Urdu Stories with Tanveer Kurd official stories.

5000 Words
تنزیلہ احمد قصبے سے دور پہاڑی علاقے میں عاقل نامی لڑکا اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔گیارہ سالہ عاقل پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کے والد پہاڑوں کو توڑ کر پتھر ملک کے مختلف حصوں میں بھیجنے والے ٹھیکے دار کے ساتھ کام کرتے تھے اور امی عورتوں کے لئے سلائی کڑھائی کرتیں اور یوں ان کی گزر بسر ہوتی۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر عاقل اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا تھا۔وہ سلائی اور کڑھائی کیے ہوئے کپڑے ماں کے بتانے پر خواتین کے گھروں میں پہنچا آتا۔اس کی امی کو باہر بھی نہ جانا پڑتا اور وقت کی بچت بھی ہو جاتی۔جو سامان ماں کو چاہیے ہوتا باہر سے وہ بھی خرید لاتا۔ ایک روز اسے کسی خاتون کے کپڑے دینے جانا پڑا،جن کا گھر کافی دور تھا۔جب وہ کپڑے دے کر واپسی کے لئے مڑا تو شام ہونے والی تھی۔ (جاری ہے) ناہموار سنسان پہاڑی راستے پر وہ چلا آرہا تھا کہ اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔اسے محسوس ہوا کہ آواز بڑے پتھر کے پاس سے آرہی ہے۔ ”کون ہے؟“کہتا وہ پتھر کے قریب پہنچا تو وہاں اپنے برابر ایک بہت خوب صورت بچے کو دیکھا جو اپنا پیر پکڑے کراہ رہا تھا۔اس کے پاؤں میں نوکیلا کانٹا چبھا تھا جس کی وجہ سے پاؤں میں سوجن ہو رہی تھی اور خون بھی رس رہا تھا۔ ”تم کون ہو؟یہاں کیسے آئے،یہ کانٹا کیسے چبھا؟“اسے دیکھتے ہی عاقل نے حیرانی سے کئی سوال پوچھ ڈالے۔ ”بہت تکلیف ہو رہی ہے،کانٹا نکالنے کی ہمت بھی نہیں۔کیا تم میری مدد کرو گے؟“بچے نے مدد مانگی تو وہ سر ہلاتے ہوئے اس کے پاؤں کے پاس جھکا۔ ”ارے وہ دیکھو،کتنا خوب صورت پتھر ہے۔“عاقل نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جیسے ہی بچے نے اُدھر دیکھا،عاقل نے جھٹ سے کانٹا نکال دیا۔ ”ارے کانٹا نکل گیا،میں ڈر رہا تھا کہ بہت تکلیف ہو گی،مگر تم نے تو کمال کر دیا۔ “بچے نے خوشی سے کہا۔عاقل مسکرایا اور اپنی کلائی پر لپیٹا رومال پھاڑ کر اس کے پاؤں میں پٹی بھی باندھ دی۔ ”بہت شکریہ دوست!میں تمہارا احسان مند رہوں گا۔شام ڈھل رہی ہے،اب ہمیں اپنے گھر جانا چاہیے۔“ ”ٹھیک ہے،مگر تمہارا گھر کہاں ہے؟تم نے اپنا نام بھی نہیں بتایا۔ “ ”میرا نام بنٹو ہے اور جنگل کے اُس پار ہمارا گھر ہے۔“بنٹو آہستگی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ ہلائے ہوئے مخالف سمت چلنے لگا۔عاقل بھی تیزی سے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔گھر پہنچا تو امی کو پریشان پایا۔انھوں نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عاقل نے سب سچ سچ بتا دیا۔ جس پر امی نے اسے بہت شاباشی دی۔ عاقل کے ابو رات میں تھکے ہارے گھر آئے تو بہت پریشان تھے۔بیوی کے پوچھنے پر وہ بولے کہ ٹھیکے دار عام پتھر بیچنے کی آڑ میں غیر قانونی طور پر قیمتی پتھر اسمگل کرتا تھا۔وہ پکڑا گیا اور کام کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اب پتا نہیں گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ دن گزرتے گئے۔سلائی کڑھائی سے کی گئی جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔اس روز ان کے گھر راشن نہیں تھا اور اتنے پیسے بھی نہیں کہ کچھ خریدا جا سکے ۔عاقل کی امی نے اسے کڑھائی والا کُرتا دیا کہ انہی خاتون کے گھر دے آؤ،تاکہ جو پیسے ملیں اس سے کھانے کا بندوبست ہو سکے۔ جب وہ کپڑے پہنچا کر آرہا تھا تو اسے بنٹو نظر آیا۔دونوں دوست باتیں کرنے لگے۔بنٹو نے پریشانی کی وجہ پوچھی۔پھر اسے ایک سنہری تھیلی دی کہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھنا،جب کوئی مسئلہ ہو تو سچے دل سے دعا کرنا اور اس میں سے ایک بیج نکال کر زمین میں دبا دینا۔ عاقل گھر پہنچا ماں کو پیسے دیے۔ابو دکان سے بن لے آئے اور انھوں نے شکر ادا کرکے بھوک کی شدت کم کی۔رات میں سونے سے پہلے عاقل نے دعا کی اور پھر تھیلی میں سے ایک چھوٹا سا بیج نکا ل کر گھر کے پچھلے حصے کی مٹی میں دبا دیا۔ اگلی صبح وہ دروازے پر تیز دستک سے جاگے۔ ”کون ہے؟“عاقل کے ابو نے پوچھا اور دروازے پر کھڑے اپنے ایک دوست کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ ”ایک بڑی کمپنی نے پہاڑوں کی کھدائی کا حکومت سے معاہدہ کیا ہے۔وہاں کے لوگوں نے تمہاری ایمانداری سے متاثر ہو کر تمہیں انچارج بنانے کے لئے کمپنی کے نمائندے سے کہہ دیا ہے۔ میرے ساتھ چلو،انھوں نے تمہیں بلایا ہے۔“دوست کے بتانے پر وہ کھل اُٹھے اور اس کے ساتھ چلے گئے۔عاقل اور اس کی امی بہت خوش ہوئے۔عاقل بھاگ کر گھر کے پچھلے حصے میں گیا اور وہاں ایک چھوٹا سا پودا لہلہاتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک روز اس نے دعا مانگی کہ ماں کے کام میں برکت ہو اور پھر بیج بو دیا۔اگلے روز اس بیج سے بھی پودا نکل آیا۔عاقل جب بھی کپڑے دینے پہاڑی پر جاتا تو واپسی پر وہاں ضرور رکتا،جہاں بنٹو سے ملاقات ہوئی تھی،مگر بنٹو نہ ملا۔وقت گزرنے کے ساتھ عاقل کے گھریلو حالات بہت بدل گئے تھے۔ اس نے سنہری تھیلی اور اس میں موجود بیج بہت سنبھال کر رکھے۔ وہ بنٹو کو کبھی نہیں بھولا تھا۔ایک رات اس نے ایک انوکھی خواہش کی اور بیج بو دیا۔ اگلے روز اپنے گھر میں بنٹو اور اس کے ساتھ ایک بہت خوبصورت خاتون کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بھاگ کر ان کے پاس گیا۔ ”تم کہاں کھو گئے تھے بنٹو!اتنے مہینے گزر گئے،مگر تم سے ملاقات نہیں ہوئی۔“ ”ہم یہاں سے چلے گئے تھے۔“بنٹو مسکرایا۔ ”کہاں چلے گئے،بتایا کیوں نہیں؟“ ”تمہاری نیکی اور رحم دلی سے متاثر ہو کر بنٹو تمہارا دوست بنا اور تمہیں جادوئی سنہری تھیلی اور بیج دیے۔ ہم انسان دوست ہیں،مگر عام انسانوں کے سامنے نہیں آتے۔اس وقت تمہاری خواہش پر ہمیں تم سے ملنے آنا پڑا۔“خاتون نے کہا تو وہ سب چونکے۔ ”امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔تم محنتی،اچھے اور رحم دل انسان ہو۔تم نے میری مدد کی اور میں نے تمہاری۔ اگر تم ایسی خواہش کرتے جو بُری ہوتی تو پودا نہ اُگتا اور نہ کبھی خواہش پوری ہوتی۔تمہاری خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہم تم سے ملنے پرستان سے آئے ہیں۔“ ”تو کک․․․․کیا آپ؟“عاقل نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں ہم انسان نہیں،میں پری زاد ہوں اور امی ملکہ پری ہیں۔ “ان کی بات سن کر عاقل بھونچکارہ گیا۔ ”اب ہمیں جانا ہو گا۔ہمیشہ اچھے کام کرنا،جھوٹ سے بچنا اور دوسروں کی مدد کرتے رہنا ورنہ سنہری تھیلی اور بیج غائب ہو جائیں گے۔اچھا دوست خدا حافظ!“بنٹو نے کہا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں غائب ہو گئے۔ بچوں اُس بھیڑ کے بچے کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی جو ندی پہ پانی پینے آیا تھا۔وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک بھیڑیا بھی پانی پی رہا تھا۔ابھی اس بچے نے چند گھونٹ ہی پیے تھے کہ بھیڑیا اس کی طرف آیا اور بولا ”تم پانی گندا کیوں کر رہے ہو․․․․؟دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔ “ بھیڑ کے بچے نے جسے میمنا بھی کہتے ہیں نے ڈرتے ہوئے کہا”جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے۔“ بھیڑیا گرج کر بولا”تم نے پچھلے سال مجھے بُرا بھلا کیوں کہا تھا․․․؟“ ”جناب پچھلے سال تو میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ میری عمر تو ابھی صرف چھ مہینے ہے۔“ ”پھر وہ تمہارا بھائی یا باپ ہو گا۔