Urdu Grammar.

5000 Words
ہر زبان کو درست طریقے سے سیکھنے، بولنے، لکھنے اور پڑھنے کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں، ان قوانین کو قواعد کہا جاتا ہے۔ ان قوانین کو علم القواعد یا قواعد زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کے قواعد درج ذیل ہیں۔ علم ہجا علم ہجا کسی زبان کے حروف تہجی کو الگ الگ کرنے، املا اور ہجوں کی ساخت کا علم ہے۔ حروف ابجد ہر زبان کچھ تحریری علامات اور نشانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ علامات اور نشانات حروف کہلاتی ہیں۔ جیسے: ا، آ، ب، ت، پ، ٹ، ج، د، ڑ، ژ، س، ط، ل، م، ن، و، ی وغیرہ۔ حروف کے مجموعے کو “ابجد”کہتے ہیں اردو میں حروف تہجی کی کل تعداد سینتیس (37) ہے۔ ا، آ، ب، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، گ، ل، م، ن، و، ہ، ی، ے۔ مرکب حروف: وہ حروف ہیں جو ہائے دو چشمی (مخلوط) سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ کل تعداد میں 15 ہیں۔ بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، زھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ۔ زبان کے جدید اصولوں کے مطابق الف ایک جبکہ الف + الف=آ شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہائے مخلوط (ھ) اردو میں کبھی لفظ کے شروع میں نہیں آتا۔ ہمزہ اردو میں پورا حرف شمار نہیں ہوتا، یہ بسااوقات بطور اضافت آتا ہے مثلاً سرمایہ اردو، مجموعہ کلام، تحفہ خلوص وغیرہ۔ حروف بلحاظ حرکات: تلفظ یا صوتی لحاظ سے اردو میں حروف کی دو اقسام ہیں۔ 1- حروف علت: “الف، واؤ اور یا” وہ حروف جن کے ملانے سے الفاظ میں حرکت پیدا ہوتی ہے، ان الفاظ کو حروف علت کہا جاتا ہے۔ جیسے: ب+ا= با، ب+و= بُو اور س+ی=سی وغیرہ۔ حروف علت کو انگریزی میں Vowels کہا جاتا ہے۔ 2- حروف صحیح: وہ حروف جو کسی حرف علت یا علامت حرکت (زبر، زیر، پیش) کے بغیر آپس میں مل کر کوئی آواز پیدا نہیں کر سکتے حروف صحیح کہلاتے ہیں۔ جیسے: ب، پ، ت، ج، د، س، م وغیرہ۔ حروف صحیح کو انگریزی میں Consonants کہا جاتا ہے حروفِ قمری: جن حروف میں “ل” کی آواز تلفظ میں ظاہر کی جاتی ہے اُنھیں حروفِ قمری کہتے ہیں۔ حروفِ قمری چودہ (14) ہیں: ا۔ ب۔ ج۔ ح۔ خ۔ ع۔ غ۔ ف۔ ق۔ ک۔ م۔ و۔ ہ۔ ی۔ مثال: القمر، اسداللہ الغالب، الامان، بیت المال حروفِ شمسی: عربی زبان میں شان و عزت کے لیے بعض اسما پر (ال) لگادیا جاتا ہے۔ کچھ حروف ایسے ہوتے ہیں اگر ان کے پہلے (ال) آتا ہے تو تلفظ میں پڑھا نہیں جاتا اور لفظ کا اول صرف مشدد پڑھا جاتا ہے۔ جن حروف کے آغاز میں (ال) نہیں پڑھا جاتا ان حروف کو حروفِ شمسی کہتے ہیں۔ حروفِ شمسی چودہ (14) ہیں: ت۔ ث۔ د۔ ذ۔ ر۔ ز۔ س۔ ش۔ ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ ل۔ ن۔ مثال: الشمس، ہارون الرشید، الرحمان، یوم الدین اعراب کا بیان الفاظ کی درست ادائیگی تلفظ کہلاتی ہے۔ تلفظ کے لئے اعراب (حرکات و سکنات) کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ املا اور تلفظ میں وہی صورت اختیار کی جانی چاہیے جو اہلِ زبان میں رواج پا چکی ہو یعنی اردو میں بات کرتے ہوئے اردو ہی کا لب و لہجہ اختیار کیا جائے چاہے وہ عربی زبان کے الفاظ سے متعلق ہو یا کوئی اور زبان۔ تاہم یہ اصول قرآن مجید اور احادیث مبارکہ پر لاگو نہیں ہوتا۔ اعراب (حرکات و سکنات): دوست تلفظ کے لئے اردو میں حروف پر مخصوص علامات استعمال کی جاتی ہیں ان علامتوں کو اعراب کہا جاتا ہے۔اعراب لگانے سے حروف دو حالتوں میں آ جاتے ہیں، متحرک یا ساکن۔ 1- متحرک: جب حروف پر زبر، زیر یا پیش آئے یہ اپنی آواز دیتے ہیں اور ایسے حروف کو متحرک کہا جاتا ہے۔ 2- ساکن: جب حرف پر کوئی حرکت (زبر، زیر یا پیش) نہ ہو بلکہ جزم ہو تو ایسا حرف ساکن کہلاتا ہے۔ اعراب کی اقسام: 1- زبر (اَ): یہ ترچھی لکیر حرف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔ عربی میں زبر کو ‘فتحہ’ کہتے ہیں۔ اس لئے جس حرف پر زبر آئے اسے ‘مفتوح’ کہتے ہیں۔ جیسے: سَاجد، ڈَر، اَطہر وغیرہ۔ 2- زیر(اِ): یہ ترچھی لکیر حرف کے نیچے لگائی جاتی ہے۔ عربی میں زیر کو ‘کسرہ’ کہتے ہیں۔ اس لیے جس حرف کے نیچے زیر آئے اسے ‘مکسور’ کہتے ہیں۔ جیسے: مِیر، وکِیل وغیرہ۔ 3- پیش (اُ): یہ علامت حرف کے اوپر لگتی ہے۔ عربی میں پیش کو ‘ضمہ’ کہتے ہیں اس لیے جس حرف پر پیش آئے اسے ‘مضموم’ کہا جاتا ہے۔ مثلاً پُر، اُردو وغیرہ۔ 4- کھڑا زبر (اٰ): یہ علامت حرف کے اوپر لگتی ہے اور دو زبر کے برابر پڑھی جاتی ہے۔ جیسے الٰہی، موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ۔ 5– کھڑی زیر (اٖ): یہ علامت حرف کے نیچے لگتی ہے اور دو زیر کے برابر آواز دیتی ہے۔ 6- جزم یا سکون (اْ): یہ علامت حرف کے سکون یا ٹھہراؤ کو ظاہر کرتی ہے اور حروف کے اوپر لگائی جاتی ہے۔ اس علامت والا حرف ساکن ہوتا ہے جیسے: امْکان وغیرہ۔ 7- تنوین (اً، اٍ، اٌ): دو زبر، دو زیر یا دو پیش کو تنوین کہتے ہیں اور نون کی آواز دیتے ہیں۔ جیسے: فوراً، اصلاً، مثلاً غیرہ۔ 8– تشدید (اّ): یہ علامت حرف کے اوپر لگتی ہے۔ اس علامت والے حرف کو دو دفعہ پڑھا جاتا ہے اسے شہد بھی کہتے ہیں۔ اس علامت والے حرف کو مشدد کہتے ہیں۔ جیسے: اللہ، رقّت وغیرہ۔ 9- موقوف اور ساکن: اگر کسی لفظ میں ایک ساکن حرف کے بعد دوسرا غیر متحرک حرف آجائے تو اس حالت کو وقف اور غیر متحرک حروف کو موقوف کہتے ہیں۔مثلا نیند، یہاں ‘ن’ ساکن اور ‘و’ موقف ہے۔ 10- اشباع: کسی حرف کی حرکت کو اس طرح پڑھنا کہ زبر سے “الف” زیر سے “ے” اور پیش سے “و” کی آواز پیدا ہو جائے۔ مثلاً رستہ سے راستہ، لہو سے لوہو، مہمان سے مے مان وغیرہ۔ 11– امالہ: کسی لفظ کے “الف” یا “ہ” کو یائے مجہول (ے) سے بدل کر پڑھنا امالہ کہلاتا ہے۔ جیسے اکھاڑنا سے اکھیڑنا، لڑکا سے لڑکے، نالہ سے نالے وغیرہ۔ 12- ادغام: دو ہم مخرج حرفوں کو ملا کر پڑھنا ادغام کہلاتا ہے۔ جیسے: بدتر کو بتر وغیرہ۔ 13- محذوف: کسی لفظ میں اگر کوئی حرف حذف کر دیا جائے تو اس حذف شدہ حرف کو محذوف کہتے ہیں۔ جیسے: شاہباش سے شاباش، بیچارہ سے بچارا وغیرہ، ان مثالوں میں ‘ہ’ اور ‘ی’ محذوف ہیں. رموز اوقاف کا بیان کلام یا جملوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھنے اور جدا کرنے کے لئے جو علامات استعمال کی جاتی ہیں انہیں رموز اوقاف کہتے ہیں۔ جملے کے درست مطلب کے لئے ان کا جاننا اور استعمال کرنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ ایک علامت جسے وقفہ کہتے ہیں اس کا استعمال دیکھیے “ٹھہرو مت جاؤ” کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں ٹھہرو، مت جاؤ اور ٹھہرو مت، جاؤ۔ ایک علامت کے آگے پیچھے کرنے سے پورا مطلب تبدیل ہو جاتا ہے۔ رموز اوقاف میں بہت سی علامات ہوتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ سکتہ: اس کی علامت یہ (،)ہے، ایک جملے کے الفاظ یا مرکبات کے درمیان استعمال ہوتا ہے اس پر تھوڑا ٹھہرنا چاہیے۔ وقفہ: اس کی علامت (؛) مفرد جملہ کے اختتام پر یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ سکتہ کی نسبت یہاں زیادہ ٹھہرنے کا حکم ہے۔ وقف کامل: اس کی علامت یہ (۔) ہے اس پر ٹھہرنا ہوگا۔ علامت حذف: اس کی علامت یہ (°)ہے، اگر عبارت میں کسی چیز کا ذکر نہ کرنا ہو تو اس علامت کا استعمال کرتے ہیں۔ علامت استفہام: اس کی علامت یہ (؟) ہے یہ علامت سوالیہ جملے کے آخر میں آتی ہے۔ علامت تعجب یا ندا: اس کی علامت یہ (!) ہے۔ کسی تعجب یا حیرانگی یا جذبات کے اظہار کے بعد یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔ علامت تفصیلہ: اس کی نشانی یہ (:)ہے، کسی جملے کے مفہوم کو واضح کرنا ہو تو یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔ مثلا یہ وقت: جو گزر رہا ہے اسے واپس نہیں لایا جاسکتا۔ علامت ترک: اس کی نشانی یہ (.) ہے، عبارت میں کسی لفظ کے چھوٹ جانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ علامت ذیل: اس کی نشانی یہ (:-) ہے اور ذیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ علامت اقبتاس: اس کی نشانی یہ (” “)ہے، یہ علامت کسی عبارت کے شروع میں اور آخر میں لگائی جاتی ہے۔ علامت شعر: یہ علامت (؀) نثر کے درمیان شعر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ علامت مصرع: نثر کے درمیان مصرع آ جائے تو یہ علامت (ع) استعمال کرتے ہیں۔ علامت صفحہ: یہ علامت(؃) کسی عبارت میں صفحہ کے حوالہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ علامت قوسین: اسے خطوط وحدانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی نشانی یہ تین خطوط [{()}] ہیں۔ کسی شے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ علامت حاشیہ: کسی جملے یا لفظ کا مطلب حاشیہ میں لکھنا ہو تو یہ (؂) علامت استعمال کی جاتی ہے۔ علامت تخلص یا بیت: شاعر کے تخلص پر استعمال ہوتی ہے اس کی نشانی یہ ؔ ہے۔ علامت خط: کسی جملہ معترضہ کو اصل جملے سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس کی علامت یہ(-) ہے۔ علامت الخ: یہ علامت الی آخرہ کا مخفف ہے، عبارت کے کچھ الفاظ لکھ کر کچھ نقطے ڈال کر آخر میں الخ(۔۔۔۔الخ) لکھ دیتے ہیں. ہر زبان کو درست طریقے سے سیکھنے، بولنے، لکھنے اور پڑھنے کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں، ان قوانین کو قواعد کہا جاتا ہے۔ ان قوانین کو علم القواعد یا قواعد زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کے قواعد درج ذیل ہیں۔ علم ہجا علم ہجا کسی زبان کے حروف تہجی کو الگ الگ کرنے، املا اور ہجوں کی ساخت کا علم ہے۔ حروف ابجد ہر زبان کچھ تحریری علامات اور نشانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ علامات اور نشانات حروف کہلاتی ہیں۔ جیسے: ا، آ، ب، ت، پ، ٹ، ج، د، ڑ، ژ، س، ط، ل، م، ن، و، ی وغیرہ۔ حروف کے مجموعے کو “ابجد”کہتے ہیں. اردو میں حروف تہجی کی کل تعداد سینتیس (37) ہے۔ ا، آ، ب، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، گ، ل، م، ن، و، ہ، ی، ے۔ مرکب حروف: وہ حروف ہیں جو ہائے دو چشمی (مخلوط) سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ کل تعداد میں 15 ہیں۔ بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، زھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ۔ زبان کے جدید اصولوں کے مطابق الف ایک جبکہ الف + الف=آ شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہائے مخلوط (ھ) اردو میں کبھی لفظ کے شروع میں نہیں آتا۔ ہمزہ اردو میں پورا حرف شمار نہیں ہوتا، یہ بسااوقات بطور اضافت آتا ہے مثلاً سرمایہ اردو، مجموعہ کلام، تحفہ خلوص وغیرہ۔ حروف بلحاظ حرکات: تلفظ یا صوتی لحاظ سے اردو میں حروف کی دو اقسام ہیں۔ 1- حروف علت: “الف، واؤ اور یا” وہ حروف جن کے ملانے سے الفاظ میں حرکت پیدا ہوتی ہے، ان الفاظ کو حروف علت کہا جاتا ہے۔ جیسے: ب+ا= با، ب+و= بُو اور س+ی=سی وغیرہ۔ حروف علت کو انگریزی میں Vowels کہا جاتا ہے۔ 2- حروف صحیح: وہ حروف جو کسی حرف علت یا علامت حرکت (زبر، زیر، پیش) کے بغیر آپس میں مل کر کوئی آواز پیدا نہیں کر سکتے حروف صحیح کہلاتے ہیں۔ جیسے: ب، پ، ت، ج، د، س، م وغیرہ۔ حروف صحیح کو انگریزی میں Consonants کہا جاتا ہے. لفظ بہت سے حروف تہجی مل کر ایک لفظ بناتے ہیں۔لفظ کی دو قسمیں ہیں۔ (١)کلمہ اور (٢) مہمل (١) کلمہ ‍‌‌ کلمہ وہ منفرد لفظ ھے جسکے کچھ معنی ہوں۔یعنی حروف کے ایک ایسے مجموعے کو کلمہ کہا جاتا ہے جس سے کسی بات کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آئے۔ جیسے: ١-حامد ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے ٢- مودی جی ترقی کر رہے ہیں۔ (٢)مہمل مہمل الفاظ کے ایسے مجموعے کو کہا جاتا ہے جس کے کچھ معنی نہ ہوں. جیسے: ١ کھانا وانہ کھایا ہوگا ٢– آپ نے پانی وانی پی لیا؟ ان دو جملوں میں “وانہ” اور “وانی” مہمل ہیں. کلمہ کی اقسام کلمہ کی چھ قسمیں ہیں: اسم فعل حرف صفت متعلق فعل ضمیر (١) اسم: اسم وہ کلمہ ہے جو کسی شخص،جگہہ ،یا چیز کا نام ہو ۔ مثلاً۔: استاد شاگرد کو پڑھاتا ہے،حمید کے ہاتھ سے پرندہ اڑ گیا،ذاکر ہندوستان کا بادشاہ ہے۔ اُوپر کی مِثالوں میں اُستاد، شاگِرد، حمید، ہاتھ پرندہ ،ذاکر، ہندُوستان اور بادشاہ ناموں کو ظاہر کرتے ہیں۔یہ سبھی اِسم ہیں۔ (٢ )فعل: فعل وہ کلمہ ہے جس سے کسی کام کا ہونا یا کرنا پایا جائے۔ فعل کی دوقسمیں ہیں۔ ١ فعل ناقص:-وہ فعل ہے جس سے صرف کسی شخص کی خالت کا پتہ چلے۔ اس کا کوئی کام ظاہر نہ ہو۔ مثلاً:-وہ بیمار تھا، میں خوش ہوں، ہم اگلے اتوار کو یہاں ھونگے۔ ان جملوں میں تھا، ہوں اور ہونگے فعل ناقص ہیں۔ ٢ فعل تام:-وہ فعل ہے جس سے کسی اسم کے کام کرنے کا پتہ لگے۔ مثلا:-شام اسکول گیا تھا،ہم رات کو سوتے ہیں،وہ تھوڑی دیر کے بعد کھانا کھائے گا۔ (٣) حرف: حرف وہ کلمہ ہے جو جملے میں دوسرے کلمات کو باہم ملانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:-خدا نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کیا، اس آم کا ذائقہ کھٹا ہے،اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو،اس نے بڑی محنت کی لیکن کامیاب نہ ہوا، ان اُوپر کی مثالوں میں اور ،کو ،کا ،کے ساتھ، لیکن، ایسے کلمات ہیں جو نہ اسم ہیں، نہ صفت، نہ ضمیر ،نہ فعل بلکہ ایسے کلمات ہیں جو اجزائے کلام کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہیں ایسے کلمات کو حرف کہتے ہیں۔ (٤) صفت: صفت وہ کلمہ ہے جس سے ظاہر ہو کہ کوئی چیز یا شخص کس طرح کا ہے۔یہ ظاہر نہ ہو کہ وہ کام کیا کرتا ہے۔یعنی صفت کسی اسم کی صرف خوبی یا بدی بیان کرتی ہے۔ مثلا:-عقلمند آدمی وقت ضائع نہیں کرتا،محنتی شخص بھوکا نہیں مرتا،مجھے ہرا رنگ پسند ہے۔ اُوپر کے جملوں میں:’عقلمند،محنتی،ہرا ‘ ایسے کلمے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ آدمی ،شخص ،اور رنگ کس طرح کے ہیں۔اس قسم کے کلموں کو صفت کہتے ہیں اور جس کی صفت کی جائے اسے موصوف کہتے ہیں۔ (٥) متعلق فعل: متعلق فعل وہ کلمہ ہے جو فعل یا کام کرنے سے متعلق کچھ بتائے۔ مثلا:-اچھا لڑکا خوب کام کرتا ہے،اشرف اچانک راستہ بھول گیا، ان جملوں میں ‘خوب ‘اور ‘اچانک’ ایسے کلمے ہیں جو فعل یا کام کرنے سے متعلق کچھ بتاتے ہیں یعنی کام کیسے ہوا ۔ایسے کلموں کو متعلق فعل کہتے ہیں۔ (٦) ضمیر: ضمیر وہ کلمہ ہے جو کسی اسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔ مثلا:- شام نے علی کو دیکھا کہ وہ دھوپ میں بیٹھا ہے ۔شام آگے بڑھا اور اس سے کہا کہ میں آ گیا ہوں۔کوئی خدمت فرمائیں۔علی نے جواب دیا۔”تو میرے آگے سے ہٹ جا”۔ اوپر کے جملوں میں وہ، اسے ،میں، اور میرے، ایسے کلمے ہیں جو کسی اسم کی بجائے استعمال کیے گئے ہیں۔”وہ” علی کی جگہ، “اسے”بھی علی کی بجائے “میں” شام کی جگہ ، “میرے” بھی علی کی جگہ استعمال ہوئے ہیں. جو کسی اسم کی جگہ استعمال کیا جائے اسے ضمیر کہتے ہیں. اور جس اسم کی بجاۓ ضمیر استعمال کی جائے اسے مرجع کہتے ہیں. اسم مختلف کی اقسام اسم کی کئی لحاظ سے مختلف اقسام ہیں۔ معنوں کے لحاظ سے اسم کی قسمیں معنوں کےلحاظ سےاسم کی دو قسمیں ہیں۔ (١) اسم معرفہ ( ٢ ) اسم نکرہ (١) اسم معرفہ: اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص شخص، خاص جگہ یا خاص چیز وغیرہ کا نام ہو۔اسم معرفہ کو اسم خاص بھی کہا جاتا ہے۔ مثلا:- سید علی گیلانی، مولانا عمرفاروق، دہلی،آسٹریلیا،مسجدالحرام،راجستھان وغیرہ۔ (٢ ) اسم نکرہ: اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی عام شخص، عام جگہ، عام چیز ،کے نام کو ظاہر کرے۔اسم نکرہ کو اسم عام بھی کہا جاتا ہے۔ مثلاً:- قلم، طالب علم ،ڈاکٹر، گائے، دریا، پہاڑ ،چاقو، گھڑی، مدرسہ، مسجد وغیرہ۔ جنس کے لحاظ سے اسم کی دو قسمیں ہیں (١) مذکر (٢ ) مونث (١) مذکر: مذکر وہ اسم ہے جو نر کے لیے بولا جائے۔ یعنی نر جنس والے اسم کو مزکر کہتے ہیں۔ مثلاً:- مرد، بادشاہ ،بیٹا ،نوکر ،ہاتھی، نانا، لوہار، اونٹ وغیرہ۔ (٢ )مونث: مونث وہ اسم ہے جو مادہ کے لئے بولا جائے۔یعنی مادہ جنس والے اسم کو مونث کہتے ہیں۔ مثلاً:- عورت، بہن، بیٹی، نوکرانی، نانی لوہارن، اونٹنی،وغیرہ۔ گنتی کے لحاظ سے اسم کی دو قسمیں ہیں (١) واحد ( ٢) جمع (١) واحد: معہد وہ اسم ہے جو کسی اسم کے صرف ایک عدد کو ظاہر کرے۔ مثلاً:- مکان ،طوطا، دوا، مدرسہ، مسجد ،وغیرہ (٢) جمع: جمع وہ اسم ہے جو کسی اسم کے ایک سے زیادہ تعداد کو ظاہر کرے۔ مثلاً:- مکانات تخائف، ادویہ ، مدارس ،مساجد، وغیرہ۔ جمع الجمع: جمع الجمع اس اسم کو کہتے ہیں جو جمع کا جمع ہو۔ مثلاً:- ادویات، مکانات،صحابیات ،وغیرہ۔ اسم جمع:-– اسم جمع وہ اسم ہے جو کسی گروہ یا مجموعہ کو ظاہر کرے۔اسم جمع واحد بولاجاتاھے جمع نہیں۔ مثلاً:- فوج، ریوڑ وغیرہ بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی تین قسمیں ہیں (١) اسم جامد (٢) اسم مصدر (٣) اسم مشتق (١) اسم جامد: اسم جامد وہ اسم ہے جو نہ کسی کام کا نام ہو، نہ خود کسی مصدر سے بنا ہو اور نہ ہی اس سے اور کلمے بن سکتے ہوں۔ مثلا:- پتھر ،چونا ،میز، کتاب ،قلم وغیرہ۔ (٢ ) اسم مصدر: اسم مصدر وہ اسم ہے جو کسی کام کے نام کو زمانہ کے تعلق کے بغیر ظاہر کرے. ایسے اسم خود کسی کلمے سے نہیں بنتے ہیں لیکن ان سے بہت سے کلمے بنتے ہیں۔ان اسموں کے آخر میں ‘نا’ ہوتا ہے۔ مثلا:- لکھنا ،سمجھنا ،سکھانا ،تیرنا، اڑنا ،دھونا، کھانا، پینا وغیرہ۔ (٣) اسم مشتق: اسم مشتق وہ اسم ہے جو کسی مصدر سے بنا ہو۔مثلا پکڑنا سے پکڑ، پکڑنے والا وغیرہ۔لکھنے سے لکھائی، لکھنے والا ،لکھا ہوا وغیرہ۔ آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں: (١ )حامد، دوات ،درخت ،میز۔ (٢) جانا، نکلنا، پڑھنا،کھانا ،بولنا۔ (٣) پڑھنے والا، کھانےوالا ،بولنے والا، پڑھائی، بول۔ نمبر ١ میں حامد، دوات، درخت، اور میز ایسے اسم ہیں جو نہ تو کسی اور کلمے سے بنے ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی اور کلمۂ منفرد بن سکتا ہے ایسے اسم، اسم جامد کہلاتے ہیں۔ نمبر ٢ میں میں جانا، نکلنا، پڑھنا، اور بولنا ایسے اسم ہیں جو خود تو کسی لفظ سے نہیں بنے مگر ان سے اور کلمے بنائے جاتے ہیں ۔مثلا۔: جانا، سے جاتا ہے،جائے گا،جانوروں ایسے اسم ہیں جن سے اور کلمے بنائے جائیں۔ایسے اسم، اسم مصدر کہلاتے ہیں۔ نمبر ٣ میں پڑھنے والا ،کھانے والا ،اور بولنے والا، پڑھائی اور بول ایسے اسم ہیں جو پڑھنا ،کھانا اور بولنا مصدروں سے بنے ہیں۔ایسے اسم جو مصدر سے بنائے جائیں، اسم مشتق کہلاتے ہیں۔مصدر سے فعل بھی بنائے جاتے ہیں. اسم نکرہ کی اقسام اسم نکرہ: اسم نکرہ معنوں کے لحاظ سے اسم کی وہ قسم ہے جو کسی عام شخص، عام جگہ، چیز کے نام کو ظاہر کرے۔ مثلاً:– چاقو ، رکاوٹ ، لڑکا ، مدرسہ، معبود، ریوارڈ، سلائی وغیرہ اسم نکرہ کی آٹھ قسمیں ہیں: ( ١) اسم ذات (٢) اسم مصدر (٣) حاصل مصدر (٤) اسم فاعل (٥) اسم مفعول (٦) اسم جمع (٧) اسم معاوضہ (٨) اسم حالیہ (١) اسم ذات: اسم ذات وہ اسم ہے جو کسی چیز کا ذاتی نام ہو۔یہ نام اس چیز کو دوسری چیزوں سے الگ دکھاتا ہے۔یہ اسم ایک چیز کی حقیقت دوسری چیز کی حقیقت سے فرق ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً:– گھوڑا چلاک جانور ہے، بلی میاؤں میاؤں کرتی ہے، کتاب، قلم، پنسل، سلیٹ، تختی بازار سے خرید و، گائے دودھ دیتی ہے۔ اُوپر کی مثالوں میں گھوڑا ، بلی، گائے، کتاب، قلم، پنسل، سلیٹ، تختی، ہر ایک چیز دوسری ذات سے جدا ہے۔ ہر ایک چیز کا نام الگ لیتے ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے جدا ہے۔یعنی جنس اور ذات کے لحاظ سے یہ چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ایسے اسم، اسم ذات کہلاتے ہیں۔ (٢) اسم مصدر: اسم مصدر وہ اسم ہے جو کسی کام کے کرنے یا ہونے کے نام کو بلا تعلق زمانہ ظاہر کرے۔ مثلاً:– لکھنا، کرنا، توڑنا ، پڑھنا، گرانا ، لڑنا، سلنا، دھونا، ہنسنا وغیرہ۔کام کے نام کو اسم مصدر کہتے ہیں۔ اسم مصدر کے آخر میں’ نا ‘ہوتا ہوتا ہے۔مگر ہر وہ لفظ جس کے آخر میں’ نا ‘ ہو کسی کام کے نام کو ظاہر کرے اور اگر’ نا ‘ گرایا جائے تو فعل امر بن جائے۔مثلا لکھنا اسم مصدر ہے کیونکہ یہ لفظ کسی کام کے نام کو ظاہر کرتا ہے اور اگر اس کا ‘نا’ گرایا جائے تو یہ لفظ لکھ بنتا ہے جو فعل امر ہے۔ مگر چونا اسم مصدر نہیں ہے اگرچہ اس کے آخر میں ‘نا’ ہے کیونکہ یہ لفظ کسی کام کے نام کو ظاہر نہیں کرتا ہے اور اگر اس کا ‘نا’ گرایا جائے تو یہ فعل امر نہیں بنتا ہے۔ لہذا چونا اسم ذات ہے اسم مصدر نہیں۔ (٣) حاصل مصدر: حاصل مصدر وہ اسم ہے جس میں مصدر کی کیفیت یا اثر پایا جائے۔ یہ اسم مصدر سے حاصل ہوتے ہیں یا بنتے ہیں۔ مثلاً:- ہنسی، جگڑا، لوٹ، بگاڑ ، بکری۔ دیکھو اُوپر کے الفاظ سب حاصل مصدر ہیں اور ہنسنا، جھگڑنا، بگاڑنا ، لوٹنا ، بکنا مصدروں سے بنائے گئے ہیں۔ایسے اسمون کو حاصل مصدر کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ مصادر کے کیف اور اثر کو ظاہر کرتے ہیں۔ (٤) اسم فاعل: وہ اسم ہے جو اس کام کرنے والے کو ظاہر کرے جو مصدر سے نکلا ہو۔ مثلاً:- لکھنے والا، پڑھنے والا، پینے والا، دوڑنے والا، کھانے والا،‌۔ ان کلموں میں لکھنے والا اس شخص کو ظاہر کرتا ہے جس سے لکھنے کا کام وقوع میں آیا ۔یعنی جو لکھے اسی طرح پڑھنے والا اس کو جو پڑھے، دوڑنے والا اس کو جو دوڑے، کھانے والا جو کھائے، پینے والا جو پیے اور یہ وہ کام ہیں جوان مصدروں کے معنوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے اسم اسم فاعل کہلاتے ہیں۔ (٥) اسم مفعول: اسم مفعول وہ اسم نکرہ ہے جو اس بات کو ظاہر کرے جس پر کام (فعل) واقع ہوا ہو اسم مفہول بھی مصدر سے مشتق (نکلا ہوا) ہوتا ہے۔ مثلاً:- لکھا ہوا، پڑھا ہوا، دھویا ہوا ، ٹوٹا ہوا، مجبور، محکوم، مظلوم، وغیرہ یہ سب اسماء مفعول مصدروں سے نکلے ہیں۔ (٦) اسم جمع: اسم جمع وہ اسم نکرہ ہے جو کسی مجموعہ یا گروہ کے نام کو ظاہر کرے اسم جمع واحد ہی استعمال ہوتا ہے اگرچہ معنی کے لحاظ سے جمع ہی ہو۔ مثلاً:- محفل، جماعت، گچھا، ریوڑ وغیرہ۔ (٧) اسم معاوضہ: اسم معاوضہ وہ اسم نکرہ ہے جو کسی کام کی اجرت یا معاوضہ کو ظاہر کرے۔ اسم معاوضہ مصدر سے نکلا ہوتا ہے۔ مثلاً:- رنگائ، سلائی، دھولای ، کٹائی، بنوائی وغیرہ۔یہ اسم بلترتیب ان مصدروں سے نکلے ہیں۔رنگنا، سینا ، دھونا، کٹانا، بنانا۔ (8)اسم حالیہ: اسم حالیہ وہ اسم نکرہ ہے جو فاعل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔ مثلاً:وہ لڑکا ہستے ہوئے چل رہا تھا، آپ کھیلتے کھیلتے گر گئے، ان جملوں میں روتے ہوئے، ہنست ہوئے اور کھیلتے کھیلتے اسماۓ حالیہ ہیں. اسم معرفہ کی اقسام اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں: (١) اسم علم ( ٢) اسم ضمیر ( ٣) اسم اشارہ (٤)اسم موصول (١) اسم علم: اسم علم وہ خاص نام ہے جس سے کوئی شخص ، یا جگہ یا چیز مشہور ہو۔ مثلاً:- علامہ اقبال، کوہ طور، تاج محل، سرسید احمد خان،وغیرہ عبدالحق دسویں جماعت میں پڑھتا ہے۔سرینگر جہلم کے کنارے آباد ہے۔پیرپنجال کشمیر کا پہاڑ ہے۔ اوپر کے فقروں میں عبدالحق ایک لڑکے کا نام ہے۔سرینگر ایک خاص مشہورشہر ہے۔جہلم ایک خاص دریا کا نام ہے۔پیرپنجال کشمیر کا خاص پہاڑ ہے۔یہ وہ نام ہے جن سے مقرر جگہیں اور چیزیں ہی پکاری جاتی ہیں۔ایسے ناموں کو علم کہتے ہیں۔ (٢) اسم ضمیر: اسم ضمیر وہ کلمہ ہے جو کسی اسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔ مثلاً:- ماسٹر رفیق حسین ہمیں اردو پڑھاتا ہے۔وہ بہت محنتی ہے۔ہم اس کو پسند کرتے ہیں۔ ان جملوں میں۔وہ، ہم، اس، ہمیں، اسمائے ضمیر ہیں کیونکہ یہ اسموں کے بدلے استعمال ہوئے ہیں۔ (٣) اسم اشارہ: اسم اشارہ وہ کلمہ ہے جس سے کسی شخص یا جگہ یا چیز کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثلاً:- وہ پہاڑ، یہ میز، وہ دریا، یہ لڑکا وغیرہ۔ان کلمات میں ‘وہ’ اور ‘یہ’ اسماء اشارہ ہیں ۔قریب کے اشارے کے لیے “یہ” اور بعید کے لیے “وہ” کے الفاظ ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے۔ مشار الیہ: جس شخص یا جگہ یا چیز کی طرف اشارہ کیا جائے اس سے مشارالیہ کہا جاتا ہے۔اُوپر کی مثالوں میں پہاڑ ،میز ،دریا ،لڑکا، مشارالیہ ہیں۔ ٤ اسم موصول: وہ اسم ہے جس کے ساتھ جب تک کوئی دوسرا جملہ نہ ملایا جائے تو پورا معنی نہیں دیتا۔ مثلاً:- جو محنت کرتا ہے عزت پاتا ہے۔ آپ جو کچھ کرتےہیں ٹھیک ہے۔ جونہی ہم سکول پہنچے گھنٹی بج گئی۔ ان جملوں میں جو، جو کچھ، جو نہی اسماء موصول ہیں۔ صلہ: جو جملہ اسم موصول کے بعد آتا ہے اسے صلہ کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا مثالوں میں عزت پاتا ہے، ٹھیک ہے، گھنٹی بج گئی، صلہ ہیں. اسم علم کی اقسام اسم علم کی پانچ قسمیں ہیں: (١) خطاب (٢) لقب ‌ (٣) عرف (٤) کنیت (٥) تخلص (١) خطاب: وہ وصفی نام ہے جو کسی شخص کو حکومت کی طرف سے عزت افزائی کے لیے دیا جاتا ہے۔اور وہ پھر اسی نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً:– سرسید احمد خان، سر محمد اقبال، شمس العلماء محمد حسین آزاد وغیرہ۔ ان مثالوں میں ‘سر’کاخطاب سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کو، کو ‘شمس العلماء’ کا خطاب محمد حسین آزاد کو ملا ہے۔’گیان پیٹھ’ رحمان راہی، ‘بھارت رتن’ کا خطاب بسم اللہ خان اور سچن ٹنڈولکر کو ، وغیرہ۔ (٢) لقب: لقب و وصفی نام ہے جو کسی خاص صفت کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہو جائے۔یہ وصفی نام لوگوں کی طرف سے مل جاتے ہیں۔ مثلاً:– ‘خلیل اللہ،’ لقب ہے حضرت ابراہیم علیہ سلام کا، اور ‘قائد اعظم’ لقب ہے محمدعلی جناح کا،’مہاتما’ لقب ہے گاندھی جی وغیرہ۔ حضرت موسی کلیم اللہ تھے،سید الشہداء جمعہ کے دن شہید ہوئے،خدا نے خلیل اللہ کو نمرود کی آگ سے بچایا۔ پہلی مثال میں حضرت موسی کو کلیم اللہ کہا گیا ہے۔،سید شہدا امام حسین کا نام ہے جو کربلا کے میدان میں شہید ہوئے،اسی طرح خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کا نام ہے جو خدا کے پیارے تھے۔پس ایسے نام جو خاص وصف کے باعث مشہور ہو جائیں ان کو لقب کہتے ہیں۔ (٣) عرف: وہ مختصر سا نام ہے جو محبت یا حقارت کی وجہ سے اپنوں اور پرایوں میں مشہور ہو جائے۔ مثلاً:- حسن علی عرف چھوٹے میاں۔میر عسکری عرف میر کلو۔عبدالرشید عرف جھنڈا اعلی درجے کا ادیب ہے۔کرتار سنگھ عرف دیالہ پان فروش ہے۔ اوپر کی مثالوں میں حسن علی، میر عسکری، عبدالرشید، کرتار سنگھ، اصلی نام ہیں۔اور چھوٹے میاں ، میر کلو ، جھنڈا،ویالہ یوں ہی مشہور ہوگئے ہیں۔ایسے نام عرف کہلاتے ہیں۔اکثر اوقات اصلی نام ہی بگڑ کر عرف ہو جاتا ہے۔ (٤) کنیت: کنیت کسی شخص کا وہ نام ہے جو باپ، یا ماں، یا بیٹے کی نسبت سے رکھا جاتا ہے اور پھر اسی نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً:- ابو حنیفہ، ابن عمر،ام سلیم، ابن مریم،ابوبکر۔ حقیقت میں یہ اہل عرب کا دستور ہے کہ اصلی نام کے علاوہ ایک اور نام بھی رکھتے ہیں جس میں مسمی‌ کا باپ یا بیٹا یا ماں یا بیٹی ہونا پایا جائے۔مگر ہندوستان میں میاں بیوی کا نام نہیں لیتا، بیوی میاں کا نام نہیں لیتی جب ان کے اولاد ہوتی ہے تو اس کے نام کی نسبت سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔جیسے قادر کی ماں، مجید کا باپ، بس یہی کنیت ہے۔ (٥) تخلص: یہ وہ مختصر نام ہے جو شعرا اپنے اشعار میں اپنے اصلی نام کے بدلے استعمال کرتے ہیں اور پھر اسی نام سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ مثلاً:- سر محمد اقبال اردو کے عظیم شاعر ہیں،محمد حسین آزاد محمد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے،عبدالرحمن راہی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں،عبدالصمد صاہب ہمارے محبوب استاد ہیں،غلام نبی فراق ایس ۔یی کالج کے پروفیسر ہیں۔ اُوپر کی مثالوں میں محمد اقبال ، محمد حسین، محمد ابراہیم، عبدالرحمن ، عبدالصمد، غلام نبی شاعروں کے نام ہیں ۔جنہوں نے اقبال، آزاد، ذوق، راہی، صاہب، اور فراق اپنے چھوٹے نام رکھے ہیں جن کو وہ اپنے شعروں میں لاتے ہیں۔انہی کو تخلص کہا جاتا ہے. اسم ذات: اسم ذات کسی چیز کا وہ نام ہے جس سے اس چیز کی حقیقت دوسری چیزوں سے الگ سمجھی جائے۔ مثلاً:– گھوڑا چالاک جانور ہے ، بلی میاؤں میاؤں کرتی ہے ،کتاب قلم، پنسل، سلیٹ ،تختی بازار سے خریدو ، گائے دودھ دیتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اُوپر کی مثالوں میں گھوڑا، بلی، گائے، کتاب، قلم، پنسل، سلیٹ، تختی، ہر ایک چیز دوسری ذات سے جدا جدا ہے۔ ہر ایک چیز کا نام الگ لیتے ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے جدا ہے۔ یعنی جنس اور ذات کے لحاظ سے یہ چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایسے اسم ،اسم ذات کہلاتے ہیں۔ اسم ذات کی چھ قسمیں ہیں: (١) اسم تصغیر (٢) اسم مکبر (٣) اسم آلہ (٤) اسم ظرف (٥) اسم صوت (٦) اسم جمع (١ ) اسم تصغیر: اسم تصغیر وہ اسم ہے جس کے معنوں میں چھوٹا پن پایا جائے۔ مثلاً:- ہمارا باغیچہ پھولوں سے سجا ہوا ہے۔ صندوقچہ میں کیا ہے۔ اُوپر کی مثالوں میں باغیچہ، صندوقچہ، ڈبیا، ڈھولک اور پیالی۔ سب چیزوں کے نام ہیں اور ان میں چھوٹای کے معنی پائے جاتے ہیں ایسے اسم، اسم تصغیر کہلاتے ہیں۔ (٢) اسم مکبر: اسم مکبر وہ اسم ہے جس کے معنوں میں کسی قسم کی بڑائی پائی جائے۔ مثلاً:- صدر کی سواری شہر میں سے جارہی ہے۔سر پر پگڑ بندھا ہوا ہے۔ ایک خادم چھتر کا سایہ کیے ساتھ جا رہا ہے۔ اوپر کی عبارت میں پکڑ میں پکڑی کی نسبت اور چھتر میں چھتری کی نسبت بڑائی پائی جاتی ہے ۔جس چیز کے نام میں اس چیز کی نسبت بڑائی پائی جائے اس سے اسم مکبر کہتے ہیں۔ Tanveer Awasia.
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD