لیاقت مظہر باقری پیارے بچو!بہت سالوں کی بات ہے،ملک خراسان میں بخت شاہ کی حکومت تھی،جو بہت نیک اور رحم دل بادشاہ تھا۔اس کے برعکس،بخت شاہ کا وزیر،انتہائی مغرور اور بدمزاج شخص تھا۔وزیر بننے کے بعد قوت و اختیارات اور دولت کی ریل پیل نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر شخص کو حقیر سمجھتا تھا۔ ایک دن،بادشاہ بخت شاہ وزیر اور ان کا خاص ملازم سفر پر روانہ ہوئے۔وہ تینوں علیحدہ علیحدہ گھوڑوں پر سوار تھے۔جب وہ ایک صحرا سے گزرے تو اچانک انہیں ریت کے طوفان نے گھیر لیا۔گرد و غبار کی وجہ سے انہیں راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن ملازم نے بادشاہ کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس کے ساتھ رہا جب کہ وزیر ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دیر بعد جب طوفان تھما تو وہ دونوں الگ الگ وزیر کو تلاش کرنے لگے۔ (جاری ہے) کافی دیر کی تلاش کے بعد ملازم کو ایک جھونپڑی نظر آئی۔جب وہ وہاں پہنچا تو اسے ایک اندھا فقیر بیٹھا دکھائی دیا۔ملازم نے اس سے انتہائی بدتمیزی سے پوچھا۔ ”اندھے،کیا تو نے اس طرف سے کسی گھوڑ سوار کے گزرنے کی آواز سنی ہے“؟ فقیر نے جواب دیا:”نہیں بھائی،مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیا۔“ملازم یہ سن کر آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وزیر بھی اپنے ساتھیوں کو تلاش کرتا ہوا اِدھر سے گزرا۔ جھونپڑی دیکھ کر وہ بھی رکا اور اس نے فقیر سے پوچھا:”او فقیر،کیا تم نے یہاں سے کسی آدمی کے گزرنے کی آوازیں سنی ہیں؟“۔اس نے وزیر کو بھی وہی جواب دیا جو ملازم کو دیا تھا،وزیر بھی وہاں سے آگے بڑھ گیا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بخت شاہ بھی اسی جھونپڑی کے پاس سے گزرا۔ فقیر کو دیکھ کر گھوڑے سے نیچے اُترا پہلے فقیر کو سلام کیا۔اس کے بعد انتہائی ادب سے پوچھا۔ ”شاہ صاحب’کیا آپ نے کسی گھوڑے کی آوازیں سنی ہیں“؟نابینا فقیر نے جواب دیا،”جی ہاں جہاں پناہ،پہلے حضور کا ملازم اِدھر سے گزرا پھر آپ کا وزیر“بادشاہ کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی،اس نے پوچھا،”شاہ صاحب؟آپ تو نابینا ہیں آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں بادشاہ ہوں۔ “اندھے فقیر نے مسکرا کر جواب دیا،”عالی جاہ“آپ کے ملازم نے مجھے اندھا کہا آپ کے وزیر نے مجھے فقیر کہا،حضور نے مجھے شاہ صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔لہٰذا گفتگو اور لہجے سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ کون کس مرتبے کا ہے۔بخت شاہ،فقیر کی باتوں سے بہت خوش ہوا اور اسے انعام و اکرام دینے کی کوشش کی لیکن فقیر نے لینے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ فقیر کی جھونپڑی سے رخصت ہو کر محل پہنچا جہاں ملازم اس کا انتظار کر رہا تھا۔اس نے اسے فقیر سے بے سودہ انداز میں گفتگو کرنے پر سرزنش کی۔اس دوران وزیر بھی محل پہنچ گیا۔بادشاہ نے اسے بھی نابینا فقیر سے ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ پھر دونوں کو سمجھایا کہ”اعلیٰ مرتبے یا عہدے کے نشے میں کسی انسان کو کمتر اور حقیر نہیں سمجھنا چاہیے،یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا عطیہ ہے۔لیکن یاد رکھو،اگر خالق کائنات اگر کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ اسے واپس لینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔“
فہیم عالم دراصل بادشاہ سلامت کو تم پر ترس آگیا ہے۔وہ تمہاری محنت و مشقت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ان کو تمہارا یوں جاں فشانی سے کام کرنا بے حد پسند آیا ہے۔انعام کے طور پر بادشاہ سلامت اب تمہیں شاہی محل میں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔بادشاہ سلامت کی خواہش ہے کہ تم کچھ عرصہ ان کے ساتھ محل میں گزارو۔وہاں عیش و عشرت سے رہو۔ فیروز الدین بولا۔ کسان کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟لہٰذا خوشی سے اُچھلتا ہوا ان کے ساتھ ہو لیا اسے شاہی محل کے شاہی مہمان خانے میں ایک سجا سجایا کمرہ دیا گیا،کمرے میں آرام و آرائش کی ہر چیز موجود تھی،بڑی سی مسہری پر نرم و ملائم ریشمی بستر بچھا ہوا تھا۔گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ریشم کے پردے لٹک رہے تھے۔
اسے عمدہ اور قیمتی کپڑے پہنائے گئے۔ ہر وقت ایک خادم اس کی خدمت کے لئے موجود رہتا۔جس چیز کی بھی اسے تمنا ہوتی خادم فوراً حاضر کرتا،کھانے کا وقت ہوتا تو قسم قسم کے کھانے اس کے سامنے چن دیئے جاتے،الائچی،بادام اور پستے والا دودھ اسے پیش کیا جاتا۔ہر قسم کے مشروب اس کے کمرے میں رکھے ہوتے۔چند دن اسے درباری آداب کی تعلیم دی گئی۔اور وہ شاہی دربار میں بیٹھنے لگا۔ اب وہ نرم نرم بستر پر سوتا،عمدہ لباس پہنتا،عمدہ اور صحت مند غذائیں کھاتا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کا رنگ و روپ نکھر گیا،عادتیں سنور گئیں۔اب وہ اچھا خاصا امیر زادہ دکھائی دینے لگا تھا۔وقت گزرتے کب دیر لگتی ہے۔یوں دو سال کا عرصہ گزر گیا،کسان اپنے ماضی کو بھول کر اس عیش و عشرت والی زندگی کا عادی بن گیا۔ ایک رات وہ بستر پر لیٹا تو اسے بڑی بے چینی محسوس ہوئی۔کوئی چیز اس کے گداز جسم میں چبھ رہی تھی۔وہ ساری رات بے قراری سے کروٹے بدلتا رہا۔ کبھی ہاتھ پھیر کر محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ آخر کیا چیز چبھ رہی ہے؟غرض تمام رات وہ ایک پل کے لئے بھی نہ سو سکا۔صبح اٹھتے ہی وہ خادم پر برس پڑا۔ ”تم کتنے کام چور ہو گئے ہو سست آدمی!تم نے ہمارا بستر ٹھیک طرح سے کیوں نہیں جھاڑا۔پتہ نہیں!کیا چیز تمام رات ہمیں چبھتی رہی؟ہم ایک لمحہ بھی نہیں سو سکے۔“خادم سر جھکائے اس کی ڈانٹ سنتا رہا لیکن کسان کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔ وہ فوراً وزیر فیروز الدین کے پاس گیا اور خادم کی غفلت اور سستی کی شکایت کی۔ ”ہوں․․․․․واقعی!خادم نے بہت ہی غفلت سے کام لیا۔آؤ!دربار لگنے والا ہے ہم بادشاہ سلامت سے شکایت کرتے ہیں․․․․․“فیروز الدین اپنے ہونٹوں پر آئی پُراسرار مسکراہٹ کو دباتے ہوئے بولا۔وہ دونوں شاہی دربار کی طرف چل دیئے۔بادشاہ سلامت ابھی تک دربار میں تشریف نہیں لائے تھے۔ بادشاہ سلامت جیسے ہی دربار میں تشریف لا کر تخت پر رونق افروز ہوئے تو سب سے پہلا مقدمہ ان کے سامنے یہی پیش کیا گیا کہ فلاں خادم نے شاہی مہمان کے آرام کا خیال نہیں رکھا۔شاہی مہمان رات بھر سو نہیں سکا۔ ”شاہی مہمان کے بستر کا جائزہ لیا جائے اور دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو مہمان کو چبھتی رہی اور مہمان کے آرام میں خلل پڑا․․․․․“بادشاہ سلامت نے حکم دیا جائزہ لینے کے لئے فیروز الدین چند سپاہیوں کے ساتھ شاہی مہمان خانے کے اس کمرے میں گیا،جہاں کسان کو ٹھہرایا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی واپسی ہوئی۔ ”حضور!یہ خشخاش کے دانے بستر کی چادر کے نیچے سے ملے ہیں۔“فیروز الدین اپنی ہتھیلی بادشاہ سلامت کے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا ہتھیلی پر خشخاش کے چند دانے تھے۔ ”کیا صرف خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے تمہیں رات بھر نیند نہیں آئی!“بادشاہ سلامت کہتے کہتے رُک گئے۔ان کی نظر فیروز الدین پر پڑ گئی تھی جس کے ہونٹوں پر پُراسرار مسکراہٹ ناچ رہی تھی،وہ ساری بات سمجھ گئے۔ ”فیروز الدین!مجھے تم پر فخر ہے کہ اتنا عقل مند اور دانا آدمی میرے وزیروں میں شامل ہے۔تم نے ٹھیک کہا تھا واقعی ماحول سے انسان کی عادت بنتی ہے۔انسان جیسے ماحول میں رہتا ہے اسی کا عادی بن جاتا ہے۔اس ماحول کے مطابق اس کے لئے رہنا آسان ہو جاتا ہے۔یہی کسان تھا جو اُن مٹی کے ڈھیلوں پر بڑے آرام سے سوتا تھا اور اب یہ شاہی محل میں آیا تو خشخاش کے چند دانوں کی وجہ سے اسے رات بھر نیند نہیں آئی۔ “بادشاہ سلامت ستائشی نظروں سے فیروز الدین کو دیکھتے ہوئے بولے،جبکہ کسان حیران و پریشان ان دونوں کو تک رہا تھا کیونکہ ان کی کوئی بھی بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔ ”کسان!شاہی محل میں آپ کی مہمان داری کے دن ختم ہو گئے ہیں۔اب آپ جا سکتے ہیں۔ہم دراصل تمہارے ذریعے سے ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ہم تجربہ کر چکے،جو نتیجہ ہم نے نکالنا تھا ہم نکال چکے۔ لیکن چونکہ ہمارے تجربے نے تمہاری عادتوں کو بگاڑ دیا ہے،اب آپ کے لئے اپنے پہلے والے ماحول کو قبول کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔اس لئے ہم آپ کو وہ گاؤں تحفے میں دیتے ہیں جس میں آپ رہتے تھے۔آج سے آپ اس گاؤں کے جاگیردار ہیں۔آپ واپس جا کر چاہیں تو شاہی محل جیسا ماحول پیدا کریں اور باقی زندگی چین سے بسر کر سکتے ہیں۔“اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت نے اسے جاگیر کی سند اور بہت سا انعام دیا۔وہ کسان یہ سب لے کر خوشی خوشی اپنے گاؤں رخصت ہوا۔
سمیا اختر : اسکول بس کے تیز ہارن کی آواز سنی بلال نے چونک کر پیچھے دیکھا۔ وہ ننگے پاؤں میلے کپڑے پہنے، آس پاس بکھری ہوئی گندگی میں کھڑا، کچرے کا تھیلا اپنے کندھے پر ڈالے ہوئے صرف یہ سوچ رہا تھا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح صاف ستھرایونی فارم پہن کر اسکول جاتا۔ اس کے باپ نے کچراچن کر ہی سہی، مگر اپنے اور اپنی اولاد کو حرام کی کمائی کبھی نہ کھلائی۔ باپ کے لیے دو وقت کی روٹی کھلانا ہی مشکل تھا۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ سب بچے اپنااپنا بیگ سنبھالتے ہوئے اسکول کے اندر داخل ہوئے۔ کام سے فارغ ہوکر بلال نے باپ سے پوچھا: بابا! کیا میں کبھی نہیں پڑھ سکوں گا؟ روزانہ ایک ہی سوال ، تیرادل نہیں بھرتا؟ جب توجانتا ہے کہ میں تیری یہ خواہش نہیں پوری کرسکتا توکیوں مجھے تنگ کرتا ہے۔ (جاری ہے) بیٹا ! اب روٹی کھالے اورسوجا جتنی جلدی صبح اٹھے گا اتنا اچھا کچرا ملے گا۔ کچرا توکچرا ہوتا ہے بابا! اچھابرا کچرا کیاہوتا ہے!آخر وہ سوچتے سوگیا ۔ اگلے روز کچرے کے ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے باپ کو عربی زبان میں لکھاہوا ایک کاغذ ملاتو اس نے اسے چوم کر آنکھوں سے لگالیا۔ اب اسے رکھتا کہاں! ہاتھ میں جوتھیلا تھا، وہ گندی چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے قریبی ایک بڑی جامع مسجد کارخ کیا۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ دوسرے تمام علوم کی تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ دروازے کے اندقدم رکھتے ہوئے اس کادل ہچکچایا۔ سامنے لکھا تھا: صفائی نصف ایمان ہے۔ اسے مسجد کے احاطے کے اندر صاف ستھرے لباس پہنے، سلیقے سے ٹوپی لگائے ہوئے ایک بچہ نظر آیا۔ اس نے بچے کو اشارے سے بلایا: بیٹا! یہ اس ڈبے میں ڈال دو۔ قریب آنے پر اسے اپنا بیٹا یاد آگیا۔ تم یہاں کیا کررہے ہو؟ اس نے یونہی پوچھ لیا۔ بچے نے بڑی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ میں یہاں پڑھتاہوں۔ یہاں کیا پڑھتے ہو؟ قرآن وحدیث اور دوسری علمی کتابیں۔ اتنے میں مسجد کے امام صاحب آگئے تو اس نے پوچھا: امام صاحب یہاں پر بچوں کی تعلیم پر کتنا خرچا آتا ہے۔ کچھ بھی نہیں، ہم یہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضاکے لیے کرتے ہیں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ میرے بیٹے کوپڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے․․․․․ مگر کہا کروں کچرے کے ڈھیر سے پیٹ کی آگ تو بجھ جاتی ہے، مگر علم حاصل کرنے کے لیے تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے لاؤں․․․․․ “ تم اس کوکل ہمارے پاس لے آنا۔ مگر․․․․․․“ مگر کیا؟ جناب ! اس کے پاس صاف ستھرے کپڑے اور جوتے نہیں ہیں۔ مولوی صاحب نے اس کے بیٹے کی عمر معلوم کی اور پھر ایک شاگرد کواشارے سے بلایا۔ اس کے کان میں کچھ کہا۔ شیرخان نے مایوس ہوکرواپسی کاارادہ کیااور کچرے کا تھیلا کندھے ڈال کر ابھی چندقدم آگے بڑھا ہی تھا کہ مولوی صاحب کی آواز آئی: یہ لوکپڑے اور جوتے ، کل اسے نہلا دھلا کر ہمارے پاس لے آنا۔ کل سے تمھارا بیٹا ہمارا شاگرد ہے۔ شیرخان نے گھر پہنچ کر دیکھا کہ آج بلال چپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں لیٹا ہوا ہے۔ نہ کوئی فرمائش اور نہ کچرے کے تھیلے میں سے کچھ ڈھونڈنے کی لگن۔ شیرخان نے وہیں زمین پر بیٹھتے ہوئے اس کے سر کواپنی گود میں رکھ لیا اور بے ساختہ اور اس کے ماتھے کوچومنے لگا۔ وہ باپ کی گود میں چھپ گیا: بابا ! مجھے پڑھنا ہے، اچھا انسان بننا ہے۔ ضروربیٹا ضرور۔ غیر متوقع جواب سن کر بلال اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ہاں بیٹا! یہ کہہ کر شیرخام نے اسے نئے کپڑے اور جوتے دیے اورکہا: کل سویرے ہی ہم چلیں گے۔اب تجھے رونے اورکچرااُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ بلال کی آنکھوں میں چمکتی خوشی دیکھ کر شیر خان کا چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھا۔
یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا- بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی خدمات کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے- ملک میں چاروں طرف سکون اور اطمینان نظر آتا تھا- سب لوگ انتہائی خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے- شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے- مگر وزیر کو جس بات کی پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ بادشاہ سلامت دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے تھے اور تعریف کرنے والے پر انعامات کی بارش کردیتے- ان کے دربار کے چند چرب زبان اور خوشامدی لوگوں نے بادشاہ سلامت کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی، اور اس کمزوری کا اکثر و بیشتر فائدہ اٹھاتے رہتے تھے، ان کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرتے اور انعامات لے کر گھر کو چلتے بنتے- بادشاہ سلامت جب دربار میں تشریف لاتے اور لوگوں کے مسلے مسائل سنتے تو ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ جلد سے جلد ان معاملات کو نمٹا دیں، تاکہ اس کے بعد شعر و شاعری اور قصیدہ گوئی کا دور چلے اور درباری ان کی تعریفوں کا پل باندھیں، ان تعریفوں سے بادشاہ سلامت کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا تھا- بادشاہ سلامت کی شان میں قصیدے پڑھنے والے نیک نیتی سے بادشاہ سلامت کی تعریف نہیں کرتے تھے، ان کا مقصد تو محض قیمتی انعاموں کا حصول ہی ہوتا تھا- وفادار وزیر نے ایک روز اپنی یہ پریشانی ملکہ کے سامنے رکھی- ملکہ خود بادشاہ سلامت کی اس بات سے تنگ تھی- وہ سوچتی تھی کہ جھوٹی تعریفوں پر اگر وہ اسی طرح ہیرے جواہرات اور اشرفیاں لٹاتے رہے تو ایک روز سارا خزانہ خالی ہو جائے گا- اس نے وزیر سے کہا "اس سلسلے میں تو مجھے آپ پر ہی بھروسہ ہے- آپ بادشاہ سلامت کے وفادار ساتھیوں میں سے ہیں- آپ کی عقلمندی کا کوئی ثانی نہیں ہے- مجھے امید ہے آپ ضرور کوئی نہ کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے"- "ملکہ عالیہ- میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس مسلے کا کوئی حل نکل آئے- اس کے لیے مجھے سب سے پہلے یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بادشاہ سلامت خوشامد پسند ہوگئے ہیں- انھیں کیوں اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے"- "جب میری ان سے شادی ہوئی تھی تو وہ تب بھی ایسے ہی تھے- بات بات پر اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کے ہار اتار کر لوگوں کو انعام میں دے دیا کرتے تھے- ایک وقت تو ایسا بھی آگیا تھا کہ ہاروں کو بنوانے کے لیے بہت سارے کاریگروں کو بھرتی کرنا پڑ گیا تھے- مجھے تو اس بات سے بہت ڈر لگتا ہے کہ ہم الله کو کیا منہ دکھائیں گے- خزانے کا پیسہ عوام کی امانت ہوتا ہے- اس طرح تو ہم امانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں"- "میں نے سوچا ہے کہ میں بادشاہ سلامت کی والدہ صاحبہ سے ملوں اور ان کو کریدوں کہ بادشاہ سلامت کی شخصیت کی اس خامی کا سبب کیا ہے"- وزیر نے کہا اور عین اسی وقت بادشاہ سلامت کی ماں کمرے میں داخل ہوئی- وہ کافی بوڑھی ہو گئی تھی اور لاٹھی ٹیک ٹیک کر چلتی تھی- اس نے ملکہ اور وزیر کو دیکھا تو بولی "بیٹی میں یہ پوچھنے آئ ہوں کہ رات کے کھانے میں کیا پکے گا، تاکہ شاہی باورچی کو آگاہ کردوں مگر ایسا معلوم دیتا ہے کہ تم دونوں مملکت کے کسی اہم مسلے پر گفتگو کر رہے ہو- میں چلتی ہوں- بعد میں آجاؤں گی"- "امی حضور ہم آپ کا ہی تذکرہ کررہے تھے- ایک بہت اہم مسلہ درپیش آ گیا ہے- آپ سے کچھ معلومات لینا تھیں"- ملکہ نے کہا- "پہلے مسلہ تو پتہ چلے- اس کے بعد ہی میں معلومات دے سکوں گی"- بادشاہ سلامت کی والدہ نے کہا- "پہلے آپ آرام سے بیٹھ جائیں- پھر ہم آپ کو تفصیل بتائیں گے"- ملکہ نے اسے کمرے میں رکھی کرسی پیش کرتے ہوۓ کہا- جب بادشاہ سلامت کی ماں آرام سے بیٹھ گئی تو وزیر نے بڑی تفصیل سے اس کو بادشاہ سلامت کی اس خوشامد پسندی کی عادت کے بارے میں بتایا- جب اس کی بات ختم ہوئی تو بادشاہ سلامت کی ماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بڑے تاسف سے بولیں "اپنے بیٹے کی اس عادت کے ذمہ دار میں اور اس کے ابا حضور تھے"- یہ بات سن کر ملکہ اور وزیر دونوں چونک پڑے- "امی حضور- یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں"- ملکہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا- ابھی بادشاہ سلامت کی ماں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ کھانستا ہوا اندرداخل ہوا- اس نے کہا "اس بڑھاپے نے ہمیں طرح طرح کی بیماریاں لگا دی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ہماری سماعت بہت بہتر ہوگئی ہے، دور ہی سے ہم سب باتیں سن لیتے ہیں، ہم نے تم سب کی باتیں بھی سن لی ہیں- ہماری بیگم بالکل ٹھیک فرما رہی ہیں- اپنے بیٹے کو خوشامد پسند بنانے میں ہم دونوں کا ہی ہاتھ ہے"- بادشاہ سلامت کی ماں کو ملکہ نے کرسی پیش کی تھی- اب بادشاہ سلامت کا باپ آیا تو اسے کرسی پیش کرنے کی باری وزیر کی تھی- وہ ایک کرسی اٹھا کر اس کے قریب لایا اور بولا "تشریف رکھیے"- وہ بیٹھ گیا تو ملکہ بڑی فکرمندی سے بولی "جس انداز میں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت لٹا رہے ہیں- ہمیں تو لگتا ہے کہ بہت جلد خزانہ خالی ہو جائے گا- ہمیں وزیر صاحب سے بہت امیدیں وابستہ ہیں- ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت جلد اس کا حل ڈھونڈ لیں گے"- وزیر آگے بڑھا، کھنکھار کر گلا صاف کیا پھر ہاتھ باندھ کر بولا "آپ بادشاہ سلامت کے والدین ہیں- دونوں کا یہ ہی کہنا ہے کہ ان کی اس خامی کے پیچھے آپ کا ہی ہاتھ ہے- پتا تو چلے کہ کیسے؟ اگر یہ بات پتہ چل گئی تو بادشاہ سلامت کا علاج کرنا مشکل بات نہ ہوگی"- بادشاہ سلامت کے باپ نے کہا "لمبی کہانی ہے- تم دونوں بھی بیٹھ جاؤ- کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے"- جب ملکہ اور وزیر بیٹھ گئے تو اس نے کہنا شروع کیا "یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نوجوان تھے اور ہماری نئی نئی تاجپوشی ہوئی تھی اور ہم نئے نئے بادشاہ بنے تھے- ہمارے ابا حضور بوڑھے ہوگئے تھے اس وجہ سے انہوں نے بادشاہت کا تاج ہمارے سر پر سجا دیا تھا- تھوڑے عرصے بعد ہماری شادی ایک انتہائی حسین و جمیل شہزادی سے ہو گئی- ان کا رنگ اتنا صاف تھا کہ جب پانی پیٹی تھیں تو گردن سے جاتا ہوا نظر آتا تھا"- اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت کے باپ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا- اس نے شرما کر سر جھکا لیا- "ان کے حسن و جمال کا تفصیلی تذکرہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ہر وقت اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہا کرتی تھیں- ہم بھی کچھ کم نہیں تھے- ہمیں سیر سپاٹے اور شکار کا شوق تھا، ہم اپنے مشغلوں میں گم رہا کرتے تھے- تھوڑے عرصے بعد الله نے ہمیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا- ہمارا شہزادہ نہایت خوبصورت تھا- اس کی پیدائش پر ہم دونوں ہی بہت خوش تھے، مگر نہ انہوں نے ہر وقت بننے سنورنے والی عادت چھوڑی اور نہ ہم نے اپنی سیر سپاٹے اور شکار کی- ہمارا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے ہاتھوں میں پرورش پاتا رہا- وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس کا دل چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھے، اپنی اچھی اچھی باتیں ہمیں بتائے اور ہم اس کو شاباش دیں اور اس کی تعریف کریں- مگر ہم دونوں نادان بنے اپنی اپنی پسند کی مصروفیات میں گم تھے- ہمیں اپنی بے بیوقوفی کی وجہ سے اپنے چھوٹے سے شہزادے کے احساسات کا خیال ہی نہیں رہا- اس محرومی کا فائدہ ان کنیزوں نے اور غلاموں نے اٹھایا جن کے ذمے اس کی دیکھ بھال کرنا تھی- وہ اس کی ہر بات کی بہت تعریف کرتے تھے، اس سے وہ خوش ہو کر اپنے کھلونے، مٹھایاں اور بسکٹ وغیرہ اور دوسری چیزیں انھیں دے دیتا- وہ اس کی کمزوری بھانپ گئے- وہ اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے- رفتہ رفتہ ہمارے شہزادے کی یہ عادت پختہ ہوتی چلی گئی اور اس کا نتیجہ ہم سب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- اس کہانی میں ان ماں باپ کے لیے ایک سبق چھپا ہے جو اپنے بچوں سے دور دور رہتے ہیں اور ان کی کسی بات کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں"- یہ کہہ کر بادشاہ سلامت کا بوڑھا باپ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوگیا- وزیر کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا پھر بولا "میں پوری کوشش کروں گا کہ ان کی اس عادت کو ختم کروادوں- یہاں پر میں یہ بات بھی کہوں گا کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی باتیں نہیں سنتے، ان کی اچھی باتوں پر انھیں شاباش نہیں دیتے، وہ اپنے بچوں کو احساس محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں- دنیا میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ پڑے ہیں- برے لوگ اس چیز کا فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے- وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس طرح کے بچوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں"- بادشاہ سلامت کی ماں اور باپ نے سر جھکالئیے- اسی وقت ملکہ کا ننھا شہزادہ باغ میں سے کھیل کر واپس آیا- اس کے ہاتھ میں کسی جھاڑی کا ایک تنکا تھا اور اس نے امرود کے ایک پتے کو درمیان سے اس تنکے میں پرو رکھا تھا- شہزادے نے کمرے میں داخل ہو کر پہلے تو سب کو ادب سے سلام کیا پھر بولا "امی حضور- دیکھیے ہم نے امرود کے پتے کا پنکھا بنایا ہے- یہ گھومتا بھی ہے"- یہ کہہ کر اس نے پتے پر پھونک ماری تو پتا تیزی سے گھومنے لگا- ملکہ یہ دیکھ کر نہال ہوگئی، آگے بڑھ کر شہزادے کو پیار کیا اور بولی "ہمارے شہزادے نے کتنا اچھا پنکھا بنایا ہے- ہمیں بھی اس سے کھیلنے دیجیے"- شہزادے نے پتے پر ایک اور پھونک ماری اور بولا "آپ تو بڑی ہیں امی حضور- یہ تو بچوں کے کھیلنے کے لیے ہے"- یہ کہہ کر شہزادہ وہاں سے بھاگ گیا- بادشاہ سلامت کی ماں نے کہا "اگر یہ ہی سلوک ہم اپنے بیٹے سے بھی کرتے، اس کی باتیں سنا کرتے، اس کی تعریف کرتے تو وہ ایسا نہ بنتا جیسا بن گیا ہے"- تھوڑی دیر بعد جب وزیر وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اس نے ملکہ کو چند باتیں بتائیں اور درخواست کی وہ ان پر عمل کرے- ملکہ نے اس کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا- رات کو جب بادشاہ سلامت اس کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور ننھا شہزادہ ان کے سامنے کھیل رہا تھا تو ملکہ نے بڑے پیار سے کہا "الله کا شکر ہے- میں بھی کس قدر خوش قسمت ہوں کا مجھے آپ جیسا شریف اور نیک شوہر نصیب ہوا ہے- جو شکل و صورت میں بھی یکتا ہے اور اپنے کردار میں بھی- اپنی رعایا کی محبّت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے"- بادشاہ سلامت نے یہ سنا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں- انہوں نے اپنے گلے سے قیمتی موتیوں کا ہار اتار کر ملکہ کو پیش کیا "اس بات کا اظہار کرنے پر ہم اسے آپ کی نذر کرتے ہیں"- ملکہ مسکرا کر بولی "جہاں پناہ ہم اس انعام کو لینے سے انکار کرتے ہیں- ہم نے آپ کی تعریف اپنے دل کی گہرائیوں سے کی ہے- ہمارے خلوص اور محبّت کی قیمت اس معمولی سے ہار سے ادا نہیں ہوسکتی"- بادشاہ سلامت یہ بات سن کر حیران ہوگئے اور بولے "جب دوسرے لوگ ہماری تعریف کے گن گاتے ہیں اور ہم انھیں انعام دیتے ہیں تو وہ فوراً لے لیتے ہیں- ملکہ آپ تو عجیب ہیں"- "اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کی تعریف دکھاوے کی ہے- وہ یہ باتیں صرف آپ کو خوش کرکے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں- ان کے دلوں میں خلوص نہیں، لالچ بھرا ہوتا ہے- آپ تو میرے سر تاج ہیں، آپ کے بارے میں میں جو بھی کہوں گی وہ سچ ہوگا"- ملکہ کی بات سن کر بادشاہ سلامت کچھ سوچنے لگے - ملکہ نے جب لوہا گرم دیکھا تو ایک اور چوٹ ماری- "ہمارے دادا حضور ہمارے سب بہن بھائیوں کو ایک نصیحت کیا کرتے تھے- وہ کہتے تھے کہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے علاوہ اگر تمہارے منہ پر کوئی تمہاری تعریف کرے تو سمجھ لینا اس میں اس کی کوئی غرض پوشیدہ ہے"- بادشاہ سلامت کی آنکھیں کسی سوچ میں ڈوب گئیں- انھیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی- اگلے روز دربار شروع ہونے سے پہلے وزیر بادشاہ سلامت سے ملنے آیا- وہ انھیں ایک کونے میں لے گیا اور ان کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا- اس کی باتیں سن کر بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی- وزیر خاموش ہوا تو انہوں نے کہا "عقلمند وزیر- تمہاری بات میں وزن معلوم دیتا ہے- ہمیں تمہاری تجویز سے اتفاق ہے"- دربار شروع ہوا- سامنے تمام امرا، رؤسا اور دوسرے بڑے بڑے لوگ کرسیوں پر براجمان تھے- ان میں سے ہر کوئی اپنے ذہن میں وہ باتیں دوہرا رہا تھا، جو اسے بادشاہ سلامت کی شان میں کہنا تھیں- انہوں نے اپنے لباسوں میں کپڑے کے تھیلے چھپا رکھے تھے جن میں وہ انعام بھر بھر کر لے جاتے تھے- یہ انعام وہ بادشاہ سلامت کی جھوٹی تعریف کرکے بٹورتے تھے- دربار کی کاروائی دیکھنے کے لیے آج ملکہ بھی بادشاہ سلامت کے برابر میں بیٹھی تھی- وزیر نے اس سے خاص طور سے درخواست کی تھی کہ وہ آج دربار میں ضرور آکر بیٹھے، بڑا مزہ آئے گا- دربار کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے وزیر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا- اس نے سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہا "معزز اراکین دربار- آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت کس قدر رعایا پرور ہیں- سونے کے وقت کو نکال کر وہ ہر وقت ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے رہتے ہیں- وہ اس بات سے بھی پریشان رہتے ہیں کہ مزید کون کون سے کام کریں جس سے ان کی رعایا کو فائدہ پہنچے"- وزیر کی اتنی بات ہی سن کر دربار میں واہ واہ کا شور مچ گیا- دو تین پرجوش درباری تو کرسیوں سے بھی اٹھ گئے "ہمارے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو- یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ الله نے ہمیں ان کے زیر سایہ رہنے کی سعادت بخشی ہے"- کھڑے ہونے والے اشخاص میں سے ایک نے کہا- اس کی اس بات پر دربار میں ایک شور سا مچ گیا- کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی- ملکہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی- اتنے بہت سے خوشامدی اس نے ایک جگہ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے- وزیر نے کہا "اب آگے سنیے- یہ بات بہت خوشی کی ہے کہ دربار میں موجود سب لوگ دولت مند اور خوشحال ہیں- بادشاہ سلامت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو بھی ان کی شان میں قصیدہ پڑھے گا، نظم یا غزل سنائے گا، یا نثر میں ان کی تعریف کرے گا، اس کے ساتھ اسے سو اشرفیاں بھی دینا پڑیں گی - ان اشرفیوں کو شاہی خزانے میں شامل کر کے ان سے غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کی جائے گی- غریب اور بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں کروائی جائیں گی، بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کا ٹھکانا دیا جائے گا- اس طریقے سے جہاں ہم اپنے ہر دل عزیز بادشاہ سلامت کو خراج تحسین پیش کر سکیں گے، وہیں ڈھیر ساری نیکیاں بھی کما لیں گے- یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام"- وزیر کی بات ختم ہوئی تو شاہی دربار میں سناٹا چھا گیا- اتنی خاموشی تھی کہ اگر وہاں ایک سوئی بھی گر جاتی تو سب اس کی آواز سن لیتے- وزیر نے کہا- "ہاں تو آج پہلے اپنا کلام کون سنائے گا"- دربار میں بیٹھے ہوۓ لوگوں میں سے کسی نے جنبش تک نہ کی- تھوڑی دیر بعد ایک درباری اٹھا اور بولا "میں نے بادشاہ سلامت کی شان میں بہت اچھا ترانہ لکھا تھا، بدقسمتی سے گھر بھول آیا ہوں"- دوسرے نے کہا "رات بچوں نے ہی پیچھا نہیں چھوڑا- قصیدہ لکھنے کا وقت ہی نہیں ملا"- غرض سب لوگوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر سنا دیا- جب سب اپنی اپنی کہہ کر خاموش ہوگئے تو بادشاہ سلامت نے گرج کر کہا "ہم تم سب کی چالاکیاں سمجھ گئے ہیں- تم سب لوگ ہمارے دربار سے نکل جاؤ- ہمیں ایسے مطلبی اور خود غرض درباریوں کی ضرورت نہیں ہے-"- بادشاہ سلامت کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھانے والے تمام درباری بہت شرمندہ ہوۓ اور دربار سے اٹھ کر چلے گئے- اس روز کے بعد سے بادشاہ سلامت نے اپنی اس عادت سے چھٹکارہ پا لیا اور حکومت کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے- وہ روز دربار لگاتے تھے اور لوگوں کی شکایتیں سن کر ان کا ازالہ کرتے تھے- ان کی اس تبدیلی سے ملکہ اور وزیر بہت خوش تھے اس لیے کہ بادشاہ سلامت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ان کو مطلب پرست خوشامدیوں سے بھی نجات مل گئی تھی- ملکہ کے دل میں وزیر کی عزت بھی بڑھ گئی تھی- وہ اس کی احسان مند تھی کیوں کہ اس کی عقلمندی کی وجہ سے بادشاہ سلامت راہ راست پر آگئے تھے-
پرست خوشامدیوں سے بھی نجات مل گئی تھی- ملکہ کے دل میں وزیر کی عزت بھی بڑھ گئی تھی- وہ اس کی احسان مند تھی کیوں کہ اس کی عقلمندی کی وجہ سے بادشاہ سلامت راہ راست پر آگئے.