگا۔ پھر اس نے ایک پرندے کو ادھر آتے دیکھا۔ پرندہ اس خوف ناک بلا کو دیکھ کر واپس بھاگ نکلا تھا۔ بوڑھے مالی نے اطمینان کا سانس لیا اور انجیر اور انگور کے ٹوکرے چھکڑے پرلاد کے قصبے کی طرف روانہ ہوگیا۔ بھوک سے بے تاب پرندے نے مالی کو قصبے کی جانب جاتے دیکھا تو وہ پھر باغ کی طرف نکلا۔ اس نے دیکھا وہ لمبی بلا اب بھی باغ کے وسط میں بازو پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ باغ کے اوپر چکر کاٹنے لگا۔ پھر وہ باغ کے کنارے والے ایک پیٹر پر آبیٹھا اور چوکنا نظروں سیاس بلا کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ نیچے آیا اور تیز ی سے ایک شاخ سے انجیر لے اُڑا اوردور ایک اونچے درخت پر بیٹھ کر نکل گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بلا اپنی جگہ بے حس وحرکت کھڑی تھی۔ صرف اس کے کپڑے ہوا سے ہل رہے تھے وہ دوبارہ نیچے آیااور ایک اور انجیر لے اُڑا ۔ اس بلا نے اب بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ کی تو اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ پھر کچھ اور پرندے بھی جو پہلے ڈر رہے تھے ، اس کے ساتھ آملے اور انجیروں پر ہلا بول دیا۔ دن ڈھلنے سے کچھ پہلے بوڑھا مالی اپنے چھکڑے پر خالی ٹوکرے لادے قصبے سے واپس لوٹا۔ وہ اپنے صبح کے منصوبے پر بہت خوش تھا:”اب میں نے ان پرندوں کا علاج ڈھونڈ لیا ہے“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن جب وہ اپنے باغ میں پہنچا تو ایک عجیب نظارہ اس کا منتظر تھا۔ پرندے اس کے بنائے ہوئے پتلے کے بازوں پر بیٹھے انجیریں نگل رہے تھے۔ کچھ پرندے اس کے گول سر میں چونچیں مار رہے تھے جس سے دھجیوں کے ٹکڑے ہوا میں اُڑ رہے تھے۔ بوڑھے مالی نے اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ چیختا ہوا پرندوں کی طرف جھپٹا تو چالاک پرندے فضا میں پرواز کر گئے۔ قصبے سے واپس لوٹا۔ وہ اپنے صبح کے منصوبے پر بہت خوش تھا:”اب میں نے ان پرندوں کا علاج ڈھونڈ لیا ہے“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن جب وہ اپنے باغ میں پہنچا تو ایک عجیب نظارہ اس کا منتظر تھا۔ پرندے اس کے بنائے ہوئے پتلے کے بازوں پر بیٹھے انجیریں نگل رہے تھے۔ کچھ پرندے اس کے گول سر میں چونچیں مار رہے تھے OK bro
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD