Urdu stories for you.

5000 Words
محمد آفتاب تابش،اٹک فریحہ کی عمر 12 سال اور احمد کی عمر 14 سال تھی۔فریحہ اگرچہ عمر میں اپنے بھائی احمد سے چھوٹی تھی،لیکن اس سے زیادہ عقل مند تھی۔شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تھا: ”بزرگی عقل سے ہے،ماہ و سال سے نہیں“ ایک دن احمد نے دیکھا کہ اس کی بہن نے چھوٹی سی مٹکی جس کے ایک طرف لمبائی میں چھوٹا سا سوراخ تھا،ہاتھ میں اُٹھا رکھی ہے۔ احمد نے پوچھا:”یہ کیا ہے؟“ فریحہ نے جواب دیا:”اس کا نام بچت گھر ہے۔“ وہ دونوں برآمدے میں آئے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے۔فریحہ نے بچت گھر کو زمین پر دے مارا اور اس کے ٹوٹتے ہی احمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،کیونکہ اس کے سامنے دس دس،بیس بیس روپے کے نوٹ اور بہت سارے سکے بکھرے پڑے تھے۔ (جاری ہے) احمد نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا:”فریحہ!ہم ان روپوں سے نئے کھلونے خریدیں گے؟“ فریحہ:”نہیں بھائی!کھلونے تو ہمارے پاس پہلے ہی بہت ہیں۔میں نے یہ روپے تھوڑے تھوڑے کرکے اس لئے جمع کیے تھے کہ کسی دن ضرورت پڑنے پر کام آئیں گے،کیا تم نے کتاب میں نہیں پڑھا،آج کی بچت کل کام آئے گی۔ “ اپنی بہن کے منہ سے یہ سن کر وہ کھلونے نہیں خریدیں گے،احمد کا دل بجھ گیا۔اس نے اُداس لہجے میں پوچھا:”پھر ہم ان روپوں کا کیا کریں گے؟“ اس پر فریحہ نے جواب دیا:”میرے پیارے بھائی!کیا آپ کو نہیں پتا کہ اس وقت کورونا کی بیماری پھیلی ہوئی ہے اور بہت سے لوگ مشکل کا شکار ہیں،ہم ان روپوں سے ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔ آپ یہ نوٹ گنیں،میں سکے جمع کرتی ہوں۔“ وہ دونوں سکے اور نوٹ گننے لگے،کل ملا کر پانچ سو تین روپے ہوئے۔”پانچ سو تین روپے“فریحہ نے سوچتے ہوئے دہرایا۔ اسی لمحے احمد نے کہا:”اتنے کم روپوں سے ہم کسی کی کیا مدد کر سکتے ہیں،چلو کھلونے خریدتے ہیں۔ “ فریحہ:”احمد بھائی!مدد کرنے کے لئے رقم کا زیادہ ہونا ضروری نہیں،بلکہ جذبہ اور نیت ہونا ضروری ہے۔“ احمد:”نیت کیا ہوتی ہے؟اور اس کا کیا مطلب ہوا؟“ فریحہ:”بھائی!نیت کہتے ہیں دل کے ارادے کو۔کسی کام کا بدلہ آپ کو ظاہری عمل کے لحاظ سے نہیں،بلکہ آپ کے دل میں کسی عمل کا جو مقصد ہو گا،اس کے مطابق آپ کو جزا یا سزا ملے گی۔ “ احمد:”پھر بھی پانچ سو تین روپے سے کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔کیوں نہ ہم ان روپوں سے کھلونے خرید لیں۔“ فریحہ:”فرق پڑتا ہے بھائی!اگرچہ نظر نہیں آتا،لیکن فرق پڑتا ہے۔فرض کریں آپ کو روزانہ پانی سے بھری ایک بالٹی ملے اور روزانہ اس بالٹی سے صرف دو گلاس پانی نکال کر گملے میں رکھے پودے میں ڈال دیے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بھری ہوئی بالٹی میں سے دو گلاس پانی نکالنے سے بالٹی کے پانی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا،لیکن پودے کو زندگی مل گئی اور اس کا صلہ وہ آپ کو اپنی خوشبو سے دے گا۔ “ احمد:”(حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے)واہ فریحہ!تم نے کتنی عمدہ بات کہی،واقعی فرق نہیں پڑتا،صرف دیکھنے اور سمجھنے والی نظر چاہیے۔“ آپ ایسا کریں یہ روپے لیں اور جتنے ہو سکیں ”ماسک“لے آئیں۔پھر ہم دونوں مل کر اپنے پڑوس میں رہنے والے غریب لوگوں میں وہ ماسک بانٹیں گے،تاکہ وہ اپنی اور دوسروں کی قیمتی زندگی کو محفوظ بنا سکیں۔“ مریم شہزاد میں آج بہت خوش تھی،کل میرے اسکول میں فنکشن ہے جس میں مجھے امی کا کردار ادا کرنا ہے،اسکول میں فائنل تیاری کے بعد بھی آج مجھے گھر میں اچھی طرح سے تیاری کرنی تھی،کیونکہ ٹیچر نے کہا تھا کہ اپنی امی کو اچھی طرح سے دیکھنا کیسے اُٹھتی بیٹھتی ہیں،کام کرتے وقت دوپٹہ کیسے لیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج چھٹی تھی،مگر اس کے باوجود میں صبح صبح ہی جاگ اُٹھی۔سارا دن میں امی کو دیکھتی رہی کہ کیا کیا کام کس طرح کیا۔رات کو اچانک یاد آیا کہ مجھے جو کپڑے کل پہننے ہیں اس کا تو دوپٹہ ہی نہیں تھا۔میں نے پریشان ہو کر امی سے کہا تو انھوں نے تسلی دی:”کوئی بات نہیں،تم یہ دوپٹہ لے لینا جو میں نے اوڑھا ہوا ہے،یہ اچھا میچ ہو جائے گا۔ “ ”یہ دوپٹہ!․․․․“میں ایک دم پریشان ہو گئی۔ (جاری ہے) ”کیوں،کیا ہوا؟“امی نے پوچھا تو میں نے کہا:”نہیں کچھ نہیں،بس میں سونے جا رہی ہوں۔“ میں بستر پر آکر لیٹ گئی،مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میری آنکھوں میں صبح سے اب تک کی امی کی مصروفیات چل رہی تھیں۔صبح صبح امی نے دھلا ہوا دوپٹہ لیا اور کچن میں آگئیں۔ناشتہ بناتے بناتے امی نے جتنی بار ہاتھ دھوئے اسی دوپٹے سے خشک کیے،پھر برتن دھونے کے بعد بھی دوپٹے سے ہی ہاتھ پونچھے۔ کھانا پکاتے اور روٹی بنانے میں گرمی کی وجہ سے چہرے پر آیا ہوا پسینا صاف کرنے میں بھی دوپٹہ ہی کام آیا۔چھوٹا بھائی مٹی میں کھیل کر باہر سے آیا تب اس کے ہاتھوں کی مٹی بھی اسی دوپٹے سے صاف کر دی۔گرم پتیلی چولہے سے اتار کر ایک طرف رکھی تو وہ بھی دوپٹے سے ہی پکڑ کر،اور تو اور منی کی بہتی ہوئی ناک بھی کتنی ہی مرتبہ دوپٹے کے کونے سے صاف کر دی۔ ”اُف!میں یہ دوپٹہ کیسے لوں گی۔“میں یہ سوچتے سوچتے سو گئی۔ صبح جب میں اُٹھی اور اسکول کے لئے تیار ہو کر باہر آگئی تو سامنے ہی امی کا دوپٹہ دھلا اور استری کیا ہوا رکھا تھا۔پتا نہیں امی نے یہ کب دھویا اور استری کیا۔میں نے سوچا اور خوشی خوشی دوپٹہ لے کر اسکول چلی گئی۔ نازیہ آصف موسم برسات اپنی خوبصورتیوں اور ذائقے دار پھلوں کے ساتھ ختم ہو چکا تھا۔درختوں کے پتے تیزی سے گر رہے تھے اور سردیوں کی آمد تھی۔ایک امرود کے درخت پر ایک ننھی سی چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا۔ چڑیا کا نام ہیبل تھا،اس گھونسلے میں اس کے بچے رہتے تھے۔مگر جب وہ بڑے ہوئے تو ایک دن ہیبل کو بتائے بغیر ہی ایسے اڑ کر گئے کہ واپس ہی نہ آئے۔ننھی ہیبل پہلے ہی ان کی وجہ سے اداس رہتی تھی۔ پھر جب سردیاں آئیں تو باقی پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک گئے۔ اب اس امرود کے پیڑ سے امرود بھی تقریباً ختم ہو چکے تھے، بس ایک آدھ امرود باقی رہ گیا تھا امرود کے تنے میں چند بڑی بڑی چیونٹیاں رہتی تھیں۔ہیبل سارا دن شاخ پر بیٹھی ان چیونٹیوں کو دیکھتی رہتی۔ (جاری ہے) سردیوں میں جب کبھی چیونٹیوں کا راشن ختم ہوتا تو ہیبل سے امرود مانگنے آجاتیں۔ ہیبل امرود کے ٹکڑے کاٹ کر نیچے پھینک دیتی کہ انھیں اٹھا کر نیچے نہ لے جانا پڑے اور یہ چیونٹیاں آسانی سے امرود کے ٹکڑے اٹھا کر اپنے بل میں گھس جاتی تھیں۔ہیبل کی چند بڑی چیونٹیوں سے دوستی تھی۔اس کی دوستوں میں جینی،کینی،مینی شامل تھیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے بہت سردی پڑ رہی تھی۔ہیبل کو کوئی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔وہ بہت اداس تھی۔اس کا دل چاہتا کہ کسی دوست سے باتیں کرے،مگر کوئی بھی اسے باتیں کرنے کے لئے نہ ملتا تھا۔اس نے سوچا چلو جینی،کینی اور مینی سے ملتی ہوں۔ ان سے بات کرتی ہوں تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔ ہیبل نیچے آئی اور چیونٹیوں کے بل کے باہر آکر آوازیں دینے لگی۔جینی باہر آؤ،کینی میں ہیبل ہوں۔کوئی باہر نہ آیا تو اس نے پھر آواز لگائی، مینی دیکھو مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ مگر وہ سب تو اپنے گرم بستروں میں مزے سے لیٹی گرمیوں کے جمع شدہ پھل اور خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ وہ سب خاموش رہی،کوئی بھی اس کی بات سننے نہ آئی۔کئی دن گزر گئے۔ہیبل کمزور ہوتی جا رہی تھی۔کوئی انسان باہر نہیں نکلتا تھا۔مہینے بھر سے شدید دھند اور سردی نے انسانوں کو بھی گھروں میں قید کر دیا تھا۔کچھ لوگ بیماریوں کے خوف سے بھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ ہیبل بیچاری کا سردی اور اداسی سے یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ اٹھ کر چل بھی نہیں سکتی تھی۔کچھ کھانے کو بھی دل نہیں چاہتا تھا۔پھر ایک دن جب چیونٹیوں کا کھانا ختم ہو گیا تو پھر وہ اپنے بستر سے انھیں کہ کھانے کے لئے ڈھونڈھیں مگر باہر طوفانی بارش سے ہر طرف پانی جمع ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ پانی چیونٹیوں کے بل میں بھی گھس آیا اور ان سب کا کھانا بھی خراب ہو گیا تھا۔چیونٹیاں سر پر پاؤں رکھ کر باہر بھاگیں۔اب سوائے پیڑ پر چڑھ جانے کے ان کے پاس بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ تھی نہ کچھ کھانے کو تھا۔اب وہ جلدی سے گھونسلے کے پاس گئیں اور ہیبل کو آوازیں دینے لگیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔ جینی نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ اوندھی گری ہوئی تھی۔تینوں نے اندر جا کر اسے سیدھا کیا مگر وہ تو وہ بے سدھ پڑی رہی کیونکہ ہیبل مر چکی تھی۔اس کے پاس چند ٹکڑے امرود کے ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔ پھر انھیں خیال آیا کہ شاید اس دن ہیبل ان کے لئے کھانا لائی ہو۔ مگر انھوں نے گرم بستر سے اٹھ کر ہیبل کی بات سننا ہی گوارا نہ کیا تھا۔اب وہ سب رو رہی تھیں۔باقی ساری چیونٹیاں بھی پیڑ پر چڑھ رہی تھیں کیونکہ نیچے سارا پانی تھا۔اب آسمان پر بادل گرجے تو پھر بارش ہونے لگی۔سب نے مل کر ہیبل کے گھونسلے میں پناہ لی۔ مگر اب وہ بہت زیادہ دکھی تھیں کہ ہیبل کتنی اچھی تھی۔انھیں کھانا بھی دیتی تھی۔اب وہ جب مر گئی تو بھی اس نے سب کو پناہ دی تھی۔مگر جب ہیبل اداس تھی تو انھوں نے اس کی بات سننا بھی گوارا نہ کیا۔ہائے اللہ!ہمیں معاف کر دینا۔۔۔ہم نے اپنی دوست کی پریشانی میں کوئی مدد نہ کی۔مگر اب ان کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔بچو!سخت سردی میں اپنے آس پاس کا خیال رکھیں،کسی بچے ،بوڑھے یا غریب کو آپ کی مدد کی ضرورت تو نہیں تاکہ آپ کو بھی پچھتانا نہ پڑے۔ رضوانہ․․․․․لاہور ایک دفعہ ایک شکاری نے جنگل سے ایک شیر کا بچہ پکڑا۔بچہ بہت چھوٹا تھا اور اپنی ماں کا دودھ پیتا تھا۔شکاری اسے اپنے گھر لے آیا۔شکاری کے بچے ننھے شیر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وہ اس سے کھیلنے لگے۔ کچھ دیر میں شیر کے بچے کو بھوک لگی،وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کچھ کھانا نہیں جانتا تھا،بس دودھ ہی اس کی خوراک تھی۔ شکاری یہ سوچ کر پریشان ہو گیا کہ اب کیا کیا جائے؟کیونکہ اسے پتا تھا کہ شیر کا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے اور وہ دودھ کے سوا کچھ اور نہیں پی سکتا،آخر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی،اس نے شیر کے بچے کو اپنی بکری کے ساتھ چھوڑ دیا۔ بکری کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ شیر کا بچہ کچھ ہی دیر میں بکری کے بچے کے ساتھ گھل مل گیا۔ (جاری ہے) جب بکری کے بچے دودھ پینے کے لئے ماں کے پاس جاتے تو شیر کا بچہ بھی ان میں شامل ہو جاتا۔اس طرح شیر کا بچہ بکری کے بچوں کے ساتھ پلنے اور بڑھنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ ان ہی کے رنگ میں رنگ گیا،وہ دیکھنے میں تو شیر لگتا تھا مگر اس کی تمام عادات اور خصلتیں بکری کے بچوں جیسی تھیں۔اس طرح شیر کا بچہ بکری کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑا ہو گیاتھا، تو وہ شیر ہی مگر وہ باقی شیروں کی طرح بہادر نہیں،بلکہ ڈرپوک تھا۔ ایک دن گاؤں پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا۔شکاری کا گھر چونکہ جنگل کے نزدیک تھا،اس لئے کچھ بھیڑیے شکاری کے گھر میں داخل ہو گئے۔ شکاری اس وقت کہیں گیا ہوا تھا۔بھیڑیوں نے بکری کے بچوں پر حملہ کر دیا،اچانک ان کی نظر شیر پر پڑی تو وہ ڈر کر بھاگنے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ شیر ان پر نہ تو غرایا ہے اور نہ ہی حملہ کیا ہے تو ان کی ہمت بڑھ گئی اور انہوں نے بکری کے بچوں کو چیر پھاڑ دیا۔ شیر کا بچہ اگرچہ ایک بڑا شیر بن چکا تھا مگر اس میں شیروں جیسی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔وہ کھڑا سب کچھ دیکھتا رہا اور ان کا مقابلہ نہ کر سکا۔بھیڑیے حملہ کرکے واپس چلے گئے اور شیر وہیں کھڑا رہا۔ کچھ دیر کے بعد شکاری گھر واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شیر کے ہونے کے باوجود بھیڑیوں نے حملہ کرکے بکریوں کو چیر پھاڑ دیا ہے اور شیر کچھ نہ کر سکا۔ اسے بے حد صدمہ ہوا۔اس نے تو یہ سوچ کر شیر کے بچے کو بکری کے بچوں کے ساتھ چھوڑا تھا کہ وہ مصیبت میں ان کے کام آئے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بکری کے ساتھ رہتے رہتے اس کی اپنی صلاحیتیں ختم ہو چکی تھیں،اگر وہ شیروں کے ساتھ جنگل میں رہتا تو پھر ان کی طرح شکار کرنے کا عادی ہوتا اور ان ہی کی طرح بہادر بھی ہوتا۔ شکاری نے سوچا کہ یہاں رہتے ہوئے تو یہ شیر بالکل بے کار ہے،کیونکہ یہ تو اس کے جانوروں کی رکھوالی یا حفاظت تک نہیں کر سکتا،اس لئے اس کا یہاں رہنے کا اب کوئی فائدہ ہی نہیں تو کیوں نہ اسے جنگل میں ہی واپس چھوڑ دیا جائے تاکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہتے ہوئے اس میں بھی ان جیسی ہی بہادرانہ صفات پیدا ہو جائیں۔یہ سوچتے ہی شکاری نے شیر کو اپنے ساتھ لیا اور اسے واپس جنگل میں چھوڑ آیا۔ سعید لخت ندی کنارے ایک ننھا سا گھر تھا۔اس گھر میں ایک بطخ اور ایک بطخا رہتے تھے۔بطخ بہت اچھی تھی صبح سویرے اٹھتی نہاتی دھوتی اور کام کاج میں لگ جاتی۔بطخا بہت خراب تھا کام چور نکٹھو۔نہ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔ دن بھر پڑا اینڈتا رہتا۔بطخ بطخے کو بہتیرا سمجھاتی،پروہ نہ سمجھتا۔ ایک کان سے سنتا دوسرے سے اڑا دیتا۔ ایک دن بطخ بولی”کچھ خبر بھی ہے؟سارا اناج ختم ہو گیا اب کھائیں گے کیا؟“ بطخے نے کہا”گھبراتی کیوں ہو خدا دے گا۔ “ بطخ بولی”خدا انہی کو دیتا ہے جو محنت کرتے ہیں۔کام چوروں کو خدا نہیں دیتا۔“ بطخے نے کہا”تو میں کیا کروں؟نوکری تو ملتی نہیں۔“ بطخ بولی”نوکری نہیں ملتی،نہ سہی مزدوری کرو۔ (جاری ہے) “بطخے نے کہا ”خدا کو مان!میں اور مزدوری کروں؟توبہ !توبہ!ارے!میرا باپ تحصیل دار تھا۔ اُس کے دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے۔صبح شام لنگر بٹتا تھا۔سینکڑوں بھوکے پیٹ بھرتے تھے۔“ بطخ بولی”باپ کو چھوڑ اپنے آپ کو دیکھ موا نکٹھو،کاہل،ٹٹو“یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اب تو بطخا بہت گھبرایا بولا”اچھا رو مت آنسو پونچھ لو میں شہر جا کر نوکری ڈھونڈتا ہوں۔ “بطخا اٹھا شہر گیا نوکری ڈھونڈی۔نہیں ملی۔حیران، پریشان۔کیا کرے،کیا نہ کرے !اتنے میں ایک اپنی بپتا سنائی۔ دوست بولا”گھبراؤ مت ساتھ چلو میں آئس کریم بیچتا ہوں روز بیس روپے کماتا ہوں۔تم بھی بیچنا۔“ دونوں کارخانے گئے دوست نے ایک ٹھیلا خود لیا دوسرا بطخے کو دیا اور بولا”ہاں!اب آواز لگا،ٹھنڈی میٹھی آئس کریم،۔ ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“ گلی گلی،کوچے کوچے بطخے نے آئس کریم بیچی ساری بک گئی۔تھوڑی سی رہ گئی۔چلتے چلتے گھر آیا تو زور سے چلایا”ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“ بطخ نے آواز سنی جانی پہچانی تھی۔دوڑی دوڑی آئی۔کھڑکی سے جھانکا دیکھا تو اپنا بطخا تھا۔ خوشی سے جھوم گئی۔بولی”شاباش!کام کرنا عیب نہیں۔بے کار پھرنا عیب ہے کچھ بکی بھی؟“ بطخا بولا”بس تھوڑی سی رہ گئی ہے سکول کی طرف جا رہا ہوں وہ بھی بک جائے گی۔“ بطخ نے کہا”اچھا!ایک مجھے بھی دے دیکھوں کیسی ہے۔ “ بطخا بولا”اچھا!پیسے دو اور لے لو۔“بطخ ہنس،ہنس کر بولی”چل ہٹ!اپنوں سے بھی پیسے؟“ بطخا بولا”اپنا ہو یا غیر پہلے پیسے پیچھے مال اچھا اب میں جاتا ہوں بچے گی تو لیتا آؤں گا۔“ یہ کہہ کر ٹھیلا آگے بڑھایا اور زور سے بولا”ٹھنڈی میٹھی آئس کریم۔“ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب آدمی تھا۔ وہ محنت مزدوری کرتا تھا اور اس سے جو کچھ اسے ملتا صبروشکر کرکے وہ اور اس کے گھر والے اس میں گزارا کرتے۔ غریب آدمی کی خواہش تھی کہ وہ اپنے چھوٹے ننھے منے بچوں کو پڑھائے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نا تھے کہ وہ تعلیم کا خرچہ اٹھا سکتا۔ غریب آدمی زندہ دل تھا۔ اگر وہ کسی کو بھوکا پیاسا دیکھتا تو اپنے کھانے میں سے اس کو تھوڑا ضرور کھلاتا۔ ایک دن غریب آدمی کو دوردراز ایک گاوں میں مزدوری کے لئے جانا تھا۔ سفر بہت لمبا تھا۔ راستے میں تھوڑی تھکن کے باعث غریب آدمی نے سوچا کہ کیوں نا تھوڑی دیر آرام کرلیا جائے۔ یہ سوچ کر وہ غریب آدمی درخت کی چھاوں میں جاکر بیٹھا ہی تھا کہ اوپر سے ایک کاغذ گرا جس میں لکھا تھا " امیر ہونے کا راز" اور ساتھ ہی ایک نقشہ دیا ہوا تھا۔ (جاری ہے) وہ غریب آدمی اسی وقت اس نقشے کا پیچھا کرتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ گیا جہاں اس کو امیر ہونے کے راز کا پتا لگانا تھا۔ کچھ ہی منٹ بعد امیر آدمی کو ایک پیاری سی پری دکھائی دی۔ وہ غریب آدمی سے مخاطب ہوئی " تم امیر ہونا چاہتے ہو؟" غریب آدمی نے اثبات میں سر ہلایا۔ پری نے کہا: " وہاں دریا کے کنارے سونے سے بھرا ایک صندوق ہے لیکن وہ اتنی گہرائی میں ہے کہ تمھیں زمین کی کافی گہری کھدائی کرنی پڑے گی۔ یہ راز آج سے پہلے کسی شخص کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر تم اس صندوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو تم ایک امیر کبیر آدمی بن جاوگے۔" یہ کہتے ہی پری غائب ہوگئی۔ غریب مزدور نے دریا کہ کنارے پہنچ کر کھدائی شروع کی۔ کافی دن کی سخت محنت کے بعد اس کو سونے سے بھرا ایک صندوق ملا یہ دیکھ کر غریب آدمی حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ کھدائی کافی گہری تھی لیکن غریب آدمی بھی مستقل مزاجی سے کھدائی میں لگا رہا اور ہار نا مانی اور ایک دن وہ سونے سے بھرا صندوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ غریب آدمی نے اس سے نا صرف اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا بلکہ اس سے دوسروں کی بھی مدد کرتا تھا۔ پیارے بچو! بانٹنے سے ہمیشہ رزق بڑھتا ہے لہذا ہمیں اپنے اندر بانٹنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ سیدہ عروج فاطمہ․․․․ملتان احسن کے امتحانات ختم ہو گئے تھے۔اس کے ابو اسے اپنے دوست کے گھر لے گئے،وہاں احسن نے ان لوگوں کی چیزوں کو چھیڑنا شروع کر دیا تھا۔ ”محمود انکل!یہ گھر تو بہت خوبصورت ہے۔ یہ آپ نے کہاں سے لیا ہے؟“احسن نے شیشے کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر اٹھانے کے بعد کہا۔ ”بیٹا جب میں اٹلی گیا تھا،تب میں وہاں سے یہ لے کر آیا تھا۔“محمود صاحب نے احسن کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔کچھ دیر بعد احسن نے گھر میز پر رکھ دیا تھا اور پھر اس کا دھیان دوسری چیزوں کی جانب چلا گیا تھا۔ ”یہ گلدان بھی بہت حسین ہے۔“احسن نے شیشے کا گھر میز پر رکھنے کے بعد گلدان اٹھا لیا تھا۔ ”احسن بیٹا!چیزوں کو یوں اُٹھاتے نہیں ہیں۔ (جاری ہے) یہ کھیلنے کی چیز نہیں ہے،ٹوٹ جائے گا۔احسن کے ابو فارس صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ”بابا جان یہ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔تھوڑی دیر بعد اسے اس جگہ پر رکھ دوں گا۔“ احسن کی بات سننے کے بعد اس کے ابو کو بہت افسوس ہوا کہ ان کے بیٹے نے ان کی بات نہیں مانی۔جب وہ دونوں گھر واپس آگئے ،تب احسن نے محسوس کیا کہ ابو اس سے زیادہ بات نہیں کر رہے ہیں۔ ”بابا جان کیا آپ ناراض ہیں؟“ احسن نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”بیٹا!جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو ان لوگوں کی چیزوں کو اٹھا کر دیکھنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔سب یہی کہیں گے کہ احسن اچھا بچہ نہیں ہے،بہت شرارتی ہے۔ آپ کو میں نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے میرا کہنا نہیں مانا۔مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہوا ہے۔“احسن کے بابا جان نے اسے وہ بات بتا دی تھی ،جس کی وجہ سے وہ خفا ہوئے تھے۔ ”بابا جان آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ آپ نے مجھے بہت پیاری بات بتائی ہے۔پھر کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔“ احسن نے جو کہا تھا وہ کرکے بھی دکھایا۔اس کے بعد وہ جب بھی اپنے بابا جان کے ساتھ کسی کے گھر جاتا تو دوسروں کی چیزوں کو بس دور سے ہی دیکھ لیتا تھا۔ پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کسی کی چیزوں کو اٹھانا اور پھر کھلونا بنا کر کھیلنا بری بات ہے۔چیزیں گر کر ٹوٹ سکتی ہیں اور اس طرح دوسروں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔اچھے بچے ایسا کام نہیں کرتے ہیں۔ شیخ طارق امام،کراچی پروفیسر جون ہلٹن ایک دانشور،ایک مقرر،زندگی کے نشیب و فراز کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے والا شخص تھا۔اس کا تعلق امریکہ سے تھا۔ جس کو سننے اور دیکھنے کی لوگوں کو ہر وقت جستجو اور خواہش ہوا کرتی تھی۔ لوگوں کو اس بات پر حیرانی تھی کہ غریب ماں باپ کا معمولی شکل و صورت والا لڑکا شہرت کی بلندی پر کیسے پہنچ گیا۔اس وقت جون ہلٹن ہر شہری کی ہر دل عزیز شخصیت تھی اور لوگ اس کی صلاحیت،قابلیت، شہرت اور کامیاب زندگی کا راز جاننا چاہتے تھے۔ شہرت کی ایک اصلاحی اور فلاحی تنظیم نے جون ہلٹن کو شہریوں سے خطاب کی دعوت دی۔خطاب کے بینرز اور پوسٹر شہر کی گلیوں،شاپنگ مال،بس اسٹاپ اور دوکانوں پر آویزاں کر دیے۔بینرز اور پوسٹرز کو پڑھ کر شہریوں کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ کی طرف اُمنڈ آئی۔ (جاری ہے) لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ پاؤں رکھنے تک کی جگہ نہیں،آڈیٹوریم میں حد نگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔آڈیٹوریم کے اردگرد کے علاقے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ لوگوں کے ہجوم کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ نے حکومت وقت کی مدد سے جون ہلٹن کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے آڈیٹوریم کی چھت پر اُتارنے کا فیصلہ کیا،تاکہ سیڑھیوں کے ذریعے ہال تک آنے میں جون ہلٹن کو کوئی دشواری نہ ہو۔ آخر جون ہلٹن ہال میں موجود اسٹیج پر پہنچ گئے۔ اسٹیج پر کونے میں ایک میز رکھی ہوئی تھی۔جون ہلٹن میز کو اسٹیج کے بالکل سامنے لے آئے،تاکہ تمام لوگوں کو میز نظر آسکے۔میز پر ایک کرسٹل کی بال رکھی ہوئی تھی۔ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ بے چینی سے انتظار میں تھے کہ اب جون ہلٹن کامیاب زندگی گزارنے کے گُر بتائیں گے۔ جون ہلٹن نے جیب سے قلم نکال کر قلم کی مدد سے کرسٹل کی بال کو تیزی سے گھمانا شروع کر دیا۔15 منٹ کے بعد جون ہلٹن نے سر اُٹھا کر لوگوں کی طرف دیکھا تو لوگ جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ہال خالی ہو رہا ہے،جون ہلٹن نے بال کو اور تیزی سے گھمانا شروع کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جون ہلٹن اب بوڑھا ہو گیا ہے اور اس میں اب بولنے کی صلاحیت نہیں رہی۔جون اب محض وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جون ہلٹن نے 15 منٹ بعد سر اُٹھا کر ہال کی طرف دیکھا ہال کافی حد تک خالی ہو چکا تھا۔ ہال میں صرف اتنے لوگ رہ گئے تھے کہ ان کو انگلیوں پر آسانی سے گنا جا سکتا تھا۔جون ہلٹن نے مائیک کو ہاتھ میں اُٹھاتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا:”بس یہی لوگ کامیاب ہیں،جو اس وقت ہال میں موجود ہیں۔جو چلے گئے ،وہ چلے گئے۔“یہ کہتے ہوئے جون ہلٹن اسٹیج سے نیچے اُتر کر آڈیٹوریم کی چھت پر موجود ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ دوستو!جون ہلٹن نے ایک جملے میں بہت بڑا پیغام دیا ہے۔کامیاب شخص وہ ہے جس میں یہ تین خوبیاں موجود ہوں۔صبر،برداشت،مستقل مزاجی۔جون ہلٹن کے نزدیک ہال میں موجود لوگوں میں یہ تینوں خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ اسلم شاہد․․․․لاہور ریل گاڑی اپنی منزل کی جانب تیزی سے رواں دواں تھی۔سخت سردی کی وجہ سے مسافروں نے تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر رکھے تھے ۔رات گہری اور سردی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔عرفان اس سرد رات میں اپنے خیالات میں الجھا ہوا منزل مقصود کی جانب گامزن تھا۔ آج اسے رہ رہ کر اپنی بوڑھی ماں کا خیال آرہا تھا،جسے وہ روتا ہوا چھوڑ کر کام کی تلاش میں دوسرے شہر جا رہا تھا۔ عرفان ایک شریف خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اس کا باپ ایک فیکٹری میں ملازم تھا،زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن عرفان اسکول سے واپس گھر آیا تو گھر پر ایک بُری خبر اس کی منتظر تھی،اس کا باپ آج ان دونوں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ (جاری ہے) عرفان کی ماں کا رو رو کر بُرا حال تھا،خود عرفان کی حالت بھی ماں سے مختلف نہ تھی۔عرفان کو اپنے باپ کی موت کا بے حد دکھ تھا لیکن صبر کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ باپ کی موت کے بعد عرفان کے گھر کے حالات بھی خراب ہو گئے تھے۔کیونکہ جب کوئی کمانے والا ہی نہ ہو تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ عرفان ایک باضمیر نوجوان تھا۔اس سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ اس کے ہوتے ہوئے بات فاقوں تک پہنچے،اس لئے عرفان نے اپنے شہر میں کام کی تلاش شروع کر دی لیکن اسے ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر تنگ آکر اس نے اپنی ماں سے دوسرے شہر جانے کی اجازت مانگی،آخرکار عرفان کے اصرار پر اس کی ماں نے بڑی مشکل سے اسے اجازت دے دی اور آج وہ اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ دوسرے شہر جا رہا تھا۔ ”ٹکٹ دکھاؤ“ٹکٹ چیکر کی کرخت آواز نے اس کے خیال کا تسلسل توڑ دیا۔ عرفان نے فوراً ٹکٹ چیکر کو اپنا ٹکٹ دکھایا۔ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ دیکھ کر عرفان کو واپس کر دیا اور آگے بڑھ گیا۔عرفان نے گھڑی میں وقت دیکھا،رات کے تین بج رہے تھے۔کچھ دیر بعد اس کا اسٹیشن آگیا اور عرفان اپنا سامان لے کر اسٹیشن پر اتر گیا۔ اسٹیشن پر اترتے ہی اسے ہوا کا ایک تیز جھونکا لگا،جس سے اس کا جسم کانپ کر رہ گیا۔رات ابھی کافی باقی تھی،اس لئے عرفان نے سوچا کہ صبح ہونے تک اسٹیشن پر ہی سویا جائے۔ابھی وہ سونے کے لئے مناسب جگہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک پرس پر پڑی۔ عرفان نے فوراً وہ پرس اٹھا لیا اور اسے کھول کر دیکھا، اس کے اندر بہت سے روپے تھے۔عرفان نے جب تمام پیسے پرس سے نکالے تو پرس کے اندر سے ایک شناختی کارڈ بھی ملا۔عرفان نے شناختی کارڈ پر ایڈریس دیکھا تو وہ قریبی شہر کا تھا۔ عرفان نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ وہ یہ پیسے اس کے مالک تک پہنچائے گا۔کچھ دیر بعد اس شہر کو جانے والی گاڑی آگئی۔عرفان اس گاڑی پر سوار ہو گیا۔ بہت جلد اس شہر کا اسٹیشن آگیا۔عرفان گاڑی سے اترا اور مکان تلاش کرنے لگا۔ سورج اپنی کرنوں سے روشنی پھیلانے میں مصروف تھا،کچھ دیر بعد عرفان ایک مکان کے سامنے کھڑا تھا۔مکان ایک بہترین طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔عرفان نے کال بیل بجائی،کچھ دیر بعد ایک خوش پوش نوجوان باہر نکلا۔عرفان نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور جیب سے شناختی کارڈ نکال کر دیکھا،شناختی کارڈ پر اسی شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ عرفان نے ساری صورتحال اسے بتائی اور اس کے پیسے اور شناختی کارڈ واپس کر دیا۔وہ شخص عرفان کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا۔ عرفان کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔اس شخص نے عرفان کی خوب خاطر مدارت کی اور دوسرے شہر آنے کی وجہ پوچھی۔ یہ نوجوان ایک بہت بڑی فیکٹری کا مالک تھا۔عرفان نے اسے بتایا کہ وہ دوسرے شہر نوکری کی تلاش میں آیا ہے۔اس شخص نے عرفان کی ایمانداری کو دیکھتے ہوئے فوراً اپنی فیکٹری میں ملازم رکھ لیا۔عرفان بھی بہت خوش ہوا کہ اسے اس کی ایمانداری کا پھل مل گیا ہے۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم پر چاہے کتنی ہی مصیبت کیوں نہ آجائے،مصیبت سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور ہمیں ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔ وجیہہ ندیم،کراچی ”بے وقوف!تم تو بہت ہی بے وقوف ہو۔ہر وقت پڑھنے کے علاوہ تمہیں کچھ آتا ہی نہیں۔تم تو کتابی کیڑے کی طرح کتابوں میں دماغ خراب کرتی رہتی ہو۔ہاہاہا“اریبہ نے ساریہ کو اپنی بدتمیزی کا نشانہ بنایا۔ ساریہ کلاس کی سنجیدہ ترین مونچھیں بنانے میں مصروف تھیں۔حلیمہ اور سلیمہ لیکچر سننے کے بجائے ”قائداعظم کے چودہ نکات“بڑ بڑا رہی تھیں۔علینہ کا دھیان کھانے کی طرف تھا۔ (جاری ہے) باقی سب سرگوشیوں میں دنیا جہان کی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ اسی بدتمیزی کے دوران پیریڈ کی گھنٹی بجی ۔پھر دوسرے پیریڈ میں بھی اسی قسم کی صورت حال رہی۔چھٹی کے بعد ساریہ گھر پہنچ کر نڈھال سی صوفے پر گر گئی۔امی بولیں:”ساریہ بیٹا!کیا ہوا،کھانا تو کھا لو۔“ ساریہ غصے سے بولی:”امی!میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گی۔ سوائے کھیل تماشے کے وہاں اور کچھ نہیں ہوتا۔اتنا شور ہوتا ہے کہ مس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اسکول نہیں جاؤں گی۔“ساریہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دھڑام سے دروازہ بند کر لیا۔ شام کو امی ساریہ کے پاس گئیں جو ٹیوشن جانے کے بجائے صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھی۔امی نے سمجھاتے ہوئے کہا:”دوسروں کی حرکتوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے تم خود اپنا نقصان کر لو گی۔اگر اور لوگ جہالت کے اندھیرے میں ڈوب رہے ہیں تو کیا تم علم کی روشنی کی طرف نہیں بلاؤ گی ساریہ!“ بات ساریہ کی سمجھ میں آگئی۔ ساریہ نے عہد کیا کہ وہ نہ خود علم سے پیچھے ہٹے گی بلکہ دوسروں کو بھی جزبہ دلائے گی۔اس نے اگلے دن سے ہی ”علم پھیلاؤ مہم“کا آغاز کر دیا اور کچھ دن بعد ہی اس کا بہت اچھا نتیجہ سب کے سامنے آیا۔ساریہ کی جماعت کی طالب علموں کا سالانہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD