Urdu Stories Tanveer.

5000 Words
جاوید بسام ”اور یہ مرد؟“ ”یہ میرے والد ہیں،مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟“ بلاقی کرسی پر بیٹھ گیا:”آپ کے والدین کہاں ہیں؟“اس نے پوچھا۔ ”ان کا انتقال ہو چکا ہے۔“ماریا بولی۔ بلاقی نے گہری سانس لی اور اپنا ماتھا سہلانے لگا۔ ”آخر بات کیا ہے؟“ماریا نے پوچھا۔ ”میں بتاتا ہوں۔“بلاقی بولا اور گزشتہ رات کی پوری روداد اسے سنا دی۔ ماریا حیرت سے آنکھیں پھاڑے سن رہی تھی۔جب بلاقی خاموش ہوا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی:”مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ بلاقی نے کچھ سوچا پھر بولا:”کیا کبھی اس گھر میں آگ لگی تھی؟“ ماریا نے سر اُٹھایا اور غور سے بلاقی کو دیکھنے لگی۔ پھر اس نے گردن ہلائی اور بولی:”ہاں ایسا ہوا تھا،مگر یہ ساٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے اور وہ بچی میں تھی۔ (جاری ہے) “ بلاقی کو حیرت سے سانپ سونگھ گیا۔ماریا بھی خاموش تھی۔ پھر بلاقی بولا:”اچھا میں چلتا ہوں بعد میں آپ کے پاس آؤں گا۔ “یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ماریا بولی:”ٹھیرو،کیا تمہارے پاس ان باتوں کا کوئی ثبوت ہے؟“ بلاقی نے جلا ہوا ہاتھ آگے کیا اور بولا:”میں جلد آپ کے پاس آؤں گا۔“یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ چائے خانے میں بیٹھا تھا۔ سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی اور وہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا اور بولا:”ہاں بلاقی!اب بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے۔میں اس وقت جلدی میں تھا۔“ وہ گراہم تھا۔اس نے کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا۔ بلاقی نے کھوئی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور خاموش رہا۔گراہم ہنس کر بولا:”میاں!کہاں گم ہو؟تم کس آگ کا ذکر کر رہے تھے؟“ بلاقی نے گہری سانس لی اور بولا:”اب بات نے اور رُخ اختیار کر لیا ہے۔دوپہر کو میں وہاں چلا گیا تھا۔ وہاں کوئی جلی ہوئی عمارت نہیں ہے۔“پھر اس نے ماریا سے ملاقات کا احوال سنایا۔ گراہم توجہ سے سن رہا تھا۔اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔جب بلاقی چپ ہوا تو وہ بولا:”تم نے یہ بات کسی کو بتائی تو نہیں؟“ بلاقی نے نفی میں گردن ہلائی۔ گراہم کچھ دیر سوچتا رہا،پھر سرگوشی میں بولا:”میرا خیال ہے تم نے وقت میں سفر کیا ہے۔“ بلاقی نے سر ہلایا اور بولا:”ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے وہاں موجود لوگوں کے کپڑے پرانی وضع کے تھے اور آگ بجھانے والی گاڑی بھی قدیم طرز کی تھی۔ “ ”کیا میں ماریا سے مل سکتا ہوں؟“گراہم نے پوچھا۔ بلاقی نے گردن ہلائی۔دونوں اُٹھے اور باہر نکل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ اس عمارت کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ماریا نے انھیں اندر بلا لیا۔بلاقی نے دوست کا تعارف کرایا اور بولا:”یہ آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ “ماریا نے سر ہلایا۔ گراہم نے اس سے بہت ساری باتیں کی۔ماریا نے بتایا کہ وہ ایک اسکول میں استاد تھی۔اب ریٹائر ہو چکی ہے۔جب وہ چھے سال کی تھی تو اس گھر میں آگ لگ گئی تھی۔اس کے ماں باپ گھبراہٹ میں باہر نکل گئے تھے۔وہ اوپر تھی۔ پھر ایک آدمی آیا۔وہ کوچوان تھا اور اسے اُٹھا کر نیچے لے گیا۔اس کے کوٹ میں آگ لگ گئی تھی۔اس رات ہم پڑوسی کے گھر میں رہے تھے۔“ ”کیا اس واقعے کے کچھ گواہ موجود ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔ ماریا کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی:”زیادہ تر لوگ تو وفات پا چکے ہیں۔ کچھ یہاں سے گھر چھوڑ چلے گئے،مگر دو گھر چھوڑ کر ایک دندان ساز رہتا ہے۔اس وقت وہ نوعمر لڑکا تھا۔“ ”کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں؟“گراہم نے پوچھا۔ ”ہاں“ماریا بولی۔وہ دندان ساز سے جا کر ملے۔اس نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ کوچوان بہت بہادر تھا۔ اس نے جس پھرتی سے ماریا کی جان بچائی تھی،سب حیران رہ گئے تھے۔وہ واپس لوٹ گئے۔ اگلے دن گراہم نے بلاقی سے ملاقات کی اور جوش سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا:”لو میاں بلاقی!تمہارے وقت میں سفر کی اسٹوری تیار ہو گئی۔ کل اخبار میں شائع ہو جائے گی۔“ بلاقی نے اسٹوری پڑھی اور بولا:”ہم کسی مشکل میں تو نہیں پڑ جائیں گے؟“ ”مشکل کیسی؟بلکہ ماریا اور تم پر دولت اور شہرت کے دروازے کھل جائیں گے۔“گراہم ہنس کر بولا۔ پھر اس نے دو لفافے نکالے ان میں بڑے نوٹ تھے۔ ایک پر بلاقی اور دوسرے پر ماریا کا نام لکھا تھا۔وہ بولا:”لو یہ تمہارا اور دوسرا ہم ابھی ماریا کو دینے چلتے ہیں۔“ ”مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔“بلاقی بولا۔ ”اوہ بھائی!ہم خبروں سے پیسہ کماتے ہیں تو اس کے حصول کے لئے خرچ بھی کرتے ہیں۔ بس کوئی نئی بات ہو تو پہلے ہم کو بتانا۔“گراہم بولا۔ پھر وہ ماریا کے پاس گئے اور اسے لفافہ دیا۔وہ خوش ہو گئی،کیونکہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد مشکل سے گزر بسر کر رہی تھی۔ اگلے دن اخبار میں میاں بلاقی کی ماضی میں سفر کی داستان شائع ہوئی۔ ہر طرف شور مچ گیا۔لوگ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔تمام اخبار فوراً بک گئے اور دوبارہ چھاپے گئے۔جب بلاقی صبح چائے خانے پر گیا تو دوستوں نے اسے گھیر لیا۔وہ اس کے منہ سے تمام واقعہ سننا چاہتے تھے۔ کئی دن تک لوگ اس موضوع پر بات کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں۔کچھ لوگوں کا خیال تھا یہ ممکن نہیں،جب کہ کچھ کو اس پر یقین تھا۔ ایک دن شام کو بلاقی چائے خانے میں بیٹھا تھا کہ گراہم وہاں آیا۔وہ پریشان نظر آرہا تھا۔بلاقی نے وجہ پوچھی۔وہ مدہم آواز میں بولا:”میں مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ اس واقعہ پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ کہانی جھوٹی ہے۔“ ”مگر ان کو یقین کیوں نہیں آرہا۔میں تو ماریا کو پہلے سے نہیں جانتا تھا اور نہ کبھی اس علاقے میں گیا تھا۔“ ”ہاں مگر یہ تو تم کہہ رہے ہونا۔ “ ”میں جھوٹ نہیں بولتا۔“بلاقی غصے سے بولا۔ ”مجھے پتا ہے تم جھوٹ نہیں بولتے،مگر لوگ اس پر کیسے یقین کریں؟ہمیں اس کا ثبوت ڈھونڈنا ہو گا۔“ گراہم پریشانی سے بولا۔ بلاقی کچھ سوچتے ہوئے اپنا گال کھجانے لگا۔ دونوں دیر تک خاموش رہے۔آخر بلاقی نے گراہم کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور جوش سے بولا:”ہم ایک چیز بھول گئے ہیں۔“ ”وہ کیا؟“ ”ہمیں اس زمانے کے اخبار دیکھنے چاہئیں شاید ان سے کچھ مدد مل جائے۔“ گراہم چند لمحے بلاقی کو غور سے دیکھتا رہا پھر میز پر ہاتھ مار کر بولا:”یہ تو میں بھول ہی گیا۔ چلو،ابھی دفتر چلتے ہیں۔“ گراہم کا اخبار اسی سال پرانا تھا۔وہ دفتر پہنچے۔پرانے اخبار تہہ خانے میں رکھے جاتے تھے۔گراہم نے چابی لی،تالا کھولا اور دونوں سیڑھیاں اُترنے لگے۔وہ ایک بڑا ہال تھا۔جس میں پرانے کاغذوں کی بُو پھیلی تھی۔ گراہم نے روشنی کی۔وہاں بے شمار الماریاں تھیں، درمیان میں ایک لمبی میز اور کرسیاں بھی پڑی تھیں۔ ”میاں بلاقی!ذرا الماریوں پر لکھے سنہ پڑھتے چلو۔“گراہم بولا۔ جلد ہی انھوں نے مطلوبہ الماری ڈھونڈ لی۔گراہم نے اسے کھولا اور تاریخوں پر نظر ڈورانے لگا۔ پھر اس نے واقعے کے اگلے دن کا اخبار نکالا۔دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔وہ بہت پُرجوش تھے۔آگ لگنے کی خبر انھیں پہلے صفحے پر ہی مل گئی۔اس میں وہی باتیں تھیں،جو وہ جانتے تھے۔ان کی دلچسپی خبر سے زیادہ تصویروں میں تھی۔وہ تین تصویریں تھیں جو کسی پڑوسی فوٹو گرافر نے کھینچ کر اخبار کو دے دی تھیں۔ پہلی تصویر جلتے ہوئے گھر کی تھی،دوسری میں آگ بجھانے والوں کو دیکھایا گیا تھا اور تیسری تصویر بچی کے باپ اور کوچوان کی تھی۔ان کے عقب میں بگھی بھی نظر آرہی تھی۔دونوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے تصویر کو دیکھ رہے تھے۔وہ زیادہ واضح نہیں تھی،مگر اس میں بلاقی کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔ گراہم نے بلاقی کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور بولا:”واہ میاں بلاقی!آخر مسئلہ حل ہو ہی گیا۔“ اس نے اخبار لپیٹا اور دونوں باہر نکل گئے۔وہ بہت خوش تھے۔ دوسرے دن لوگ پھر دھڑا دھڑ اخبار خرید رہے تھے۔اس میں تیسری تصویر چھاپی گئی تھی۔ شام کو بلاقی،گراہم کے ساتھ ماریا سے ملنے گیا۔ماریا نے انھیں مزے دار کافی پلائی۔اس نے بھی وہ خبر پڑھ لی تھی۔وہ بولی:”بلاقی!تم نہ صرف بہادر آدمی ہو،بلکہ ذہین بھی ہو۔مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس قصبے میں رہتی ہوں،جس میں تم رہتے ہو۔ “ بلاقی نے آہ بھری اور بولا:”مگر کچھ لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں۔“ گراہم نے اسے ایک دھپ لگائی اور بولا:”مگر میں نہیں سمجھتا۔“سب زور زور سے ہنسنے لگے۔پھر ماریا اُٹھی اور بولی:”آج میں خریداری کے لئے بازار گئی تھی،تو تمہارے لئے یہ لے آئی۔ “ اس نے اخبار میں لپٹی کوئی چیز بلاقی کی طرف بڑھائی۔ ”یہ کیا ہے؟“بلاقی حیرت سے بولا اور کاغذ پھاڑا تو اس میں سے ایک بہت عمدہ کپڑے کا کوٹ برآمد ہوا۔گراہم نے تالی بجائی اور بولا:”لو میاں بلاقی!تمہیں نیا کوٹ بھی مل گیا۔“ ”ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟“بلاقی نے کہا۔ ”تم رات کو اِدھر اُدھر گھومتے ہو شاید کہیں پھر ضرورت پڑ جائے۔“ماریا بولی۔ بلاقی خوش دلی سے ہنس دیا۔پھر وہ وہاں سے رخصت ہو گئے۔(ختم) سیدہ اقراء اعجاز،حیدرآباد ماہین ایک بہت ہی پیاری بچی تھی۔وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔وہ روزانہ صبح اسکول جاتی اور گھر واپس آکر کام کاج میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتی۔ایک دن ماہین اسکول تاخیر سے پہنچی تو ٹیچر نے اسے بہت ڈانٹا اور وقت پر آنے کی تاکید کی،لیکن اب تو روز یہی ہونے لگا۔ ماہین سب سے آخر میں اسکول پہنچتی اور مس سے خوب ڈانٹ کھاتی،لیکن اصل وجہ نہیں بتاتی تھی کہ کہیں اسے بہانہ نہ سمجھ لیا جائے۔ پھر ماہین پورے ایک ہفتے اسکول نہیں آئی۔بچے مختلف باتیں کرنے لگے:”وہ روزانہ ٹیچر سے لیٹ آنے پر ڈانٹ کھاتی تھی،ہو سکتا ہے اس نے اسکول ہی چھوڑ دیا ہو۔ “ لیکن آخر ایک ہفتے کی چھٹی کے بعد ماہین اسکول آہی گئی۔آج وہ کلاس میں سب سے پہلے آئی تھی۔ (جاری ہے) ٹیچر کلاس میں داخل ہوئیں تو سب بچوں نے اُٹھ کر انھیں سلام کیا۔مس نے سلام کا جواب دیا اور وہ ماہین کو دیکھ کر چونک گئیں۔انھوں نے ماہین کو اپنے پاس بلایا اور کہا:”ویسے تو تم روزانہ اسکول دیر سے آتی تھیں اور آج پورے ایک ہفتے کے بعد آئی ہو۔ دل بھر گیا تمہارا چھٹیوں سے۔“ مس غصے سے اسے ڈانٹے جا رہی تھی اور ماہین کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اس نے مس سے کہا:”مس!میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔“ ”ہاں کہو۔“مس نے غصے سے کہا۔ ”مس!میں دیر سے اس لئے آتی تھی،کیونکہ میری امی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ میرا کوئی بھائی یا بہن نہیں ہے۔والد کسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ناشتہ تیار کرنے اور ماں کو دوا دینے کی وجہ سے میں دیر سے آتی تھی،پھر ماں کا انتقال ہو گیا اس لئے کئی دن اسکول نہ آسکی۔ آئندہ ہمیشہ وقت پر آیا کروں گی،کیونکہ اب میں ماں کی خدمت نہیں کر سکوں گی۔“ ماہین کی باتیں سن کر سب ہی بچے افسوس کرنے لگے اور مس بھی بہت شرمندہ ہوئیں۔ماہین یہ سب بتا کر زور زور سے رونے لگی۔ ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے،جو بہت زیادہ شرارتی تھے۔ان کے ماں باپ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آگئے تھے۔اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا بچہ تھا۔ ایک دن گھاس چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔کیونکہ ان بچوں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ بندر کے ایک بچے نے کہا”ارے!دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے،آؤ اسے چھیڑتے ہیں۔“ دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہو کر ژراف پتے کھا رہا تھا۔ (جاری ہے) اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا”اے لمبو!تمہارا کیا نام ہے․․․․؟“ ژراف نے بڑی نرمی سے کہا”میں ژراف ہوں،کیا مجھ سے دوستی کرو گے؟تم لوگوں کے نام کیا ہیں؟“ دونوں بندر شرارت سے کھکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ”تم سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے․․․؟کتنے بد صورت ہو تم،مینار کے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنی ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی․․․․․!“اتنا کہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے۔ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف پر پھینک مارا۔پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کودتے پھلانگتے وہاں سے بھاگ گئے۔ژراف بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے کے لئے چلیں گے۔ صبح صبح جب باقی بندر سو رہے تھے،یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔کچھ ہی دیر میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھا لیے۔انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی۔وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے،اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھر امیدان تھا۔میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔بندر اُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لئے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چونکہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرا دیا۔پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا۔شیر نے غصے سے دہارتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔ بندر کھی کھی کرکے ہنس رہے تھے،لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے،کیونکہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا”کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا راجا ہوں۔فوراً اس درخت سے نیچے اترو۔میں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔ “ بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے۔شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے شیر وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔بندروں کی حالت بڑی پتلی ہو گئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے۔ وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ”گھبراؤ مت!میں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ۔“ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہوا تھا جس کا ان لوگوں نے کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑایا تھا۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لئے تیار ہے۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیرہ کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ ژراف نے کہا”میرے دوستو!جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا۔ “ بندر اب ڈرتے ڈرتے ژراف کی گردن پر پھسلتے ہوئے اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئے اور ژراف انھیں لئے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔ بندروں نے پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لئے دوڑ لگا رہا تھا اور غرائے جا رہا تھا۔ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔“ اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رُک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔ تب ژراف نے ان دونوں سے کہا”اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا نا،آج دیکھ لیا ناکہ انہی کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور درخت سے تم کو اتار سکا۔اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔“ بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے،دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور خاموش رہے۔ ان کی یہ حالت،خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ”چلو!چھوڑو ان باتوں کو،بھول جاؤ پچھلے قصبے کو،اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔ “ ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کر دونوں شرارتی بندروں کو اپنی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایا تھا اور اس کا مذاق کیوں اڑایا تھا․․․․؟ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی۔ ژراف نے کہا”دوستو!معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان دونوں شرارتی بندروں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور کسی کا مذاق نہیں اُڑائیں گے۔انہوں نے ژراف سے کہا کہ”ہم نے جان بوجھ کر بہت ستایا تھا،آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے،نہ کسی کو بُڑا بھلا کہیں گے۔ آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ ہنسی خوشی ساتھ رہنے لگے۔ حریم خان،نارتھ کراچی بھارت میں حیدر آباد دکن سے سات میل دور کولگندہ نامی ایک شہر ہے،جہاں ایک کسان اپنے کھیتوں میں بیچ بو رہا تھا۔صبح کا وقت تھا۔ علاقے کا نواب سیر کرتا ہوا وہاں سے گزرا۔کسان کو محنت سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر نواب نے سوچا کہ کسان سے اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔ وہ گھوڑے سے اُترا اور کھیت کے کنارے پہنچ کر کسان سے پوچھا:”کیوں بھائی!کھیتی باڑی میں تم اس قدر محنت کرتے ہو،کتنا کچھ کما لیتے ہو؟کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟“ کسان نے سر اُٹھایا اور نواب سے کہا:”فائدہ کیا جناب!فصل کٹنے کے بعد اس کے چار حصے کر لیتا ہوں۔ “ نواب نے پھر پوچھا:”اچھا تو ان چاروں حصوں کو خرچ کیسے کرتے ہو؟“ کسان نے جواب دیا:”ایک حصہ تو حکومت کے ٹیکس میں چلا جاتا ہے۔ (جاری ہے) دوسرا حصہ قرض چکانے میں ختم ہو جاتاہے۔تیسرا حصہ اُدھار دیتا ہوں اور باقی چوتھا حصہ یوں ہی لُٹا دیتا ہوں۔ “ نواب کو کسان کی یہ عجیب و غریب باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔حیرت سے پوچھا:”تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔صاف صاف بتاؤ،تم قرض چکاتے بھی ہو اور دیتے بھی ہو۔ایسا کون سا قرض ہے جو ہر فصل پر ادا کرتے ہو اور پھر بھی ختم نہیں ہوتا اور وہ کون ہے،جسے تم ہمیشہ قرض دیتے ہو اور پھر ایک چوتھائی رقم تم یوں ہی اُڑا دیتے ہو؟“ کسان نے جواب دیا:”جناب!بات دراصل یہ ہے کہ میرے والد نے ایک ساہو کار سے رقم اُدھار لی تھی۔ والد کے مرنے کے بعد اس کا سود میں ادا کرتا ہوں۔ایک حصہ ٹیکس دینے کے دوسرا حصہ یہ ادا ہو جاتا ہے۔ ”اور تیسرا حصہ کسے اُدھار دیتے ہو؟“نواب نے پوچھا۔ کسان نے کہا:”یہ میں اپنے دو لڑکوں پر خرچ کرتا ہوں،تاکہ بڑھاپے میں وہ مجھ پر خرچ کریں۔ “ نواب نے پوچھا:”اور یہ ایک حصہ فضول کیوں اُڑا دیتے ہو؟“ کسان نے کہا:”میری ایک لڑکی بھی ہے۔آپ کو پتا ہے کہ آج کل جہیز کے بنا شادی نہیں ہوتی اور جہیز ایک فضول رسم ہے۔چوتھا حصہ اس کے جہیز کے لئے رکھتا ہوں۔میری نظر میں یہ رقم لٹانا ہی ہوا۔“ نواب اس کی مدلل گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور ایک بڑی رقم اسے انعام کے طور پر دے کر رخصت ہو گیا۔ طوبیٰ صدیقی،جڑا نوالہ اسلم ایک غریب،لیکن نہایت ہونہار طالب علم تھا۔اس کے والد ایک معمولی سی دکان پر کام کرتے تھے۔ان کی تنخواہ بھی کم تھی۔اسکول میں اسلم کا ایک دوست جواد تھا جو امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک روز اسلم کے والد سڑک کے حادثے میں زخمی ہو کر معذور ہو گئے۔ اگلے دن اسلم اسکول گیا تو کسی بھی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔وہ سارا دن پریشان بیٹھا رہا۔اس کے دوست جواد نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ ”اسلم!کیا بات ہے؟تم مجھے کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔“جواد نے پوچھا۔ ”کچھ نہیں بس تھوڑا سا سر درد ہے۔“اسلم نے ٹالنا چاہا۔ ”اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ میں تمہارا مخلص دوست ہوں۔ (جاری ہے) میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ “جواد سے اپنے دوست کی پریشانی دیکھی نہ گئی تو اس نے پھر پوچھا۔ اسلم نے سوچا کہ وہ اگر جواد کو اپنا سارا مسئلہ بتا دے تو شاید اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو جائے۔اسلم نے اپنے ابو جان کے بارے میں ساری بات جواد کو بتا دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ کام پر نہ جانے کی وجہ سے اس کے والد کو تنخواہ بھی نہیں مل سکے گی۔ جواد کو اسلم کے والد کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا۔ ”میرے دوست!تم پریشان مت ہو۔میں اپنے ابو سے بات کروں گا۔وہ ضرور تمہارے مسئلے کا کوئی حل نکال لیں گے۔“ جواد نے اپنے گھر پہنچ کر اپنے ابو کو اسلم کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ یہ سب کچھ جان کر جواد کے ابو کا دل بھی غم سے بھر گیا اور انھوں نے اسلم کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔اچانک اسلم کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔اسلم نے دروازہ کھولا تو سامنے جواد کو اپنے ابو کے ساتھ کھڑا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور ان کو اندر لے آیا۔ جواد کے ابو نے بات شروع کی اور اسلم کے ابو کو تسلی دی:”آپ بالکل نہ گھبرائیں۔جب تک آپ مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتے،گھر کے خرچ کی طرف سے بے فکر ہو جائیں۔دواؤں کا خرچ اور اسلم کی فیس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ہم کوشش کریں گے کہ آپ کے گھر والوں کا پوری طرح سے خیال رکھیں۔“ یہ سن کر اسلم کے ابو کی آنکھیں انسوؤں سے بھر گئیں اور انھوں نے جواد کے ابو کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس سے اسلم اور جواد کی دوستی مضبوط ہو گئی۔ محمد علیم نظامی ”امی جان“امی جان”میں روزہ نہیں رکھوں گا“۔امی جان کی آواز پر ببلو چلایا۔لیکن بیٹا:آج سے رمضان المبارک کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور پہلا روزہ ہر بچے کو رکھنا چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ تمام روزے رکھ کر بچے اپنے اللہ کو خوش اور راضی کریں۔ ”امی جان نے ببلو کو نصیحت کرتے ہوئے کہا“۔امی جان!آج کل سخت گرمی کا موسم ہے۔بچے تو کیا بڑے لوگ بھی روزہ رکھنے سے ہچکچاتے ہیں اور میں تو صرف ابھی 10 سال کا ہوا ہوں۔“”بیٹا 10 سال کی عمر میں ہر بچے کو فرض روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ”مگر امی جان! مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں رمضان المبارک کے پورے روزے رکھوں۔“امی جان نے ببلو کی اس بات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”دیکھو بیٹا!