احمد نے جلدی سے دودھ کا گلاس پیا اور باہر بھاگا۔وہ اسکول میں ہونے والے کھیلوں کا شدت سے انتظار کر رہا تھا۔وہ اس سال ریس میں اول آنا چاہتا تھا۔وہ گزشتہ دو ماہ سے دوڑنے کی مشق کر رہا ہے۔اس کے والد بھی ایک انتہائی متحرک آدمی تھے۔ انھوں نے احمد کو مشورہ دیا کہ جیتنے کے لئے وہ روزانہ دوڑ لگایا کرے۔احمد خوش تھا کہ آہستہ آہستہ اس کی دوڑنے کی صلاحیت بہتر ہو رہی ہے۔ آج احمد اپنے دوست عرفان سے پہلے پارک پہنچ گیا اور جلدی سے دو چکر بھی کاٹ لیے۔تھوڑی دیر بعد عرفان بھی آگیا۔ دونوں دوستوں نے ایک ساتھ دوڑنا شروع کر دیا۔اچانک عرفان نیچے گر پڑا اور تیز سانسیں لینے لگا۔دونوں رک گئے۔ احمد:”عرفان!کیا ہوا؟“ عرفان:”مجھے کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔ (جاری ہے) مجھ میں مزید بھاگنے کی ہمت نہیں۔“ احمد:”عرفان!تم ریس میں کیسے شامل ہو گے۔ “ عرفان:”میں یہ جانتا ہوں،لیکن میں کیا کروں۔“ احمد:”اوہ!یہ آسان ہے۔میرے والد نے مجھے سب سمجھا دیا ہے،میں تمہیں سب بتاتا ہوں۔سب سے پہلے تمہیں اپنے وزن میں بہتری لانی ہو گی۔“ عرفان:”لیکن میرا وزن ٹھیک ہے۔ “ احمد:”تم دیکھنے میں تو ٹھیک نظر آتے ہو،لیکن تم کو اپنا BMI ضرور چیک کرنا چاہیے۔“ عرفان:”بی ایم آئی کیا ہے؟“ ”احمد:”یہ باڈی ماس انڈیکس (Body Mass Index) کا مخفف ہے۔اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپ اپنی عمر کے مطابق صحت مند ہیں یا نہیں۔ “ عرفان:”تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ احمد:”تمہیں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ ورزش بھی کرنی ہو گی۔پارک میں روزانہ آؤ اور کچھ کھیل مثلاً فٹ بال کھیلو۔“ عرفان:”اس سے کیا ہو گا؟“ احمد:”پیدل چلنے یا فٹ بال وغیرہ کھیلنے سے تمہارے پٹھے یعنی اعصاب مضبوط ہوں گے اور تم خود کو چست و توانا محسوس کرو گے۔ “ عرفان:”ٹھیک ہے،میں روزانہ فٹ بال کھیلنے کی کوشش کروں گا۔“ احمد:”یہ بہت اچھا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ صحت مند اور متوازن غذا بھی ضروری ہے۔جیسے تازہ سبزیاں اور پھل،جو ضروری وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہیں۔“ احمد نے بال اٹھاتے ہوئے کہا:”چلو،اب کھیلتے ہیں۔“ پیارے بچو!کھیل کود آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔روزانہ ورزش کریں اور اچھی غذا کھائیں۔
عبدالرحمن کسی جنگل میں ایک شیرنی رہتی تھی جس کے دو بچے تھے۔وہ اپنے دونوں بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔جب تک بچے چھوٹے تھے تب تک شیرنی روزانہ انہیں دوسرے جانوروں کا شکار کرکے لاتی اور خوب پیٹ بھر کر انہیں کھلاتی۔ پر جب بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو اس نے انہیں بھی شکار پر لے جانا چاہا تاکہ انہیں بھی شکار کرنا آئے۔بڑا بچہ فوراً تیار ہو گیا لیکن چھوٹا کہنے لگا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کچھ دنوں بعد چلوں گا۔آج نہیں کل وغیرہ جیسے بہانے بنانے لگا۔ بڑا بچہ ماں کے ساتھ شکار پر جانے لگا۔کچھ دن اور بیت گئے پر چھوٹا بچہ اب بھی شکار پر جانے کے لئے راضی نہ ہوا۔دراصل وہ بہت کاہل تھا۔وہ سوچتا تھا کہ جب بیٹھے بیٹھائے کھانے کو مل جاتا ہے تو میں محنت کیوں کروں۔ (جاری ہے) شیرنی اس کو بہت سمجھاتی کہ وہ شیر کا بچہ ہے اسے اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی ورنہ سستی اس کی عادت بن جائے گی۔ چھوٹا بچہ اپنی ماں کی نصیحت کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا۔وقت تیزی سے گزرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شیرنی کے دونوں بچے بڑے ہو گئے۔بڑا بچہ بہت پھرتیلا اور چست تھا اس کے برعکس چھوٹا بچہ سست اور نکما ہی رہا۔وہ اپنی ماں اور بڑے بھائی کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا۔ ایک دن جنگل میں شکاری آیا اور اس نے شیرنی کو اپنی گولی کا نشانہ بنا دیا۔بڑے بچے نے اس شکاری سے بدلہ لینے کی ٹھانی مگر شکاری جنگل میں غائب ہو چکا تھا۔بڑا بچہ اپنے بھائی کے پاس واپس آیا اور اس سے کہا کہ دیکھو بھائی ماں کے بعد تم میرے اپنے ہو ہماری اپنی کمزوری کے باعث جان گنوا بیٹھی۔ میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری سستی اور کاہلی تمہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔اس لئے اب تم سستی چھوڑو اور میرے ساتھ شکار پر جایا کرو۔یہ سن کر چھوٹا شیر غصے سے بھڑک اٹھا اور دھاڑ کر بولا تم مجھ سے حسد کرتے ہو۔میری پرواہ مت کرو۔مجھے خدا نے پیدا کیا ہے وہی میری حفاظت کرے گا وہی مجھے رزق دے گا۔ اس پر شیر بولا بے شک خدا رازق ہے اس نے سب کو پیدا کیا اور وہی سب کو رزق بھی دیتا ہے پر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تم محنت کرو اس کا پھل میں تمہیں دوں گا۔جب تم رزق کے لئے محنت نہیں کرو گے تو وہ تمہیں رزق کہاں سے دے گا؟اس پر چھوٹا شیر بولا مجھے یہ نصیحت دینے کی ضرورت نہیں۔ میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہوں۔“ اپنے چھوٹے بھائی کی اس ہٹ دھرمی پر بڑے شیر کو بہت دکھ ہوا اور وہ خاموش ہو کر چلا گیا۔دن گزرتے چلے گئے جب بھی وہ شکار کرتا اس کا حصہ اس تک پہنچا دیتا۔اور وہ بے حیائی کا لباس پہن کر اسے خوب مزے سے کھاتا۔ کچھ دن بعد بڑے شیر کے بیوی بچے ہو گئے اب اسے اپنے بچوں کو بھی کھلانا پڑتا تھا اور اپنے چھوٹے بھائی کو بھی پالنا پڑتا تھا۔چنانچہ کبھی کبھی اس کے ننھے ننھے بچے بھوکے رہ جاتے۔بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھ کر رفتہ رفتہ بڑے شیر نے اپنے چھوٹے بھائی کی بری عادتوں سے تنگ آکر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اب چھوٹا شیر بھوکا رہنے لگا۔وہ کھا کھا کر سست ہو گیا تھا۔شکار کی اس میں ہمت نہ تھی۔چھوٹے موٹے خرگوش گیدڑ اور لومڑی جیسے جانور گزرتے وہ انہیں ہڑپ کر جاتا۔پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتا گیا۔ایک دن بھوکا چوہا اس شیر کے پاس سے گزرا اس نے شیر کو مردہ سمجھا اور اس کے کان کتر کتر کر کھانے لگا۔ پیٹ بھر کر چوہا خوشی سے اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور انہیں خوشخبری سنائی وہ سب بھی نعرے لگاتے اس پر چڑھ گئے اور من چاہے حصے سے گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگے۔اس طرح یہ کمزور اور چھوٹی سی جنگل کی مخلوق جنگل کے بادشاہ کو عبرتناک انجام تک لے گئے۔سچ ہے۔ ”کاہل کا حشر ہمیشہ برا ہوتا ہے“
ریاض احمد آنکھ ابھی لگی ہی تھی تو ماں نے آواز دی اُٹھو بیٹا کام پر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رات پل بھر کی اور دن سو برس کا، لنگڑے کا ہوٹل چائے والا،چک چوالیس میں بڑا مشہور ہے۔ یہ ہوٹل سڑک کے چاروں طرف سے نظر آتا ہے۔اس ہوٹل میں لوگ بڑی بڑی دور سے چائے پینے آتے ہیں۔ہوٹل کا مالک بڑا ہنس مکھ ہے،اکثر رات 10 بجے کے بعد لوگوں کو یہ بزرگوں کے قصے کہانیاں سناتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ہوٹل کم چوپال کا منظر زیادہ نظر آتا ہے۔ علی کو سارا دن کبھی گاہکوں کی تو کبھی مالک کی جلی کنی سننی پڑتی ہیں۔علی کہتا ہے جب کام کرنا ہے تو پھر غصہ کیسا کبھی اِدھر سے آواز آئی تو کبھی اُدھر سے جی ہاں جی ہاں کہتے کہتے صبح سے شام ہو جاتی ہے پھر ایک نیا دن اس طرح شروع ہو جاتا۔ (جاری ہے) علی پوچھتا”صاحب جی اخبار میں کیا لکھا ہے“۔اور وہ کہتا ارے پہلے مجھے ٹھیک طرح سے تو پڑھ لینے دو،تمہیں بھی بتا دوں گا جاؤ جا کے چائے لاؤ۔سارا دن اس طرح کبھی کسی کو تو اور کبھی کسی کو اخبار میں لکھی ہوئی خبروں کو پوچھتا رہتا۔ اس طرح علی کا وقت گزرتا چلا گیا ،علی 10 برس سے 15 برس کا ہو گیا۔ایک دن رمضان سے قبل ہوٹل کے مالک نے علی کو آواز دی اور کہا”آج رمضان کا چاند نظر آگیا ہے،کل سے اپنا ہوٹل بند تم کوئی مہینے بھر کے لئے ہر سال کی طرح تم کوئی دوسرا کام تلاش کر لو“۔ یہ بات سن کر علی بہت پریشان ہو گیا،شام کو گھر آکر خاموشی سے رات کا کھانا کھائے بغیر سو گیا۔ صبح کو علی کی ماں نے اٹھنے کو کہا اور کہنے لگی کہ بیٹا سبھی کام کھانے پینے والے تھوڑی ہوتے ہیں،تم کہیں مزدوری کیوں نہیں کر لیتے۔ ماں کی یہ بات سن کر علی کی کچھ پریشانی کم ہوئی،سوچا ٹھیک ہے اس طرح گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا۔مزدوری کے لئے مزدوروں کے اڈے میں کھڑا ہو گیا،تھوڑی ہی دیر میں بڑی سی گاڑی میں سے ایک شخص اترا۔اس نے بہت پیار سے بلایا اور کہا بیٹا کام کرو گے۔ علی نے جواب دیا جی ہاں! صاحب جی کروں گا۔علی نے پوچھا”آپ مجھ سے کون سا کام کروائیں گے“۔ صاحب بولا میرے سکول کی دیوار ٹرک کی ٹکر سے ٹوٹ گئی ہے،مجھے ایک مزدور کی ضرورت ہے کیا تم چلو گے میرے ساتھ۔علی نے جب سکول نام سنا تو علی کی آنکھوں میں آنسو نکل پڑے اور گاڑی والا صاحب پوچھتا رہا تم مزدوری کے کتنے پیسے لو گے مگر وہ خوشی سے کچھ بھی منہ سے نہ بول سکا اور دو چار روز میں یہ کام ختم ہو گیا۔ سکول کے ہید ماسٹر صاحب نے بلایا اور مزدوری کے پیسے دیئے،ساتھ یہ بھی کہا بیٹا ہمارے سکول کا چوکیدار بیمار ہو گیا ہے اگر تم چاہو تو کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس چوکیدار کی نوکری کر سکتے ہو۔اس طرح تمہیں سکول میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ہماری ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔علی کے لئے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں علی نے سکول کے ماحول کو اپنا لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سی تبدیلی محسوس کی۔علی نے ایک دن ٹیچر سے کہا سر جی چھٹی کے بعد جب آپ دوسرے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں کیا میں بھی پڑھ سکتا ہوں۔ ٹیچر یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا علی بیٹا ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے تم چاہو تو بہت آگے جا سکتے ہو،اس طرح علی کا تعلیمی دور شرع ہو گیا۔اندر ہی اندر علی نے پڑھنا لکھنا شروع کر دیا۔سکول کی یہ نوکری علی کے لئے کامیاب ثابت ہوئی۔ وقت گزرتا چلا گیا اور علی پڑھتا چلا گیا۔آج علی کو اس سکول میں کام کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے ہیں۔یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا۔علی نے پرائیوٹ اکیڈمیوں میں پڑھ کر بی اے پاس کر چکا ہے۔علی ایک خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔آخر یہ موقع آہی گیا،ہیڈ ماسٹر صاحب نے علی کو آواز دی میرے لئے باہر سے اخبار لاؤ،علی کو بچپن ہی میں اخبار پڑھنے کا شوق تھا جب علی نے اخبار خریدا تو سب سے پہلے اندر کا صفحہ کھولا جہاں نوکریوں کے اشتہار پر علی کی نظر پڑی۔ اس میں سب سے بڑی نوکری گورنمنٹ کالج میں ہیڈ کلرک کی تھی۔علی یہ خبر پڑھ کر خوشی سے جھوم اٹھا اور دوڑا دوڑا آکر ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہنے لگا۔سر جی!آپ مجھے یہ ہیڈ کلرک کی نوکری دلوا دیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے ٹیچر علی کی یہ بات سن کر حیران ہو کر کھل کر ہنسنے لگے۔ علی کیا آج تم پاگل تو نہیں ہو گئے یہ نوکری تو بی اے پاس کی لکھی ہوئی ہے۔تم تو ایک معمولی چوکیدار ہو۔تم نے اتنا بڑا خواب کیسے دیکھ لیا۔علی نے جواب دیا سر جی!میں نے اس سکول میں بہت کچھ پایا ہے ،نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ پرائیوٹ اکیڈمیوں کے ذریعے سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ اس بات کا صرف ماسٹر غلام حسین کے سوا کسی اور کو علم نہیں۔ جی ہاں!ہیڈ ماسٹر صاحب علی نے جو کچھ بھی کہا وہ سب سچ ہے۔علی اب ایک چوکیدار نہیں بلکہ اس ملک کا عظیم شہری ہے جس پر جتنا بھی ناز کرو وہ کم ہے۔اس طرح علی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا چلا گیا مگر علی کہتا ہے لنگڑے کے ہوٹل کی چائے کا مزہ میں ابھی تک نہیں بھولا۔
سیدہ اقراء،اعجاز،حیدر آباد چمن پور نامی گاؤں میں ایک چھوٹی پیاری سی بچی آمنہ رہا کرتی تھی۔وہ بہت اچھی اور والدین کا احترام کرنے والی بچی تھی۔استادوں کی عزت کرتی تھی،لیکن اس کی ایک عادت بُری تھی کہ وہ بولتی بہت تھی۔ وہ بغیر رکے بولتی رہتی تھی۔والدین سمیت سب کو اس کی یہ عادت بُری لگتی تھی۔سب اسے سمجھاتے کہ کم بولا کرو،لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور تھی۔ ایک دن وہ اسکول جا رہی تھی کہ اسے راستے میں سفید رنگ کا ایک بہت خوبصورت خرگوش ملا۔ آمنہ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور اس سے باتیں کرتے کرتے وہ اسے اسکول لے آئی۔اس کے سارے ہم جماعت خرگوش کو دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوئے۔استانی صاحبہ کلاس میں داخل ہوئیں اور خرگوش کو دیکھ کر پوچھا:”یہ خرگوش کون لے کر آیا ہے؟“ آمنہ نے ڈرتے ڈرتے سارا واقعہ ٹیچر کو بتایا۔ (جاری ہے) ٹیچر نے کہا:”ٹھیک ہے آج تو لے آئی ہو،کل سے اسے گھر پر چھوڑ کر آنا۔“ یہ سن کر آمنہ نے اقرار میں سر ہلا دیا۔اسکول سے واپسی پر وہ اس سے باتیں کرتی جا رہی تھی کہ اچانک اُسے احساس ہوا کہ جس پگڈنڈی پر وہ چل رہی ہے وہ اس کے گھر کی طرف نہیں جاتی ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی وہ زور زور سے رونے لگی اور کہنے لگی اب میں واپس اپنے گھر کیسے جاؤں گی کہ اچانک وہ خرگوش ایک خوف ناک دیو بن گیا اور بولا:”آخر مجھے وہ بچی مل ہی گئی،جو بہت بولتی ہو۔اب میں تمہیں اپنے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گا۔ ان کی طبیعت بہت خراب ہے وہ تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوں گے۔“ یہ سن کر آمنہ بہت گھبرائی اور رونے لگی۔دیو نے اشارہ کیا تو فوراً ہی وہاں ایک بڑا صندوق آگیا۔دیو نے آمنہ کو صندوق میں ڈال کر تالا لگا دیا،جس میں سانس لینے کے لئے صرف ایک چھوٹا سا سوراخ تھا۔ دیو اسے اپنی دنیا میں لے کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا:”بادشاہ سلامت! آج آپ کے لئے میں ریڈیو لے کر آہی گیا۔“ دراصل بادشاہ نے دیو سے کئی دنوں پہلے کہا تھا:”میں نے سنا ہے کہ انسانوں کی دنیا میں ایک ریڈیو ہوتا ہے جو ہر وقت بولتا ہے“لیکن دیو یہ بات جانتا تھا کہ ریڈیو کے سگنل ان کی دنیا میں نہیں آتے،اس لئے وہ آمنہ کو لے آیا تھا اور اس نے آمنہ کو یہ بات پہلے ہی سمجھا دی تھی کہ تم بادشاہ کو ہر گز یہ بات نہیں بتاؤ گی کہ تم کوئی ریڈیو نہیں،بلکہ جیتی جاگتی انسان ہو۔ بادشاہ سلامت صندوق دیکھ کر بہت حیران ہوئے جس کے اندر آمنہ تھی۔بادشاہ نے کہا:”ریڈیو چلا کر دکھاؤ۔“ دیو نے حکم دیا:”ریڈیو بولو۔“ اور اندر سے آمنہ بولنے لگی۔بادشاہ سلامت بہت خوش ہوئے۔آمنہ ہر وقت بولتی رہتی اور بادشاہ سنتے رہتے۔ آخر آمنہ بولتے بولتے بھوک اور پیاس کی شدت سے بے ہوش ہو گئی۔بادشاہ سلامت نے دیو کو بلایا اور کہا:”یہ ریڈیو چلتے چلتے بند ہو گیا ہے۔“ دیو گھبرا گیا اور کہا:”کوئی بات نہیں بادشاہ سلامت!میں ابھی اسے ٹھیک کرکے لا دیتا ہوں۔ “دیو آمنہ کو اسی پگڈنڈی پر لے آیا،جہاں سے اس نے اسے اُٹھایا تھا۔اس نے صندوق کھولا تو دیکھا کہ آمنہ کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا رنگ پیلا ہو گیا تھا۔دیو نے پانی کے چھینٹے اس کے منہ پر مارے تو وہ ہوش میں آگئی۔دیو نے اسے کھانا کھلایا،پانی پلایا اور کہا کہ دوبارہ اس صندوق میں لیٹ جاؤ،لیکن آمنہ زور زور سے رونے لگی۔ اچانک اسے بستی کا ایک آدمی اپنی طرف آتا نظر آیا۔وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچی اور اس سے کہا:”دیکھو،وہ دیو مجھے اغوا کرنا چاہتا ہے۔“آدمی نے اس طرف دیکھا تو وہاں نہ کوئی دیو تھا اور نہ کوئی صندوق تھا۔اس آدمی نے اسے گھر تک پہنچا دیا۔اس واقعے کے بعد آمنہ بہت کم بولتی،یعنی صرف ضرورت کے وقت بات کرتی تھی۔اب سب اسے پہلے سے بھی زیادہ پیار کرنے لگے۔
ارسلان اللہ خان احسن بہت با ادب،تمیز دار اور نیک لڑکا تھا۔وہ اپنی جماعت میں ہمیشہ اول آتا تھا۔ان سب خوبیوں کے باوجود اُس میں بہت زیادہ بولنے کی خامی بھی تھی۔وہ جب ایک بار بولنا شروع کر دیتا تو اُس کو اس بات کا دھیان ہی نہ رہتا کہ وہ مسلسل بولے چلا جا رہا ہے۔ اُس کے دوست تو جیسے تیسے یہ سب برداشت کر لیتے،لیکن دوسرے لوگوں کو اُس کی توہین کا ایک بہترین موقع مل جاتا۔ایک دن ایک نئے اُستاد پڑھانے آئے۔انھوں نے تمام طلبہ سے اپنا اپنا تعارف کرانے کو کہا۔جب احسن کی باری آئی تو اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا کچھ شرارتی لڑکے کہنے لگے:”ارے سر!اس کو بولنے کی دعوت مت دیں۔ “ اُستاد نے کہا:”کیوں بھئی؟“ ”سر!یہ ایک بار بولنا شروع کر دے تو اس کو چپ کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے) “اور پھر پوری کلاس ہنسنے لگی۔احسن کے لئے یہ پہلا موقع تھا جب اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اُس نے کوشش کی کہ وہ خاموش رہنے لگے،لیکن اس کے لئے اپنی عادت پر قابو پانا مشکل تھا۔ آہستہ آہستہ احسن کا مذاق بننے لگا۔حالت یہ ہو گئی کہ وہ جیسے ہی بات کرتا لڑکے اِدھر اُدھر جانے لگتے۔اب تو اُس کے دوستوں نے بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ایک دن عصر کی نماز کے بعد احسن نے گڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی۔اُس کے بعد وہ مسجد کی دیوار سے ملے ہوئے باغ میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اُس مسجد میں ایک بہت بڑی عمر کے بزرگ بھی نماز پڑھتے تھے۔بزرگ اچانک احسن کے برابر میں آکر بیٹھ گئے۔اُس نے احسن سے کہا:”بیٹا!ہمت نہ ہارو۔“ احسن حیران رہ گیا کہ بزرگ کو اُس کی حالت کا کیسے پتا چلا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ میں نے تمہیں اللہ سے دعا کرتے دیکھا۔انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔جیسے میں کہتا ہوں،ویسے کرو۔یہ لو دو ہزار روپے اور آنکھیں بند کرو۔“ احسن حیران تھا کہ بظاہر مفلس نظر آنے والے یہ بزرگ اتنے پیسے دے رہے ہیں۔اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ ایک الگ ہی دُنیا میں پہنچ گیا۔اُس نے دیکھا کہ لوگ ایک لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔احسن نے قطار میں کھڑے ایک شخص سے پوچھا:” یہاں کیا مل رہا ہے۔“ آدمی نے جواب دیا:”بیٹا!یہاں الفاظ مل رہے ہیں۔ ایک روپے کا ایک لفظ ہے۔ “ ”الفاظ․․․․“بس یہی کہنا تھا کہ احسن کو ایسا لگا کہ اُس کی زبان اُس کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔وہ گونگا سا ہو گیا تھا۔اُس نے گھبراہٹ کے مارے جلدی سے دو ہزار روپے نکالے اور قطار میں کھڑا ہو گیا۔ اُس نے دو ہزار روپے کے دو ہزار الفاظ خرید لیے۔ دوسرے ہی لمحے اُس نے خود کو بزرگ کے پاس باغ میں پایا۔بزرگ نے کہا:” بیٹا! اب تمہارے پاس ایک دن کے لئے محض دو ہزار الفاظ ہیں۔ایک ایک لفظ تول کر بولنا۔اگر یہ الفاظ ختم ہو گئے تو تم بولنے کے قابل نہیں رہو گے۔“ احسن پریشان ہو گیا،لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ تمام تر کوشش کے باوجود احسن نے یہ دو ہزار الفاظ اسی رات ختم کر دیے۔اگلے دن اسکول میں چڑانے والوں کو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا جس کے نتیجے میں وہ مذاق اُڑا اُڑا کر خود ہی خاموش ہو گئے۔دوپہر کے وقت ہی احسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ بولنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔اللہ اللہ کرکے عصر کا وقت آیا اور نماز پڑھ کر وہ باغ میں اُسی بینچ پر بے صبری سے بزرگ کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد بزرگ بابا وہاں پہنچ گئے۔ ”کیسے ہو میرے بچے!دن کیسا گزرا تمہارا۔کہیں پریشان تو نہیں ہو گئے؟“ احسن کی آواز بحال تھی۔ اُس نے کہا:”بابا!یہ بہت مشکل کام ہے۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔“ درویش نے احسن کی مٹھی میں ایک ہزار کا نوٹ تھمایا اور آنکھیں بند کرنے کے لئے کہا۔ آنکھیں بند کرتے ہی احسن دوبارہ اُسی طلسماتی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ اُسے ایک ٹھیلے والا نظر آیا وہ آواز لگا رہا تھا:”الفاظ خرید لو․․․․الفاظ خرید لو․․․․الفاظ والا آگیا․․․․الفاظ والا آگیا․․․․“ لوگ یہ پکار سنتے ہی اُس کے گرد جمع ہونے لگے۔احسن نے بھی پھرتی دکھائی اور ایک ہزار الفاظ خرید لیے۔ وہ گھومتے گھومتے ایک گلی میں چلا گیا،جہاں دو آدمی باہم اُلجھ رہے تھے۔ابھی لڑائی بڑھ ہی رہی تھی کہ ایک شخص کے الفاظ ختم ہو گئے اور وہ خود بخود خاموش ہو گیا۔دوسرا شخص بھی سامنے والے کے خاموش ہوتے ہی ٹھنڈا پڑ گیا اور لڑائی ختم ہو گئی۔ اچانک اُس نے خود کو بزرگ کے پاس پایا۔ بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تمہارے پاس ایک ہزار الفاظ ہیں۔بہت زیادہ احتیاط کرنا ہو گی۔“ ”جی بابا!انشاء اللہ میں آپ کی بات پر پورا عمل کروں گا۔“ احسن نے اس بار بہت ہی احتیاط سے کام لیا اور جب اگلے دن وہ بزرگ کے پاس گیا تو اُس کے پاس دو سو الفاظ باقی تھے۔ بزرگ بابا بہت خوش ہوئے۔ احسن نے کہا:بابا!اب میرے اندر بہتری آرہی ہے۔میں اُسی وقت بولتا ہوں جب نہایت ضرورت ہوتی ہے۔تو اب میں آنکھیں بند کروں بابا؟“ ”ارے واہ میرے بچے!اب تمہاری منزل قریب ہے۔یہ لو پندرہ سو روپے۔ “ آج احسن کو طلسماتی دنیا بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔دلکش تالاب،سر سبز وادیاں،پانی کے جھرنے،خوبصورت پرندے۔احسن حیران رہ گیا۔ایسا حسین منظر کبھی اس کی نظروں سے نہیں گزرا تھا۔احسن نے ایک دکان سے پندرہ سو روپے کے پندرہ سو الفاظ خرید لیے۔ احسن نے سوچا کہ اگر ہر شخص اسی طرح اپنے الفاظ کی قدر کرے تو انسان کتنے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔اسی دوران اس کی آنکھ لگ گئی اور دوسرے ہی لمحے وہ باغ میں تھا۔بزرگ نے کہا:”بیٹا!اب تم اسی وقت میرے پاس آنا،جب یہ پندرہ سو الفاظ ختم ہو جائیں۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم انھیں ایک دن میں ختم کر لیتے ہو یا ایک ہفتہ چلا لیتے ہو۔“ احسن نے یہ پندرہ سو الفاظ دس دن چلا لیے۔اب وہ سمجھ چکا تھا کہ بزرگ نے کس بہترین طریقے سے اُس کی تربیت کی ہے۔اُس کی خاموشی کی بدولت اب اُس کا مذاق اُڑانے والے بھی تھک چکے تھے۔ اساتذہ بھی اُس سے خوش تھے اور پہلے سے زیادہ اُس کی تعریف کرتے تھے۔ دس دن بعد بزرگ نے احسن سے کہا:”بیٹا!اب تمہیں الفاظ خریدنے کی ضرورت نہیں۔تم بولنے کے آداب سمجھ گئے ہو۔میں دعا کروں گا کہ تم ہمیشہ کامیاب رہو۔احسن بہت خوش ہوا۔بزرگ نے اُسے گلے لگا لیا۔احسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایف ایچ فاروقی گاؤں میں ایک دھوبی تھا،جس نے ایک گدھا،ایک کتا اور ایک مرغا پال رکھا تھا۔دھوبی کے ساتھ جب گدھا گھاٹ پر جاتا تو کتا بھی اس کے ساتھ جاتا تھا۔گھاٹ پر پہنچ کر دھوبی گدھے کو ایک لمبی رسی سے باندھ دیتا۔ کتا گدھے کے قریب گھاس پر سو جاتا تھا۔ ایک دن مرغے نے کتے سے کہا:”تم دونوں آپس میں دوست ہو،مگر مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتے۔“ کتے نے جواب دیا:”تم بھی ہمارے دوست ہو ہم ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اور ہمارا مالک بھی ایک ہے۔ “ مرغے نے کہا:”تم گدھے کے ساتھ باہر جاتے ہو۔میں تمام دن گھر کے چھوٹے سے صحن میں گھومتا رہتا ہوں۔میرا دل بھی چاہتا ہے کہ تم دونوں کی طرح باہر جا کر سیر کروں اور دنیا کی رونق دیکھوں۔ (جاری ہے) “ کتے نے مرغے کو سمجھایا:”ہر جانور اور ہر انسان کا کام مختلف ہوتا ہے۔ گدھا بوجھ اُٹھاتا ہے۔میں تمام رات جاگ کر گھر کی رکھوالی کرتا ہوں، لیکن تم تمام دن سکون سے اِدھر اُدھر پھرتے ہو۔تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔“ مرغا کتے کی باتوں سے مطمئن نہ ہوا اور بولا:”کل میں تمہارے ساتھ گھاٹ پر جاؤں گا اور پھر ہم سب شام کو واپس گھر آجائیں گے۔ “ دوسرے دن جب دھوبی حسب معمول گدھے پر میلے کپڑے لاد کر چلنے لگا تو کتے کے ساتھ مرغا بھی چل پڑا۔دھوبی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے پیچھے آج مرغا بھی ان کے ساتھ گھاٹ پر جا رہا ہے۔ گھاٹ پر جا کر دھوبی حسب معمول کام پر لگ گیا اور گدھے کو ایک لمبی رسی سے باندھ دیا۔ کتا بھی خاموشی سے درخت کے سائے میں لیٹ گیا۔مرغا ٹہلتا ہوا ذرا دور نکل گیا۔ اچانک قریب ہی گھومتے ہوئے ایک آوارہ کتے نے جب مرغے کو دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس کتے نے مرغے پر حملہ کر دیا۔ مرغا چوکنا تھا،لہٰذا وہ فوراً چھلانگ لگا کر ایک دیوار پر چڑھ گیا۔ دھوبی کے کتے نے دیکھا کہ کوئی دوسرا کتا اس کے دوست مرغے کو پکڑنا چاہتا ہے تو اس نے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیا۔کتے کی آواز سن کر دھوبی بھاگا بھاگا آیا تو وہ حیران رہ گیا کہ آج ان کے ساتھ مرغا بھی آگیا ہے۔دھوبی کو بہت غصہ آیا۔ اس نے مرغے کو ایک ٹوکرے میں بند کر دیا۔گھر آکر اس نے بیوی کو نصیحت کی کہ اس مرغے کو ڈربے سے نہ نکلنے دینا۔ اس دن کے بعد مرغے کی گھر بھر میں پھرنے کی آزادی بھی ختم ہو گئی اور مرغا تمام دن ڈربے میں قید رہتا۔آخر ایک دن مرغے نے کتے سے کہا:”میں نے تمہاری بات پر عمل نہیں کیا تھا،اس لئے میری آزادی ختم ہو گئی ہے۔ اب تمام دن ڈربے میں قید رہتا ہوں۔“ کتے نے مرغے کو سمجھایا:”جو بھی دوسروں کے کام کو آسان اور اپنے کام کو بوجھ سمجھتا ہے،وہ ہمیشہ ناخوش رہتا ہے۔اپنا کام نہایت دل لگی اور محنت سے کرنا چاہیے۔دوسروں کے کام آسان اور فائدہ مند نظر آتے ہیں،مگر قدرت نے ہر ایک کے کام الگ الگ مقرر کر دیے ہیں۔“ مرغے نے کتے کا شکریہ ادا کیا اور عہد کیا کہ آئندہ وہ اپنے کام سے ہی کام رکھے گا۔
عارف مجید عارف خاور ایک علم دوست اور مہذب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ اس کے بڑے بہن بھائی بھی اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ گھر کے دیگر افراد کی طرح خاور کو بھی مطالعے کا شوق تھا۔ان کے گھر روزانہ اخبار کے علاوہ بڑوں اور بچوں کے معیاری رسائل بھی باقاعدگی سے آتے تھے۔مطالعے کی وجہ سے اس کا رجحان کہانیاں لکھنے کی طرف ہوا،تاکہ اسکول اور خاندان میں اس کا نام فخر سے لیا جا سکے اور وہ بھی اچھا ادیب کہلائے۔ اس خیال سے اس نے ایک چھوٹی کہانی لکھ ڈالی اور کسی کو بتائے بغیر بچوں کے ایک رسالے میں ارسال کر دی۔چار ماہ بعد ایک صبح جب اس نے تازہ شمارہ کھولا تو خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ (جاری ہے) اس کی پہلی تحریر رسالے کے نئے لکھنے والے ادیبوں کے حصے میں شامل تھی۔ اس نے فوراً اپنی یہ کاوش گھر والوں کو دکھائی۔ بڑے بھائی نے کہا:”کہانیاں لکھنا اچھی سرگرمی ہے،لیکن تعلیم سب سے افضل ہے،اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔“ ”بھائی جان!آپ بے فکر رہیں میں تعلیم پر پوری توجہ دوں گا،لیکن میں ایک بڑا ادیب بھی بننا چاہتا ہوں۔ “خاور کے لہجے میں ایک عزم تھا۔کچھ ہی عرصے میں اس کی کہانیاں باقاعدگی سے مختلف رسائل میں شائع ہونے لگیں۔اسکول،خاندان اور دوستوں میں اُسے تعریفی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ایک دن بھائی جان نے اس سے پوچھا:”خاور!تم نے آفاق اثری کا نام سنا ہے؟“ ”جی․․․․وہ تو بچوں کے بہت مشہور ادیب ہیں،بلکہ میرے پسندیدہ قلم کار ہیں۔ “ بھائی جان نے کہا:”وہ میرے ایک دوست کے عزیز ہیں اور قریب ہی رہتے ہیں۔اگر تم چاہو تو میں اپنے دوست سے بات کرکے تمہیں ان سے ملانے لے جاؤں گا۔“ اگلے ہی ہفتے خاور،بھائی جان اور ان کے دوست آفاق اثری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ اثری صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ خاور سے محبت سے ملے اور اس کی شائع شدہ کہانیوں پر بھی نظر ڈال کر بولے،یہ اچھا مشغلہ ہے صاحب کی عجیب سی کیفیت ہو گئی اور وہ ایک لمحے میں فیصلہ کرتے ہوئے بولے کہ جناب !یہ لڑکا چھوٹی موٹی فضول قسم کی کہانیاں لکھ لیتا ہے۔میں دل رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کر دیتا ہوں۔کبھی کبھار اصلاح بھی کر دیتا ہوں اور جس کہانی کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ تو میری اپنی تحریر ہے اور مجھے کچھ دنوں سے مل نہیں رہی تھی۔ اب سمجھا کہ خاور چرا کر لے گئے ہیں۔آپ ابھی اسے شائع نہ کریں۔ فون بند کرتے ہی آفاق اثری کا موڈ انتہائی بگڑ چکا تھا۔وہ غصے میں بڑبڑانے لگے کہ وہ کل کا بچہ اور مجھ پر فوقیت پاکر خاص کہانی کا درجہ بھی پائے اور سرورق کی زینت بھی ہو اور اس کے مقابلے میں میری کہانی اندرونی صفحات میں شامل ہو۔ انھوں نے خاور کو فون کیا اور کہا کہ ان کا اصلاح شدہ مسودہ بھی ساتھ لائے۔اس میں کچھ ترمیم اور اضافے کے بعد دوبارہ بھیج دیں گے۔خاور نے ان کو دعائیں دیتے ہوئے سوچا کہ اثری صاحب کو اس کا اتنا خیال ہے کہ کہانی کو مزید بہتر کر رہے ہیں۔ چند روز بعد خاور کو رسالے کی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔اس نے بے تابی سے لفافہ چاک کیا۔جوں جوں وہ خط پڑھتا گیا۔اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ رسالے کے مدیر نے نرم الفاظ میں خاور کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک مشہور ادیب کی کہانی نقل کرکے اپنے نام سے بھیج دی۔ یہ ادبی چوری ہے۔آپ اپنی سزا خود ہی تجویز کر لیجیے۔خاور نے جو آفاق اثری کا پیکر تراشا تھا وہ یکایک ٹوٹ گیا۔خاور نے اسی وقت ایک چیلنج کے طور پر عزم کیا کہ اب تعلیم کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھنے میں بھی اپنا مقام بنانا ہے۔اب میں یہ سب کچھ کرکے دکھاؤں گا۔خاور کی آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی۔