“بھیڑیے نے کہا اور میمنے پر حملہ کرکے اسے کھا گیا۔ لیکن بچو!یہ کہانی اُس میمنے کی نہیں اس کے چھوٹے بھائی کی ہے۔ (جاری ہے) وہ اکثر اپنی ماں سے اپنے بڑے بھائی کے بارے میں پوچھا کرتا تو اس کی ماں اسے یہ کہانی سناتی اور ساتھ ہی تاکید کرتی کہ ندی پہ پانی پینے نہ جانا۔ تو پھر میں کہاں پانی پیوں․․․․؟وہ پوچھتا۔یہاں تو صرف ایک ہی ندی ہے۔ تم اس وقت پانی پی لیا کرو جب بھیڑیا اور دوسرے بڑے جانور وہاں نہ آتے ہوں۔اس کی ماں کہتی۔ندی پہ پانی پینے جانور عموماً صبح اور شام کے وقت آتے تھے اس لئے میمنا دوپہر کے وقت پانی پی آتا۔ لیکن دوستو!کہتے ہیں کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔میمنے کا سامنا بھیڑیے سے ہونا تھا سو ہو کر رہا۔ہوا کچھ اس طرح کہ ایک دوپہر میمنا ندی پہ پانی پی رہا تھا کہ اسے دوسری طرف سے بھیڑیا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔میمنا سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔ تم پانی کیوں گندا کر رہے ہو․․․؟دیکھتے نہیں میں پانی پی رہا ہوں۔بھیڑیے نے حسب روایت چالاکی سے کہا۔لیکن جناب پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے۔میمنے نے کہا۔ تم نے پچھلے سال مجھے بُرا بھلا کیوں کہا تھا․․․․؟بھیڑیے نے پرانی چال چلی۔ ”جناب وہ میں نہیں ،میرا بڑا بھائی تھا اور آپ نے اس بے چارے کو کھا لیا تھا۔“میمنے نے ندی کے کنارے کی طرف کھسکتے ہوئے کہا۔ میں تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کروں گا۔بھیڑیے نے دانت نکالتے ہوئے کہا اور میمنے پر چھلانگ لگا دی۔ میمنا جلدی سے ایک طرف ہٹ گیا اور بھیڑیا اڑتا ہوا ندی میں جا گرا۔برسات کے دن تھے ندی بہت تیزی سے بہہ رہی تھی۔بھیڑیے نے تیر کر کنارے پر آنے کی بہت کوشش کی مگر پانی کا تیز بہاؤ اسے دور بہا لے گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا پانی میں ڈوب گیا۔ چھوٹا میمنا آرام سے چلتا اپنے گھر پہنچ گیا۔ ماں․․․․میں نے بھیڑیے کو پانی میں گرا دیا ہے۔اس نے اپنی ماں سے کہا اور پھر ساری روداد سنا دی۔ماں نے حیرت اور خوشی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر اپنے بہادر بیٹے کا منہ چوم لیا۔ عطرت بتول شام کا وقت تھا دیبا اور وکی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے ان کے پسندیدہ کارٹون شروع ہونے والے تھے ماما اور پاپا کسی رشتہ دار کی عیادت کے لئے گئے تھے اور دونوں کو سمجھا کر گئے تھے کہ لڑنا نہیں اور گھر سے باہر نہیں جانا،اب وہ دونوں مزے سے کارٹون دیکھ رہے تھے کہ اچانک لائٹ چلی گئی اور گھپ اندھیرا ہو گیا۔ دیبا اندھیرے سے بہت ڈرتی تھی وہ زور زور سے رونے لگی ڈر تو وکی کو بھی لگ رہا تھا لیکن وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ دیبا سے بڑا تھا۔وہ دیبا کو چپ بھی کروا رہا تھا اور ساتھ ماچس بھی ڈھونڈ رہا تھا تاکہ موم بتی جلا لے لیکن اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا دیبا روئے جا رہی تھی۔ اچانک انھیں اندھیرے میں کوئی چیز چمکتی نظر آئی دیبا خاموش ہو گئی وہ دونوں غور سے ادھر دیکھ رہے تھے انہیں محسوس ہوا کہ یہ سامنے شوکیس پر رکھی دیبا کی باربی ڈول کی آنکھیں ہیں جو چمک رہی تھیں،اچانک باربی ڈول جمپ لگا کر ان کے سامنے والے شیشے کے سینئر ٹیبل پر آگئی اس کے ہاتھ میں مائیک تھا جس میں وہ بہت سریلی آواز میں گانا گا رہی تھی مائیک سے روشنی نکل رہی تھی،دیبا اور وکی خوش ہو کر تالیاں بجانے لگے ان کا ڈر بالکل ختم ہو گیا تھا۔ (جاری ہے) جیسے ہی ڈول کا گانا ختم ہوا وکی کا کھلونا ڈرمر چھلانگ لگا کر آگیا اور ڈرم بجانے لگا اور ساتھ ہی مکی ماؤس بھی آگیا اب تو وکی اور دیبا بالکل بھول گئے کہ وہ اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔آہستہ آہستہ ان کے سارے کھلونے شوکیس سے باہر آگئے۔ اور ان کا دل بہلانے لگے پھر اچانک انھوں نے بانسری کی آواز سنی یہ آواز بہت خوبصورت تھی۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ جہاں سے آواز آرہی ہے وہیں چلے جائیں سب سے پہلے ڈول اُدھر مڑی جہاں سے آواز آرہی تھی اس کی چمکتی آنکھوں کی روشنی میں سارے کھلونے دیبا اور وکی سب اس کے پیچھے چلنے لگے سب ٹی وی لاؤنج سے باہر نکلے اور گیلری میں آگئے اور خوبصورت سریلی آواز پر چلتے ہوئے ماما پاپا کے بیڈ روم میں داخل ہو گئے وہاں ایک صوفے پر ایک بہت پیاری پری بیٹھی تھی وہی بانسری بجا رہی تھی پری نے بانسری بجاتے بجاتے بچوں کو بیڈ پر آنے کا اشارہ کیا دیبا اور وکی اپنے ماما پاپا کے بیڈ پر لیٹ گئے تو پری نے لوری شروع کر دی ایسی ہی لوری ماما ان کو سنا کر سلاتی تھیں اب وکی اور دیبا آہستہ آہستہ سو رہے تھے جب وہ گہری نیند میں چلے گئے تو سارے کھلونے بھی واپس شوکیس میں چلے گئے اور پری بھی شاید اب دوسرے بچوں کی مدد کرنے کے لئے اُڑ گئی تھی۔ ایک گھنٹے بعد گیٹ کا تالا کھلنے کی آواز آئی اور ماما پاپا گھر میں داخل ہوئے۔ماما بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی کیونکہ راستے میں ٹریفک ہونے کی وجہ سے انہیں کافی دیر ہو گئی تھی انھیں دیبا کا بہت فکر تھا کیونکہ وہ بہت چھوٹی تھی ابھی پلے گروپ میں تھی اور اندھیرے سے بہت ڈرتی تھی ماما کو جب ٹی وی لاؤنج میں بچے نظر نہیں آئے تو وہ بہت تیزی سے پورے گھر میں ڈھونڈ رہی تھیں پاپا موبائل فون کی ٹارچ آن کیے ساتھ تھے جب وہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے تو دیکھا دونوں بچے سو رہے تھے اسی وقت لائٹ آگئی ماما نے دیکھا کہ بچوں کے چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ ہے جیسے ان سے لوری سننے کے بعد ان کے چہرے پر ہوتی تھی۔ محمد احمد صدیقی،کراچی سیٹھ عرفان جلالی کپڑوں کے ایک بڑے تاجر تھے ان کے دو بیٹے تھے۔بلال اور عمار۔ان کی بیوی بہت پہلے انتقال کر چکی تھی۔ایک دن تین نقاب پوش عمار کو اغوا کرکے گاڑی میں ڈال کر ویران کوٹھی کی طرف لے گئے۔ چند منٹ بعد ہی عمار کو ایک بڑے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ سیٹھ عرفان جلالی کو اپنے بیٹے کی گمشدگی کی خبر ملی تو ان کے ہوش ہی اُڑ گئے۔آخر ان کے دو ہی تو بیٹے تھے۔صبح ہی اغوا کاروں نے فون کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ 30 لاکھ روپے کالی پہاڑی پر پہنچا دیے جائیں تو ان کو بیٹا واپس مل سکتا ہے،ورنہ اس کی لاش ہی ملے گی۔ سیٹھ عرفان نے کچھ سوچ کر انسپکٹر فرقان مرزا سے رابطہ کیا۔کچھ ہی دیر بعد فرقان مرزا پہنچ گئے۔سیٹھ عرفان نے تمام حالات شروع سے لے کر آخر تک سنا دیے اور بتایا کہ وہ اپنے دوست اطہر سے ملنے گیا تھا۔ (جاری ہے) اطہر کا پتا معلوم کرکے انسپکٹر فرقان ٹیم ساتھ لے کر اطہر کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اُدھر اغوا کار اپنے باس کو رپورٹ دے رہے تھے کہ جب وہ اپنے دوست کے گھر سے باہر نکل کر جیسے ہی وہ ٹیکسی کی طرف بڑھا،ہم نے اس پر قابو پا لیا۔ٹیکسی والے کو بھی بے ہوش کر دیا۔ ”ارے یہ کیا غضب کر دیا؟“باس چلایا۔ ٹیکسی والا ہوش میں آکر تمہارا حلیہ پولیس کو بتا دے گا۔ اب دوڑو اور ٹیکسی والے کو ختم کر دو۔وہ تینوں فوراً ہی باہر نکل گئے۔ انسپکٹر کو اطہر کا گھر تلاش کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔اسے دوست کے اغوا کے بارے میں بتایا گیا تو اطہر نے کہا کہ عمار اس کے پاس آیا تھا۔اطہر کے گھر سے وہ باہر نکلتے تو دو سپاہی دوڑتے ہوئے آئے:”سر!یہاں قریب ہی ایک ٹیکسی میں کوئی آدمی بے ہوش پڑا ہوا ہے، آپ چل کر دیکھ لیں۔ وہ ٹیکسی تک آئے تو دیکھا کہ وہاں ایک آدمی بے ہوش پڑا تھا۔انسپکٹر نے اسے ہوش میں لانے کی تدابیر شروع کر دی چند منٹ بعد ہی وہ ہوش میں آگیا۔معلومات حاصل کرنے پر نقاب پوشوں کا حلیہ پتا چل گیا۔وہ ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی حفاظت میں لے کر تھانے آگئے۔ تھانے میں سب مجرموں کی تصویریں اسے دکھائیں تو اس میں سے ایک کو اس نے پہچان لیا اس طرح مجرموں کے نام بھی پتا چل گئے۔ تمام کے تمام سزا یافتہ تھے۔سب انسپکٹر نے کہا آج کل ان کا ٹھکانا شہر کے جنوب کی طرف ہے۔ادھر ایک پتلی سی سڑک ہے آگے کالی پہاڑی ہے،جس کے قریب ایک کھنڈر نما مکان ہے۔ انسپکٹر فرقان اپنی ٹیم کے ساتھ اس پرانی کوٹھی تک پہنچ گئے اور مجرموں کو گرفتار کرکے تہ خانے سے عمار کو بھی برآمد کر لیا۔ رابعہ فاروق چچا چمن محلے کے سب سے کنجوس آدمی تھے۔ان کے گھر کوئی مہمان چلا جائے تو رسمی گفتگو کے بعد پوچھتے:”چائے تو نہیں پئیں گے نا؟ نقصان دہ ہے۔ہاں شربت تھوڑا گرم ہے،چلے گا کیا؟کیک،بسکٹ والی دوکان ابھی بند پڑی ہے کیا کروں؟سموسے والا تو ابھی تیل گرم کر رہا ہے۔ کافی وقت لگے گا۔آپ کہاں اتنی دیر بیٹھیں گے؟“وغیرہ وغیرہ۔مہمان بے چارہ یہ سن کر شرمندہ ہو جاتا۔ ایک دن دوپہر کو کسی فقیر نے ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔چچا چمن نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا:”کون ہے؟“ فقیر بولا:”بیٹا!مہربانی کرو،مجھے دس روپے دے دو میرے پاس سالن ہے روٹی لے کر کھا لوں گا۔ “ ”جاؤ،جاؤ،دفع ہو جاؤ،نہیں ہیں میرے پاس پیسے،پتا نہیں کہاں سے ایسے بے کار لوگ آجاتے ہیں مانگنے کے لئے۔ (جاری ہے) کھانے سے دل نہیں بھرتا۔“چچا چمن نے بے چارے فقیر کو خوب باتیں سنائیں۔فقیر مایوس ہو گیا۔آخر اس کی زبان سے بد دعا نکلی:”اللہ تجھے ہمیشہ کھانے سے دور رکھیے،تو بھی کچھ نہ کھا سکے۔ “اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔ چند روز بعد چچا چمن کے معدے میں شدید درد اُٹھا۔درد اتنا شدید تھا کہ وہ تڑپ تڑپ اُٹھے۔گھر والے ان کو اسپتال لے گئے۔اسپتال میں چچا چمن کے مختلف ٹیسٹ ہوئے۔آخر معدے کا السر شخیص ہوا۔ڈاکٹر نے ہدایت کی کہ دس پندرہ دن تک اسپتال میں رہنا ہو گا،تاکہ مکمل علاج معالجہ کیا جا سکے۔ اسپتال سے گھر واپس آئے تو کمزوری سے نڈھال تھے۔بہت بُرا حال تھا۔کوئی چیز ہضم نہ ہوتی۔دہی بھی کھاتے تو اُلٹی ہو جاتی۔ڈاکٹر کے پاس جاتے تو وہ کہتا بد پرہیزی کی ہے،ٹیسٹ کرواتے تو سب ٹھیک آتے۔دوا باقاعدگی سے استعمال کرنے کے باوجود طبیعت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔تھوڑا سا کھانے پر بھی اُلٹی ہو جاتی۔ چچا چمن کی راتوں کی نیند اُڑ چکی ہے۔اُن کو موت کا خوف ہونے لگا۔ایک رات سوچتے سوچتے انھیں نیند آگئی۔خواب میں دیکھا کہ پلاؤ کی دیگ کے قریب بیٹھے ہیں اور سب کو چاول بانٹ رہے ہیں۔ صبح اُٹھ کر چچا چمن نے گھر والوں کو اپنا خواب سنایا۔انھوں نے مشورہ دیا کہ غریبوں کو کھانا کھلائیں۔چچا چمن نے خیر و باورچی کو بلوایا اور اس سے پوچھا:”بیٹا پلاؤ کی دس کلو والی دیگ پر کتنا خرچ آجائے گا؟“ باورچی نے خرچ بتایا۔ چچا چمن دس کلو کی دیگ پر ہونے والے خرچ کا سن کر بڑے پریشان ہوئے،لیکن پھر سوچا کہ شاید خیرات کرنے سے میں ٹھیک ہو جاؤں۔انھوں نے اتوار کی ایک دوپہر کو یہ مشکل مرحلہ طے کر ہی لیا۔محلے کے نوجوانوں کی مدد سے محلے داروں اور غریب غربا میں چاولوں کی تقسیم ہوئی۔ چچا چمن اب کافی پُرسکون رہنے لگے،طبیعت بھی قدرے بہتر محسوس ہونے لگی،لیکن جب اس فقیر کا خیال آتا تو پھر وہی منحوس درد شروع ہو جاتا۔یونہی کئی دن بیت گئے۔ ایک شام کو کسی فقیر کی آواز آئی:”اللہ کے نام پر دے دو بابا!“ چچا چمن بھاگ کر گئے۔ وہی فقیر کھڑا تھا،جس نے انھیں بد دعا دی تھی۔