جو بچے یا جو لوگ روزے رکھنے کی نیت کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ خود ہی انہیں اتنی قوت عطا کر دیتے ہیں کہ جب وہ روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو خود بخود ہی ان میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ سحری کے وقت سے لے کر افطاری تک انہیں روزہ کچھ نہیں کہتا بلکہ جب بچے اور بڑے روزہ کھولتے ہیں تو انہیں ایک قسم کی روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ (جاری ہے) “ ببلو نے کسی حد تک اپنی امی جان کی بات سے اتفاق کیا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ”دیکھیے امی جان!روزہ رکھنے کے لئے تو بھی ساری عمر پڑی ہے۔میں نے گرمی سردی میں سکول بھی جانا ہوتا ہے۔سکول کے کام میں پانچ چھ گھنٹے لگانے ہوتے ہیں۔ پھر سخت دھوپ اور حبس میں گھر واپس آکر کس طرح میں روزہ برداشت کروں گا۔”اگر آپ نے مجھے روزے رکھانے ہی ہیں تو پھر ایک ماہ کے لئے سکول سے مجھے چھٹی لے دیں۔میں روزے کی حالت میں گھر میں بیٹھ کر یا لیٹ کر سارا دن گزار لوں گا اور یوں آپ کو بھی مجھ سے کوئی شکایت نہیں“۔ ؟ امی جان ببلو کی یہ بات سن کر قدرے غصے میں آگئیں اور انہوں نے ببلو کی بات کاٹتے ہوئے اسے کہا کہ”دیکھو!ببلو میاں!تم اکیلے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمان بچے اپنے سکولوں میں تمہاری جیسی عمر کے مطابق جاتے ہیں انہوں نے روزہ بھی رکھا ہوا ہوتا ہے اور تمام زندگی کے کام بھی کرتے ہیں۔ سکول کے کام کے علاوہ سحری سے لے کر افطاری تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں۔ساتھ گھریلو کام کاج میں بھی حصہ لیتے ہیں اس کے باوجود وہ خوش و خرم اور تازہ دم رہتے ہیں۔پھر تمہیں کیا قباحت ہے کہ تم ایک روزہ بھی نہیں رکھنے کو کہہ رہے،30 روزے تو دور کی بات ہے۔ امی جان کی یہ سبق آموز باتیں سن کر ببلو کچھ شرمندہ ہو گیا اور اس نے امی جان کی بانہوں میں اپنی بانہیں ڈالتے ہوئے قدرے خوشی سے کہا کہ دیکھیے امی جان!آپ کی روزہ کے متعلق باتیں میرے دل و دماغ میں سرایت کر گئی ہیں۔میں ان باتوں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج پہلا روزہ رکھوں گا اور انشاء اللہ سارے روزے پورے کرکے اپنے اللہ،امی ابو اور بہن بھائیوں کو بھی خوش کروں گا۔ببلو نے روزہ رکھنے کی ہاں کہہ کر سب گھر والوں کو لاجواب کر دیا۔ زہرہ کنول اعوان،مظفر گڑھ عامر ہمیشہ اپنی والدہ کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔سب گھر والے اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے۔وہ گھر کی ساری جمع پونجی اپنے نشے کی بُری عادت میں صرف کر دیتا۔ اس کا ایک ہی بھائی عمران تھا،جو بہت محنتی تھا۔عامر کے والد تین سال پہلے وفات پا گئے۔ان کی وفات کے بعد عمران نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کا خرچ سنبھال لیا۔وہ صبح سویرے کام کی تلاش میں گھر سے نکل جاتا اور شام کو واپس لوٹ آتا،لیکن عامر بُری صحبت میں پڑ گیا اور اسے نشے کی لت پڑ گئی۔ اس کے گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔اس کے دوست اسے اس کے گھر والوں کے خلاف ورغلاتے اور وہ ان کی باتوں میں آجاتا۔ (جاری ہے) ایک روز عامر نشہ کرکے رات کو دیر سے گھر پہنچا اور چلا کر اپنی والدہ سے کھانا مانگا تو اس پر اس کی والدہ نے کہا:”عامر بیٹا!گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔ “ یہ سن کر عامر طیش میں آگیا،کیونکہ اسے بہت زیادہ بھوک لگ رہی تھی اور چلا چلا کر اپنی والدہ کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ عمران نے اسے روکا،مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ عمران نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ان کی والدہ یہ سب دیکھ کر بلک بلک کے رو رہی تھیں۔ اگلی صبح ماں نے kaha usko.
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD