ishq

ishq

book_age18+
0
FOLLOW
1K
READ
love-triangle
HE
sweet
disappearance
like
intro-logo
Blurb

"نفرت ہے مجھے تم سے سنا تم نے سخت نفرت ہے چلی جاؤ یہاں سے" اُس نے بے رحم لہجے میں کہا تو وہ زخمی سا مسکراتے چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی وہاں سے جانے لگی لیکن ایک محبت بھری نظر اپنے عشق پر ڈالنا نہیں بھولی ۔ وہ عشق تھا اُس کا اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔

chap-preview
Free preview
عشق از قلم : لائبہ نور
"نفرت ہے مجھے تم سے سنا تم نے سخت نفرت ہے چلی جاؤ یہاں سے" اُس نے بے رحم لہجے میں کہا تو وہ زخمی سا مسکراتے چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی وہاں سے جانے لگی لیکن ایک محبت بھری نظر اپنے عشق پر ڈالنا نہیں بھولی ۔ وہ عشق تھا اُس کا اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔ جستجو بس تیری ہے مجھے۔۔!!! پھر دل کے خریدار ہزار سہی۔۔!!! روشنی میں ، ہزاروں گروہوں میں بھی۔۔!!!! چاند کی طرح بس تیری کمی ہے مجھے۔!!!! اور تُو اب بھی کہتا ہے میں رہ سکتی ہوں تیرے بغیر ۔۔۔!!! یعنی میری محبت پر یقین تجھے اب بھی نہیں ۔۔۔!!! کسی دن تُو دوڑے آئے گا الٹے قدموں ۔۔۔!!! اور سوچ اگر اُس دن میں تجھے میسر نہ ہوئی؟؟؟۔۔!! اکتوبر کے اتوار کی ایک حسین صبح، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہواؤں نے سردیوں کے آنے کی نوید سنائی تھی۔ " good morning امی " وہ سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے سامنے نظر آتی اپنی امی سے مخاطب ہوا ۔ " good morning بیٹے آؤ ناشتہ کرو " انہوں نے جواب دیتے پیار سے کہا ۔ " اہم جی امّی بس کچھ منٹس رُک جائیں پھر ایک ساتھ کرتے ہیں ناشتہ" اُس نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا پہلے تو وہ الجھ گئیں کہ کون آ رہا ہے پر پھر سمجھتے ہوئے کہنے لگیں " اچھا اچھا ٹھیک ہے" مسکراتے ہوئے واپس کچن میں دیکھنے گئیں کہ سب تیار ہے یا کچھ رہتا ہے ۔ پورے پانچ منٹ کے بعد پانچ لوگ محل نما گھر میں دانت نکالتے ہوئے داخل ہوئے۔" اسلام وعلیکم" سب ایک آواز میں کہتے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے جیسے آئے ہی کھانا کھانے ہوں۔ آج وہ حیران نہیں تھا نہ اُسے کوئی فرق پڑا تھا شاید اُسے عادت ہو گئی تھی اب ۔ " وعلیکم السلام بچوں کیسے ہو آپ لوگ ارے میری پیاری بیٹی کیسی ہو آپ" انہوں نے سلام کا جواب دیتے سب کی خیریت پوچھی ۔ " ہم ٹھیک ہیں" وہ سب پھر ہم آواز بولے سوائے ایک کے " میں بھی ٹھیک ہوں پُھوپو آپ کیسی ہیں " اُس نے معصوم سے انداز میں کہا تو اُن کے سمیت سب مسکرا دئیے سوائے ایک کے کیونکہ وہ ایک موبائل میں مصروف تھا۔" اب تم آگئی ہو تو میں بھی ٹھیک ہوں میری گڑیا" انہوں نے پیار سے کہا تو وہ مسکرا دی ۔ " ماما بھوک لگ رہی ہے اور شاید انہیں بھی بھوک لگ رہی ہے کھانا لگوائیں نا پہلے" اُس نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ " ہُنھ اکڑو " اُس نے سوچتے ہوئے کہا۔" جی بیٹا ضرور کیوں نہیں رانی رانی کھانا لگائو" انہوں نے جواب دیتے اپنی نوکرانی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔ " اسلام وعلیکم good morning everyone " کسی نے کہا تو سب اُس کی جانب متوجہ ہوئے ۔ " آ گیا یہ ہر وقت سوتا ہی رہتا ہے بس" کسی نے سوچتے ہوئے آنکھیں گھمائیں ۔ "وعلیکم السلام good morning " سب نے ایک ساتھ کہا ۔ وہ اُسی انسان کی برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا تو اس نے پھر سے آنکھیں گھمائیں تو وہ مسکرا دیا ۔ کھانا سکون سے کھانے کے بعد وہ سب اُسی کے کمرے میں موجود تھے۔ " ہادی کل ایک ویڈیو بھیجی تھی تجھے وہ سینڈ کر مجھے مجھ سے ڈلیٹ ہو گئی ہے" اُس نے اپنے موبائل سے نکلتے اپنے دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ " یار وہ تو میں نے اہتشام کو بھی بھیجی تھی تُو اُس سے لے لے میری گیم چل رہی ہے حارث مجھے ڈسٹرب نہ کر" اُس نے موبائل میں گیم کھیلتے مصروف سے انداز میں کہا۔ تو وہ نفی میں سر ہلاتے دوسرے کی جانب متوجہ ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ جب گیم کھیلتا ہے تو کسی کی نہیں سنتا۔ " یار تُو ہی بھیج دے اب " اُس نے اہتشام کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ۔ " بھیج دی ہے چیک کر موبائل اپنا" اُس نے موبائل رکھتے ہوئے کہا کیونکہ اب ایک انسان سب کو گھور رہا تھا۔ " کیا ہوا مانو بلی ایسے کیوں دیکھ رہی ہو سب کو تم" اُس کو وجہ پتا تھی پر پھر بھی پوچھ لیا اُس کے کہتے ہی سب اُن کی جانب متوجہ ہوئے۔ " کدّو آپ تو رہنے ہی دیں چپ ہی رہیں آپ اور مجھے مانو بلی نہیں کہا کریں" اُس نے آنکھیں پھیرتے ہوئے کہا پر کسی کی چنگاری پھینکتی آنکھوں کو دیکھ کر فوراً نظریں جھکا لیں۔" نور بانو تم مانو بلی ہی ہو پر تم سب کو گھور کیوں رہی تھی" اُس نے ہنستے ہوئے کہا ۔" ہنسیں نہیں آپ نے میسج کیا تھا کہ یہاں آکر پڑھ لینا لیکن یہاں تو سب کے سب اپنے موبائل میں مصروف ہیں میرے کام میں کون مدد کرے گا آپ لوگوں کا تو فائنل ایئر ہے پھر آزاد میری پتا نہیں کب جان چھوٹے گی" اُس نے ناراضگی سے آہستہ آواز میں کہا کہ کہیں وہ اکڑو سن نہ لے ۔ "اسی لئے تمہیں بھی آنے کو کہا تا کہ تمہاری یہ اکڑو بہن بھی ائے اُس نے صرف سوچا کہا نہیں۔ہاہاہا مانو بلی اسی لئے ناراض ہو کر سب کو گھور رہی تھی میں ہوں نہ مدد کرواؤں گا میں پر پہلے تھوڑی گپ شپ کر لیں سب سے پھر کرواؤں گا ٹھیک ہے" اُس نے دانین کی طرف دیکھا پھر اُسے دیکھ کر کہا۔ "ٹھیک ہے بھائی" اُس نے کہتے ہوئے مناہل کی جانب رُخ کیا جو موبائل میں مصروف تھی۔ " اوہ ھیلو گائز اپنے موبائلوں کو رکھ دو اب کچھ باتیں شاتیں کر لیتے ہیں پھر ویسے بھی گھر چلے جائیں گے سب" اِس نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا تو سب اپنا موبائل رکھ چکے تھے سوائے اُن دو لوگوں کے جو ابھی بھی موبائل میں ہی مصروف تھے۔" ارمان ، ہادی یار موبائل رکھ دو اب کیا ہر وقت گُھسے رہتے ہو اِس میں" اِس نے ناراضگی سے کہا تو ہادی نے موبائل رکھ دیا اور ارمان کے ہاتھ سے اِس نے خد موبائل لیا کیونکہ اُس کا خد تو دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سب حیران ہوتے تھے کہ یہ اِسے کچھ کیوں نہیں کہتا چپ چاپ اِس کی بات مان لیتا ہے۔ورنہ تو وہ بہت سنجیدہ مزاج کا بندہ ہے کسی سے بات نہیں کرتا اور نہ کسی کی مانتا بس اپنی کرنے والا۔ اور اگر کوئی اُس لڑکی سے پوچھے تو وہ تو اُسے اکڑو ، مغرور ، ڈرائونہ ، اور اُس پر روب جھاڑنے والا انسان کہہ دے۔ وہ سب باتیں کر رہے تھے اور سنجیدہ بنا بیٹھا بس ضرورت پڑنے پر ہی بول رہا تھا ایسے دن گزرتا گیا وہ لوگ شام کی چائے پی کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ (ارمان اور حارث دونوں بھائی ہیں جن میں سے ارمان بڑا بھائی ہے۔ اِن کے بابا اسلامآباد کچھ کام کے سلسلے میں گئے ہوئے ہیں۔دانین ، ہادی ، نور عین یہ تینوں بہن بھائی ہیں ارمان کے ماموں کے بچے۔ اہتشام اور مناہل بہن بھائی ہیں ۔ ارمان کی خالہ کے بچے ۔ اہتشام اِس کا بہت اچھا دوست ہے ۔ حارث اور ہادی پر یہ کوئی آنچ برداشت نہیں کر سکتا ۔ اِسے سب کزنز عزیز تھے پر نورعین سے اسے نفرت تھی وہ اِسے بلکل پسند نہیں تھی اِس کی ایک وجہ ہے وہ آپ کو آگے چل کر پتا چلے گا ۔ ان سب کا یونی میں لاسٹ ایئر تھا سوائے نورعین کے اِسکا سیکنڈ لاسٹ ایئر تھا۔ اُن سب میں بڑے ارمان اور اہتشام تھے جو ہم عمر تھے اہتشام تھوڑا فرینڈلی تھا اُس کے برعکس ارمان کافی سنجیدہ مزاج اور اپنے آپ میں ہی رہنے والا انسان ہے۔ حارث ، ہادی ، دانین اور مناہل اِن سے ایک دو سال ہی چھوٹے تھے جبکہ نورعین اِن سب سے دو ، تین سال چھوٹی تھی اور ان سب کی لاڈلی بھی تھی سوائے ارمان کے ایسا اُسے لگتا تھا کیونکہ وہ ہر وقت اُس پر بس غصّہ ہی کرتا تھا ۔ ) " ہادی بھئیا جلدی کریں لیٹ ہو جائے گا یونی کے لیے" وہ اُس کے دروازے کے پاس کھڑی دروازہ بجا رہی تھی۔ " روکو روکو بس آ رہا ہوں سب تیار ہیں نہ" اُس نے اندر سے ہی آواز دی ۔ " جی بھائی دانین آپی تیار ہیں اور وہاں بھی سب تیار ہیں میں نے مینو سے پوچھ لیا تھا " اُس نے موبائل دیکھتے ہوئے کہا ۔ " اچھا ٹھیک ہے تم چلو میں آرہا ہوں" ہادی نے کہا تو وہ واپس نیچے چلی گئی۔ " کیا ہوا کہاں رہ گیا ہادی " کسی نے اُس سے پوچھا۔ " جی دانین آپی وہ آ رہے ہیں" اُس نے سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے کہا ۔ " ہمم" دانین کہتے اپنا موبائل چلانے لگی ۔ ناشتہ و لوگ کر چکے تھے بس ہادی کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ وہ ہر بار لیٹ کرواتا تھا۔ پورے دس منٹ بعد وہ نیچے آیا۔ " اتنا وقت تو تیار ہونے میں ہم نہیں لگاتے جتنا وقت تم لگاتے ہو" دانین نے مصنوعی حیرت سے کہا تو نورعین اپنی ہنسی کو روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ گئی ۔ " ہی ہی ہی! اب چلیں" اُس نے دانت نکالتے ہوئے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاتے اُس کے پیچھے نکلی اور نورعین وہاں کھڑی ہنس رہی تھی پھر دانین کے آواز لگانے پر فوراً باہر کی طرف بھاگی ۔ اُن کی گاڑی خان ولّا کے باہر رکی گاڑی کی ہارن بجانے پر اہتشام اور مناہل باہر نکلے ان سب کو ھیلو کہہ کر اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھے ۔ اہتشام علی خان کی گاڑی آگے اور اُس کے پیچھے ہادی حیدر علی کی گاڑی اب یہ دونوں گاڑیاں مَلِک ولّا پہنچیں اور گاڑی کے ہارن بجانے پر ارمان اور حارث باہر آئے۔ حارث موبائل میں مصروف ایک ہاتھ جیب میں ڈالے جبکہ ارمان ہاتھ میں چابی لئے سنجیدہ سا چلتے اہتشام سے مل کر اپنی گاڑی کی جانب گیا جبکہ حارث سب سے ملنے لگا اور اُسے ایک نظر محبت سے دیکھ کر اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا اُس نے پھر اُسے دیکھ کر آنکھیں گھمائیں۔ " یہ بندہ عجیب ہے" اُس نے سوچتے ہوئے کہا پھر گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔ سب سے آگے ارمان مَلِک کی گاڑی پھر اُسکے پیچھے اُن دونوں کی گاڑیاں یونی ورسٹی جانے کے لیے رواں تھیں۔ یہ سب یونہی اکھٹے جاتے تھے سب مل کر بچپن سے ۔ ان کے ماں باپ بھی آپس میں ایسے ہی تھے۔ وہ سب یونی ورسٹی میں داخل ہوئے اور اپنی مخصوص جگہ پر جا کر بیٹھ گئے۔ "نوراں پانی کی بوتل دو" اُس نے نور کو کہتے ایک نظر اُس کے ساتھ کھڑی مناہل پر ڈالی جو اپنے بیگ میں نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔ " نوراں نہ کہا کریں مجھے میں نورعین ہوں" اُس نے بوتل حارث کو دیتے ہوئے ناراضگی سے کہا۔ " ارے میری پیاری گڑیا تم تو ناراض ہی ہو گئی" اُس نے پانی کی بوتل لیتے ہنستے ہوئے کہا تو مناہل ایک نظر اُسے دیکھ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی " گدھا کہیں کا" زیرِ لب بڑبڑاتی دانین کی طرف گئی جو موبائل میں مصروف تھی سنجیدہ سی کھڑی ۔ کیونکہ انِکی پہلی کلاس ساتھ تھی۔ تو اب منظر کچھ یوں تھا کہ ارمان اور اہتشام ساتھ کھڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے ہادی ، حارث اور نورعین ساتھ تھے جبکہ مناہل اور دانین ساتھ تھیں کیونکہ اِن کی پہلی کلاس ساتھ تھی جیسے ہی بیل بجی وہ اپنی کلاس کی طرف چلے گئے۔ کلاسز سے فارغ ہو کر اب وہ سب کینٹین میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ " دانین" اہتشام نے دانین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا جو مناہل اور نورعین سے باتوں میں مصروف تھی ۔ " جی بھائی" اُس نے سنجیدہ سا دیکھتے سامنے بیٹھے اہتشام کو کہا ۔" لا حولا ولا توبہ میں بھائی نہیں ہوں تمہارا بھائی ہادی ہے بس " اُس نے جھرجھری لیتے دل میں کہا اور دانین کو" کچھ نہیں " کہتے ارمان کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی اُمڈ آنے والی مسکراہٹ ضبط کیئے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ ارمان سب جانتا تھا اس کے بارے میں اور یہ بھی سب جانتا تھا ارمان کہ بارے میں آخر کو بہترین دوست تھے ایک دوسرے کا دل کہلاتے تھے پوری یونی ان کی بہترین دوستی کے بارے میں جانتی تھی ۔ وہ سب اپنی باقی کی کلاسز لے کر گھروں کو روانہ ہو گئے ۔" اسلام وعلیکم" وہ تینوں ایک آواز میں بولتے گھر میں داخل ہوئے ۔ " وعلیکم السلام فریش ہو کر آجائو کھانا لگواتی ہوں میں جب تک" اُن کی امی نے جواب دیتے ہوئے کہا تو وہ دونوں " اوکے" کہتے اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے جب کہ وہ اپنی امی کی طرف بڑھی اور اُن کے ہاتھ چومتے اپنے کمرے میں چلی گئی تو وہ مسکرا دیں ۔ یہ ایسی ہی تھی اِس کو اپنے ماں باپ سے بہت محبت تھی ۔ نورعین جب پانچ سال کی تھی تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اِس کو بہت محبت تھی اپنے والد سے لیکن اللّٰہ کے فیصلے پر راضی تھی اِس کی امی نے اسے سکھایا تھا۔ یہ بہت معصوم تھی سب کی لاڈلی تھی ۔ وہ اسٹڈی روم میں تھا بیٹھا پڑھ رہا تھا جب موبائل کی آواز نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا ۔ اُس نے بنا نمبر دیکھے کال اُٹھائی کیونکہ وہ جانتا تھا اِس وقت کس کی کال آتی ہے ۔" ھیلو یار تُو نے دیکھا نہ آج کیا کیا اُس نے وہ سمجھتی کیوں نہیں سب کو بھائی بنا لیتی ہے جبکہ ایک نلّا بھائی ہے اُس کا چلو یہ تو سہی ہے سب کو بھائی کہتی ہے پر مجھے مجھے کیوں کہتی ہے وہ" اُس نے سلام دعا کئے بنا ہی اپنے دکھڑے سنانا شروع کر دیئے وہ یونی میں ہی بات کر لیتا پر اُسے وقت نہیں ملا کیونکہ اُس کے بعد اِن کی کلاسز الگ الگ تھیں ۔ " رِلیکس بھئی کیا ہو گیا تو وہ تجھے بھائی ہی کہے گی نہ تُو بڑا ہے اُس سے اور تجھے ہی شوق تھا بہت کے سب تجھے بھائی بولیں" اُس نے کتاب بند کرتے کہا کیونکہ اب دو گھنٹے سے پہلے تو یہ چھوڑنے والا نہیں تھا ۔ " یار پہلے کہا تھا نہ مجھے کیا پتا تھا کہ اِس سے ہی محبت ہو جائے گی" اُس نے ایک دکھ سے کہا تو وہ بس نفی میں سر ہلاتے اپنی پیشانی کو مسلنے لگا ۔ " تو تُو نے کبھی اُسے بتائے اپنے جذبات نہیں نہ تو اُسے کیسے پتا چلے گا جگر تجھے اُس سے بات کرنی چاہیئے کہیں کوئی اُسے تجھ سے پہلے لے نہ اُڑے" اُس نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ " یار کہہ تو تُو سہی رہا ہے پر اُس سے کیوں بات کروں میں پڑھائی کمپلیٹ ہونے کے بعد امی بابا سے کو بھیج دوں گا اُس کے گھر رشتہ لینے اور یقین ہے مجھے مامی منع نہیں کریں گی مجھ سے بہت محبت کرتیں ہیں وہ " اُس نے اپنے صحیح کالر کو پھر سے صحیح کرتے ہوئے کہا ۔ " اوہ بیٹا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جب دلہن ہی راضی نہیں ہوگی تو مامی بھی کچھ نہیں کر پائیں گی اسی لئے پہلے تُو دلہن کو راضی کر کیونکہ اُس کو راضی کرنا بہت مشکل ہے میں جانتا ہوں آخر بڑا بھائی ہوں اُس کا " اُس نے اُسے باور کرایا اور اُس کے کچھ بھی بولنے سے پہلے اپنی بات جاری رکھی" اور ہاں زرا تمیز سے اُسے دکھ نہ ہو اور اگر وہ نہ مانی تو رہنے دینا زبردستی مت کریو ورنہ تجھ سے اور بدزن ہو جائے گی " اُس نے سمجھاتے ہوئے کہا پر دوسری طرف بھی اِس کا ہی دوست تھا اپنے نام کا ایک" آیا بڑا بہن کا سگا لیکن حاصل تو میں اُس کو کر ہی لوں گا چاہے وہ مانے یا نہ مانے وہ صرف میری ہے" اُس نے صرف سوچا اور " ہاں ہاں ٹھیک ہے " کہتے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے لیکن ارمان کو پورا یقین تھا یہ کچھ تو ضرور کرے گا آخر کو دوست تھا بچپن کا رگ رگ سے واقف تھا اُس کے ۔ بہت دیر باتیں کرنے کے بعد کال کاٹی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا کیونکہ یہ پہلے ہی تھکا ہوا تھا اوپر سے اپنا کام پورا کرنے کے لیے اسٹڈی روم میں گیا کام ختم کیا پھر دو گھنٹے اپنے دوست کے ساتھ سر کھپایا مطلب باتیں کیں ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ بیڈ پر گرنے کے انداز سے لیٹ گیا " اُف گوڈ تھک گیا آج تو" کہتا وہیں سو گیا ۔ شام کا وقت وہ لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب کوئی گاڑی پورچ میں داخل ہوئی وہ اچھے سے جانتے تھے یہ گاڑی کس کی ہے۔ " ارے بچوں آؤ اکیلے آئے ہو تمہارے ماما بابا نہیں آئے " انہوں نے پہلے خوشی سے پھر ایک دم اداس ہوتے ہوئے کہا۔ " نہیں ممانی جان وہ لوگ آئیں گے کچھ دن میں اصل میں انہیں بابا کے دوست کے گھر جانا تھا" اُس نے اُن کی اداسی دور کرتے اُنہیں گلے لگاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیں پھر مناہل سے ملیں اور انہیں بیٹھنے کا کہہ کر اندر چائے کا کہنے چلیں گئیں ۔

editor-pick
Dreame-Editor's pick

bc

The Biker's True Love: Lords Of Chaos

read
213.7K
bc

Shifted Fate

read
379.5K
bc

The Pack's Doctor

read
515.1K
bc

Chosen, just to be Rejected

read
101.1K
bc

Hell Hounds MC: Welcome to Serenity

read
91.3K
bc

MARDİN ÇİÇEĞİ [+21]

read
559.2K
bc

Claimed by my Brother’s Best Friends

read
529.1K

Scan code to download app

download_iosApp Store
google icon
Google Play
Facebook