چچا چمن اس کا بازو پکڑ کر اندر لے آئے۔فوراً ہی انھوں نے اپنے بڑے لڑکے کو ہوٹل سے کئی قسم کے کھانے لانے کے لئے دوڑایا۔کچھ ہی دیر میں لڑکا ہوٹل سے شامی کباب،بریانی،قورمہ،روٹیاں اور آئس کریم لے آیا۔چچا چمن اور فقیر نے پیٹ بھر کر کھایا۔جاتے وقت فقیر بہت خوش تھا۔ایک ہفتے علاج کے بعد چچا چمن مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔نذیر انبالوی احمد کو کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے امی ابو،دادا اور بڑے بھائی کے ساتھ ساتھ چچا ظہیر بھی کبھی کبھی اس کے لئے کہانیوں کی کتابیں لاتے رہتے تھے۔اس نے سب سے یہ کہہ رکھا تھا کہ امتحان میں کامیابی اور سالگرہ کے موقع پر اسے صرف کتابوں کا ہی تحفہ دیا جائے تو اسے زیادہ خوشی ہو گی۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر اسے لکھنے اور تقریر کرنے کا فن بھی آگیا تھا۔اسکول کے میگزین ”روشن مستقبل“ میں اس کی کہانی شائع ہوئی تو اس کی خوشی قابل دید تھی۔تقریری مقابلے میں جب اس نے اول درجہ حاصل کیا تو مارے خوشی کے اس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ اسکول میں پرنسپل اور اساتذہ اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔ (جاری ہے) ایک دن احمد حسب معمول اسکول سے پیدل گھر آرہا تھا کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار نے اس کے قریب آکر احمد کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:”تم احمد ہو۔ “ ”جی،جی میں احمد ہی ہوں۔“احمد نے فوراً جواب دیا۔ ”جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“نوجوان نے کہا۔ ”کیوں،میں کیوں تمہاری موٹر سائیکل پر بیٹھوں؟“احمد کے قدم تیزی سے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ”تمہارے ابو جان ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے ہیں،وہ اس وقت اسپتال میں ہیں،تمہارے گھر والوں نے مجھے تمہیں لانے کے لئے بھیجا ہے،وقت ضائع مت کرو،جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔“ ”میں تمہیں نہیں جانتا،میں اپنے گھر جاؤں گا۔ “احمد کسی صورت موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ”تم مجھے نہیں جانتے،مگر میں تو تمہیں جانتا ہوں،تمہارے ابو کا نام ارشد ہے،تمہارے دادا عبدالقیوم ہیں اور تمہارے بڑے بھائی کا نام احسن ہے،یہ سب بتانا کافی نہیں،آؤ اب موٹر سائیکل پر بیٹھ جاؤ۔ “نوجوان یہ کہتے ہوئے مسلسل اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ ”میں اس کے باوجود تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا،میں صرف اور صرف اپنے گھر جاؤں گا۔دادا جان اور امی جان سے ملوں گا۔جاؤ یہاں سے ورنہ میں شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر لوں گا۔ “احمد کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔نوجوان گھبرا سا گیا۔اسی گھبراہٹ میں وہ تیزی سے بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک راہ گیر سے ٹکرایا تو پل بھر میں وہاں ہنگامہ برپا ہو گیا۔احمد اس ہنگامے سے بے نیاز اپنے گھر کی طرف چلتا رہا۔وہ گھر میں داخل ہوا تو دادا جان کی مسکراہٹ نے اس کا استقبال کیا۔ احمد کی گھبراہٹ اور زرد چہرہ دیکھ کر دادا جان نے پوچھا:”احمد!کیا ہوا ہے؟“ ”وہ․․․․وہ․․․․ابو جان کہاں ہیں؟“احمد سے بات بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ”وہ اس وقت اپنے آفس میں ہیں،تھوڑی دیر پہلے میری ان سے بات ہوئی ہے۔ “دادا جان نے جواب دیا۔ ”تو پھر وہ نوجوان جھوٹ بول رہا تھا۔“ ”کون نوجوان؟“دادا جان کچھ سمجھ نہ سکے تھے۔ احمد نے سارا قصہ سنا کر پوچھا:”اسے ہمارے گھر والوں کے نام کیسے معلوم ہو گئے؟“ دادا جان نے اس کی حاضر دماغی کی داد دی اور بتایا:”ایک نوجوان لڑکے نے محلے کے دکان دار سے دوستی کر لی تھی۔ وہ گھنٹوں وہاں بیٹھا باتیں کرتا رہتا تھا۔میرا خیال ہے کہ وہ نوجوان وہی ہو گا اور یہ معلومات اسے دکان دار سے حاصل ہوئی ہوں گی۔“ احمد نے کہا:”میں نے چند دن پہلے ایک کہانی پڑھی تھی،جس میں ایک آدمی اسی طرح غلط بیانی کرکے بچوں کو اغوا کرتا ہے،جب نوجوان نے مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے کہا تو مجھے فوراً وہ کہانی یاد آگئی تھی،جس میں بچہ اس آدمی کی باتوں میں آجاتا ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتا ہے،نوجوان پھر اسے ایک کمرے میں بند کر دیتا ہے۔ بچہ رات تک کمرے میں بھوکا پیاسا بند رہتا۔تاوان کی رقم کے لئے اس کے والد سے رابطہ کیا گیا۔ایک دن بعد بچے کے والد نے مطلوبہ رقم دینے پر آمادگی ظاہر کی۔وقت اور جگہ کا تعین ہو گیا۔جب وہ رقم لے کر پہنچے تو پولیس کے اہلکار فقیروں کا روپ دھارے وہاں پہلے ہی موجود تھے۔ اغوا کرنے والے کو وہیں دھر لیا گیا۔شام تک بچہ اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔میں نے جب یہ کہانی پڑھی تو میں نے اس سے یہ سبق حاصل کیا تھا کہ بچوں کو ہر لمحے اپنے حواس بحال رکھنا چاہیے اور نہایت ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرنا چاہیے،تاکہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔“احمد بولتا چلا گیا۔ دادا نے کہا:”کہانیاں لکھنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچے اس سے کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کریں۔“ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر میں دو دوست رہتے تھے۔ ایک کا نام احمد تھا اور ایک کا نام شہریار۔ دونوں اچھی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن شہریار امیر تھا۔اس کے پاس بارہ مرغیاں تھیں جو سونے کا انڈا دیتی تھیں۔ احمد کو شہریار کی امیری پر حسد تھا۔ ایک دن احمد نے سوچا کہ کس طرح اس کی مرغیوں کو چرایا جائے تاکہ ایک دن وہ بھی اپنے دوست کی طرح امیر ہو جائے۔ پھر ایک دن احمد بہت ہمت اور کوشش کرکے شہریار کی ایک مرغی چرانے میں کامیاب ہوگیا۔ اگلے دن جب شہریار نے اپنی ایک مرغی غائب دیکھی تو بہت پریشان ہوا۔ اس نے اپنے اردگرد محلے کے لوگوں سے معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ شہریار کی مرغی کس نے چرائی ہے۔ اگلے روز رات کو پھر یہی ہوا اور اب شہریار کی بارہ میں سے دس مرغیاں رہ گئی تھیں۔ (جاری ہے) شہریار کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھر کے خاص کونے میں چھپ گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا دوست احمد ہی آدھی رات کو گھر میں گھس کر شہریار کی مرغیاں چراتا ہے۔ شہریار یہ دیکھ کر بہت حیران بھی ہوا اور مایوس بھی کہ اس کا اپنا دوست ہی اس کی خوشیوں میں ڈاکا ڈال رہا ہے۔ پھر کیا تھا شہریار چور کو پکڑنے میں کامیاب ہوگیا اور احمد کو اس کے جرم کی سزا ملی۔ احمد کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے گئے۔ احمد اپنی غلطی پر بہت نادم تھا اور شہر کے باقی لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کررہے تھے۔ پیارے بچوں! ہر ہاتھ ملانے والا شخص دوست نہیں ہوتا۔ محمد فرحان اشرف بطخ کا شمار پالتو پرندوں میں ہوتا ہے۔اسے دنیا بھر میں گوشت اور انڈوں کے لئے پالا جاتا ہے۔اس گروہ کے دیگر پرندے مرغابی اور ہنس ہیں۔دنیا میں بطخ کی 120 کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ ایسا پرندہ ہے جو اپنا زیادہ وقت پانی کے اندر گزارتا ہے۔اس کی کئی اقسام ہوا میں اُڑ سکتی ہیں۔گھروں میں پالی جانے والی بطخ زیادہ اونچا نہیں اُڑ سکتی۔بطخ کی سب سے اہم نشانی اس کی چوڑی چونچ ہوتی ہے۔اس کی چونچ میں دندانے ہوتے ہیں،جن کی مدد سے یہ مختلف چیزیں پکڑ سکتی ہے۔ چونچ میں دو چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں،جو اس کی ناک کا کام دیتے ہیں۔اس کی چونچ دشمن پر حملہ کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ اپنی چونچ سے اپنے پروں میں کنگھی کرتی ہے۔ (جاری ہے) جسامت اس پرندے کا وزن ایک سے ڈیڑھ کلو گرام اور جسم کی لمبائی چونچ سے دُم تک تقریباً دو فیٹ ہوتی ہے۔ بطخ کی گردن لمبی،ٹانگیں مضبوط اور پیر جھلی دار چوڑے ہوتے ہیں،جن کی مدد سے یہ پانی کے اندر تیرتی ہے۔بطخ کے پَر عام طور پر سفید اور سیاہ ہوتے ہیں،لیکن اس کی کئی اقسام کے پَر رنگین ہوتے ہیں۔بطخ کی اوسط عمر دس سال تک ہوتی ہے۔ یہ پرندہ براعظم انٹارکٹکا (Antarctica) کے علاوہ ہر براعظم میں پایا جاتا ہے۔اس کی کچھ اقسام قطب شمالی کی ٹھنڈی جھیلوں کے کنارے پائی جاتی ہیں۔بطخ گھاس پھونس،آبی پودے،چھوٹی مچھلیاں،کیڑے مکوڑے اور مینڈک وغیرہ کھاتی ہے۔اس کا انڈا مرغی کے انڈے سے بڑا ہوتا ہے۔ انڈے کی زردی سرخی مائل پیلی اور مرغی کے انڈے سے بڑی ہوتی ہے۔مرغی کے انڈے سے اس کے انڈے میں زیادہ مقدار میں غذائیت پائی جاتی ہے۔انڈے کا چھلکا مضبوط ہوتا ہے،جس کی وجہ سے یہ دیر تک محفوظ رہتا ہے۔برسات کے موسم میں مادہ بطخ پانی کے قریب گھونسلا بنا کر اس میں سات سے سولہ تک انڈے دیتی ہے۔ ان انڈوں سے 28 دنوں کے بعد بچے نکل آتے ہیں۔انڈوں سے نکلتے ہی بچے اپنی ماں کے ساتھ پانی میں تیرنے لگتے ہیں۔بطخ گھونسلا بنا کر اسے اپنے پَروں سے سجاتی ہے۔ بطخ کے کئی دشمن ہیں۔گہرے پانی میں تیرتے ہوئے مچھلیاں اسے شکار کر لیتی ہیں۔ بھیڑیا اور لومڑی اس کے بچوں کو موقع ملتے ہی کھا جاتے ہیں۔ڈک ہاک نامی عقاب بطخ کو شکار کر لیتا ہے۔انسانوں کی طرح بطخیں بھی آپس میں مل جل کر رہتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی رکھتی ہیں۔یہ پرندہ بہت جلد بیمار ہو جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے انسان اس پرندے کو پالتا آرہا ہے۔اہرام مصر کی دیواروں پر بھی اس کی تصاویر پائی گئی ہیں۔رومی لوگ انڈوں کے حصول کے لئے اسے پالتے تھے۔دنیا بھر میں بطخ کو پالنے کے بڑے بڑے فارم موجود ہیں۔بطخ کی فارمنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں لوک داستانوں میں اس پرندے کا ذکر ملتا ہے۔ کم گہرے پانی کی بطخ عام طور پر تالابوں،جھیلوں اور جوہڑوں کے کنارے رہتی ہے۔یہ پانی کی سطح پر تیرتی ہے اور وہیں سے خوراک حاصل کرتی ہے۔یہ خطرہ محسوس کرتے ہی اُڑ جاتی ہے۔ زیادہ گہرے پانی میں رہنے والی بطخ خوراک کے حصول کے لئے پانی کے اندر دس فیٹ تک غوطہ لگاتی ہے۔اس قسم کی ایک بطخ لمبی دُم والی بطخ کہلاتی ہے۔جو پانی کے اندر 200 فیٹ کی گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے۔پانی پر تیرتے ہوئے بھی یہ پانی میں بار بار غوطہ لگاتی رہتی ہے۔ ہیں۔ یہ ایسا پرندہ ہے جو اپنا زیادہ وقت پانی کے اندر گزارتا ہے۔اس کی کئی اقسام ہوا میں اُڑ سکتی ہیں۔گھروں میں پالی جانے والی بطخ زیادہ اونچا نہیں اُڑ سکتی۔بطخ کی سب سے اہم نشانی اس کی چوڑی چونچ ہوتی ہے۔اس کی چونچ میں دندانے ہوتے ہیں،جن کی مدد سے یہ مختلف چیزیں پکڑ سکتی ہے۔ چونچ میں دو چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں،جو اس کی ناک کا کام دیتے ہیں۔اس کی چونچ دشمن پر حملہ کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ اپنی چونچ سے اپنے پروں میں کنگھی کرتی ہے۔ (جاری ہے) جسامت اس پرندے کا وزن ایک سے ڈیڑھ کلو گرام اور جسم کی لمبائی چونچ سے دُم تک تقریباً دو فیٹ ہوتی ہے۔ بطخ کی گردن لمبی،ٹانگیں مضبوط اور پیر جھلی
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD