نایاب صحبت از قلم : لائبہ نور
episode 1
رات کے وقت وہ دو لوگ میخانے میں موجود ہیں ایک اٹھ نھیں رہا اور دوسرا اسے اٹھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے آئیے دیکھتے ہیں اب کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔"یار ڈینیل اٹھ نہ" اس کے دوست نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا پر وہ جیسے ڈھیٹ بنا بیٹھا تھا اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ "اشعر رک جا کچھ دیر پھر چلتے ہیں نہ بھائیییییییی"اس نے نشے کی حالت میں اپنے دوست سے کہا۔ "نہیں بلکل نہیں ابھی اٹھ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا " اب اس کے دوست کو غصّہ آ رہا تھا کیونکہ وہ پچھلے دو گھنٹے سے یہی کہہ رہا تھا کہ ابھی چلتے ہیں ابھی چلتے ہیں پر وہ چل نہیں رہا تھا وہ اسکو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اسکا جگری یار تھا اسکے سکھ دکھ کا ساتھی۔"اس وقت تجھ سے زیادہ برا کوئی ہے بھی نہیں"ڈینیل نے منہ بناتے ہوئے کہا وہ اس کے اس انداز سے کہنے پر مسکرایا پر جلدی ہی مسکراہٹ چھپائی کیونکہ وہ اسکو گھور رہا تھا۔"چلیں مسٹر ڈینیل"اشعر نے اک ادا سے کہا پھر وہ دونوں ہنستے ہوئے چل دیئے۔
(شراب صرف ڈینیل نے پی تھی اشعر نے نہیں اور ڈینیل غیر مسلم ہے )
فجر کا وقت کچھ لوگ دنیا جہاں سے بے خبر اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی پیاری نیندوں کو بھگا کر اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مصروف ہیں اور ان کچھ لوگوں میں وہ لڑکی بھی اللّٰہ سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنے دکھ سنا رہی تھی-"اے اللہ تو میری فریادیں سن لے تُو تو اللّٰہ ہے نہ سب کی سنتا ہے میری بھی سن لے میرے دکھ کم کر دے اور کتنے دکھ لکھے ہیں تُو نے میرے اللّٰہ" وہ رو رہی تھی اللّٰہ کے سامنے ایک اللّٰہ ہی تو ہوتا ہے جس کو ہم سب بتا سکتے ہیں وہ ہم پر ہنستا نہیں ہے۔"یا اللّٰہ تیری اتنی بڑی دنیا ہے اِس دُنیا میں میرے لیئے کوئی ایک انسان بھی نہیں ہے کیا میں تھک گئی ہوں میرے اللّٰہ مجھے اپنے پاس بلا لیں یہ دنیا بُری ہے" اُس نے روتے ہوئے اپنی خوبصورت آنکھیں صاف کی اور اُٹھ کھڑی ہوئی تب ہی کسی نے اسکو آواز دی"عنایا بیٹا آؤ کھانا کھا لو"اس کی امّی نے اُسے پُکارا۔"جی امّی آ رہی ہوں"اُس نے آنسو صاف کیے اور نیچے چلی گئی۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہوئی اور اپنے بابا کے ساتھ یونیورسٹی چلی گئی۔
وہ دو لوگ (ڈینیل اور اشعر) ابھی تک سوئے ہوئے تھے کے انھیں کسی کی کال آئی۔اشعر نے بنا دیکھے کال اُٹھائی۔"ھیلو" اس نے بس اِتنا کہا اور اگلے ہی پل جھٹکے سے اُٹھ کھڑا ہوا " کمینے تو اب کال کر رہا ہے ہمیں کتنا لیٹ ہو گیا تیری وجہ سے۔اُس نے دکھ اور غصّہ کی ملی جلی کیفیت سے کہا۔"او بھائی!! میں نے لیٹ نہیں کروایا گھوڑوں۔ گدھے گھوڑے بیچ کر تم لوگ سو رہے تھے اور تو یہ بتا تو ڈینیل کے گھر کیا کر رہا ہے"اُس نے آئبرو اُچھکاتے پوچھا" ایک منٹ کہیں تم لوگ دربارہ تو۔۔"اُس نے بات آدھی چھوڑ دی ۔"مجھے کچھ بولنے دے گا بولے ہی جا رہا ہے خود "اشعر نے اُسے روک کر کہا۔"ہاں جی بول"اُس لڑکے نے کہا۔"یار علی کل وہ ضد کر رہا تھا بہت اِسی لیے میں چلا گیا اُسکے ساتھ ورنہ وہ اکیلے چلا جاتا اور پھر تجھے تو پتا ہے نہ کے پھر کیا ہوتا" اُس نے جیسے اُسے یاد کرایا۔"ہاں یار پتا ہے وہ وہیں سو جاتا ہے پھر اچھا اب تم لوگ آجائو جلدی یونی کے لیے لیٹ ہو رہا ہے" علی نے اُسے یاد کرایا۔"ہاں بس میں اِس گھوڑے کو اُٹھا کر آتا ہوں اور ہاں سن" اشعر نے علی سے کہا ۔"ہاں بول" اُس نے گاڑی کی چابی اُٹھاتے کہا۔"I "LOVE YOU MERI LAILAاُس نے جلدی سے کال کاٹ دی کہ کہیں اُسے صلواتیں نہ سن نی پڑ جائیں۔ اور علی وہاں پہلے خوش ہو رہا تھا لیکن پورا جملہ سنّے کے بعد اِسے اُس پر غصّہ آرہا تھا۔"یہ لڑکا کبھی نہیں سدھرے گا"اس نے سر نفی میں ہلاتے کہا اور گھر والوں کو خدا حافظ کہہ کر یونیورسٹی کے لیے نکلا۔
وہ یونیورسٹی پہنچ کر اپنی دوست کو ڈھونڈنے لگی اور اُس کو ایک جگہ وہ کسی سے لڑتی ہوئ ملی وہ جانتی تھی اسکا یہی کام ہے ہر کسی سے پنگے لینا اور ان کی صلاح بھی یہی کرواتی تھی۔ وہ فورن اُن تک پہنچی اور"سحرش کیا کر رہی ہو یار چلو بس اب"اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑتے کہا ۔"ارے عنو تم آ گئی روکو بس میں اِس کو سیدھا کروں ابھی" اس نے آستین اُپر کرتے کہا۔ وہ بیچارہ لڑکا ڈر کے بھاگ گیا۔" اے رُکو کہاں بھاگ رہے ہو"اُس نے تھوڑا آگے ہوتے کہا ۔" یار کیوں لڑتی رہتی ہو سب سے تھکتی نہیں ہو کیا" یار میں کہاں لڑتی ہوں آج تم نے بھی مجھے ایسا کہہ دیا اے اللّٰہ تُو دیکھ رہا ہے نہ آج میری جان کی ٹوٹی نے کیا کہا ہے دوست دوست نہ رہی" اُسنے نہ آئے آنسو صاف کرتے کہا۔ وہ جو گھر سے بُرے موڈ میں آئی تھی اسکی اس بات پر اور اس طرح کہنے پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔ ایک وہی تو تھی جو اسکو ہنسا دیتی تھی ورنہ تو اِسکی زندگی بے رنگ تھی۔"اب تم کہاں کھو گئی"اُس نے اپنا ہاتھ ہلاتے کہا ۔"کہیں نہیں چلو اب کلاس میں اور لڑنا بند کر دو کسی دن کوئی ٹکر کا مل گیا نہ تب کیا کرو گی"اُس نے سحرش سے کہا۔"عنو میری جان کوئی ٹکر کا ہی تو نہیں ملتا کہ لڑنے میں مزا تو آئے"اُس نے عنایا کو آنکھ مارتے کہا اور وہ اُس کے آنکھ مارنے پر سر جھکا کر ہنس دی ۔ اُس کے اس طرح کرنے پر وہ بھی ہنس دی۔"عنو میں لڑکا ہوتا تو تم سے ہی شادی کرتا" اُس نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔" بس کرو اب چلو میرے راجکمار"عنایا نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں کلاس میں چلی گئی یے جانے بغیر کہ کہ کسی نے اُسے گہری نظروں سے دیکھا تھا۔
سیاہ رنگ کی گاڑی یونیورسٹی کے گیٹ پر آ کر رُکی اُس میں سے دو حسین خوبرو نوجوان لڑکے باہر نکلے لڑکیاں تو انہیں دیکھ کر ہی رہ گئیں اور لڑکے ایک بار تو مڑ کر ضرور دیکھتے وہ واقعی خوبصورت اور خوش شکل تھے کچھ اُن سے جل رہے تھے تو کچھ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ کاش ہم بھی انکی طرح ہوتے تو لڑکیاں ہم پر بھی مرتی خیر اُن لڑکوں نے کوئ ردعمل نہیں دیا شاید وہ اس سب کے عادی ہو چکے تھے اور وہ دو لڑکے کوئی اور نہیں ڈینیل اور اشعر تھے۔ ابھی وہ لوگ اندر جاتے کہ پیچھے سے کسی نے ان کے سروں پر چپت لگائی اور وہ جانتے تھے کہ اتنی ہمت کس کی ہو سکتی ہے وہ کوئی اور نہیں ان کا تیسرا دوست علی تھا۔"کہاں رہ گئے تھے تم لوگ چلو اب اندر"اس نے دونوں کے کان کھینچتے کہا۔"ہماری ماں جی کان چھوڑ دے اور تو یہ باہر سے کہاں سے آ رہا ہے"ڈینیل نے کان چھڑواتے کہا۔"ہاں یار وہ بس ایک کام تھا مجھے"علی نے کہا تو اشعر اُسے گھورنے لگا کہ ایسا کون سا کام ہے جس کے لیے اتنی دیر۔علی نے اُس کی گھوری سمجھتے ہوئے کہا کہ" یار وہ راستے میں کسی کا accident ہو گیا تھا تو بس اُنکی مدد کرنے کھڑا ہو گیا تھا وہ تو اللّٰہ کا شکر ہے کہ وہ ٹھیک ہیں"اُس نے اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔ڈینیل جو اپنے فون میں مگن تھا لفظ اللّٰہ پر اُسکا دل اک پل کے لیے دھڑکا"اوہ اچھا اب چلیں کلاس میں ورنہ سر اچھی والی کریں گے ہماری"اشعر نے کہا اور وہ تینوں کلاس میں آ گئے۔
وہ دونوں کلاس میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب وہ تینوں کلاس میں داخل ہوئے اور سب کی توجہ اپنی جانب کھینچی ایک بار پھر وہ سںب اُنھیں دیکھنے میں مصروف ہو گئے سوائے اُن دو لڑکیوں کے وہ ابھی تک اپنی باتوں میں مصروف تھیں جیسے بس یہی ایک کام رہ گیا ہو ان کے لیے وہ باتیں کر ہی رہیں تھیں کہ کسی لڑکی نے دوسری لڑکی سے کہا " پہلے دو کم تھے جو اب یہ تیسرا بھی آ گیا ہے اپنے looks سے ہمیں مارنے یار کیا لگ رہے ہیں یہ تینوں"اُس لڑکی نے دیوانوں کی طرح کہا اِن کے کہنے پر اُن دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگی جیسے اُنہوں نے کوئی جوکر دیکھ لیا ہو اور واپس اپنی باتوں میں مصروف ہو گئیں کیونکہ ابھی تک کلاس میں سر نہیں آئے تھے۔وہ تینوں بھی بنا کسی پر غور کرے اپنی اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئے ۔
انکی پہلی کلاس اسلامیات کی تھی آج سر دیر سے آئے تھے ۔ وہ سب کو بتا رہے تھے کہ "اللّٰہ تعالیٰ وہ ہے جو ہماری گلطیوں پر بھی ہمیں معاف کر دیتا ہے ہمارا رب بہت رحیم ہے بندا معاف نہیں کرتا پر اللّٰہ سے ایک بار دل سے معافی مانگ کر دیکھو وہ معاف کر دیتا ہے ابھی سر بتا ہی ریے تھے کہ کوئی آندھی طوفان کی طرح کلاس میں داخل ہوا اور سب کی توجہ اپنی جانب کھینچی وہیں سر بس اُسے دیکھ کر ہی رہ گئے۔"جلدی آؤ اور بیٹھو اور تمہارا بھائی کہاں ہے"سر نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔"امم سر وہ"اُس نے جملہ آدھورہ چھوڑ دیا۔" تم بیٹھو اور کل سے جلدی آنا ورنہ کلاس سے باہر کھڑا کر دوں گا۔ کچھ لوگ ہنسنے لگے تو کچھ نے نظر انداز کیا مگر تین لوگ ایسے تھے جو اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ آ کر اُن دو لڑکیوں (عنایا اور سحرش)کے ساتھ بیٹھ گئی اور وہ دونوں اُسے گھورنے لگی۔"اتنی دیر کون کرتا ہے یار "سحرش نے اُسے گھوری سے نوازتے کہا۔ "یار سوری بس آنکھ دیر سے کھلی"اُس نے کان پکڑتے کہا۔ "زویا تمہارا ھمیشہ یہی ہوتا ہے یار اب تو میں تمہیں کال کروں گی روز چاہے کچھ بھی ہو" عنایا نے خفگی سے کہا۔"اوکے میری معصوم بیوٹی"زویا نے دل پر ہاتھ رکھتے اور سر جھکاتے کہا۔تو وہ تینوں ہنسنے لگی اور پڑھائی میں مصروف ہو گئیں۔۔دور بیٹھا ایک انسان اُسے ہی محبت بھری نگاہوں سے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک کسی نے اُسے آواز دی اور اُس کا یے تسلسل ٹوٹا اور وہ اپنی دنیا میں واپس آیا۔"کہاں کھو گیا کچھ پڑھ لے سر باہر نکال دیں گے تجھے" علی نے آہستہ آواز میں مگر لفظ چباتے ہوئے کہا۔"اہ ہاں۔۔۔ہاں کہیں نہیں پڑھ تو بی" اُس نے سر جھٹکتے کہا۔"ہممم"علی نے بس اِتنا کہنے میں ہی اکتفا کیا۔ اس سب میں ایک انسان تھا جو کلاس میں ہوتے ہوئے بھی کلاس میں نہ تھا وہ بس سر کے کہے لفظوں میں ہی کھویا ہوا تھا(اللّٰہ تعالیٰ رحیم ہے وہ معاف کر دیتا ہے اُس سے دل سے معافی مانگ کر تو دیکھو) لیکچر ختم ہوا بیل بجنے کی آواز پر وہ اُن لفظوں کے حسار سے باہر آیا۔ اس طرح پڑھتے انکے تین لیکچرز گزرے اور اب کوئی لیکچر نہیں تھا تو وہ سب کچھ کھانے باہر آ گئے۔ ہر بندہ اپنے اپ میں مصروف تھا کچھ پڑھاکو ابھی بھی پڑھ رہے تھے تو کچھ اپنا موبائل استعمال کرنے میں مصروف تھے وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے ایک کھانے میں مصروف تھا تو دوسرا موبائل استعمال کرنے میں اور تیسرا بیچاری شکل لے کر دونو کو دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ لوگ اس پر توجہ ہی نہیں دے رہے تھے جیسے یہ یہاں ہو ہی نہ۔"اشعر نظر نہ لگا تو بھی کھا لے اپنے پیسوں سے لے کر اور ہاں میرے لیئے بھی ایک برگر لے آ "علی اس سے کہتا واپس کھانے میں مصروف ہو گیا۔اشعر جو پہلے اسکی بات پر خوش ہو رہا تھا کہ اسکو بھی کھانے کو کچھ مل جائے گا لیکن اس کی اگلی بات پر اسکو گھورنے لگا۔"یار علی کیسا دوست ہے تو میں یہاں بھوکا بیٹھا ہوں اور تو ٹھوسے جا رہا ہے گدھے بنا صلاح کئے پر میں یہ کیسے بھول گیا کہ علی دا نمبر ون بھوکڑ صلاح کرے گا کسی کو huh?تُو تو ہم سے چھین کر کھاتا ہے بھوکڑ کہیں کا۔ اشعر نے غصے اور بھوک کی ملی جلی کیفیت سے کہا۔" تھینک یو اب جا اور لے کر آ بھوک لگ رہی ہے مجھے" اُس نے اپنی بےزتی قبول کی اور ہاتھ صاف کرنے لگا۔اشعر اُس کو گھور کر پیر پٹخ کر چلا گیا اپنے اور اس بھوکڑ یعنی علی کے لیے کچھ کھانے کو لانے۔ " یار ڈینیل کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اسکا نام اشعر نہیں اشو ہونا چاہیے جس طرح کے لڑکیوں والے اسکے نخرے ہیں نہ"علی نے دانت نکالتے کہا اور ڈینیل بھی اسکی بات پر سر ہلاتا ہنسنے لگا۔وہ کینٹین میں آیا تو اُسے وہی دِکھی جو ایک بار میں ہی اُس کے دل کو دھڑکا گئی تھی وہ ایک بار پھر اُس میں کھو گیا تھا۔ کے کسی نے اُسے آواز دی اور وہ خیالوں سے باہر آیا تو دیکھا وہ اسی سے مخاطب تھی۔"ھیلو مسٹر ایک سائڈ ہو کر کھڑے ہو تا کہ لوگوں کو راستہ ملے ابھی یے رائتہ تم پر گر جاتا تو ہٹو اب سامنے سے وہ بولتی جا رہی تھی پر وہ سن ہی کہاں رہا تھا وہ تو بہرہ ہو گیا تھا شاید ھیلو مسٹر تم سے بات کر رہی ہوں میں بہرے تو نہیں ہو تم"اس کو اب غصّہ آرہا تھا کیونکہ وہ کب سے اُسے سنا رہی تھی پر وہ ڈھیٹ مسکرا رہا تھا ابھی وہ اُسے اور سناتی کے اُس کی دوست نے اُسے آواز دی۔"زوئی جلدی کرو یار بھوک لگ رہی ہے"سحرش نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے کہا۔ وہ اُس پاگل لڑکے کو دیکھ کر چلی گئی جبکے وہ اُسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔"ہائےےےے!!!رائتہ تو آپ نے میرے دل کا بنا دیا ہے پر یہ زوئی نام کیسا ہے کیا پتا پیار سے بلاتے ہوں خیر جو بھی ہے اب تو مِس زوئی آپ میری ہی ہیں دل چرا لیا آپ نے پہلی بار میں ہی میرا"اُس نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور کینٹین سے کھانے کا سامان لے کر واپس اپنی جگہ پر آ یا۔"آبے اتنی دیر لگا دی اُس کینٹین والے کے ساتھ خود بھی بنانے لگ گیا تھا کیا"علی نے دو برگر اٹھاتے کہا۔ نہیں یار بس دل کی دنیا ہلانے والی آ گئی ہے اس پوری یونیورسٹی میں کوئی ایسی لڑکی نہیں جو اشعر خان کی نظروں کو بھائے مگر یہ لڑکی تو میرے دل کی دنیا ہی ہلا گئی یاررررر " اُس نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا جبکہ وہ دونوں حیرت سے اُس لڑکے کو دیکھ رہے تھے جسے لڑکیوں سے ایلرجی ہوتی تھی اب وہ ہی ایک انجان لڑکی کے لیے دیوانہ بنا بیٹھا ہے۔"اوہ بھائی کیا ہو گیا ہے تُجھے کون لڑکی کہاں دیکھی نام کیا ہے کہاں ملی"علی نے اپنا برگر کھانا چھوڑ کر اُس سے ایک ہی ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔"رِلیکس بھائی کلاس کی ہی ہے وہ لڑکی اور اصل نام نہیں پتا اُسکی دوست نے تو اُسے زوئی کہا تھا"وہ کندھے اُچکاتے کُرسی پر بیٹھا۔ ڈینیل نے اُسے دیکھتے پوچھا کہ"تو سیریس تو ہے نہ کہیں یہ بس اٹریکشن تو نہیں اگر تو نے بھابھی کو دوکھا دیا نہ تو تیری ٹانگیں ہم مل کر توڑیں گے کیوں علی!"اُس نے جیسے علی سے پوچھا کہ کیا وہ اِس نیک کام میں اسکے ساتھ ہے ۔"ہاں بھائی کیوں نہیں یہ دل توڑ کر تو دکھائے اسکی ہڈیاں ہم توڑیں گے" علی نے تو فوراً ہاں میں ہاں ملائی وہ دونوں اٹھ کر اپنے بازو کے آستین اُپر کرتے اُس پر جھکنے لگے تو فوراً اشعر نے کہا کہ ارے بھائیوں میں کیوں دل توڑوں گا اُس نازک پری کا وہ تو اب اس دل میں بس گئی ہے اور اپنا دل کوئی خود توڑتا ہے کیا وہ تو متاعِ جاں بن گئی ہے " اُسکے محبت سے کہنے پر وہ لوگ مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گئے تو اشعر نے سکون کا سانس لیا "ابھی میری بیوی بنی نہیں اور تم لوگوں نے ابھی سے اُسکی سائڈ لینا شروع کر دی ہے بھابھی کے سگے نہ ہو تو"اُس نے منہ بناتے ہوئے اپنا کھانا شروع کیا کہ بھوک تو اُسے بہت لگی تھی پر وہ اپنی متاعِ جاں کو دیکھ کر سب بھول گیا تھا۔"ہاں ہم بھابھی کی سائڈ پر ہی ہوں گے"علی نے مسکراتے ہوئے کہا اسکی بات پر وہ دونوں بھی مسکرا دیئے۔"یار صرف باتیں ہی کرو گے یا میری اُس سے کچھ بات بھی کروائو گے پہلے ہی میری پہلی ملاقات صحیح نہیں ہوئی ہے"اشعر نے برگر واپس رکھ کر دکھ سے کہا ۔ "ہاں ہاں میرے بھائی کرتے ہیں کچھ پر ابھی کچھ کھا لیں بڑی بھوک لگ رہی ہے "علی نے پہلے اُسے پھر برگر کو دیکھتے کہا جیسے وہ برگر سے کہنا چاہ رہا ہو کہ بیٹا تجھے تو میں ہی کھاؤں گا کہاں جائے گا بچ کر تُو۔ "ہاں بھائی علی صحیح کہہ رہا ہے"ڈینیل نے علی کی بات سے متفق ہوتے کہا اور اشعر سر ہاں میں ہلاتا برگر کھانے لگا وہ دونوں بھی اُس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کھانے لگے۔اس بات سے انجان کے ان میں سے کسی ایک کی زندگی بلکل بدلنے والی ہے اب وہ تو اللّٰہ کو اور اس کہانی کے لکھنے والی کو ہی پتا ہے کہ آ گے کیا ہو گا۔۔۔
( اُمید ہے آپ کو یہ ناول پسند آ رہا ہوگا اپنی رائے ضرور دیجئے گا شکریہ ♥️)